حاجی پیر اور ٹٹھوال‘ دو ایسی چوکیاں تھیں جن پر ۱۹۶۵ء کی جنگ میں ہندوستان نے قبضہ کر لیا تھا۔ وزیراعظم لال بہادر شاستری نے پہلے ہی سے صحافیوں کو اعتماد میں لیتے ہوئے یہ کہا تھا کہ ان کی حکومت ان سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہے۔ یہ بات انہوں نے تاشقند روانہ ہونے سے قبل کہی تھی جہاں وہ پاکستان کے صدر جنرل ایوب خان سے گفت و شنید کے لیے جارہے تھے۔ شاستری جی نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ تاشقند جانے کے لیے بھی راضی نہیں تھے لیکن جب سوویت یونین کے وزیراعظم کو سیگن نے ان سے دوسری بار خواہش کی وہ انکار نہیں کر سکے کیونکہ روسی کشمیر کے تعلق سے ہمیشہ ہماری تائید کرتے رہے ہیں۔
شاستری جی یہ چاہتے تھے کہ صحافیوں کا ایک بڑا قافلہ ان کے ساتھ ہو کیونکہ وہ مکمل تشہیر چاہتے تھے۔ تہران سے ہو کر دو طیارے تاشقند کے لیے پرواز کر رہے تھے کیونکہ جنگ کے بعد پاکستان نے ہندوستان کے طیاروں کی پرواز اپنے علاقوں کے اوپر بند کر دی تھی۔ اس طویل سفر میں تہران کی جگمگاتی روشنیوں اور سیخ کباب کی بنا پر رات میں بڑا پرلطف وقت گزارا۔ ہندوستان اور پاکستان کے صحافیوں کو ایک ہی ہوٹل‘ ہوٹل تاشقند میں ٹھہرایا گیا تھا لیکن دونوں الگ الگ منزلوں پر تھے۔
پہلے ہی دن (یعنی ۳ جنوری) کو ہندوستان کے عہدیداروں سے ہمیں معلوم ہوا کہ سوویت یونین‘ ہندوستان کے حاجی پیر اور ٹٹھوال پر قبضہ برقرار رکھنے کے خلاف ہے لیکن اس کا یہ بھی خیال ہے کہ پاکستان کو اپنے مسلح عملے بشمول مداخلت کاروں کو ہندوستان کے علاقہ سے ہٹا لینا چاہیے۔ سوویت یونین حکومت کا یہ احساس بھی تھا کہ مداخلت کاروں سے نمٹنا حکومتِ ہند کا کام ہے نہ کہ پاکستان کی حکومت کا۔
شروع ہی سے یہ بات واضح تھی کہ پاکستان کشمیر کے مسئلہ کا پھر سے احیا کرنا چاہتا ہے جبکہ ہندوستان جہاں تک ہو سکے اس سے اجتناب کرنا چاہتا تھا۔ اپنی افتتاحی تقریر میں جنرل ایوب نے کہا کہ وہ ہندوستان سے عدم جنگ معاہدہ کرنے کے لیے تیار ہیں بشرطیکہ بنیادی مسئلہ یعنی کشمیر کو حل کر لیا جائے۔ شاستری جی کا یہ خیال تھا کہ عدم جنگ کے معاہدے سے مجموعی طور پر ہندوستان اور پاکستان کے روابط میں بہتری آئے گی۔
کانفرنس سے قبل ایوب خان نے کوسیگن سے کہہ دیا کہ وہ اس وقت تک عدم جنگ کے معاہدے پر دستخط نہیں کریں گے جب تک کہ شاستری کشمیر کے تعلق سے کوئی رعایت نہ دیں۔ ایوب خان کے معتمد اطلاعات الطاف گوہر نے یہ بات صحافتی کانفرنس میں بھی کہی تھی۔ کشمیر کے حل کے بغیر دونوں ممالک کے مابین ایک معقول نظام تشکیل پانا ممکن نہیں ہے۔
