اس امر کی سالانہ یاد دہانی کہ ہم انسانی ترقی میں کس قدر پیچھے ہیں کا وقت ایک بار پھر آن پہنچا ہے۔ اگرچہ ہمیں اپنے آپ پر گزشتہ چند سالوں کی اقتصادی ترقی کے لئے جو گزشتہ سال 8.4 فیصد پر منتہی ہوئی تھی پر فخر ہے۔ تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم بہت سارے سست رفتار ترقی کے حامل ممالک سے بھی اس معاملے میں بہت پیچھے ہیں۔ پہلے ہمیں یہ امید تھی ہم سو ممالک کی ا س فہرست میں جلد ہی شامل ہوجائیں گے جو انسانی ترقی کی کسی نہ کسی سطح کو پاچکے ہیں لیکن سرکاری دعوئوں کے باوجود اس اہم شعبے میں ہماری یہ امیدبر نہیں آئی۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کے شعبے نے انسانی ترقی کی حوالے سے جو ایک فہرست تیار کی اس کے مطابق ۱۷۷ کی اس فہرست میں ہمارا نمبر ۱۳۵ واں ہے ہمارا ملک بنگلہ دیش کے مقابلے میں بہتر ہے جس کا نمبر ۱۲۹ واں ہے جبکہ بھارت سے پیچھے ہے جو اپنی پلاننگ کے تمام نقائص کے باوجود ۱۲۷ویں نمبر پر ہے ۔ عورتوں اور غریبوں کے ساتھ ہمارا رویہ ہماری کمتر حیثیت کی اصل وجہ ہے ۔ اقتصادی ترقی اس قدر کافی نہیں ہیں جو انسانی ترقی کی ضامن ہوسکیں۔ یہ رپورٹ UNDP کی ہے جس کی تشویش کومحرومین‘ غرباء اور غیر مراعات یافتہ لوگوں کے حوالے سے اہمیت حاصل ہے ۔مشرف اقوام عالم سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان پر عورتوں کے ساتھ نارواسلوک کا غلط الزام عائد نہ کیا جائے۔ لیکن اقوام متحدہ کی رپورٹ میں حقائق اور اعداد شمار خود بولتے ہیں۔ رپورٹ نے بنگلہ دیش کا حوالہ دیا ہے ایک اچھی مثال کے طور پر کہ بنگلہ دیش انسانی ترقی کے بعض پہلوئوں میں پاکستان سے پیچھے ہے لیکن بعض دوسرے شعبوں میں بہت آگے ہے بالخصوص صنفی مساوات کے معاملے میں اور بچوں کی شرح اموات کی کمی کے معاملے میں۔ پاکستان کے پرائمری اسکولوں میں صرف ۴۱ فیصد لڑکیوں کا داخلہ موجود ہے جبکہ ۲۰ لاکھ لڑکیوں کا داخلہ اسکولوں میں ہونا چاہئے۔ UNDP اپنی رپورٹ کی درجہ بندی طوالتِ عمر‘ شرح خواندگی‘ اسکولوں میں تعداد ِداخلہ نیز وسط آمدنی جیسے مسائل کو معیار بنا کر کرتی ہے ۔ اقوام متحدہ امیر و غریب‘ مرد وزن اور کچھ دوسرے طبقات کے مابین عدم مساوات کو ایمانداری سے نمایاں کرتے ہوئے عدم مساوات کا خاتمہ چاہتا ہے۔ یہ اس میدان میں بلند بانگ دعوئوں سے کچھ آگے ہوتا دیکھنے کا خواہشمند ہے۔ یہ واقعتاً عدم مساوات اور امتیازو تفریق کے خاتمے کا خواہشمند ہے کیونکہ کتنی ہی حکومتیں آئیں اور گئیں لیکن سوائے لفاظی کے اس سمت میں کوئی ٹھوس کام انجام نہیں دیا۔ کس طرح ایک کٹر قسم کا قبائلی یا جاگیردارانہ معاشرہ جو اس پرانی رویات اور ان کے دوام اور تسلسل پر یقین رکھتا مختلف قسم کی نابرابریوں کو ختم ہوتا دیکھ سکتا ہے اور کس طرح مذہبی جماعتیں خواہ وہ حکومت میں ہو یا اپوزیشن میں جو عورتوں کے لئے ثانوی مرتبہ کی قائل ہیں اور انہیں صرف ایک محدود دائرے ہی میں فعال دیکھنا چاہتی ہیں عورتوں کی آزادی کے مسئلے پر متفق ہوسکتی ہیں؟ کس طرح حکومت جو دفاع اور ایک عظیم بیورو کریسی پر خوب پیسے خرچ کرتی ہے غربت اور امیر و غریب کے مابین بڑھتے ہوئے فاصلے کو ختم کرسکتی ہے؟ پاکستان کی ایک تہائی آبادی خطِ غربت سے نیچے ہے یعنی ایک ڈالر سے بھی کم یومیہ آمدنی پر گزارا کرتی ہے اور اس کی چالیس فیصد آبادی کا گزارہ دو ڈالر یومیہ پر ہے۔۱۶ کروڑ کی آبادی والے ملک میں سوشل سیکٹر‘ تعلیم اور صحت عامہ کی ترقی پر بہت ہی کم خرچ کیا جاتا ہے۔ اس پر بھی حال یہ ہے کہ جو رقم ان شعبوں میں مختص کی جاتی ہے وہ اکثر پوری طرح خرچ نہیں کی جاتی۔ اب جبکہ ان مدات میں رقم کا تناسب بڑھ رہا ہے لیکن سوشل سیکٹر کی رقوم کا ایک بڑا حصہ بدعنوانی کی نذر ہوجاتا ہے۔ سندھ میں ان کی بہترین مثال وہ اسکول ہیں جو اساتذہ اور چھتوں کے بغیر ہیں اور وہ اسپتال ہیں جہاں دروازے بھی موجود نہیں اور نہ ہی تقرر کردہ ڈاکٹر کا پتہ ہوتا ہے۔ سندھ اپنے فرضی اساتذہ (Ghost Teachers) کے لئے بہت ہی مشہور ہے جو کہ ہزاروں کی تعداد میں ہیں۔ فرضی ڈاکٹروں کو بھی سرکاری کھاتوں سے باقائدگی کے ساتھ تنخواہیں دی جاتی ہیں۔ اس قسم کے نظام سے غریب غریب تر ہورہے ہیں اور امیر امیر تر اور یوں عدم مساوات کو دوام حاصل ہورہا ہے۔ اس لئے رپورٹ کا کہنا ہے کہ اقتصادی ترقی سے انسانی ترقی کے شعبے میں کوئی خاص فائدہ نہیں ہونے جارہا ہے۔ اس طرح کے نظام کے تحت جو بدعنوانی‘ نااہلی اور مضبوط قسم کی لال فیتا شاہی سے عبارت ہے کوئی نیک نیت حکومت بھی عوام کو اپنے کیے ہوئے وعدوں کے مطابق کچھ دے نہیں سکتی۔ اسے عوام کے تئیں کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے کے لئے اضافی اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ اس کی ایک واضح مثال جس کا بار بار اعادہ ہوتا رہا ہے عوام کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی میں سبھی حکومتوں کی متواتر ناکامی ہے۔ وزیراعظم شوکت عزیز کے مطابق پاکستان میں ۶۰فیصد پیٹ کی بیماریاں آلودہ پانی کے سبب ہے۔ چنانچہ انہوں نے اور صدر پرویز مشرف نے ۲۰۰۷ء تک تمام لوگوں تک صاف پانی اور بجلی پہچانے کا وعدہ کیا ہے۔ جبکہ وہ اپنی کہی ہوئی بات کا مطلب اچھی طرح جانتے ہیں پھر بھی اس میں بہت زیادہ شک ہے کہ وہ اس حوالے سے اپنے وعدے پورے کرسکیں گے۔
اخبارات کی رپورٹ سے یہ پہلے ہی ظاہر ہوچکا ہے کہ حکومت کے زیر غور ایسا منصوبہ ہے جس کے تحت صرف ۳۵فیصد لوگوں تک پینے کے صاف پانی کی فراہمی کو ۲۰۰۷ء تک یقینی بنایا جائے گا۔ اس طرح کے سیاسی اور سماجی نظام میں ایک غریب آدمی صرف خواہش اور دعا کرسکتاہے ایک بہتر زندگی کا مطالبہ تو ہرگز نہیں کرسکتا۔ حتیٰ کہ کراچی جیسے شہر میں بھی صرف وہ غریب ہی نہیں جو کچی آبادیوں میں رہتے ہیں بلکہ وہ امیر بھی جو ہائوسنگ سوسائٹیوں میں رہتے ہیں پائپ کے پانی تک رسائی سے محروم ہیں۔ وہ بہت اونچی قیمتوں پر پانی کے ٹینک خریدتے ہیں جس کے صاف اور خالص ہونے کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی۔ اب یہ رپورٹ ہے کہ سٹی انتظامیہ نے شہر میں صاف پانی کی فراہمی کے لئے ۴ء۲ ارب روپے مختص کئے ہیں۔ ممکن ہے یہ رقم خرچ کی جائے لیکن حکومت کو یہ امر یقینی بنانا ہے کہ عوام کو وعدے کے مطابق پانی پہنچ گیا ہے یا وہ پانی پہنچ رہا ہے۔ جس کا عوام ادا کرتے ہیں۔ سٹی انتظامیہ نے واٹر اور سیوریج کے حوالے سے ۲۰۔۲۰۰۵ء کی مدت میں ایک جامع منصوبہ یا ماسٹر پلان تیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ کلیدی منصوبہ (Master Plan) ماضی میں اپنی کلیدی غیر عملداری یا مجرمانہ بے توجہی کے لئے مشہور ہے کیونکہ سندھ حکومت ہمیشہ سے کمزور اور بہت جھگڑالو رہی ہے اور KMC ایک غیر موثر ادارہ رہا ہے۔ قومی اسمبلی عوامی امور سے متعلق کسی مسئلے میں کم ہی دلچسپی لیتی ہے اس لئے اکثر تو اس کا کورم ہی نہیں پورا ہوتا ہے۔ اسمبلی میں عوام کے منتخب ارکان کے منافع بخش کاروبار کہیں دوسری جگہ ہوتے ہیں اور انہیں اپنی نشست کھونے کا کوئی خوف نہیں ہوتا کیونکہ وہ اپنی جاگیرداری والے علاقوںکے مضبوط ووٹ نیز قبائلی قلعوںسے حاصل ہونے والے ووٹوں کی بنیا دپر پھر اسمبلی میں لوٹ کر آجاتے ہیں۔ عوام کو ان سہولیات سے محرومی جن کا وعدہ مختلف حکومتیں ان سے تواتر کے ساتھ کرتی رہی ہیں کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ وزراء اور حکومتی افسران کو یہ سہولتیں اور مراعات وافر مقدار میں میسر ہیں۔ ان حضرات کو اپنے وسیع اور کشادہ گھروں کے لئے وافر مقدار میں پانی مل رہا ہے۔ اگر بجلی چلی جاتی ہے تو ان کے پاس طاقتور جنریٹر موجود ہیں۔ سرکاری خرچ پر خانسامہ اور خدمتگار دستیاب ہیں جو دن رات ان کی خدمت پر مامور ہیں‘ اسی طرح ان کے اور ان کی فیملی کے لئے متعدد کاریں موجود ہیں۔ ان کے بچوں کو اچھے اسکولوں میں داخلہ مل جاتا ہے۔ ان کی یہ تمام سہولیات غریب عوام کے حقوق کی مستقل پامالی سے عبارت ہے۔ اس لئے انہیں ان آلام و مصائب کا کوئی تجربہ ہی نہیں جن سے غریب عوام دوچار ہوتے ہیں اور وہ ان سہولیات سے محروم زندگی کی تلخ کامیوں سے یکسر نابلد ہیں۔ اگر ان کی یہ سہولیات ختم کردی جائیں اور ان کے بدلے اگر انہیں ایک معقول نقد رقم معاوضہ کے طور پر ادا کی جائے تو انہیں حقیقت کا ادراک ہوسکے گا۔ اگر یہ سب کچھ امریکی حکومت کرسکتی ہے تو میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم یہ سب کچھ کیوں نہیں کرسکتے ہیں؟ اگر ہم یہ کرلیں تو ہمیں جتنی بجلی اور پانی کی ضرورت ہے وہ ہمیں دستیاب ہوگا۔ مزید برآں ہمیں ایک کہیں بہتر ٹرانسپورٹر سروس میسر ہوگی۔ نیز ہمیں ایک ایسی حکومت بھی میسر ہوگی جو کفایت شعار ہوگی اور وسائل کو ضائع ہونے سے محفوظ رکھے گی۔ اسمبلی کے ارکان کو چیزیں مفت یا رعایتی قیمتوں پر دستیاب ہوتی ہیں اگرچہ وہ اپنے بنیادی فرائض بھی انجام نہیں دیتے ہیں۔ مثلاً اسمبلی کے اجلاس یا مختلف کمیٹیوں کی میٹنگز میں عدم شرکت وغیرہ۔ وہ ہر وقت مزید تنخواہوں یا مراعات کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں۔ وہ اپنے دولت مند خاندان کے افراد کے معیار زندگی کو مزید اونچا کرنے کی سوچتے رہتے ہیں۔ وہ اپنے معیار زندگی کو ہر روزفزوں تر دیکھنا چاہتے ہیں حالانکہ انہیں عوام کی ضروریات کا خیال کرنا چاہئے تھا جن کے وہ نمائندے ہیں اور جن کے بول بوتے پر وہ ٹی وی چینلز میں نمایاں ہونے اور بولنے کے قابل ہوئے ہیں۔ اگر سوشل سیکٹر اور ہیومن ڈیولپمنٹ پر اور بھی مزید خرچ کیا جائے تب بھی وفاق ‘ صوبوں اور شہری اداروں میں سرکاری ملازمین کی تعداد چالیس لاکھ سے کم ہونا چاہئے اور نہ صرف یہ کہ ان کی تنخواہیں وقتاً فوقتاً بڑھنی چاہیں بلکہ انہیں پنشن کے طور پر بھی اچھی خاصی رقوم فراہم کی جانی چاہئیں۔ ملٹری پنشن اب مجموعی عسکری بجٹ کا حصہ نہیں رہا بلکہ اب یہ عام پنشن بجٹ کا حصہ ہوگیا ہے۔ گزشتہ ہفتے سندھ ٹریزی ڈیپارٹمنٹ کو پنشن پانے والوں کی طویل لمبی لائن کا سامنا کرنے میں بڑی دشواری پیش آئی اس لئے کہ لائن میں لگنے والے لوگ لمبے انتظار کے سبب جھنجھلا اٹھے تھے۔ آئندہ ہمیں اس سے بھی زیادہ طویل لائنیں دیکھنے کو ملیں گی۔ اس لئے کہ پاکستان میں طوالتِ عمر میں اضافہ ہورہا ہے۔ پنشن پانے والے جتنا زیادہ زندہ رہیں گے پنشن بل بھی اتنا ہی بھاری ہوتا جائے گا۔ الیکٹرانک گورنمنٹ اور الیکٹرانک بینکنگ کی بہت باتیں ہورہی ہیں یعنی کاغذات سے پاک دفتر کی بات ہورہی ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ایک کمپیوٹر سے بہت سارے آدمیوں کا کام لیا جاسکتا ہے۔ان تمام باتوں کا انعکاس ایک چھوٹی حکومت میں نہیں ہونا چاہئے؟ اس کے برعکس اگر ہم چپراسی کی ایک معمولی تعداد رکھتے ہیں تو ہم چوکیدار بہت بڑی تعداد میں رکھتے ہیں حتی کہ پولیس کو بھی ایک بڑی تعدا دمیں محافظین کی ضرورت ہے۔ نجکاری کے نتیجے میں بھی سرکاری ملازمین کی تعداد میں کمی ہونی چاہئے زیادہ آدمی کا مطلب زیادہ لال فیتاشاہی ہے اور زیادہ کمیٹیوں کا مطلب ہے کہ فیصلہ سازی میں مزید تاخیر ہو۔ ساری باتیں بدعنوانی کو جنم دیتی ہیں اگر آج ہم انسانی ترقی کے شعبے میں دنیا میں بہت نیچے مقام پر ہیں تو اس سے پہلے تو ایک دوسری عالمی فہرست میں ۳ تا ۵ نمبر پر رہے ہیں یہ اور یہ واضح طور سے بدعنوانی کی عالمی فہرست تھی۔ آج بعض بدعنوان افریقی ممالک کی وجہ سے ہماری بدنامی ماند پڑگئی ہے لیکن یہ کافی نہیں ہے۔ اب کچھ دنوں سے یہ دلیل دی جارہی کہ اوپر کی سطح پر بدعنوانی نہیں ہے۔لیکن عوام کو سابقہ نچلی سطح کے سرکاری ملازمین یعنی پٹواری اور منشی سے سابقہ پیش آتا ہے چانچہ کرپشن اگر نچلی سطح سے ختم نہیں ہوتا ہے تو عوام کی مشکلات میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔ وزیراعظم عوام کی نچلی سطح کو طاقتور دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس وقت ہم کینیڈا کی سے ۰۵۔۲۰۰۴ء کی مدت کاسوشل آڈٹ کرانے جارہے ہیں۔ دیکھئے اس آڈٹ کا نتیجہ کیا نکلتا ہے فوری طور سے ہمیں عوام کی توانائی کی خاطر ان کے بنیادی ضروریات کا خیال کرنا چاہئے۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’ڈان‘‘ کراچی۔ ۱۵ ستمبر ۲۰۰۵ء)
Leave a Reply