صحافت جمہوریت کا چوتھا ستون ہے جو جمہوریت کی کارروائیوں پر عقابی نگاہ رکھتی ہے۔ مقننہ، منتظمہ اور عدلیہ ان تینوں کا بہت اہم کردار ہے۔ اگر کسی بھی وقت ان تینوں میں سے کوئی بھی اپنی حدِ اختیار سے تجاوز کرتا ہے تو میڈیا اسے متوازن کرنے کے لیے اپنا فرضِ مقدس انجام دیتا ہے تاکہ معاشرے کا کوئی بھی طبقہ نقصان میں نہ رہے اور استحصال کا شکار نہ ہو۔ کمزور طبقات بالخصوص اقلیتیں استحصال و ناانصافی کا آسان شکار ہوتی ہیں۔ یہ میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس امر کو یقینی بنائے کہ بھارتی معاشرے کے ان طبقات کو جو ہر دم خطرے سے دوچار ہیں، انصاف ملے۔ بھارت میں میڈیا اپنے خیالات کو پیش کرنے میں پوری طرح آزاد ہے۔ آزادی سے پہلے ہمارے یہاں اردو اور ہندی پریس دونوں جسدِ واحد کے طور پر بیرونی قوتوں کے خلاف سرگرم عمل تھے لیکن آزادی کے بعد کے ہندوستان میں اردو پریس مستقل ہندی پریس کے حق میں جگہ چھوڑتا چلا گیا۔ اس کے نتیجے میں اردو پریس زوال سے دوچار ہوا اور ایک وقت ایسا آیا جب اردو صحافت بُری طرح سکڑ گئی، حتیٰ کہ اردو اخبارات کے پڑھنے والے صرف مسلم برادری میں رہ گئے۔ بیسویں صدی کے آخری سالوںسے صورتحال مزید بگڑ گئی اور اردو اخبارات مسلمانوں میں بھی صرف ضعیف العمر افراد تک محدود رہ گئے۔ رفتہ رفتہ مگر مستقلاً اردو کی مقبولیت گر کر مسلمانوں میں بھی بہت کم رہ گئی۔ اردو زبان صرف مسلمانوں تک ہی محدود نہیں رہ گئی بلکہ یہاں بھی ترجیحات بدلتی معلوم ہو رہی ہیں۔ آزادی کے بعد اردو کے زوال کے ساتھ ساتھ ہندی بولنے والوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوا کیونکہ ہندی بھارت کی قومی زبان ہے۔ اس اضافے کے سبب ہندی روزناموں اور رسالوں کو بھی بہت تقویت ملی۔ سادہ زبان میں یوں سمجھیے کہ آزادی کے بعد اردو کا زوال اور ہندی کا عروج دونوں نے مل کر ایک سنگین صورتحال کوجنم دیا۔ اردو کے زوال کے سبب مسلمان کنارے لگا دیے گئے، کیونکہ ہندی پریس ان کے مسائل اور آرزوئوں کو سامنے لانے میں ناکام رہا۔ ان کی شکایتوں کو ہندی پریس میں چھوٹی خبر کی صورت میں جگہ ملی اور اگر اردو اخبارات میںایسی خبروں کو اہمیت دی بھی گئی تو ان کا حلقۂ مطالعہ محدود ہونے کے سبب نتیجہ بے اثر رہا۔ مزید برآں یہ منفی صورت حال بھارتی معاشرے کے دو عظیم ترین حصے یعنی ہندو اور مسلمان کے مابین روز افزوں خلیج پر منتج ہوئی۔ اس روز افزوں رجحان کے پیش نظر مسلمانوں کے مسائل اور ان کی پریشانیاں صرف انہی کا دردِسر رہ گیا۔ بنیادی طور سے عدم واقفیت کے سبب عظیم تر اکثریت یا حکومت ان کی قابل رحم صورتحال سے لاتعلق رہی۔ دوسرا مرحلہ اس وقت سامنے آیا جب بابری مسجد کا ایک غیر ضروری مسئلہ رام جنم بھومی تحریک اور منڈل کمیشن نے معاشرے میں نفوذ حاصل کرلیا۔ جب ہم بابری مسجد کے انہدام کے بعد کی صورتحال کا قریب سے جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں پریس رپورٹ تک بالکل یکطرفہ نظر آتی ہے۔ حتیٰ کہ بعض غیر متنازع نکات جو مسلمانوں کے حق میں جاتے تھے، پریس میں اپنا جائز مقام پانے سے عاجز رہے۔ یکساں تجربات کا اس وقت بھی مشاہدہ ہوا جب منڈل کمیشن کی سفارشات کو نافذ کیا گیا۔ پسماندہ طبقات مناسب توجہ سے محروم رہے اور میڈیا نے منڈل کمیشن کے خلاف خود ایک جنگ چھیڑ دی، اس لیے کہ میڈیا اعلیٰ ذات کے افراد کے ہاتھوں یرغمال ہے۔ ۱۹۹۰ء کی ریزرویشن مخالف احتجاجی تحاریک کو میڈیا کی پوری حمایت حاصل تھی جہاں اعلیٰ ذات کے طبقے کی اجارہ داری ہے۔ مزید گہرا تجزیہ اس کی تصدیق کرتا ہے کہ ہندی پریس کا کردار بنیادی طور سے ’’سُوَرن وادی‘‘ یعنی طبقۂ اشراف کا حامی تھا نہ کہ غیر جانبدار، اس رویے کی تاریخی وجوہات ہیں۔ بھارتی معاشرے میں ذات پات کا ہمیشہ اہم کردار رہا ہے۔ اس کے مقابلے میں پیداوار کی ’’ملکیت‘‘ اور اضافی پیداوار کے جز کا کردار کم تر رہا ہے۔ ہندوستانی معاشرے کے اوصاف نے خواندگی اور اظہار کو اشرافیہ لیا ہے۔ اس کے نتیجے میں ہندی صحافت پر اعلیٰ ذات کے طبقوں کا کُلّی اقتدار ہے۔ چنانچہ اچھوتوں، قبائلیوں اور اقلیتوں کو یہاں جگہ نہیں مل پاتی ہے اور اگر کبھی مل بھی گئی تو وہ لازمی طور سے نامکمل ملتی ہے۔ آپ اندازہ کریں اگر صرف پچاس فیصد مالکان مدیروں اور صحافیوں کا تعلق دلتوں، قبائلیوں، پسماندہ ذاتوں اور اقلیتوں سے ہو تو کیا ’’منڈل‘‘ اور ’’کمنڈل‘‘ کو اتنی ہی کوریج ملتی؟ ہر کوئی یہ اندازہ کر سکتا ہے کہ اس صورت میں کوریج مختلف ہوتی اور یقینی طور سے ایسی کوریج ہوتی جو بدرجہا معقول، منطقی اور منصفانہ ہوتی۔ ۱۱؍ستمبر ۲۰۰۱ء کے افسوسناک واقعہ نے عالمی سطح پر یکطرفہ رپورٹنگ کے رجحان کو تقویت بہم پہنچائی ہے۔ چونکہ الزام القاعدہ پرآیا، اس لیے میڈیا نے عالمی سطح پرمسلمانوں کوبغیر کسی سند اورتصدیق کے ہدف بنانا شروع کردیا۔ دنیا میں جہاں کہیں بھی اورجب کبھی بھی دہشت گردی کاکوئی واقعہ رونماہوتا ہے توشک کی انگلیاں مسلمانوں کی جانب اٹھتی ہیں۔ اس صورتحال کاسہرا یہودیوں کے سرہے۔ ہزارہا سال سے انہوں نے مسلمانوں اور عیسائیوں کواپنا نمبر ایک دشمن قرار دیاہوا ہے۔ چونکہ عیسائی ہر میدان میںمضبوط اور طاقتورہیں، لہٰذا وہ انہیں ہدف نہیں بناتے لیکن میڈیا پر اپنی گرفت کے سبب مسلمانوں کو وہ اس طرح پیش کرتے ہیں کہ تصویر دہشت گرد کی بنتی ہے۔ ایک جائزے سے یہ پتا چلتاہے کہ قریباً سو سال پہلے عالمی سطح پرسو نیوز ایجنسیاں فعال تھیں، جن کی تعداد سمٹ کر اکیسویں صدی کے اوائل میں صرف ۲۰ رہ گئی ہے۔ ان ۲۰ نیوز ایجنسیوں کے ۶۶ فیصد پر یہودیوں کاکنٹرول ہے۔ پوری دنیامیں یہ نیوز ایجنسیاں خبریںفراہم کرتی ہیں جن کی اشاعت بغیر کسی تصدیق کے ہوتی ہے۔ یہ طرزِ عمل ہندوستانی مسلمانوں کو بھی پوری دنیامیں بدنام کر رہا ہے کیونکہ ہندوستان کے ہندی اور انگریزی پریس بھی اس ستم ظریفی پر کاربند ہیں۔ اگر مسلمانوں کی میڈیا میں مناسب شراکت ہوتی تو اس ناگفتہ بہ صورتحال تک نوبت ہر گز نہ پہنچتی۔ ممبئی کے ٹرین دھماکے پر قریبی تجزیے کی کوریج کے نتیجے میں ایک عجیب و غریب صورتحال ابھری۔ ان دھماکوں کے چند منٹ بعد الیکٹرانک میڈیا نے بڑے وثوق کے ساتھ اعلان کیا کہ ان دھماکوں میں کون سے دہشت گرد ملوث ہیں۔ علاوہ ازیں سیکورٹی ایجنسیوں نے بھی بغیر کسی تفتیش کے اسی روش کی تقلید کی۔ پورے کا پورا پریس چند استثنیٰ کوچھوڑ کر اسی خط کی پیروی میںہم آواز تھا۔ اگرچہ تمام تنظیموں نے سختی سے ان دھماکوں کی مذمت کی تھی لیکن میڈیاکے تقریباً تمام ذرائع نے سوائے اردوپریس کے یہ تاثر دیاکہ مسلمانوں کارویہ ان وحشیانہ دھماکوں کے حوالے سے سردمہری کا تھا۔
میڈیا کس طرح حکومتی تفتیش کو بھی توڑ مروڑ کرپیش کر سکتا ہے، اسے اس واقعہ کی روشنی میں سمجھا جاسکتا ہے جو ۸ ستمبر ۲۰۰۶ء کو مالیگائوں میںپیش آیا اور جس میں ۴۰؍افراد ہلاک اور ۲۰۰؍افراد زخمی ہوئے تھے۔ بغیر کوئی وقت ضائع کیے میڈیا نے اپنے خیال اور رائے کی تشہیر شروع کر دی اوربعض مسلمان دہشت گرد گروہوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کے اس واقعہ میںملوث ہونے کی خبر دے دی۔ دوسرے روز پرنٹ میڈیا نے اسی خبر کو چلا دیا۔ تفتیشی ایجنسیاں بھی انہی خطوط پر کاربند رہیں اور ان اہم حقائق کو بڑی آسانی سے نظرانداز کر دیاجو مسلمانوں کے علاوہ کسی دوسرے دہشت گرد گروہوں کے ملوث ہونے کے امکان کو ظاہر کرتے تھے۔ مسلمان بیک وقت دہشت گردی کے شکار بھی ہیں اور ملزم بھی ہیں۔ اس رویے کی تکرار اس لیے ہے کہ میڈیا میں مسلمانوں کی کوئی شراکت نہیں ہے اور اس کی وجہ سے میڈیا اپنے بنیادی فرائض سے روگرداں ہے۔ ایسی صورتحال مسلمان اپنے آپ کو بے بس پاتے ہیں۔ اردو پریس جو ان کے مقدموں کابیڑہ اٹھاتے ہیں، ان کی رسائی غیر مسلموں تک نہیں ہے، میڈیا محض شک کی بنیاد پر ایسے نتائج اخذ کرتاہے جن سے مسلمانوں کی ساکھ داغدار ہو رہی ہوتی ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کے پاس بہت محدود راہِ انتخاب ہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ ایک پورا سلگتا مسئلہ بھی ہے اور وہ ہے ان کے مذہبی قوانین کا مسئلہ۔ جیسا کہ پہلے بھی بیان کیا گیا ہے کہ میڈیا ایسی قوتوں کے کنٹرول میں ہے جو مسلمانوں کو نشانہ بنانے پر معتبر ہیں لہٰذا یہ مسلمانوں کے حوالے سے مسخ شدہ خبریں اور آرا پیش کرتا ہے۔ مسلمانوں کے مذہبی قوانین کو اکثر بنیاد پرستی اور پسماندگی کامظہر قرار دیا جاتاہے۔ چونکہ میڈیا فرقہ وارانہ عناصر کے ہاتھوں میںمہرہ ہے تو یہ اکثر ایسی چھوٹی اور معمولی خبر کو بھی دینے سے گریز نہیں کرتاہے جن سے مسلمانوں کاچہرہ مسخ ہوتاہے۔ اسی طرح میڈیا نے مسلم خواتین کے حوالے سے بھی دہرا پیمانہ اختیار کر رکھا ہے۔ ایک طرف تویہ ان کو انتہائی مظلوم ترین اور ستم رسیدہ طبقے کے طور پر پیش کرتاہے اور دوسری جانب جب فرقہ وارانہ فسادات میں ان کی آبروریزی ہوتی ہے اور ان کا قتل ہوتا ہے تو ایسے اہم حقائق کو میڈیا نظرانداز کر دیتا ہے۔ میڈیا مطلقہ عورتوں کو ان کے سابق شوہروں کی جانب سے نان نفقہ دیے جانے کی وکالت کرتا ہے، لیکن جب یہی عورتیں فسادات میںلوٹ مار، قتل وغارت گری اور عصمت دری کی شکار ہوتی ہیں تو ان کے لیے کسی ہرجانے کا کبھی مطالبہ نہیں کرتاہے۔
ان تمام حقائق کو جاننے کے باوجود مسلمان ایسی اشاعتیں خریدنے اورپڑھنے پراپنے آپ کومجبور پاتے ہیں، اس لیے کہ اُن کے پاس اِس کاکوئی دوسرا متبادل نہیں ہے۔ کون نہیں جانتا ہے کہ مدرسہ وہ تعلیمی ادارہ ہے جو مسلم معاشرے کے ایسے طبقے کے بچوں کو تعلیم فراہم کرتا ہے جو نجی تعلیم کے مہنگے اخراجات کوبرداشت نہیں کر سکتے ہیں۔ ان مدرسوں میں ایک بڑی تعداد اُن بچوں کی ہے جن کے والدین فرقہ وارانہ فسادات میں مارے گئے ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ جمہوریت کے اس چوتھے ستون کو آگے آنا چاہیے اور حکومت سے مطالبہ کرنا چاہیے کہ وہ ان اداروں کو امداد فراہم کرے جو معاشرے کے انتہائی نظرانداز شدہ طبقے کی خدمت انجام دے رہے ہیں، بجائے اس کے کہ وہ ان اداروں کو دہشت گردوں کا ٹھکانہ قرار دے۔ را کا ایک خصوصی محکمہ تشکیل دیا جارہا ہے جو ان اداروں کی نگرانی پر مامور ہوگا۔ اب تک یہ بتایا گیاہے کہ کس طرح صحافی حضرات اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں اور کس حد تک وہ اخلاقی طور پر حق بجانب ہیں۔ ہمیں پریس کی بدنیتی کی ایک دوسری روشن مثال پیش کرنی چاہیے۔ جب کوئی آوارہ لڑکا مسلم یونیورسٹی کی کسی طالبہ کا دوپٹہ چھین لیتا ہے، جسے وہ لڑکی پہچانتی بھی نہیں ہے تو پورا میڈیا اس طرح شور مچاتا ہے گویا کوئی لڑکی مذکورہ یونیورسٹی کیمپس میں محفوظ نہیں ہے۔ اسی کو بہانہ بنا کر میڈیا مسلم یونیورسٹی کو بھی بدنام کرنے کی مہم شروع کر دیتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہندی اور انگریزی پریس خاص رنگ میں رنگے ہوئے ہیں اور پسماندہ طبقوں کی خدمت اور جمہوریت کے غلط استعمال کی روک تھام کے حوالے سے اپنے فرائض فراموش کر بیٹھے ہیں۔ وہ تمام حقائق جو اوپر زیر بحث آئے ہیں، ظاہر کرتے ہیں کہ ہندی اور انگریزی پریس کو مسلمانوں کے مفادات سے قطعاً کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ میڈیا اور مسلمانوں کے مابین خلیج روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔ انہیں فوری طور سے اپنے میڈیا کی ضرورت ہے یا ایسے میڈیا کی ضرورت ہے جس میں ان کا وافر حصہ ہو۔
شمالی ہند میں ہندی میڈیا ان کے مقصد کوپورا کرسکتا ہے۔ اگر مسلم تاجروں، دانشوروں اور سیاست دانوں کی جانب سے ہندی روزناموں اورپرچوں کے اجرا کی کوشش اور مسلم مفادات کی تکمیل کے ساتھ ساتھ قومی مفادات کی نگرانی کی جائے۔ یہ حکمتِ عملی غیر مسلموں کو دوبارہ مسلمانوں سے قریب کر دے گی، جومیڈیا کی جانب سے واقعات کی غلط تصویر کشی کے سبب ایک دوسرے سے دور ہو گئے ہیں۔
بہرحال اس حوالے سے کچھ بیداری شمالی ہندوستان میں دیکھنے میںآئی ہے۔ مقامی سطح پر بعض ہندی اشاعتیں قابلِ لحاظ اثرپذیری کے ساتھ منظرِ صحافت پرابھر رہی ہیں، مثلاً شاہ ٹائمز (دہرہ دون)، سلامِ وطن (علی گڑھ)، سن رائز (جے پور)، پندرہ روزہ سُوَچھ سندیش (لکھنؤ) نیزاوربھی دوسری اشاعتیں جن کااجرا جے پور، اندور، کانپور اور لکھنؤ سے ہو رہا ہے اور یہ تھوڑا بہت ضرب پہلے سے مستحکم مگر جانبدار میڈیاکے راڈار پر لگا رہی ہیں۔ اس موقع پر یہ نشاندہی مناسب ہوگی کہ ’’سُوَچھ سندیش‘‘ ایک پندرہ روزہ میگزین ہے جو مسائل پر ناقدانہ نگاہ مسلمانوں کے نقطہ نظر سے ڈالتا ہے۔ اسی طرح سے بعض مسلم انگریزی اشاعتوں کابھی اب نوٹس لیا جارہاہے۔ ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کی زیر ادارت نئی دہلی سے ’’ملی گزیٹ‘‘ نکل رہا ہے۔ ڈاکٹر صاحب مسئلہ فلسطین پرایک اہم سند شمار کیے جاتے ہیں۔ یہ جریدہ دوسروں کو بھی اپنی پالیسی پرنظرثانی پرمجبور کررہاہے۔ ملی گزیٹ کوئی معمولی جریدہ نہیں ہے۔ یہ ان حقائق و اعداد و شمار کا بھنڈار ہے جنہیں عام اشاعتیں نظرانداز کر رہی ہیں۔ اس کے علاوہ مشرق وسطیٰ کی کوریج کی وجہ سے عالمی سطح پر اس کو نمایاں مقام حاصل ہے۔
