فلسطینی انتظامیہ کے سابق وزیراعظم محمود عباس کا نیوز ویک کو انٹرویو

جب ایک سال سے کچھ زائد عرصہ قبل انہیں فلسطین کا وزیراعظم نامزد کیا گیا تو محمود عباس کا تاثر عرفات کی نفی کرنے والے شخص کا دیا جارہا تھا۔ وہ نرم گفتار اور صاف رخسار (بغیر داڑھی کے) ہیں۔ وہ صدر بش‘ وزیراعظم ایریل شیرون اور اپنے بدمعاش و پریشان کُن باس کے ساتھ امن مذاکرات کو دوبارہ بحال کرنے کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن ۱۲۹ دنوں تک نوکری کرنے کے بعد عباس مذکورہ تینوں افراد سے اُکتا گئے۔ ان کی مایوسی اور رنجش ہنوز سلگ رہی ہے۔ ۶۹ سالہ محمد عباس نے حال ہی میں نیوز ویک کے نمائندے ڈین ایفرون کے ساتھ غزہ پر خفیہ بات چیت جو وہ اسرائیل کے ساتھ کرنا چاہتے تھے اور عرفات کے ساتھ ان کے تعلقات کا اختتام جیسے مسائل بھی زیرِ بحث آئے۔ ستمبر میں مستعفی ہونے کے بعد سے کسی امریکن پبلیکیشن کو یہ انکا پہلا انٹرویو ہے جس کا اقتباس درج ذیل ہے:


ایفرون: غزہ سے پسپائی کے شیرون کا یکطرفہ منصوبے کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟

عباس: یہ ایک ایسا معاملہ تھا جو شیرون اور بش کے درمیان طے پایا تھا اور ہمیں اس کے بارے میں کچھ بھی علم نہیں تھا۔ اس سے ہمیں صدمہ پہنچا۔

ایفرون: یہودی بستیوں اور پناہ گزینوں کے مسئلے پر شیرون کو دور رس یقین دہانیاں کرانے کے حوالے سے بش کی آمادگی کی آپ کیا توضیح کریں گے؟

عباس: یہ تمام باتیں ذرا مشکوک سی ہیں اور نتیجے کا پہلے ہی اندازہ ہو رہا ہے۔

ایفرون: امریکا کی سابقہ پالیسی کے مقابلے میں یہ تبدیلی کس حد تک غیرمعمولی ہے؟

عباس: گزشتہ جولائی میں صدر بش نے مجھ سے وائٹ ہائوس کی ملاقات میں کہا تھا کہ یہ (اسرائیلی) دیوار کی تعمیر جو مغربی کنارہ سے ہو کر گزرتی ہے‘ کو بند ہونا چاہیے۔ وہ بہت خفا ہوئے جب میں نے انہیں نقشہ دکھایا۔ انہوں نے یہ نقشہ ڈِک چینی کے سامنے پھینکتے ہوئے اس سے کہا کہ اب آئندہ آزاد فلسطینی ریاست کا کوئی امکان نہیں ہے۔

ایفرون: آپ سے بش نے اور کیا کہا؟

عباس: انہوں نے کہا کہ ہم آخری حیثیت کے تعین کے لیے پچھلے چینل کی طرف جائیں گے۔ انہوں نے مجھے تاکید کی کہ ’’آئندہ تم واشنگٹن آئو۔ ہم اس چینل کو قائم کریں گے یعنی فلسطینی‘ اسرائیلی اور امریکی پر مشتمل چینل تاکہ ہم اس مسئلے پر خفیہ طور پر بات کے ذریعہ آخری حیثیت کا تعین کر سکیں‘‘۔

ایفرون: کیا یہ چینل کبھی قائم ہوا تھا؟

عباس: نہیں! یہ نہیں ہوا‘ اس لیے کہ ایک ماہ بعد ہی میں مستعفی ہو گیا۔

ایفرون: آپ نے کہا کہ فلسطینیوں کو غزہ کا کنٹرول سنبھالنے کی تیاری کرنا چاہیے‘ اس کے لیے کیا چیزیں درکار ہیں؟