پاکستان کے وزیرِ خارجہ ذوالفقار علی بھٹو‘ پہلے ہی دن سے بڑے خراب موڈ میں تھے۔ شاستری جی کی افتتاحی تقریر کا سبھی پاکستانی ڈیلی گیٹس نے زور دار تالیاں بجا کر خیرمقدم کیا تھا لیکن بھٹو اپنے ہاتھ باندھے ہوئے بے تعلق سے بیٹھے رہے۔ بعد میں تقریروں کے بعد ایوب خان شاستری کے کہنے پر ایک علیحدہ کمرے میں بات چیت کے لیے جانے لگے تو بھٹو نے بھی ان کے ساتھ آنے کی کوشش کی لیکن ایوب خان نے انہیں اشارے سے منع کر دیا۔ بھٹو بڑے ہی غصے کے عالم میں رُک گئے۔
وہ ملاقات مختصر تھی اور ایوب خان نے گفت و شنید کے لیے ایک رسمی ایجنڈا پیش کیا۔ شاستری جی کو پتا تھا کہ اس کا کیا مطلب ہے۔ کشمیر کے بارے میں گفتگو وہ اس سے بچنا چاہتے تھے۔ تاہم کوسیگن نے انہیں یہ کہہ کر راضی کروالیا کہ صدر ایوب خان کو بھی آخر پاکستان کی رائے عامہ کے آگے جوابدہ ہونا ہے۔
شاستری جی راضی ہو گئے اور جواب میں ایوب خان بھی عدم جنگ کے معاہدے کے بارے میں گفت و شنید کے لیے تیار ہو گئے۔ معلوم ہوتا تھا کہ کوسیگن نے ان پر کچھ دبائو ڈالا تھا۔ میں نے جب یہ بات اپنی نیوز ایجنسی کے ذریعہ عوام کو بتائی تو شاستری جی مجھ سے ناراض ہو گئے۔
شاستری جی نے ایوب خان سے کہا کہ ہندوستان اسی صورت میں حاجی پیر اور ٹٹھوال سے قبضہ برخاست کرے گا جب پاکستان چھمب سے تخلیہ کر دے۔ ایوب خان کا جواب یہ تھا کہ ان کی فوجیں اسی وقت چھمب کا علاقہ جموں اور کشمیر کا ایک حصہ ہے اسی طرح حاجی پیر اور ٹٹھوال بھی اسی کے قصبے ہیں۔ اسی لیے ان سب کا معاملہ ایک ساتھ ہی نمٹانا چاہیے اور دوسرے علاقوں کا علیحدہ طور پر۔
ایوب خان اپنی بات پر ہی اڑ گئے کہ دونوں فریقین کو جنگ کے دوران قبضہ کیے تمام علاقوں سے تخلیہ کر دینا چاہیے۔ یہ ساری بات چیت ہندوستان میں یعنی ملی جلی ہندی اور اردو میں جاری تھی۔ حالانکہ ابتدا میں پاکستانیوں نے اصرار کیا تھا کہ بات چیت اردو ہی میں ہونی چاہیے۔
اب ایک رکاوٹ سی آگئی تھی۔ شاستری جی نے ایوب خان سے کہا اور کوسیگن سے بھی کہ اگر پاکستان عدم جنگ کے معاہدے پر دستخط کرتا ہے تبھی وہ ہندوستان کے قبضہ کیے ہوئے علاقوں سے دستبردار ہوں گے۔ ایوب خان نے جواب دیا کہ وہ اس تجویز پر غور و خوض کریں گے۔
اسی اثنا میں وزرا کی سطح پر ایجنڈا کی قطعیت کے لیے جو گفت و شنید ہندوستان کے وزیرِ خارجہ سورن سنگھ اور پاکستان کے وزیرِ خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کے مابین جاری تھی وہ کشمیر کے بارے میں تکرار کی بنا پر تعطل کا شکار ہو گئی تھی۔ بھٹو نے اصرار کیا تھا کہ جب تک کشمیر کے مسئلہ کو حل نہیں کیا جاتا ہے دونوں ممالک کے مابین امن …… سورن سنگھ دوسرے مسئلوں کو بھی زیرِ بحث لانے کے لیے راضی تھے۔ لیکن بھٹو کا یہ کہنا تھا کہ دوسرے سارے مسائل ’’ذیلی‘‘ ہیں۔ ہندوستان کا تاثر یہ تھا کہ اگر دیگر مسائل طے پاجائیں تو ایک خیرسگالی کی فضا پیدا ہو گی جس میں کشمیر کے مسئلہ کو حل کرنا بھی آسان ہو جائے گا۔
