آپ جانتے ہیں کہ آج اشاعت و طباعت کے اعتبار سے بڑی مایوسی کی فضا ہے۔ جب کہ اَن گنت نوجوانوں کی طرف سے درخواستوں کا ایک طویل سلسلہ جاری ہے‘ جن میں یہ عبارت مشترک ہے کہ ’’وہ لکھنے کے خواہشمند ہیں۔‘‘ ایک وقت تھا جب میں ایسی ہی قطار میں تھی اور اب میں وہ ہوں جس کے پاس درخواستیں فیصلہ کن مرحلے میں ہوتی ہیں اور مجھے تقریباً ہمیشہ مایوسی ہوتی ہے کہ لکھنے کی خواہش وہ لوگ رکھتے ہیں جو لکھنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ غلطی کہاں ہوئی ہے؟
بالخصوص نئے انشاء پرداز لوگ رُک نہیں رہے۔ ان کی نظر میں نئی تحریریں جو نئے لکھاریوں کی کاوشوں کا نتیجہ ہیں‘ چنداں اہمیت کی حامل نہیں۔ کیوں؟ یہ بات قاری کے سوچنے کی نہیں‘ لکھاری کے سوچنے کی ہے۔ دراصل بغیر کسی مشکلات کا سامنا کیے ہوئے آمدنی کو آتے ہوئے سوچ کر لکھنے کی چاہ اور بڑھ جاتی ہے۔ ان حالات میں جب آپ مذکورہ شعبے کو اپنی زندگی کے معمول میں شامل نہیں کریں گے اور اپنے اخراجات کے لیے اضافی آمدنی آپ کے لیے باعثِ کشش ہو گی تو آپ کیا کریں گے؟ لکھیں گے‘ ضرور لکھیں۔ لیکن اگر بدقسمتی سے آپ کی قلبی توجہ نہ رہی تو اس کا عکس آپ کی تحریر میں نمایاں ہو گا اور اگر آپ تحریر کے کسی بھی نوع کے زمرے میں نہیں آرہے یا موزوں نہیں ہیں تو آپ کیا کریں؟
بہتر ہے کہ آپ سب سے پہلے طبع شدہ تحریر کا مطالعہ کریں‘ قبل اس کے کہ آپ لکھنے کا ارادہ کریں۔ انٹرنیٹ یا ویب سائٹس کا سروے کرنا بڑی اچھی بات ہے مگر ناکافی ہے۔ اس سے قبل آپ کو باقاعدہ کچھ ایسے موضوعات کا انتخاب کرنا ہو گا جن میں آپ کا رجحان ہو‘ بعد ازاں اپنے منتخب شدہ موضوعات کے دائرے میں رہتے ہوئے مواد کا سامان کریں۔ کچھ مواد تو ایسے ہوں گے جو محض آپ کے احساسات و تخیلات کے محتاج ہوں گے جو شاید آپ کو مزید مواد کے لیے بہتر سمت مہیا کریں۔ یہ بھی ضروری ہے کہ اس کا علم کہ کس قسم کے موضوعات کی طباعت کے لیے سب سے زیادہ مانگ ہے اور وقت کی ضرورت ہے۔ ان سب باتوں کا علم مستقل اشاعت کے مستقل مطالعے سے ہوتا ہے۔ تواتر سے مطالعے کا سب سے اہم فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آپ جان جاتے ہیں کہ کن کن موضوعات پر کہاں کہاں تک کام ہو چکا ہے۔ اس طرح آپ مطلوبہ موضوع کی تحقیق کا سلسلہ وہاں سے شروع کرتے ہیں جہاں ہر موضوع کا اختتام ہوا تھا اور مزید یہ کہ موضوع کو ایک نیا موڑ دے سکتے ہیں جو قاری کے لیے نیا ہو۔ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ جو مضامین یا تحریری اشیاء اشاعت کے لیے ہوں‘ وہ تقاریر یا عام سطح کے مضامین نہیں ہوتے جو اسکول‘ کالج یا جامعہ کا ہو بلکہ ایک مخصوص پیشہ ورانہ رنگ لیے ہوئے کسی مخصوص موضوع پر کیا گیا ایک خاص سطح کا کام ہوتا ہے جس میں فرار کی گنجائش نہیں ہوتی۔ اگر آپ ایسی ہی کسی تحریر کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں جو کالج یا جامعہ کے لیے کسی طالب علم کی جانب سے کیا گیا ہو یا اسی طرح کے معیار کا ہو تو اس کا مطلب ہے کہ آپ اپنے پبلشر یا قاری کو آئندہ اپنی تحریر سے دور کر رہے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی ذہن میں لازمی ہونی چاہیے کہ کسی بھی قسم کے مضمون یا عبارت کی چوری آپ کے تحریری مستقبل کو تباہ و تاریک کر سکتی ہے۔ البتہ اگر آپ کی طرزِ تحریر میں جدت ہو‘ الفاظ کی ترتیب و تدوین عمدہ ہو‘ ان میں روانی ہو تو مدیر کی نظریں آپ کے مضمون پر رُک جائیں گی۔ تعاون و رہنمائی کے اعتبار سے ’’گوگل‘‘ ویب سائٹ واقعتا بڑی اہم ہے لیکن اگر آپ مختلف سائٹس پر جا کر مختلف عبارتوں کو ترتیب دے کر آگے بڑھائیں گے تو یہ بات ثابت ہو جائے گی کہ آپ میں لکھنے کی اہلیت نہیں اور آپ کو اپنی تحریر پر بھروسہ نہیں اور اس طرح کی باتیں آپ کی راہیں مسدود کر دیں گی۔
ایسے ساتھی جو تحریر کے شعبے میں قدم رکھنے کے خواہاں ہیں‘ ان کے لیے میرا مشورہ ہے کہ اپنے مطالعہ کو وسیع کریں اور اتنا وسیع کریں کہ ہر اس اشاعت کا جو اخبارات و رسائل و جرائد میں آپ کے متعلقہ و مطلوبہ رقم کر رہا ہو‘ مطالعہ لازمی کریں۔ اس طرح آپ انشاء پردازی کے مختلف و متفرق طرز سے واقف ہو جائیں گے۔ اس طرح مذکورہ عمل سے آپ بڑی سہولت سے اپنا ایک مخصوص اور انفرادی طرزِ تحریر کو تخلیق کرنے کے قابل ہو جائیں گے اور اگر آپ ایک تجربہ کر چکے ہیں تو اپنی طرزِ تحریر پر بھروسہ رکھیے اور ہاں اگر آپ سے غلطی ہو تو فکر لاحق نہیں ہونی چاہیے کیونکہ عمر بھر ہماری غلطیوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور ہر غلطی ہمیں کچھ نئی باتیں سکھاتی ہے۔ چلتے چلتے بتاتی چلوں کہ اچھی تحریر بذاتِ خود ایک کارنامہ ہے۔ لیکن اگر آپ خود کو ایک قاری تصور نہ کریں تو تحریر کے وہ مواقع جو آپ کے ہاتھ سے نکل جائیں گے‘ اس بات کے مظہر ہوں گے کہ ’’پہلے قاری، پھر لکھاری۔‘‘
(بشکریہ: روزنامہ ’’ڈان‘‘۔ ۲۱ فروری ۲۰۱۰ء۔ ترجمہ: ذیشان سلیم)
Leave a Reply