شیخ حسینہ نے ملک کو تباہی کی راہ پر ڈال دیا!

اگر آپ بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکا کی پرہجوم سڑکوں سے گزریں تو اندازہ ہوگا کہ تھکن اور بدحواسی ایک مقام پر جمع ہوں تو کیا ہوتا ہے! جب ڈھاکا کی سڑکوں پر ٹریفک جام ہوتا ہے تب معلوم ہو پاتا ہے کہ گاڑیوں کا ایک ایک قدم کھسکنا کسے کہتے ہیں۔ سائیکل رکشے، بسیں، پالتو مویشی اور شاندار کاریں سبھی دھیرے دھیرے آگے بڑھتے رہتے ہیں۔ ڈرائیور اپنے کام میں غیر معمولی مہارت رکھتے ہیں۔ وہ اس بھیڑ میں سمجھوتا کرنا اور مسکرانا اچھی طرح جانتے ہیں۔ سبھی کو معلوم ہے کہ اس بھیڑ میں کس طرح آگے بڑھنا ہے اور کس طرح ایک دوسرے کو برداشت کرنا ہے۔

اس صورت حال کے ذمہ دار سیاست دان ہیں جنہوں نے عوام کی بھلائی کے لیے بظاہر کچھ نہیں کیا۔ عام انتخابات میں ۱۸؍ماہ ہیں اور بنگلہ دیش میں احتجاج اور ہڑتالوں کا سلسلہ جاری ہے۔ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی جماعتیں آئے دن عوام کو سڑکوں پر لے آتی ہیں۔ سیاسی کارکنوں کے خلاف امتیازی سلوک کی شکایات عام ہیں۔ سیاسی مخالفین کو جیل بھیجنے کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ سب طاقت کے لیے پرانی مخاصمت کا شاخسانہ ہے۔ آئندہ عام انتخابات کی نگرانی کے حوالے سے اس قدر اختلافات پائے جاتے ہیں کہ بہت سے مبصرین کو خدشہ ہے کہ آئندہ عام انتخابات ہوں گے ہی نہیں۔ عام بنگلہ دیشیوں کا یہ حال ہے کہ کھانے پینے کی اشیا اور ایندھن مہنگا ہے، توانائی کا بحران برقرار ہے اور نئی سڑکیں تعمیر کرنے کے تمام وعدے صرف وعدے ثابت ہوئے ہیں۔

بنگلہ نیشنلسٹ پارٹی کی سربراہ خالدہ ضیاء کہتی ہیں کہ تمام خرابیاں حکومت کی پیدا کردہ ہیں۔ ان کے پاس شیخ حسینہ کے حکم پر ڈھائے جانے والے مظالم کی فہرست ہے۔ بی این پی کے ایک رکن پارلیمنٹ الیاس علی کو ڈیڑھ ماہ قبل اغوا کیا گیا تھا اور اب ان کے قتل کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ حال ہی میں پارلیمانی ارکان سمیت اپوزیشن کے ۳۳ کارکنوں کو جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔ خالدہ ضیاء کا کہنا ہے کہ اب تک اپوزیشن کے ۳ ہزار کارکن گرفتار کیے جاچکے ہیں۔ یہ صورت حال خاصی تشویشناک ہے۔

کچھ عرصے کے دوران صورت حال بگڑی ہے اور تاریکی بڑھی ہے۔ ایک سعودی سفارت کار کو قتل کردیا گیا۔ ایک معروف صحافی نے جب سیاست دانوں کی کرپشن کو بے نقاب کرنا شروع کیا تو اسے قتل کردیا گیا۔ جنوری میں یہ افواہ اڑائی گئی کہ فوج بغاوت کی تیاری کر رہی ہے۔ اس افواہ کو بنیاد بناکر حکومت نے فوج پر اپنے کنٹرول کو مزید مستحکم کرنے کی کوشش کی۔

ملک کی نمایاں ترین شخصیات میں ڈاکٹر محمد یونس بھی شامل ہیں جو اب شیخ حسینہ کو حریف دکھائی دے رہے ہیں۔ امریکا نے نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر محمد یونس کو یقین دلایا ہے کہ وہ کسی بھی مشکل گھڑی میں ان کے ساتھ ہوگا۔ امریکی وزیر خارجہ ہلیری نے حال ہی میں ڈاکٹر محمد یونس سے ڈھاکا میں ملاقات کی اور انہیں بتایا کہ ان کے لیے خوفزدہ ہونے والی کوئی بات نہیں۔ ڈاکٹر محمد یونس کو خدشہ ہے کہ حکومت ان کے قائم کردہ گرامین بینک کو قومی تحویل میں لے لے گی۔ ڈاکٹر یونس بہبودِ عامہ کا جو سیٹ اپ چلاتے ہیں اس میں گرامین بینک کے علاوہ ٹیلی کام سیکٹر کے چند ادارے بھی شامل ہیں۔ گرامین بینک کے ۹۷ فیصد حصص غربا کے پاس ہیں۔ یہ غریبوں کا بینک ہے۔ حکومت گرامین بینک اور اِسی نوعیت کے دیگر اداروں میں کرپشن کو بہانہ بناکر کارروائی کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔

کرپشن نے پورے بنگلہ دیشی معاشرے اور حکومتی نظام کو جکڑ رکھا ہے۔ امداد دینے والے ادارے اب شفافیت کا مطالبہ کر رہے ہیں تاکہ امداد درست انداز سے خرچ ہو اور بہبودِ عامہ یقینی بنائی جاسکے۔ بنگلہ دیش کو سب سے زیادہ امداد دینے والے جاپان نے حال ہی میں نائب وزیر اعظم کو ڈھاکا بھیجا اور یہ مطالبہ پیش کیا کہ مزید امداد کے حصول کے لیے پہلے کرپشن ختم کی جائے اور تمام منصوبوں میں شفافیت یقینی بنائی جائے۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ حکومت کسی بھی کرپٹ فرد کو سزا دینے کے موڈ میں نہیں۔ ریلوے کے وزیر کو حال ہی میں اس بنیاد پر برطرف کیا گیا تھا کہ ان کے معاون کی کار سے کرنسی نوٹوں سے بھرے تھیلے برآمد ہوئے تھے۔ کچھ ہی دنوں میں اندرونی تفتیش کے ذریعے انہیں کلیئر کردیا گیا اور اب وہ دوبارہ کابینہ کا حصہ ہیں۔ امریکا نے خبردار کیا ہے کہ بنگلہ دیش میں آئندہ عام انتخابات شفاف ہونے چاہئیں تاکہ اپوزیشن بھی حصہ لینے سے نہ ہچکچائے۔

بنگلہ دیش کی سیاست کے حوالے سے بھارت کا رویہ حیرت انگیز طور پر تبدیل ہوا ہے۔ شیخ حسینہ واجد کو بھارت کی حمایت ہمیشہ حاصل رہی ہے۔ دوسری طرف خالدہ ضیاء نے بھارت پر تنقید سے کبھی گریز نہیں کیا۔ مگر دنیا نے اس بات کو حیرت سے دیکھا کہ گزشتہ دنوں بھارتی وزیر خزانہ پرناب مکھرجی نے ڈھاکا میں خالدہ ضیاء سے ملاقات کی اور انہیں نئی دہلی آنے کی دعوت دی۔ یہ بڑی تبدیلی ہے۔ خالدہ ضیاء نے کہا ہے کہ وہ گرمیاں ختم ہوتے ہی نئی دہلی جائیںگی۔

شیخ حسینہ واجد کے اعتماد میں کمی واقع نہیں ہو رہی۔ وہ اب بھی اپنی مرضی کے مطابق کام کر رہی ہیں۔ دوسری طرف بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی نے حکومت کی ہر کارروائی کے خلاف شدید احتجاج کی ٹھان رکھی ہے۔ بنگلہ دیش کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ اس کی سیاست میں محاذ آرائی کا عنصر ختم نہیں ہو رہا۔ شیخ حسینہ اب بھی مخالفین کے خلاف کچھ بھی کرنے سے گریز نہیں کر رہیں۔ حال ہی میں ایک بل منظور کیا گیا ہے جس کا مقصد غیر سرکاری تنظیموں پر حکومت کا کنٹرول بڑھانا ہے۔ یہ سب کچھ عوامی لیگ کی مقبولیت پر بھی اثر انداز ہوسکتا ہے۔ شیخ حسینہ سمجھتی ہیں کہ وہ غیر سرکاری تنظیموں کو قابو میں کرکے انتخابات میں بہت کچھ حاصل کرسکتی ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ سیاسی بنیاد پر گرفتاریوں اور قتل سے وہ کس طور کسی کو اپنا بناسکتی ہیں؟ حکومت کی جانب سے مخالفین کو ڈرانے دھمکانے کا سلسلہ جاری ہے۔ دوسری طرف اپوزیشن پر بھی کرپشن میں ملوث ہونے کے الزامات ہیں اور اپوزیشن کی کوئی بھی بڑی جماعت اس حقیقت کو چھپانے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتی۔

محاذ آرائی کی سیاست سے بنگلہ دیش کی معیشت کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔ بنگلہ دیش کے لوگ کئی شعبوں میں غیرمعمولی مہارت رکھتے ہیں۔ معروف کنسلٹنسی فرم میکنزے (Mokinsey) کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش کی ٹیکسٹائل انڈسٹری سالانہ ۴۰؍ ارب ڈالر کمانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ابھی چند سال پہلے تک بنگلہ دیش کو افلاس کا متبادل لفظ سمجھا جاتا تھا مگر اب ایسا نہیں ہے۔ شرح نمو ۶ فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ اگر حالات بہتر ہوں اور سیاسی محاذ آرائی ختم ہو تو بنگلہ دیش ایک عشرے میں درمیانے درجے کی آمدنی رکھنے والا ملک بن جائے گا۔ سیاست دانوں کو ملک کے بنیادی ڈھانچے میں بہتری لانے کے لیے بہت کچھ کرنا ہوگا۔ کرپشن پر قابو پاکر ہی سڑکیں تعمیر اور چوڑی کی جاسکتی ہیں۔ لوگوں کو توانائی کے بحران نے شدید مشکلات سے دوچار کیا ہے۔ اس بحران کو ختم کیے بغیر ملک آگے نہیں جاسکے گا۔ بنگلہ دیش میں غیر یقینی صورت حال ہے جو مزید خرابیوں کو جنم دے رہی ہے۔ اس غیر یقینی کیفیت کو ختم کرنا بنگلہ دیشی سیاست دانوں کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔

(“Banged About”.. “Economist”. May 26th, 2012)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*