حالیہ وبائیت۔۔۔ ۱۹۱۸ء کی وبا کے تناظر میں

حالیہ وبا کا وائرس بھی ۱۹۱۸ء کی وبائیت کی طرح H1N1 ہے۔ دونوں وبائوں کی ابتدا امریکا سے ہوئی اور دونوں ہی مرتبہ سؤر کا وائرس انسان میں وبائیت کا سبب بنا۔ ۱۹۱۸ء میں امریکی فوجیوں کی جنگ عظیم اوّل میں شرکت کے باعث یہ وباء پھیل گئی۔ حالیہ دنوں میں بھی امریکی فوج ’’دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ‘‘ میں مصروف ہے۔

۱۹۱۸ء میں وائرس کی دریافت وبائیت کے ایک عرصے بعد ہوئی جبکہ موجودہ وبائیت کا ذمہ دار وائرس فوراً ہی شناخت ہوگیا ہے۔ دونوں ہی وبائوں کی ابتداء موسم بہار میں ہوئی۔ ۱۹۱۸ء میں فلو کی وبائیت کی پہلی لہر میں شرح اموات زیادہ نہ تھی، البتہ لوگوں کو بیمار کرنے کی صلاحیت موجود تھی۔ یہی حال موجودہ وبائیت کا ہے۔ ۱۹۱۸ء کی وبائیت کو دنیا میں پھیلنے میں ۶ ماہ کا عرصہ لگا جبکہ موجودہ وبائیت ایک ماہ کے عرصے میں ہی دنیا بھر میں پھیل گئی ہے۔

قیاس ہے کہ ۱۹۱۸ء میں فلو کی عالمگیر وبا کی دوسری لہر، پہلی لہر کے مقابلے میں اس لئے زیادہ خطرناک اور ہلاکت خیز ثابت ہوئی کیونکہ دوسری لہر آنے تک اس وائرس نے اپنے اندر اچھی خاصی جینیاتی تبدیلیاں پیدا کرلی تھیں۔ ٹھیک یہی خدشہ سوائن فلو کی حالیہ وبا سے بھی وابستہ ہے۔ کوئی بعید نہیں کہ موسمِ خزاں کی آمد تک، جب یہ وائرس دنیا کے بیشتر خطّوں میں پھیل چکا ہوگا، اس میں مزید جینیاتی تبدیلیاں واقع ہوچکی ہوں گی اور قوی امکان ہے کہ موسمِ سرما تک آنے والی اس کی دوسری لہر کہیں زیادہ خطرناک اور ہلاکت خیز ثابت ہو۔۔۔ ۱۹۱۸ء کی طرح۔

ماضی کی ہلاکتوں کے برعکس ۱۹۱۸ء کی لہر کے تیز رفتار پھیلائو کی وجہ تیز رفتار ذرائع آمد و رفت تھے جبکہ بڑی تعداد میں شرح اموات کا سبب آبادی کا زیادہ ہونا اور شہری آبادیوں کا بڑی تعداد میں ہونا تھا۔ آج ۱۹۱۸ء سے کہیں زیادہ تیز رفتار ذرائع آمد و رفت موجود ہیں، جبکہ ہوائی جہاز کے سفر کے بڑھتے ہوئے استعمال نے اس وبا کو ایک ماہ کے اندر پوری دنیا میں پھیلا دیا ہے۔ ۱۹۱۸ء کی نسبت آج انسانی آبادی کئی گنا زیادہ ہے اور لوگوں کی بہت بڑی تعداد شہروں میں آباد ہے۔

شیر آگیا! شیر آگیا!

حالیہ وبا کی پہلی لہر نے آناً فاناً دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ عالمی ادارۂ صحت نے درجہ سوم سے شروع کرکے چند ہی دنوں میں اس وباء کو درجہ پنجم میں پہنچا دیا۔ اور اب یہ کہا جارہا ہے کہ اس وباء کی دوسری لہر زیادہ مہلک ہوسکتی ہے۔ اس کے مہلک ہونے کی وجوہ میں اولاً ۱۹۹۸ء کے چار وائرسوں کا (جو اس کے اجداد میں سے ہیں) مختلف ارتقائی مدارج میں موجود ہونا ہے۔ پھر یہ وبا جو کہ بڑی سرعت سے دنیا بھر میں پھیل گئی ہے، دنیا کے کسی بھی علاقے میں کسی سؤر کے ذریعے نئی جہت حاصل کرسکتی ہے۔ مزید برأں، مختلف طبیعی عوامل کے زیر اثر اس بات کے امکانات بھی شدید تر ہیں کہ دنیا میں کہیں بھی اس میں جینیاتی تغیر پیدا ہوسکتا ہے۔

