امریکا سے یہ جائزہ پہلے ہی آچکا ہے کہ وہاں آباد مسلمانوں میں اپنی اسلامی شناخت کے لئے ایک نئی بیداری آئی ہے۔ مختلف نسلی‘ لسانی اور علاقائی گروپ ایک دوسرے کے قریب آرہے ہیں۔ نوجوان نسل خصوصاً کالج اور یونیورسٹی کے طلباء کے اندر یہ چیز نمایاں طو رپر دیکھی جارہی ہے (خبر و نظر۱۰ ستمبر) اب ایسا ہی بلکہ اس سے آگے کا ایک جائزہ روس کے مسلم علاقے تاتارستان سے آیا ہے۔ بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹیڈ پریس (AP)کے نامہ نگار مائیک ایکل نے تارتارستان کے مرکزی شہر کازان سے لکھا ہے کہ تاتارستان کے مسلمانوں میں اپنی اسلامی شناخت کی طرف لوٹنے کا رجحان نہایت نمایاں اور واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ خواتین میں سر ڈھکنے (اسکارف کے استعمال ) کا رواج عام ہے جسے وہ اپنی مسلم شناخت کے اظہار کے لئے ضروری سمجھتی ہیں۔ بہت سی نو عمر خواتین سر سے پیر تک ساتر لباس میں ملبوس دکھائی دیتی ہیں۔ جمعہ کی نماز کے لئے مسجدوں میں حاضری ان کی گنجائش سے زیادہ ہونے لگی ہے۔ حلال گوشت کی مانگ پہلے سے بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔
یہ تبلیغ یا خارجی دبائو نہیں ہے!
تاتارستان کا مسلم علاقہ ماسکو کے مشرق میں تقریباً چار سو میل دور سے شروع ہوتا ہے۔ سوویت یونین کے دور میں مسلم جمہوریتو ں کی طرح اس علاقے کے کوائف بھی بہت کم سامنے آتے تھے ۔ سوویت یونین کے خاتمہ کے فوراً بعد امریکی سی آئی اے اور روسی کے جی بی نے مل کر مسلم جمہوریتوں کی طرح تاتارستان پر بھی اسلام بیزار حکام کو یا تو برقرار رکھا تھا یا نئے حکام مسلط کردیئے تھے تاکہ ان علاقوں میں اسلامی بیداری نہ آنے پائے۔ لیکن چھن چھن کر آنے والی اطلاعات بتاتی رہیں کہ سوویت یونین کے مسلم علاقوں کے عوام بھی آزادی کی سانس لینا چاہتے تھے۔ مائیک ایکل نے اپنی رپورٹ میں نوجوان نسل اور طلباء و طالبات کے ذیل میں اسلامی تعلیمات کا خاص طور سے ذکرکیا ہے ۔اور لکھا ہے کہ سوویت یونین کے خاتمہ کے بعد گزشتہ چودہ برسوں میں تاتارستان کے علاقہ میں کم از کم تین درجن اسلامی اسکول قائم ہوئے ہیں جن میں سے کئی ایک روس کی اسلامی یونیورسٹی سے ملحق ہیں۔ ایکل نے یہ بھی پتہ لگالیا کہ تاتاری مسلمانوں کی یہ بیداری کسی خارجی دبائو یا تبلیغ کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ یہ ان میں اپنے آپ پیدا ہورہی ہے۔
وار الٹا پڑرہا ہے!
مائک ایکل نے اپنے ۲۶ اگست کے ڈسپیچ (بحوالہ انٹرنیٹ) میں لکھا ہے کہ تاتارستان میں چند سال پہلے تک یہ بات نہیں تھی۔ یہ صورت گزشتہ تین چار برسوں کے دوران پید اہوئی ہے اور ایک پہلو سے رپورٹ کی یہی بات سب سے اہم ہے۔ گزشتہ تین چار سال یعنی وہ زمانہ جب نام نہاد ۱۱ ستمبر کے ’’واقعہ‘‘ کو بہانہ بنا کر امریکا اور اس کے پرانے اور نئے وفاداروں نے اسلام اور امت مسلمہ کے خلاف پروپیگنڈا مہم انتہا کو پہنچادی۔ پروپیگنڈے کا ایک مقصد یہ بھی تھاکہ پوری دنیا کے مسلمان پست حوصلہ ہوجائیں ‘ جو بے عمل ہیں‘ بے عمل ہی رہیں اور دوسرے طبقات اسلام کے دامنِ رحمت میں آنے سے گریز کریں۔ جو مسلم مملکتیں محض نام کی مسلم ہیں وہ برائے نام بھی باقی نہ رہیں اور امریکا و یورپ کے مسلمان تو خوف اور احساس کمتری میں اس قدر مبتلا ہوجائیں کہ منہ (شناخت) چھپاتے پھریں۔ لیکن یہ وار واضح طور پر الٹا رہا ہے۔ خود امریکی مسلمانوں کے اندر شناخت کے تحفظ کا احساس پیدا ہوا ہے اور نام کی مسلم مملکتیں کام کی بننے کی کوشش کررہی ہیں۔ تاتارستان اس کی ایک جھلک ہے اور ایسی مزید جھلکیوں کی توقع بے جا نہیں ہوگی۔
(بشکریہ: سہ روزہ ’’دعوت‘‘۔ نئی دہلی۔ شمارہ۔ ۱۹ ستمبر ۲۰۰۵)
Leave a Reply