اس مختصر مضمون کے مصنف طارق البشری ہیں جو مصر کے آئین پر نظرثانی کرنے والی کمیٹی کے چیئرمین ہیں۔ ان کے خیالات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ مصر میں تبدیلی کا جو نیا ڈھانچہ استوار کیا جارہا ہے، اس کی اصل حقیقت کیا ہے؟ دستور میں بالواسطہ منتخب دستور ساز اسمبلی ترامیم تجویز کرے گی۔ لیکن اس کی منظوری کے لیے ریفرنڈم کرایا جائے گا عملاً مصر پر حسنی مبارک کے بعد بھی فوج ہی حکومت کر رہی ہے۔
سالِ رواں کے جنوری میں حسنی مبارک کا دور اپنے اختتام کو پہنچا۔ مصر میں کئی عشروں سے ہر نوع کے اختلاف کا باب بند چلا آرہا تھا۔ سیاسی جماعتوں کو کسی قسم کی سیاسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں۔ پیشہ وارانہ تنظیموں کو نیست و نابود کیا جاچکا ہے۔ مزدور تنظیمیں حکومت کے خفیہ کارندوں کے کنٹرول میں ہیں۔ ان حقائق کے علی الرغم ہر حکومت کے پاس کوئی نہ کوئی قانونی جواز تو ہوتا ہی ہے۔ کسی حکومت کو گرانے کے لیے برپا ہونے والی تحریک کا مطلب یہ ہے کہ وہ تحریک اس قانونی جواز کو تسلیم نہیں کرتی، جس کی بنیاد پر حکومت کی عمارت کھڑی کی گئی ہے۔ اس صورت حال کا تقاضا ہے کہ ایک نیا قانونی جواز پیدا کیا جائے جو نئے نظام اور اس کے سیاسی اور معاشرتی مطالبات کا جواب پیش کرسکے۔ یہی وجہ ہے مصر کی پرانی حکومت اور پرانے نظام کی موت کے بعد نئے آئین کی تدوین ضروری ہو چکی ہے۔
وہ انقلابی قوت جس نے حسنی مبارک کو اٹھا باہر پھینکا، ایک عوامی تحریک تھی لیکن اس تحریک کے پاس وہ تنظیمی اور ادارتی قیادت نہیں تھی جو اقتدار سنبھال کر صدر حسنی مبارک کی حکومت تبدیل کر سکتی۔ لہٰذا اقتدار کی باگ ڈور فوج نے سنبھال لی۔ بالفاظِ دیگر سیاسی اقتدار سپریم ملٹری کونسل کو منتقل ہوگیا۔ اب انتقال اقتدار کا جواز آئینی نہیں، انقلابی تھا۔ اسی حقیقت کی بنیاد پر فوج نے مصری عوام کی حمایت کا اعلان کیا۔ عبوری دورِ حکمرانی کا قانونی مینڈیٹ حاصل کرنے کے لیے اور اس عزم کی تکمیل کے لیے کہ عوام کی کامیابیوں کا تحفظ کیا جائے گا اور عوام کی امنگوں کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ فوج نے اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ فوج نے ایک بیان جاری کیا جس میں اس بات کی توثیق کی گئی کہ فوج نے چھ ماہ کی محدود مدت کے لیے اقتدار پر قبضہ کیا ہے، اور یہ کہ آئین کو معطل کیا گیا ہے (اسے کالعدم نہیں کیا گیا) اور اس میں ترمیم کی جائے گی۔ دریں اثناء قانون ساز اتھارٹی، یعنی عوام کی اسمبلی اور مشاورتی کونسل دونوں کو تحلیل کر دیا گیا ہے۔
اس موقع پر لازم ہے کہ آئینی سیاسی اداروں کو جمہوری خطوط پرازسرنو تعمیر کیا جائے۔ یہ ہے وہ کام جو ۱۹۷۱ء کے آئین میں ترمیم کی خاطر اس کمیٹی کے سپرد کیا گیا ہے، جس کا میں چیئرمین ہوں۔
گزشتہ ہفتے ایک ریفرنڈم منعقد ہوا۔ ریفرنڈم میں ۱۹۷۱ء کے آئین میں مذکورہ کمیٹی کی تجویز کردہ مختلف ترامیم عوام کے سامنے رکھی گئیں۔ یہ ترامیم سیاسی صورتحال کے آئینہ دار نئے آئین کی منظوری تک برقرار رہیں گی۔ اگر مصری عوام کی اکثریت نے ترامیم کو مسترد کر دیا ہوتا تو سپریم ملٹری کونسل کو اپنی مرضی سے یہ فیصلہ کرنے کا موقع مل جاتا کہ وہ جو اقدام کرنا چاہتی کر گزرے، لیکن عوام کی اکثریت نے ریفرنڈم کا جواب اثبات میں دیا۔ اس کا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ اب سپریم ملٹری کونسل اس امر کی پابند ہے کہ عبوری دور کے لیے آئین میں تجویز کردہ ترامیم کے مطابق کام انجام دیا جائے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلا کام یہ ہے کہ دو سے تین ماہ تک پارلیمنٹ ایوانِ زیریں اور ایوانِ بالا دونوں کے انتخابات منعقد کرائے جائیں، بعدازاں جب دونوں ایوانوں کے منتخب نمائندوں کا اجلاس بلایا جائے تو وہ لازماً ۱۰۰ ارکان پر مشتمل دستور سازاسمبلی کا انتخاب کریں جو نئے آئین کا مسودہ تحریر کرے۔ اس کے بعد صدارتی انتخاب کرایا جائے اور منتخب صدر کو پابند کیا جائے کہ وہ ایک سال کے اندر اندر آئین کے مسودے پر ریفرنڈم کرائے۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ عوامی تحریک نے متعدد کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ پہلی کامیابی یہ ہے کہ عوام نے حسنی مبارک اور اس کے خاندان کا تختہ اُلٹ دیا۔ حسنی مبارک کے زوال کا واضح مطلب یہ ہے کہ حکومت اور طرز حکمرانی کی عمارت مسمار ہو چکی لہٰذا ریاست میں تبدیلی لازم ہے۔ مزید برآں حکومت اور حکمران طبقے کی متعدد شخصیات کو بھی ایوانِ اقتدار سے باہر نکال دیا گیا ہے۔ اس کا دوسرا بڑا نتیجہ یہ ہے کہ پولیس کا سیاسی اثر و رسوخ ختم ہو گیا ہے۔ سیاسی اثر و رسوخ نے پولیس کو عوام کو تحفظ فراہم کرنے سے غافل کر دیا تھا۔ اس کا تیسرا بڑا نتیجہ نوجوانوں پر مشتمل نئی نسل کی صورت میں نمودار ہوا۔ نوجوان نسل ایک طاقت ور لہر کی صورت میں اٹھی اور قوم کے سیاسی وجود کے دل کی دھڑکن بن گئی ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’پاکستان‘‘کراچی۔ترجمہ ذوالقرنین)
Leave a Reply