ماضی میں پنڈت نہرو نے صدر کینیڈی کو کشمیر کے مسئلہ کے بارے میں یہ تحریر کیا تھا کہ کشمیر ہندوستان پاکستان کے اختلافات کی ایک محض علامت بنا ہوا ہے۔ اگر کشمیر کو ایک طشت میں رکھ کر بھی پاکستان کی نذر کیا جائے تب بھی دونوں ملکوں کے روابط بہتر نہیں ہو سکیں گے کیونکہ پاکستان کے وجود کا انحصار ہی ’مخالف ہندوستان جذبات‘ پر ہے۔ دوسرے مسائل کے تحت بھٹو نے آسام اور مغربی بنگال سے مسلمانوں کے نکالے جانے کا تذکرہ کیا۔ ۱۹۵۰ء کی دہائی میں ہندوستان کو پتا چلا کہ مشرقی پاکستان سے معاشی مشکلوں کے تحت مسلمان‘ آسام (دو لاکھ پچاس ہزار) اور مغربی بنگال (ایک لاکھ سولہ ہزار) ریاستوں میں چوری سے داخل ہو رہے ہیں۔ حکومتِ ہند نے ہر انفرادی معاملے کی جانچ پڑتال کی اور غیرشہریوں کو واپس بھیج دیا تھا۔ ۱۹۶۱ء اور ۱۹۶۷ء کے درمیان ۱۷۹۲۵۸ مداخلت کاروں کو آسام اور مغربی بنگال سے ۱۶۳۸۱ افراد کو روانہ کر دیا گیا تھا۔ کئی ہندوستانی شہری بھی لپیٹ میں آگئے تھے اور آخرکار حکومتِ ہند نے ایسے کیسوں سے نمٹنے کے لیے خصوصی عدالتیں قائم کی تھیں تاکہ اپیلوں کی سماعت کی جاسکے۔ سورن سنگھ نے اس موضوع پر وزراے داخلہ کے مباحثہ پر رضامندی کا فوراً اظہار کر دیا۔
ایوب خان اپنے ساتھ دو صفحوں پر مشتمل ایک مسودہ لے آئے تھے جس میں پاکستان اور ہندوستان کی افواج کے تخلیے کا اور مابعد جنگ اقدامات کا ہی تذکرہ تھا۔ عدم جنگ کا کوئی ذکر نہیں تھا۔
ملاقات کے دوران شاستری جی نے پھر سے عدم جنگ کے معاہدے کا تذکرہ کیا۔ ایوب خان نے اسی ٹائپ شدہ مسودے کو لے کر اپنے ہاتھ سے لکھا کہ پاکستان‘ ہندوستان سے اپنے تعلقات کے تصفیے کے لیے طاقت کے استعمال سے گریز کرے گا۔ غالباً اسی بات کا ذکر کرتے ہوئے بھٹو نے بعد میں اپنی تقریروں میں اسے تاشقند معاہدے کی ایک ’’خفیہ شرط‘‘ کا نام دیا ہے۔
شاستری جی نے ملاقات کے اختتام کے دو گھنٹوں کے بعد ہی معاہدے کی قبولیت کی رسمی طور پر تصدیق کر دی۔ لیکن ایوب خان اپنی بات سے پھر گئے اور یہ کہہ دیا کہ معاہدے کے مسودے سے وہ اتفاق نہیں کرتے ہیں۔ جب اس بات کا پتا شاستری جی کو چلا تو اس وقت گروسیکو اُن کے ساتھ تھے‘ ٹیلی فون پر ہی گروسیکو نے بھٹو کو جنہوں نے ایوب خان کا جواب پہنچایا تھا‘ ڈانٹ دیا۔ بھٹو نے کہا تھا کہ جب ایوب خان نے طاقت کے استعمال سے گریز کرنے کی بات کہی تھی تو ہندوستان نے بھی کشمیر کے تعلق سے ’’کچھ رعایت‘‘ دینے کا وعدہ کیا تھا۔ گروسیکو سے جب انہوں نے (بھٹو نے) یہ بات کہی تو انہوں نے کہا ’’یہ بالکل جھوٹ ہے‘‘۔ اب کانفرنس تعطل کا شکار ہو چکی تھی۔ ہندوستان کے ترجمان کہہ رہے تھے کہ گفت و شنید ایک نازک مرحلے پر پہنچ گئی ہے‘ جبکہ پاکستان ڈیلی گیٹس بڑی صاف گوئی سے یہ کہہ رہے تھے کہ وہ تو واپس جارہے ہیں۔ اس بات پر کوسیگن نے شاستری جی سے کہا کہ اقوامِ متحدہ کے منشور میں زور دیا گیا ہے کہ تمام اراکین پُرامن طریقہ اختیار کریں‘ اس لیے انہیں طاقت کے استعمال سے گریز کرنے کے معاملے پر خصوصی طور پر اصرار نہیں کرنا چاہیے۔ شاستری جی نے یہ سن کر جواب دیا کہ اس صورت میں انہیں (ایوب خان کو) کسی اور ہندوستانی وزیراعظم سے بات کرنی ہو گی۔ کوسیگن نے اپنی بات فوراً بدلتے ہوئے کہا ’’ایوب خان نے بھی یہی بات کہی تھی‘‘۔ کوسیگن نے کشمیر کے تعلق سے رعایت دینے کے لیے شاستری جی سے کہا۔ وہ اس بات پر راضی نہیں ہوئے‘ حتیٰ کہ اس بیان کے اجرا پر بھی وہ راضی نہیں تھے کہ وہ اور ایوب خان بعد میں کشمیر کے بارے میں گفت و شنید کے لیے ملاقات کریں گے۔ شاستری جی کا رویہ دیکھ کر کوسیگن نے سارا زور پاکستان پر ڈال دیا۔ بالآخر ایوب خان اقوامِ متحدہ کے منشور کے ضمن میں طاقت کے استعمال سے گریز کے تذکرے پر راضی ہو گئے۔ ان کے ذہن میں شاید یہ اندیشہ بھی تھا کہ اگر گفت و شنید ناکام ہو جائے تو پاکستان کو ان ایک لاکھ پناہ گزینوں کو کہیں اور بسانا ہو گا جو جنگ کے دوران سیالکوٹ اور لاہور سے بھاگ آئے تھے۔
شاستری جی عدم جنگ کی تجویز کا علیحدہ طور پر اور خصوصی تذکرہ چاہتے تھے لیکن جب کوسیگن نے یہ واضح کیا کہ سوویت یونین ہر اس اقدام کی تائید کرے گا جو دونوں فریقین کی جانب سے افواج کی غیرمشروط واپسی کے لیے منظور شدہ قرارداد پر عمل آوری کے لیے کیا جائے گا۔
کوسیگن نے اس مرحلے پر حالات کو سنبھالتے ہوئے ترغیب بلکہ دبائو کا استعمال کرتے ہوئے شاستری جی کو اس بات پر راضی کر لیا کہ وہ مجوزہ امن معاہدے میں طاقت کے استعمال سے گریز کرنے کے تذکرے پر اصرار نہ کریں۔ انہوں نے یہ یقین دلایا کہ اگر پاکستان بزور طاقت کشمیر ہتھیانے کی کوشش کرے تو سوویت یونین ہندوستان کی تائید کرے گا۔ کوسیگن نے ایوب خان کو بھی دبائو کے ذریعہ اقوامِ متحدہ کے منشور کے حوالے سے بالواسطہ طاقت کے استعمال سے گریز کے لیے راضی ہو جانے پر مجبور کیا۔
پاکستان کے صدر نے یہ تسلیم کیا کہ مسلح عملہ قبل از ۵ اگست ۱۹۶۵ء کے موقف کی جانب لوٹ جائے گا۔ اسی تاریخ کو پاکستانی مداخلت کار کشمیر میں داخل ہوئے تھے۔ شاستری جی جو قبل ازیں کشمیر کے تذکرے سے اتفاق نہیں کر رہے تھے۔ آخرکار کشمیر کے تعلق سے غور و خوض کیے جانے اور دونوں ملکوں کی جانب سے اپنے اپنے موقف کے پیش کیے جانے کے تذکرے پر راضی ہو گئے۔
ہندوستان کو حاجی پیر اور ٹٹھوال سے دستبردار ہونا پڑا۔ بعد میں شاستری جی نے ہندوستانی صحافیوں کو بتایا کہ کوسیگن کے رویے کی آڑ میں سکیورٹی کونسل نے ہندوستان کے خلاف تحفظات بھی عائد کر دیے ہوتے‘ اگر ہندوستان اپنی افواج کے تخلیے کے لیے راضی نہ ہوا ہوتا۔ شاستری جی نے کہا ’’ہمارے آگے کوئی اور راستہ تھا ہی نہیں‘‘۔
(ترجمہ: رفعت صدیقی)
(بشکریہ: روزنامہ ’’المنصف‘‘۔ حیدرآباد دکن)
Leave a Reply