کتابوں کے شائقین کا یہ خواب سچ ہونے والا ہے کہ ایک ایسی لائبریری ہو جس میں اَن گنت تحقیقی مقالے‘ کتابیں‘ جرائد و رسائل اور پڑھنے کا دیگر مواد ہو اور اس سے بڑھ کر یہ ہر جگہ اور ہر وقت دستیاب ہو۔ یہ سب کچھ ہو گا اگر آپ اپنے کمپیوٹر کے سامنے بیٹھ جائیں۔
ڈجیٹل لائبریری کا دور آنے والا ہے۔ بعض لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ یہ دور ۱۴ویں صدی میں پرنٹنگ پریس کی ایجاد کے بعد سب سے زیادہ انقلابی دور ثابت ہو گا۔ دنیا بھر میں زیادہ تر لائبریریاں اب اپنی کتابوں کے ذخیروں کو ڈجیٹل نظام پر منتقل کر رہی ہیں اور اس طرح یہ کتابیں‘ رسائل و جرائد اور مسودات انٹرنیٹ پر دستیاب ہوں گے۔
دنیا کے سب سے زیادہ مقبول انٹرنیٹ سرچ سروس آپریٹر ’’گوگل‘‘ (Google) نے ایک پانچ سے دس سالہ منصوبے پر کام شروع کیا ہے‘ جس کے ذریعے دنیا کی پانچ ممتاز لائبریریوں کے کتب کے ذخائر کو ڈیجیٹل نظام پر منتقل کیا جائے گا۔ یہ فائلیں Google.com پر تلاش کی جاسکیں گی۔ اس ریسرچ کے لامحدود نتائج اور لامتناہی الفاظ ہوں گے۔
لائبریریوں کے اشتراک سے Google کا یہ منصوبہ دراصل گوگل نشر و اشاعت پروگرام کی ہی ایک توسیع ہے‘ جس کا مقصد شائع شدہ علمی خزانے کو عام کرنا ہے۔ اس خزانے میں کتابیں‘ رسائل‘ جرائد‘ حوالہ جاتی مواد شامل ہیں۔ Google کے ترجمان ناتھن ٹیلر کہتے ہیں کہ Google کا نصب العین یہ ہے کہ دنیا بھر کی معلومات کو ہر ایک کی رسائی اور استعمال کے قابل بنایا جائے۔ آج کے دن کا یہ اعلان اس نصب العین کی جانب ایک اہم پیش رفت ہے تاکہ دنیا بھر میں ہمارے صارف زیادہ سے زیادہ معلومات تک رسائی حاصل کر سکیں۔
دنیا بھر کا علم ہر ایک کے لیے گوگل نشر و اشاعت منصوبے میں گوگل کمپنی نیویارک پبلک لائبریری اور اسٹین فورڈ یونیورسٹی‘ ہارورڈ یونیورسٹی‘ مشی گن یونیورسٹی اور برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی کے اشتراک سے کام کر رہی ہے۔ اس منصوبے کے ذریعے کروڑوں کتابیں ڈجیٹل نظام پر منتقل کی جائیں گی۔ ہارورڈ یونیورسٹی لائبریری کے ڈائریکٹر اشاعت و مواصلات پٹیر کوسووسکی کہتے ہیں کہ اگر یہ منصوبہ کامیابی سے پایہ تکمیل کو پہنچ گیا تو دنیا بھر کے انٹرنیٹ صارفین کو پہلی بار علم و دانش کے اس بیش بہا خزانے تک رسائی ہو جائے گی جو پہلے جغرافیائی حدود اور اداروں کی وابستگیوں کا متقاضی تھا۔
کتابوں کو الیکٹرانک متن میں تبدیل کرنے کے عمل میں ہر صفحے کی اسکیننگ اور آپٹیکل کریکٹر ریکگنیشن OCR سافٹ ویئر کے استعمال کے صبر آزما مرحلے شامل ہیں۔ گوگل کے پاس ایسا شاندار نظام موجود ہے جس کی مدد سے اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ صارف تک مواد انتہائی صحت اور درستی کے ساتھ پہنچے۔
جملہ حقوق کے معاملات سے عہدہ برآ ہونے کے لیے Google کتابوں کو تین درجوں میں تقسیم کر رہا ہے۔ علمی کام کا مکمل متن سرسری ملاحظہ کے لیے عام دستیاب ہو گا۔ ایسی کتب جن کے جملہ حقوق محفوظ ہیں‘ کے متعلق Google ناشروں سے بات چیت کرنے کا ارادہ رکھتا ہے کہ ایسی کتب کا کتنا حصہ دکھایا جاسکتا ہے۔ جہاں ناشر سے کوئی تعلقات نہیں ہوں گے‘ تو ایسی صورت میں متن کے اقتباسات یا کتابیات کے حوالے سے معلومات تک رسائی ہو گی۔ ہر کتاب کے دکھائے گئے متن کے ساتھ کتب فروش کے اسپانسرڈ Links موجود ہوں گے۔
ناتھن ٹیلر کہتے ہیں کہ فی الحال صرف انگریزی کتابوں کو انٹرنیٹ پر منتقل کیا جارہا ہے‘ بعد میں دوسری زبانوں کو بھی اس منصوبے میں شامل کیا جائے گا۔
نئے مواقع متعدد دیگر آن لائن سرچ انجن بھی کتابوں تک رسائی مہیا کرتے ہیں جن میں amazon.com لائبریری آف کانگریس netliberary.com اور highbeam.com اور questia.com شامل ہیں۔
