پروفیسر غلام اعظم کی ضمانت پر رہائی سے عدالت کا انکار

head of opposition

بنگلہ دیش میں قائم انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل نے جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے سابق امیر پروفیسر غلام اعظم کی درخواست ضمانت دوسری مرتبہ مسترد کردی ہے۔ ٹریبونل کے سربراہ جسٹس نظام الحق نے ریمارکس میں کہا کہ ایسی کوئی بھی شہادت سامنے نہیں آئی جس کی بنیاد پر یہ کہا جاسکے کہ (۸۹ سالہ) پروفیسر غلام اعظم کی صحت خرابی کی طرف رواں ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ کسی کا ۸۹ سال کا ہونا، بالخصوص الزامات کی سنگین نوعیت دیکھتے ہوئے، ضمانت کے لیے ضروری بنیاد فراہم نہیں کرتا۔ ٹریبونل کا یہ بھی کہنا ہے کہ پروفیسر غلام اعظم کو ۱۱ جنوری ۲۰۱۲ء کو حراست میں لیا گیا تھا۔ یعنی ابھی حراست کی مدت اتنی طویل نہیں ہوئی کہ ضمانت پر رہائی پر زور دیا جائے۔ ۲۳ فروری کو ٹریبونل میں سماعت کے موقع پر پروفیسر غلام اعظم کو بنگہ بندھو شیخ مجیب الرحمن میڈیکل یونیورسٹی ہسپتال سے لایا بھی نہیں گیا تھا۔ ٹریبونل نے عمر اور صحت دیکھتے ہوئے انہیں کمرہ عدالت میں حاضری سے مستثنیٰ قرار دیا تھا۔

پروفیسر غلام اعظم پر بنگلہ دیش کے قیام کی تحریک کے دوران ۶۲ انسانیت سوز واقعات میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ پروفیسر غلام اعظم ۱۹۷۱ء میں بنگلہ دیش کے قیام کی تحریک کے دوران پاکستانی فورسز کا ساتھ دینے والوں میں نمایاں تھے۔ ان کی پہلی درخواست ضمانت ۱۱ جنوری کو مسترد ہوئی تھی جب وہ عدالت میں پیش کیے گئے تھے۔ تب سے اب تک وہ جیل میں ہیں۔ ۲۳ فروری کو ٹریبونل میں کیس کی سماعت کے موقع پر پروفیسر غلام اعظم کے وکیل عبدالرزاق نے فاضل جج کے روبرو ان بیماریوں کی تفصیل بیان کی جن میں غلام اعظم مبتلا ہیں۔ ساتھ ہی فاضل جج کو یہ بھی بتایا گیا کہ بنگہ بندھو شیخ مجیب میڈیکل یونیورسٹی ہسپتال میں علاج کی بہتر سہولتیں میسر نہیں۔ عبدالرزاق نے عدالت کے روبرو حراست کی نوعیت کو بھی چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ اس بات کے آثار برائے نام ہیں کہ پروفیسر غلام اعظم پر فرد جرم عائد کی جاسکے گی۔ ٹریبونل کے حکم پر چیف پروسیکیوٹر غلام عارف ٹیپو نے بتایا کہ پروفیسر غلام اعظم کی دوسری درخواست ضمانت میں بھی وہی کچھ بیان کیا گیا ہے جو پہلی درخواست میں بیان کیا گیا تھا۔ انہوں نے ٹریبونل کے روبرو کہا کہ پروفیسر غلام اعظم جماعت اسلامی اور اس کی طلبہ تنظیموں البدر اور الشمس کے ماسٹر مائنڈ تھے۔ ٹریبونل نے اپنے حکم میں کہا کہ پروفیسر غلام اعظم نے جماعت اسلامی، البدر، الشمس رضاکار اور امن کمیٹیوں کی داغ بیل ڈالی جنہوں نے بنگلہ دیش کے قیام کی تحریک میں سنگین نوعیت کے جرائم کا ارتکاب کیا۔ ان پر یہ الزام بھی عائد کیا گیا ہے کہ قتل عام کے لیے انہوں نے رضا کاروں کو دینے کی غرض سے پاکستان کی مرکزی حکومت سے ہتھیار بھی طلب کیے۔ ٹریبونل نے یہ بھی کہا کہ بنگہ بندھو شیخ مجیب میڈیکل یونیورسٹی اسپتال میں طبی سہولتوں کی کمی کا شکوہ بے بنیاد ہے کیونکہ یہ ملک کے بہترین اسپتالوں میں سے ہے اور ملک میں اس سے بہتر سہولتوں کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ ان الفاظ کے ساتھ ہی ٹریبونل نے ضمانت کی درخواست مسترد کردی۔ اس کارروائی کے بعد عبدالرزاق ایڈووکیٹ نے ایک نئی درخواست جمع کرائی جس کا مقصد پروفیسر غلام اعظم کے لیے گھر سے کھانا فراہم کرنے کی اجازت دلانا تھا۔ ٹریبونل نے بتایا کہ یہ معاملہ جیل حکام سے تعلق رکھتا ہے۔ پہلے ان سے اجازت حاصل کرلی جائے تو ٹریبونل اس پر اپنی رائے دے گا۔ ٹریبونل کی کارروائی یکم مارچ تک ملتوی کردی گئی۔

(بشکریہ: ’’دی ڈیلی اسٹار‘‘ ڈھاکا۔ ۲۴ فروری ۲۰۱۲ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*