عباس: اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں سکیورٹی کے ذرائع کو متحد کرنا چاہیے۔ ہمیں یقینا حماس اور اسلامی جہاد کے ساتھ بھی گفتگو کی ضرورت ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہم ان کے ساتھ کسی مفاہمت پر پہنچ سکتے ہیں۔

ایفرون: سکیورٹی ایجنسیوں کے اتحاد کی اتنی کیوں ضرورت ہے؟

عباس: ہمارے پاس سکیورٹی کے کم از کم ۱۲ ادارے ہیں‘ جن پر کسی کا کنٹرول نہیں ہے۔

ایفرون: آپ نے کہا کہ حکام کو حماس کے ساتھ کسی مفاہمت پر پہنچنا چاہیے۔ کس قسم کی مفاہمت؟ جب آپ وزیراعظم تھے تو شیرون نے غزہ خالی کرنے کی پیش کش کی تھی۔ اس کا کیا ہوا؟

عباس: اس سے میری بڑی مدد ہوئی۔ اس سے ہمیں ہمارے عوام کے درمیان طاقت اور عزت دونوں ملیں۔

ایفرون: آپ نے استعفیٰ کیوں دے دیا؟

عباس: تین وجوہات سے۔ (۱)شیرون نے مجھے کچھ نہیں دیا۔ (۲)میرے ساتھیوں نے مجھ پر حملہ کر دیا۔ (۳)اور بش میری مدد کے لیے تیار نہ ہوئے۔

ایفرون: ساتھیوں کی جانب سے کس طرح کا حملہ ہوا؟

عباس: ہمارے خلاف نفرت و غصہ کو ہوا دی گئی۔

ایفرون: کس قسم کا غصہ؟

عباس: الفاظ سے ہم پر حملہ کیا گیا بلکہ ہمارے خلاف الفاظ سے زائد کچھ استعمال کیا گیا۔ فلسطینی لیجسلیٹو کونسل کے سامنے ہمارے خلاف مظاہرہ کیا گیا۔ یہ اس کا نقطۂ عروج تھا۔ لہٰذا اس کے بعد ہی میں نے استعفیٰ دے دیا۔ یہ ۴ ستمبر کی تاریخ تھی۔ اس کے بعد میں نے ایک بند کمرے کی ملاقات کا مطالبہ کیا جس میں‘ میں نے تمام راز فاش کر دیے اور پھر چیئرمین عرفات کو اپنا استعفیٰ نامہ بھیج دیا۔

ایفرون: بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ قومی رہنمائوں کو لوگوں کی تنقید اور غصے کا سامنا کرنا چاہیے۔

عباس: یہ سچ ہے لیکن کیا اس وقت بھی جب کوئی میرے قتل کے درپے ہو جائے؟ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ کوئی میرے قتل کے درپے ہے۔

ایفرون: آپ کے قتل کا درپے؟

عباس: ہاں! یا فتح کے اندر خون خرابہ کرانا چاہتا ہے۔

ایفرون: اس قسم کے کتنے اشتعال انگیز اقدامات عرفات کی طرف سے ہوئے؟

عباس: میں کسی کا نام لینا نہیں چاہوں گا۔ لیکن میں آپ کو اس بات کو سمجھنے کے لیے کچھ اشارہ دوں گا اور وہ یہ کہ مستعفی ہونے کے بعد سے آج تک چیئرمین کے ساتھ میرا کوئی رابطہ نہیں ہے۔

ایفرون: جب آپ رملہ میں ہوتے ہیں تو کیا آپ ان سے نہیں ملتے ہیں؟

عباس: میں رملہ میں رہتا ہوں اور وہ مجھ سے سو میٹر کے فاصلے پر رہتے ہیں۔ نہ ان کے پاس جاتا ہوں‘ نہ ان سے ملاقات کرتا ہوں اور نہ ہی ان سے میرا کسی قسم کا ربط ہے۔

ایفرون: آپ کس صورتحال میں دوبارہ سابقہ پوزیشن پر واپس جانا چاہیں گے۔

عباس: کسی بھی صورتحال میں نہیں۔ میں واپس نہیں جائوں گا۔

٭٭٭

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*