شاعری اگر ایمان سے مستنیر نہ ہو، ایمان کی روشنی میں اسے اگر عمل کی صحیح جہت نہ ملی ہو اور شاعر کے دل کی کھیتی اگر اپنے رب کی یادسے سیراب نہ ہوتی ہو تو یہ کجی کاشکار ہو جاتی ہے۔ اس میں یکسوئی اور ٹھہراؤ نہیں ہوتا ہے۔ مختلف وادیوں میں بھٹکتی اور بھٹکاتی ہے۔ مجرّد شعر و ادب کو رہنما بنانے والوں کو ہم دیکھتے ہیں کہ خواہ دانش کی کتنی ہی بلندیوں کو چھو رہے ہوں مگر ان کے فکر و عمل میں کہیں نہ کہیں کوئی ٹیڑھ موجود رہتا ہے۔ یہ معاملہ ان کی ذات اور فکر تک محدود نہیں رہتا۔ شاعروں اور ادیبوں کے مداح ان کی فکر کی کجی کو دلیل بنا لیتے ہیں۔ یوں فکر کا یہ بگاڑ پہلے حجت بنتا ہے پھر اسے نظریہ کی شکل دی جاتی ہے۔ اجتماعی شعور اگر اس نظریے کی گرفت میں آجائے تو پھر اس نظریے کو لائحہ عمل بنانے اور پوری زندگی پر مسلط کرنے کی کوشش ہونے لگتی ہے۔ شاعر اور ادیب اکثر اپنی کاہلی اور بے عملی کی وجہ سے خود اس قابل نہیں ہوتے کہ کسی نظام میں ڈھال کر اس ٹیڑھ زدہ فکر کو لائحہ عمل کادرجہ دلا سکیں لیکن اس کا پرچار جاری رکھتے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ اقبالؒ شعر و ادب کی اس صف میں نہیں تھے۔ نکالنے والے ان کی شاعری اور نثری افکار سے اپنے مطلب کی باتیں نکالتے رہتے ہیں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ اقبالؒ کی شاعری پر قرآن کا رنگ غالب ہے۔ اسلام اللہ کا دیا ہوا دینِ حق اور نظامِ حیات ہے۔ اس کی روح میں آفاقیت ہے۔ یہ حدودِ عرب و عجم اور جوانبِ شرق و غرب سے آزاد ہے۔ اقبالؒ نے جس کے بارے میں اور جس وجہ سے بھی عجم ہنوز ندانندر موزدین…، والی بات کی ہو لیکن یہ حقیقت ہے کہ انہیں احساس تھا اور اس کے عملی نظائر کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں کہ عجم کے فہم دین نے صرف وطنیت اور قومیت کے بارے میں نہیں بلکہ اسلام کے بہت سے معاشرتی، معاشی، معاملاتی اور اخلاقی پہلوؤں سے بھی ٹھوکریں کھائی ہیں۔ نجی اور سماجی زندگی میں اپنے مفادات اور ضرورتوں کے تحت اسلامی فکر میں من پسند آمیزشیں کی گئیں۔ اسلام کو زبردستی ’مقامی‘ بنانے کی کوشش ہوئی تو انجام کار یہ اجنبی بن کر رہ گیا۔ جب اس کے شفاف چہرے پر مقامی رسوم و رواج کا ردّا چڑھ جاتا ہے اور اپنے مرغوب تصورات و بدعات اور رسوم ورواج سے آلودہ اسلامی چہرے میں لوگوں کو کشش محسوس ہونے لگتی ہے تو پھر ان کے سامنے اسلام کی اصل اور حقیقی شکل پیش کریں تو وہ الٹا اس اصل شکل کو بدعت اور نقل قرار دیتے ہیں۔
آج کل ترکی سے حکومتی سطح پر بھی رومانس چل رہا ہے اور مختلف اسلامی تنظیموں کے نمائندے اور دینی شخصیات کے علاوہ صحافیوں اور دانشوروں کی ڈاروں کی ڈاریں بھی ترکی یاترا پر جاتی اور وہاں سے اپنے اپنے ذوق کی حکایتیں لاتی ہیں۔