یہ دلچسپ بات ہے کہ اس کی ویب سائٹ کافی مقبول ہے اور وزٹ کرنے والوں کی تعداد کے لحاظ سے ہندوستان میں دوسرے نمبرپر ہے۔ دہلی سے انگریزی ہفتہ روزہ پابندی سے شائع ہوتا ہے اور یہ مسلمانوں کے معاشرتی، سیاسی و دینی مسائل کا احاطہ کرتا ہے۔ شاید یہ واحد مسلم اشاعت ہے جو مسلمانوں کے مسائل کا اسلامی نقطۂ نگاہ سے جائزہ لیتی ہے اور جو اسلامی جذبے سے سرشار ہے۔ اس کے علاوہ یہ اپنی نوعیت کا باقاعدگی سے نکلنے والا پرچہ ہے۔ قابل ذکر ہے کہ اس کی کاپیاں مسلم دنیا کی بیشتر لائبریریوں میں دستیاب ہیں بشمول مشرق وسطیٰ۔ Islamic Voice اور Young Muslim Digest یہ دونوں پرچے بنگلور سے شائع ہو رہے ہیں اور یہ بھی اہم خدمت انجام دے رہے ہیں۔ نئی دہلی سے ایک انگریزی روزنامہ “News From India” شائع ہوتا ہے جس کی ایک الگ کلاس ہے۔ اس کی حیثیت اس معنی میں بل بورڈ (معلومات شہری) کی ہے کہ یہ مسلم دنیا کی خبریں مختلف اہم ویب سائٹوں سے جمع کرتا ہے۔ یہ باقاعدگی سے شائع ہونے والا ایک انتہائی معلومات افزا روزنامہ ہے۔ اس طرح کی اشاعتوں کی حمایت وقت کا مطالبہ ہے۔ مسلمان ان کی مدد مختلف طریقوں سے کرسکتے ہیں۔ ان کو خرید کر،… ان میں اشتہار دے کر، نیز ان میں مضامین تحریر کرکے۔ میرے خیال میں یہ مسلم امہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس طرح کی اشاعتوں کی مدد مشنری جذبوں کے ساتھ کر لے۔ مذکورہ بالا اور کئی دوسری مسلم اشاعتوں کے ساتھ ساتھ ہمیں سیکولر میڈیا کی بھی مدد کرنی چاہیے۔ “The Hindu” اس طرح کاایک روزنامہ ہے جو ہمیشہ غیر جانبدار رپورٹنگ کو کوریج دیتاہے۔ یہ میری حقیر رائے ہے کہ اس طرح کی اشاعتوں سے ہمیں دوری اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیں ان صحافیوں اور اشاعتوں کی ضرور مدد کرنی چاہیے جو اخلاقی طور سے اپنے فرائض انجام دے رہی ہیں۔ آخری بات یہ کہ مسلمانوں کو سمجھنا چاہیے کہ یہ دور میڈیا کا دور ہے۔ بغیر کسی موثر میڈیا کی حمایت کے کوئی تحریک، کوئی جدوجہد، کوئی احتجاج، حتیٰ کہ کوئی جنگ کامیاب نہیں ہوسکتی ہے۔ ہماری اولین ترجیح میڈیا ہونی چاہیے۔ ہندی، انگریزی اوردوسرے علاقائی زبانوں کا میڈیا۔
نوٹ: مضمون نگار علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ قانون میں سینئر ریڈر ہیں۔
(بشکریہ: ہفتہ روزہ ’’ریڈینس‘‘ نئی دہلی۔ شمارہ ۱۸ تا ۲۴ مارچ ۲۰۰۷ء)
Leave a Reply