ہندوستان کی جمہوری تاریخ میں ۶ دسمبر ۱۹۹۲ء کو سیاہ باب کی حیثیت سے یاد رکھا جائے گا۔ اسی دن زائداز تین سوسال قدیم بابری مسجد کو شہید کردیا گیا اور ہر سال ۶ دسمبر کواس کی شہادت کو یا د کیا جاتا ہے۔ ہندو فرقہ پرست تنظیموں نے اس مسئلہ کو خوب اچھالا اور مذہبی جذبات سے کھیلنے کی کوشش کی اور بی جے پی نے اس کا بھرپور ساتھ دیا۔ آخر کار ایڈوانی کی قیادت میں ہی رتھ یاترا شروع کی گئی تھی جو ملک کے کونے کونے سے ہوتے ہوئے ایودھیا پہنچی۔ ہندوستان بھر میں عوام کے جذبات کو بھڑکانے کے بعد جب ایودھیا میں پدیاتر اختتام کو پہنچی اس وقت مرکزی سیکورٹی فورسز کی موجودگی اور اس وقت کی حکومت کی جانب سے ساری قوم کے روبرو مسجد کے تحفظ کا یقین دیئے جانے کے باوجود اسے شہید کردیا گیا۔ یہ ایک منصوبہ بند کارروائی معلوم ہورہی تھی اور اُس وقت مرکز میں پی وی نرسہمارائو کی زیر قیادت کانگریس حکومت تھی۔ اترپردیش میں بی جے پی چیف منسٹر کی حیثیت سے کلیان سنگھ اقتدار پر تھے۔ لیکن سب سے بڑا نقصان جو کانگریس کو پہنچا وہ یہ تھا کہ مسلمان اس جماعت سے دور ہوگئے۔ بی جے پی نے دیگر علاقائی جماعتوں کے ساتھ اتحاد کرکے مرکز میں حکومت تشکیل دی لیکن بابری مسجد کے مقام پر مندر کی تعمیر کا خواب وہ پورا نہ کرسکی۔ سنگھ پریوار اسی بناء پر بی جے پی سے ناراض تھا اور ایڈوانی انہیں یہ سمجھانے کی لاکھ کوشش کرتے رہے کہ اقتدار پر ہونے کی وجہ حکومت کی بعض مجبوریاں ہوتی ہیں‘ لیکن سنگھ پریوار کے لیے یہ منطق انوکھی تھی اور ایڈوانی کے رویہ میں تبدیلی نے انہیں مایوس کیا۔ حالانکہ وہ یہ کہتے رہے کہ مرکز میں تنہا بی جے پی حکومت ہو تو یہ کام کر دکھانا ممکن ہوگا۔ اُس وقت کے بی جے پی صدر وینکیانائیڈو بھی یہ کہتے جارہے تھے کہ آئندہ حکومت بی جے پی اپنے بل پر تشکیل دے گی اور ایودھیا میں رام مندر بن کر رہے گا۔ قائد بی جے پی کا یہ خواب پورا نہ ہوا اور ہندو تنظیمیں بھی غیر مطمئن رہیں۔ کیونکہ بی جے پی مرکز میں اقتدار سے بے دخل ہوگئی۔ وہی ایڈوانی جنہیں ہندو فرقہ پرست تنظیمیں اپنی بھرپور تائید کررہی تھیں اب انہیں پارٹی سے نکال باہر کرنے کے درپے ہیں۔ ایڈوانی نے پاکستان کا دورہ کرتے ہوئے بانی محمد علی جناح کو سیکولر کردار کا حامل شخص قرار دیا تھا اور ہندو تنظیموں کو ایڈوانی کا بدلا رویہ ایک لمحہ نہ بھایا اور ان کی وضاحتوں کے باوجود پارٹی سے مستعفی ہونے کا دبائو بڑھنے لگا اور یہی ہندو تنظیمیںا ن پر کھل کر تنقیدیں کرنے لگیں۔ چنانچہ ایڈوانی جاری ماہ رواں کے دوران اپنے عہدہ سے مستعفی ہوجائیں گے اور سنگھ پریوار اپنی پسند کے لیڈر کو بی جے پی صدر منتخب کرے گا۔ تاہم اس مسئلہ پر ابھی سے اختلافات ابھر رہے ہیں اور بی جے پی کو یہ کافی مہنگے ثابت ہوں گے۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد اس وقت کے وزیراعظم پی وی نرسمہا رائو نے بڑی مشکل سے اپنی میعاد تو جوں توں پوری کرلی لیکن مسلمانوں کے ساتھ ساتھ سیکولر کردار کے حامل ہر شخص کو پارٹی سے دو رکردیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کانگریس پارٹی عوام سے دور ہوگئی اور اسے قریب کرنے کی کوئی بھی کوشش کامیاب ہوتی نظر نہ آئی۔ ایسے میں پی وی نرسمہا رائو کو پارٹی عہدہ سے ہٹادیا گیا اور رفتہ رفتہ پارٹی میں ان کی حیثیت ’’انگشت ششم‘‘ کی بن کر رہ گئی۔ اور اسی تنہائی کے ماحول مین ان کا انتقال بھی ہوگیا ۔ کسی اہم سیاسی لیڈڑ نے آخری رسومات میں شرکت کو ضروری نہیں سمجھا۔ ان کی عبرتناک موت واقع ہوئی۔ کانگریس نے اپنی غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے بابری مسجد کی شہادت پر قوم سے معذرت خواہی کی ہے۔ جس کے بعد عوام نے پھر ایک بار اسے اقتدار حوالے کیا اور اس نے اپنے سیکولر رویے کو برقرار رکھنے کا وعدہ کیا ہے ورنہ اس کا حشر بھی بالکل بی جے پی کی طرح ہوگیا تھا۔ داخلی اختلافات شدید ہوگئے اور ہر طرف پارٹی کا اثر بالکل کم ہوگیا۔ لیکن کانگریس کو پھر ایک بار عوام سے قریب کرنے کا سہرا موجودہ صدر سونیا گاندھی کے سرجاتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت ملک کی سیکولر اقدار کو برقرار رکھتے ہو ئے ماضی کے تجربات کی روشنی میں کوئی ایسا قدم نہ اٹھائے جو نئے مسائل کو جنم دینے کا موجب ہو۔ اس کے برعکس بابری مسجد تنازعہ کی یکسوئی پر توجہ مرکوز کرنے چاہیے۔ مسلمانوں نے ابتداء سے یہی موقف برقرار رکھا ہے۔ ایک مقام پر جب مسجد تعمیر ہوجائے وہ تاقیامت مسجد ہی رہے گی اس کے باوجود انہوں نے ملک کی عدلیہ پر بھرپور اعتماد کرتے ہوئے اس کا فیصلہ ماننے کا بھی اعلان کیا لیکن ہندو فرقہ پرستوں کو منصفانہ فیصلے کا ڈر ہے اور وہ اسے ایک مذہبی معاملہ قرار دیتے ہوئے مسلمانوں سے بابری مسجد سے دستبرداری کا مطالبہ کررہے ہیں۔ ایسا ناممکن ہے۔ ۶ دسمبر ۲۰۰۵ء کو بابری مسجد کی تیرہویں برسی ہمیں اپنے موقف کی یاددہانی کراتی ہے اور یہ احساس بھی دلاتی ہے کہ اللہ کے گھروں کو آباد رکھنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ آج بھی کئی مساجد غیر آباد ہیں اور ضرورت اس بات کی ہے کہ ان پر توجہ دی جائے اور انہیں آباد کیا جائے۔بابری مسجد کی اسی مقام پر دوبارہ تعمیر کے لیے جمہوری انداز میں احتجاج اور مذاکرات کی راہ اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ عدلیہ میں اپنے موقف کو ٹھوس و مدلل انداز میں پیش کیا جائے۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’المصنف‘‘۔ حیدرآباد دکن)
Leave a Reply