بات بات پر ترکی کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ درویشانہ قونیہ کے دیدارِ رقص کی لذتوں کا نشہ پی کر آتے ہیں تو پھر حکایتوں کی صورت میں اس کے جام پر جام یہاں بانٹے جاتے ہیں۔ مجھے اس وقت یاد نہیں کہ فکری، اخلاقی اور عسکری زوال کا شکار ہو جانے کے بعد سترہویں یا اٹھارہویں صدی کے کس عثمانی خلیفہ کے عہد میں اہم ملکی اور سرکاری مہموں کا آغاز کرتے وقت بخاری شریف کے ختم کی روایت قائم ہوئی تھی۔ ایک بار بحری جہاز کو سمندر میں اتارنے کا مرحلہ آیا تو اسی روایت کے مطابق بخاری شریف کا ختم کرایا گیا۔ کسی مغربی حریف نے یا اپنے ہاں کے کسی صاحب عقل نے طنزاً کہا تھا کہ بحری جہاز بخار (Steam) سے چلتے ہیں، بخاری سے نہیں۔ یہ مثال میں نے اس لیے دی ہے کہ ترکی کے اندر دین میں عجیب عجیب بدعتوں کی آمیزش کئی سو سال پہلے سے سلاطین اور نام نہاد شیخ الاسلام، قسم کی ذہنی اپج سے شروع ہو گئی تھی۔ آجکل کسی ترک رہنما کی سید منور حسن یا مرحوم قاضی حسین احمد کو کہی ہوئی یہ بات بہت دہرائی جارہی ہے کہ نعوذباللہ ہم نے کمال ازم کا مقابلہ بدعتوں کے ذریعے کیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’نیکی اور بدی برابر نہیں ہوتی، برائی کو بھلائی سے رفع کرو‘‘۔ لیکن یہاں لذت چشیدگان عجم کا موقف ہے کہ کیونکہ ہمارے دوست ترکوں نے کمال ازم کی برائی کو بدعتوں کی برائی سے دفع کیا اس لیے ان کے کہے کو ایک دائمی اصول کا درجہ دے کر رسول اللہؐ کی کُلُّ بِدْعَۃ ضَلَالَہٗ کی تنبیہ کو پس پشت ڈالتے ہوئے کے ’ترکی سنت‘ کو دین کا حصہ بنا لینا چاہیے۔ جدید ترکی پر دینی اعتبار سے سب سے زیادہ اثرات بدیع الزماں نورسیؒ کے ہیں۔ فتح اللہ گولن ہوں یا طیب ایردوان اور عبداللہ گل، سب نورسیؒ کی عقیدت کا دم بھرتے ہیں۔ میرے پاس بدیع الزماں نورسیؒ کے ’رسائل‘ اور دیگر ملفوظات کے جتنے مجموعے ہیں ان میں اگرچہ نقشبندی سلسلہ تصوف کے تذکرے ملتے ہیں لیکن ان کی دعوت کی روح قرآن ہے۔ وہ ہمیں رجوع الی القرآن کی دعوت دیتے نظر آتے ہیں۔
حالیہ عرصے میں کچھ انوکھے مباحث سامنے آرہے ہیں۔ اعلیٰ حضرت احمد رضا بریلوی کو ’مذہب عشق‘ کا موسس قرار دیا گیا اور حضرت مولانا قاسم نانوتویؒ حلم کو نمائندہ ثابت کیا جارہا ہے۔ دین میں عشق، عقل اور علم باہم متاغائر و متصادم اکائیاں نہیں ہیں، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ہی دور کی یہ تینوں ہستیاں اعتقادی اور عملی میدان میں تین مختلف سمتوں میں امت کی رہنمائی کررہی تھیں۔ معاشرتی قدروں میں رکھ رکھاؤ اور رواداری اور احترام کے رویوں کی وجہ سے انہوں نے اختلافات کو مخالفت میں بدل کر ایک دوسرے کے خلاف کوئی محاذ کھڑا نہیں کیا تھا لیکن ہمیں یہ کہیں نظر نہیں آتا کہ یہ تینوں نقطے یگانگت اور ہم آہنگی کے خط کھینچ کر ایک مثلث کی شکل میں جوڑ دیے گئے ہوں۔ یہ تین اپنی اپنی آب و ہوا والے تین جدا جزیرے تھے۔ تینوں کے مسلمانانِ ہند پر اپنے اپنے انداز میں احسانات ہیں۔ ان کے اثرات کے اپنے اپنے الگ حلقے بن گئے۔ ہر ایک کی افتادِ طبع اور اندازِ اظہار نے معتقدات و مسالک کے الگ الگ مکتب فکر پیدا کیے۔ حضرت احمد رضا بریلویؒ تفقہ اور علمیت اور ’وارداتِ عشق رسولؐ‘ کے اعتبار سے خواہ کتنی ہی اعلیٰ و ارفع حیثیت کے مالک تھے، مولانا قاسم نانوتویؒ کے لیے ان کے سارے مذہبی تصورات قابل قبول نہیں تھے۔ یہی معاملہ دوسری طرف بھی تھا۔ پُلوں کے نیچے سے ڈیڑھ پونے دو سو سالوں کا پانی گزر چکنے کے باوجود سرسید کی ’جدیدیت‘ کے جزیرے کی آب و ہوا دوسرے دونوں مسلکوں کے لیے سازگار نہیں بنی ہے۔