حالیہ وائرس کے خلاف اگر ویکسین تیار بھی کرلی جائے، تب بھی عین ممکن ہے کہ وہ دوسری لہر کا باعث بننے والے، تبدیل شدہ سوائن فلو وائرس کے خلاف کارگر نہ رہے۔ صورتِ حال میں بے یقینی اتنی زیادہ ہے کہ اس بارے میں کوئی بھی ٹھوس رائے دینا قبل از وقت ہی معلوم ہوتا ہے۔ لہٰذا، دوسری لہر کے نمودار ہونے تک ہمارے پاس انتظار کے سوا کوئی چارہ نہیں۔

عالمگیر وبا یا حیاتیاتی دہشت گردی؟

ابتداً میکسیکو کی لہر کے بارے میں یہ افواہ اڑائی گئی کہ یہ القاعدہ اور ڈرگ مافیا کی ملی بھگت ہے۔ مگر جلد ہی اس وباء کا مرکز میکسیکو شہر کے قریب واقع امریکی کمپنی، اسمتھ فیلڈ فوڈ کو قرار دیا گیا جہاں کی پیداوار ۱۰ لاکھ سؤر ہے۔ اسمتھ فیلڈ کے نمائندے کا کہنا ہے کہ یہ وباء سؤر کے فارم سے نہیں پھیلی۔ ان کے مطابق، ادارے کے ماہانہ تشخیصی نظام سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ فارم پر نہ تو کوئی سؤر اور نہ ہی کوئی ملازم سوائن فلو کا شکار ہوا ہے۔ البتہ وہ یہ بتانے سے قاصر رہے کہ آیا انہوں نے اس نئے وائرس کے حوالے سے واقعتا کوئی تشخیص کی ہے یا نہیں۔ عالمی ادارۂ صحت نے امریکی مطالبے پر سوائن فلو کی جگہ اس وبا کو H1N1 کہنا شروع کردیا ہے۔ امریکی اس بات پر بھی ناخوش تھے کہ مصر اور انڈونیشیا میں بلاوجہ سؤروں کو ہلاک کیا جارہا ہے۔

جہاں امریکا ہر چیز کی تہمت القاعدہ کے سر رکھتا ہے وہاں دنیا بھر میں امریکی جنگی جنون کے باعث اس وباء کے ڈانڈے امریکا سے ملانا کوئی عقل سے اُتری ہوئی بات نہیں کیونکہ امریکا میں اچانک ہی ۱۹۱۸ء کے فلو وائرس کے حوالے سے ہونے والی متنازعہ تحقیقات اور منجمد لاشوں سے وائرس کی علیحدگی سوئے ہوئے شیر کو جگانے کے مترادف تھی۔ حالیہ وبائیت میں امریکی شہریوں میں معمولی بیماری اور کوئی خاص ہلاکتیں نہ ہونا بھی اس شبہ کو مزید تقویت پہنچاتا ہے۔

علاوہ ازیں اس وائرس میں سؤر کے دو وائرسوں کی ایک ہی جین کا یکجا ہونا سوالیہ نشان ہے، کیونکہ اس قسم کی تبدیلی شاذ و نادر ہی وائرس خود پیدا کرسکتا ہے۔ اس قسم کی تبدیلی کے امکانات آر این اے میں نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔ اس منفرد مرکب کے بارے میں یہی کہا جارہا ہے کہ یہ جینیاتی انجینئرنگ کا کارنامہ ہوسکتا ہے۔

اس بات سے قطع نظر کہ وائرس خود پیدا ہوا یا پھیلایا گیا، اب تو صرف اس کے اثر انداز ہونے کا انتظار کیا جاسکتا ہے۔

ہم کیا کریں؟

اگرچہ خوش قسمتی سے یہ وبا ابھی تک پاکستان میں نہیں آئی، مگر دوسری لہر کے بارے میں بہت زیادہ محتاط رہنا ضروری ہے۔ لیکن بہتر ہے کہ ہم اس وبا کے خوف میں دبلے نہ ہوں، کیونکہ جب موت کو آنا ہے اسی وقت آئے گی۔ اگر آپ کا وقت نہیں لکھا تو آپ ان لوگوں میں سے ہوں گے جو اس وبا کے خلاف مدافعت پیدا کرسکیں گے۔ اگر یہ وبا خدانخواستہ آگئی تو فلو کی صورت میں اپنی حرکات محدود رکھئے، آرام کیجئے اور زیادہ سے زیادہ مائع غذا اور پانی کا استعمال کیجیے۔

پھر اسلام نے ہمیں بہت کچھ دیا ہے۔ وبا کی صورت میں سورۃ تغابن کا وِرد اور وبا سے بچنے کی دعا پڑھیے۔ ہمیں کھانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھ دھونے کے لیے کہا گیا ہے۔ یہی مشورہ عالمی ادارۂ صحت بھی دے رہا ہے۔ ہر وقت باوضو رہیے، اس سے ہاتھ، منہ اور ناک سے وائرس بہہ جائیں گے۔ اللہ سے دعا کیجیے پاکستان کو ہر قسم کی آفت سے بچائے رکھے (آمین)۔

(بحوالہ: ماہنامہ ’’گلوبل سائنس‘‘کراچی۔ مئی ۲۰۰۹ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*