نئے یہودیوں کو اسرائیل میں بسانے کا منصوبہ

کیمپ ڈیوڈ اور اوسلو کے نام نہاد ’’امن معاہدوں‘‘ پر بغلیں بجانے والے اور اسے ’’آزاد فلسطینی ریاست‘‘ کے قیام کا پہلا زینہ قرار دینے والے بھلے ہی اپنی زبان سے اعتراف نہ کریں لیکن قیامِ انصاف کے بغیر قیامِ امن کی نام نہاد کوششوں کے ڈرامے کا حشر وہ بھی بچشمِ سر دیکھ رہے ہیں۔ چشمِ بصیرت سے تو وہ محروم ہیں ورنہ کیمپ ڈیوڈ کے وقت ہی انہیں وہ سب نظر آجاتا جو آج ربع صدی بعد نظر آرہا ہے۔ یروشلیم اعلانیہ اکتوبر ۲۰۰۳ء نے ثابت کر دیا ہے کہ آزاد فلسطینی ریاست کبھی اسرائیل کے ایجنڈے پر تھی ہی نہیں۔ صیہونیت نے اتنے پاپڑ اس لیے تھوڑی بیلے تھے کہ دو ہزار سال کی دربدری کے بعد جس زمین پر انہیں بالجبر غاصبانہ قبضہ ملا ہے اسے خود ہی طشتری میں سجا کر یا سر عرفات کے حوالے کر دیں۔ کویت سے نکلنے والے عربی ہفت روزہ اخبار ’’المجتمع‘‘ کے تازہ شمارے کے مطابق شیرون حکومت نے فرانس‘ امریکا اور کناڈا سے مزید کئی ہزار یہودیوں کو اسرائیل لاکر فلسطینی زمینوں پر ان کی کالونی بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ مرکز برائے دفاع ارضِ فلسطین کے حوالے سے کویتی ہفت روزہ نے لکھا ہے کہ تین ہزار فرانسیسی یہودیوں کو لاکر نابلس کے قریب ایک نئی یہودی کالونی میں بسایا جائے گا۔ جس کا نام ’’ایریل‘‘ رکھا گیا ہے۔ حیفہ کے شمال میں واقع اس مقام پر پہلے ہی سے سابق سوویت یونین سے لائے گئے نوہزار یہودیوں کی بستی موجود ہے۔ مزید تین ہزار فرانسیسی یہودیوں کو انہیں کے قریب نئی کالونی میں بسایا جائے گا۔ مرکز برائے دفاع ارض فلسطین کے صدر حسن ایوب نے بتایا ہے کہ صرف ایریل شیرون کے دورِ حکومت میں نئے غیرملکی یہودی رہائشی یونٹوں کی تعداد چودہ ہزار تک پہنچ گئی ہے۔ یہ اضافہ ان یونٹوں سے الگ ہے جو غزہ پٹی اور مغربی حیفہ کی کالونیوں میں موجود ہیں۔ ۲۳۰ یہودی حال ہی میں امریکا اور کناڈا سے اسرائیل لائے گئے ہیں۔ کیونکہ شیرون انتطامیہ کو خوف ہے کہ اگر دنیا بھر کے یہودیوں کو لاکر اسرائیل میں نہ بسایا گیا تو غزہ‘ مغربی کنارہ مشرقی یروشلیم‘ الخلیل (ہبرون) اور نابلس وغیرہ میں مسلم فلسطینی عربوں کی تعداد اسرائیل کی موجودہ یہودی آبادی سے زیادہ ہو جائے گی۔ ہندوستان کے شمال مشرق سے بنی مناشح اور اتر پردیش کے ملیح آباد اور قائم گنج سے گم شدہ اسرائیلی قبیلوں کے لوگوں کو اسرائیل لے جانے کی کوشش بھی اس مہم کا ایک حصہ ہیں۔ شیرون حکومت نے یورپ‘ امریکا اور کناڈا کے اخباروں میں اشتہارات دے کر وہاں رہنے والے یہودیوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اسرائیل آکر آباد ہوں تاکہ یہودیوں کی تعداد مسلمانوں سے کم نہ ہونے پائے۔ اسرائیلی اخبارات نے حال ہی میں ایک ہزار ایک نئے یہودی یونٹوں کی تعمیر کے ٹھیکوں کا اعلان کیا ہے اور اخبار‘ یدیعوت احرنوت‘ میں شائع ایک خبر کے مطابق مستقبل قریب میں مزید نئے یہودی رہائشی یونٹوں کی تعمیر کے ٹھیکے جاری کیے جائیں گے۔ مرزا عبدالرئوف نے اپنے مضمون ’’یہودیوں کو اسرائیل میں کیوں اکٹھا کیا گیا کیا بنی اسرائیل سے آخرت کا وعدہ آن پہنچا ہے‘‘ میں لکھا ہے کہ اﷲ جل شانہ نے وعدہ فرمایا ہے کہ ’’اور اس کے بعد بنی اسرائیل سے کہا کہ تم اس زمین میں رہو سہو پھر جب آخرت کا وعدہ آجائے گا تو ہم تم سب کو جمع کر کے لے آئیں گے‘‘۔ یہ سورۃ بنی اسرائیل کی آیت ۱۰۴ کا ترجمہ ہے۔ صاحبِ مضمون کا کہنا ہے کہ موجودہ ریاست اسرائیل کا قیام محض اینگلو۔ امریکن سازش نہیں بلکہ اس ریاست کے قیام کے ساتھ ہی ’’آخرت کا وعدہ‘‘ کے دور کا آغاز ہو گیا ہے اور سورہ بقرہ کی آیت ۸۵ پر نظر ڈالیں تو اشارہ ملتا ہے کہ اﷲ تبارک و تعالیٰ انہیں یہودیوں کو عذابِ آخرت کے لیے پھر سے فلسطین میں اکٹھا کر رہا ہے۔

(بشکریہ: ’’اردو ٹائمز‘‘۔ ممبئی)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*