اللہ کے محبوب نبی، سرور دوعالم، امام الانبیاء، سیدالابرار جناب محمد مصطفیﷺ سے عشق محبت پر نہ کسی کا اجارہ ہے اور نہ حضورؐ کی سنت و سیرت کی پیروی کے سوا اور کوئی پیمانہ ہے جس کے ذریعے یہ ناپا جاسکے کہ کون بڑا عاشق رسولؐ ہے اور کون چھوٹا عاشق ہے۔ لفظ ’عشق‘ کو تو اردو اور فارسی شاعری نے حب کی جگہ مستعمل عام بنا دیا اور ان شاعروں کے اپنے محبوب کے بارے میں اظہار کے جو سستے قرینے تھے اس لفظ کی وجہ سے وہی عشقِ رسولؐ کے اظہارات میں بھی جھلکنے لگے۔ کسی شخص کا مسلمان ہونے کا دعویٰ اللہ کے دربار میں قابل قبول نہیں جب تک کہ اس کے دل میں رسول اللہؐ سے اپنے والدین، اپنی اولاد اور دنیا کے ہر رشتے اور ہر چیز سے بڑھ کر محبت نہ ہو۔ ایسے لوگوں کے فہمِ دین پر تعجب سے بڑھ کر رونا آتا ہے جو اس فلسفے کا پرچار کرتے ہیں کہ توحید پر بہت زیادہ زور دینا رسالت یا عشقِ رسولؐ کی نفی ہے۔ اگر دینِ حق اور ہدایت وہ ہے جو دے کر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو بھیجا تو اس کی اساس توحید ہے۔ قرآن پاک کا کوئی صفحہ اس عقیدۂ توحید کے ابلاغ سے خالی نہیں اور خود رسول اللہﷺ کی تعلیمات اور اسوہ کا کوئی پہلو ایسا نہیں جہاں توحید کی تلقین و تعلیم نہ ہو۔ اوپر جن تین شخصیات کا ذکرہوا ہے ان کی جلالتِ علمی کو ہم سلام پیش کرتے ہیں لیکن یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتے کہ دین کو مدرسہ و خانقاہ کی تنگنائیوں سے نکال کر اگر کسی نے اسے اس کی کامل صورت میں دنیا کے سامنے رکھا تو دین کی کوئی صدیوں پر محیط اجنبیت کے بعد یہ کارنامہ بیسویں صدی میں آکر سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اور ادھر عالمِ عرب میں حسن البناء شہیدؒ نے یہ کارنامہ انجام دیا۔ علم و عشق اور عقل کی دنیا یہ بھول ہی چکی تھی کہ یہ دین ایک نظامِ زندگی اور ضابطہ حیات ہے۔ یہ تقریباً ساتھ ساتھ برپا ہونے والی وقت کی سب سے بڑی ان اسلامی تحریکوں نے دین کی اس حقیقی صورت کو اجاگر کیا۔ ہماری نگاہ میں تو حسن البناءؒ اور مودودیؒ سے بڑھ کر کوئی عاشقِ رسولؐ نہیں ہے۔ پچھلی زوال زدہ کئی صدیوں کا اس امت پر قرض تھا جو دین نبیؐ کا سچا کھرا تصور اجاگر کرکے انہوں نے چکایا۔ سارے عالم اور سارے عاشق مل کر بھی کریں تو ان کے احسان کا بدلہ نہیں دے سکتے۔ شعر و ادب اور فکر و فلسفہ کے آمیزے سے الجھی ہوئی بے ترتیب باتوں اور عبارتوں کا طُرفۂ معجونی تیار کرنے والوں کو اس زاویے سے غور کرنا چاہیے کہ سطورِ بالا میں جن تین جزیروں کا ذکر ہوا، سید مودودیؒ اور حسن البناءؒ کی ذات میں جمع ہو کر عقل، علم اور عشق باہم ایک ہو گئے ہیں۔
Leave a Reply