روزہ کی تاریخ

روزہ ہر مذہب و ملّت میں قدیم زمانے سے رائج ہے۔
* مصر کے باشندے زراعت کے لیے روزہ رکھتے تھے۔
* روم کے باشندے اپنے خدا کی عبادت کے لیے روزہ رکھتے تھے۔
* ہندو بھگوان کی خوشنودی کے لیے برت (روزہ) رکھتے ہیں۔
* ستارہ پرست ۳۰ دن روزہ رکھتے تھے۔
* برہمن مذہبی رہنما موسمِ خزاں اور موسمِ بہار کے آغاز پر روزہ رکھتے ہیں۔

اس کے علاوہ چاند کی پہلی اور چوتھی تاریخوں کے علاوہ سورج گرہن کا بھی روزہ رکھتے ہیں۔
* بدھ مت کے ماننے والے قمری مہینے کی ۱۵، ۱۹ اور ۲۳ تاریخوں کو طلوع سے لے کر آدھی رات تک روزہ رکھتے ہیں۔
* یہود و نصاریٰ پرانے زمانے میں مصیبت میں مبتلا ہونے کے بعد روزہ رکھتے تھے۔
* توریت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ۴۰ دن روزے رکھے تھے۔ یہودی اب بھی خدا کی خوشنودی حاصل کرنا چاہیں یا عجز و انکساری کا اظہار کرنا چاہیں تو روزہ رکھتے ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بھی آزمائش میں مبتلا ہونے پر ۴۰ دن روزہ رکھا تھا۔ اسی بات کے پیشِ نظر ہیمبرگ کا کلیسا بھی آج کے عیسائیوں کو مشورہ دیتا ہے کہ سال میں سات دن روزہ رکھیں اور کم کھائیں پئیں۔ گوشت اور شراب سے پرہیز کریں۔
* دوسری صدی عیسوی تک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب پر چڑھائے جانے کی یاد میں ۳۶ دن روزہ رکھا جاتا رہا جسے بعد میں بڑھا کر ۴۰ دن کر دیا گیا۔
* ہم مسلمان بھی حکمِ خداوندی کی پیروی میں ماہِ مبارک رمضان میں خوشنودیٔ پروردگار کی خاطر روزہ رکھتے ہیں۔

(مرسلہ: عمران علی)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*