ڈیجیٹل لائبریریاں انسانی علم کو اور علم کی تخلیق کو کیسے متاثر کرتی ہیں؟ بنیادی طور پر محققین یہ بات بہتر طور پر طے کر سکیں گے کہ کیا چیز ان کی تحقیق کے لیے متعلقہ ہے اور کیا غیرمتعلقہ۔ مزید براں‘ قارئین اور محققین ایسی کتب اور نظریات بھی دریافت کر سکیں گے جو بصورت دیگر انہیں کبھی دستیاب نہیں ہو سکتے تھے۔
ہیوسٹن میں رائس یونیورسٹی کے ڈیجیٹل لائبریری منصوبے کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر جنیوا ہینری کا کہنا ہے کہ لائبریریاں ایسے مقامات ہوتی ہیں جہاں لوگ اپنی دلچسپی کی معلومات کتابوں اور دیگر علمی مواد کے ذریعے تلاش کرتے ہیں۔ ان علمی ذخیروں میں موجود علم اور تصورات‘ نئے تصورات اور علم کی تخلیق کا سبب بنتے ہیں۔ ڈیجیٹل لائبریری کے ذریعے ہم دیکھ رہے ہیں کہ نئے اور جدید علوم کے فروغ میں حائل رکاوٹیں دور ہوں گی اور علم کہیں تیزی سے پھیلے گا۔
ڈیجیٹل لائبریریوں سے محققین اور مصنفین کو نئے علوم حاصل کرنے کے بہتر مواقع میسر آئیں گے اور وہ زمان و مکان کے حدود و قیود عبور کر لیں گے۔ جارج میسن یونیورسٹی میں جدید تاریخ اور جدید میڈیا مرکز کے ڈائریکٹر رائے روز نسوگ کہتے ہیں: ڈیجیٹل لائبریریاں انسانی علوم اور سماجیات کے اسکالرز کے کام کرنے کے انداز کو بدل ڈالیں گی۔ تاہم وہ نئے انداز کیا ہوں گے‘ ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔
درپیش پریشان کن مسائل
یہ ڈیجیٹل لائبریریاں یا کتب خانے ان مصنفین یا ادیبوں کو کس طرح متاثر کریں گی‘ جن کا روزگار لکھنا پڑھنا ہے اور نشر و اشاعت کے کاروبار کا کیا بنے گا؟ بادی النظر میں یوں لگتا ہے کہ ڈیجیٹل لائبریریاں نشر و اشاعت کے کاروبار کے لیے خطرہ ہیں۔ میسو چیسٹس میں بیبسن کالج میں لائبریری کے ڈائریکٹر ہوپ ٹلمین کا کہنا ہے کہ ناشرین نئے مواقع اور ضروریات سے خود کو ہم آہنگ کر رہے ہیں۔ کتابوں کو ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ذریعے آن لائن کرنے والے افراد پبلشرز کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں اور ناشرین آن لائن ایڈیشنز سے فوائد حاصل کر رہے ہیں۔
ایمیزون‘ گوگل پرنٹ اور ایسے دیگر سروس آپریٹر ان کتابوں کے منتخب صفحات تک آن لائن رسائی دے رہے ہیں جن کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ ان صفحات سے قاری کو بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے‘ آیا اس نے کتاب کا پرنٹ ایڈیشن خریدنا ہے یا نہیں۔ ایسی کتابوں کے مواد کو کاپی copy اور پیسٹ paste بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ڈیجیٹل لائبریریوں سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنے کے لیے ہمیں موجودہ دستیاب آن لائن سرچ انجنز کی نسبت کہیں زیادہ جدید سرچ انجن درکار ہوں گے تاکہ ڈیجیٹل لائبریریوں کے استعمال کو آسان اور ہرممکن رسائی میں بنایا جاسکے۔
اس کے علاوہ ایسے خدشات کا بھی اظہار کیا جارہا ہے کہ ڈیجیٹل لائبریریوں کے ذریعے معلومات اور علم تک آسان رسائی کے باعث ادبی اور علمی سرقے کے رجحانات میں بھی اضافہ ہو گا۔ تاہم ان خدشات کو اس طرح بھی رفع کیا جاسکتا ہے کہ مکمل ڈیجیٹل کتابوں کے ذریعے سرقے بازی کا بھی بآسانی پتا چلایا جاسکتا ہے۔ بہرحال نشر و اشاعت کا مستقبل ہمارے ہاتھ میں ہی ہے اور یہ کیا ہو گا‘ فی الحال کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
(بشکریہ: ’’خبر و نظر‘‘۔ امریکی شعبۂ تعلقاتِ عامہ‘ اسلام آباد۔ جون ۲۰۰۵ء)
Leave a Reply