امریکا، یورپ اور چین اس اسٹول کی تین ٹانگیں ہیں جسے ہم عالمگیر یا عالمی معیشت کہتے ہیں۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ کچھ مدت سے ایک کمزور ہے، دوسری ٹوٹ چکی ہے۔ اور تیسری ٹانگ یعنی چینی معیشت کے پنپنے کی رفتار بھی کم ہوچکی ہے۔ ۱۹۹۹ء کے بعد سے چینی معیشت کے فروغ پانے کی رفتار ۶ئ۷ فیصد سالانہ سے کم کبھی نہیں رہی۔ یہ خام قومی پیداوار کے حوالے سے سہ ماہی کے اعداد و شمار ہیں۔ کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ اسٹول کی تیسری ٹانگ بھی اب ٹوٹنے کے قریب پہنچ چکی ہے؟ میڈیا کی ہیڈ لائنز میں تو چیخ چیخ کر یہی خدشہ بیان کیا جارہا ہے مگر میرا خیال یہ ہے کہ چینی معیشت کی کریش لینڈنگ بعض حوالوں سے امید کی کرن بھی ثابت ہوسکتی ہے۔ یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ چینی معیشت زیادہ متوازن ہوکر ابھرے اور طویل المیعاد بنیاد پر اُس کے لیے کوئی بہتری کی صورت نکل آئے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ چین میں برآمدات، قرضوں اور براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری سمیت تمام اشاریے نیچے کی طرف اشارہ کر رہے ہیں مگر ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ چینی معیشت کے حوالے سے بیشتر اندازے حکومت کے فراہم کردہ اعداد و شمار کی روشنی میں قائم کیے جاتے ہیں۔ یہ بات کچھ حیرت انگیز نہیں کہ چینی حکومت بیشتر اعداد و شمار کو مختلف طریقوں سے لپیٹ کر بیان کرتی ہے۔ صوبائی حکومتیں معیشت کی حالت کو کچھ زیادہ ہی بہتر بیان کرنے کی عادی ہیں کیونکہ اسی کی بنیاد پر ان کے لیے ترقیاتی منصوبوں اور مرکز کی طرف سے فنڈنگ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ لوگ انفرادی آمدنی کو کم بتاتے ہیں کیونکہ حقائق بیان کرنے کی صورت میں انہیں غیر معمولی ٹیکسوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ چین میں جو لوگ بہت زیادہ کماتے ہیں، وہ بہت کچھ چھپاکر رکھتے ہیں۔ اشتمالی معیشت ہونے کے ناطے حکومت فرد سے زیادہ سے زیادہ وصول کرنا چاہتی ہے تاکہ اجتماعی ترقی کے لیے استعمال کیا جاسکے۔ افراد کی انفرادی خوشحالی کی ضمانت سمجھے جانے والے خوردہ فروشی سے متعلق اعداد و شمار بھی حکومت غیر حقیقی انداز سے بیان کرتی ہے کیونکہ اس میں سرکاری خریداریاں بھی شامل ہوتی ہیں۔ بینکوں کے جو قرضے وصول نہیں ہو پاتے، انہیں بیان کرنے کے معاملے میں حکومت حقیقت پسندی سے کام نہیں لیتی۔ یا تو ان کا ذکر نہیں کیا جاتا یا پھر اعداد و شمار کم بیان کیے جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ چینی معیشت کے فروغ کی رفتار ۶ئ۷ کو درست قرار دینا ہی مشکل نہیں بلکہ یہ بتانا بھی دشوار ہے کہ معیشت کو مستحکم کرنے والے شعبے کون کون سے ہیں یعنی فنڈز کہاں سے آ رہے ہیں!
نیو امریکا فاؤنڈیشن کی ایک حالیہ گول میز کانفرنس میں چینی معیشت کے فروغ یا زوال کے حوالے سے سیر حاصل بحث کی گئی اور معیشت کے مختلف شعبوں کا جائزہ لے کر اندازہ لگایا گیا کہ کہاں کہاں کمزوری ہے اور کہاں کہاں چین تیزی سے آگے بڑھنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ نیو یارک میں قائم ایک خود مختار تحقیقی ادارے سی بی بی انٹر نیشنل نے نیو امریکا فاؤنڈیشن کی گول میز کانفرنس میں امریکی فیڈرل ریزرو کی ’’یو ایس بیج بک‘‘ کی طرز پر ’’نیو چائنا بیج بک‘‘ پیش کی۔ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ چینی معیشت کے بارے میں درست ترین اندازہ لگانے کے خواہش مند افراد اور اداروں کے لیے یہ رپورٹ انتہائی معاون ثابت ہوگی۔ چینی حکومت کے فراہم کردہ اعداد و شمار پر بھروسا کرنے کے بجائے سی بی بی انٹر نیشل نے چین کو آٹھ علاقوں میں تقسیم کیا اور ہر علاقے سے تعلق رکھنے والی سرکردہ کاروباری شخصیات سے انٹرویو کیے تاکہ چینی معیشت کی حقیقی حالت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکے۔
تحقیق کے اس نئے انداز سے حیرت انگیز حقائق سامنے آئے ہیں۔ بعض علاقے زیادہ ترقی کر رہے ہیں اور بعض پیچھے رہ گئے ہیں۔ املاک کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں مگر ہر علاقے میں نہیں۔ گوانگ ڈونگ جیسے مشہور صنعتی علاقے زیادہ فروغ نہیں پا رہے جبکہ بیجنگ، شنگھائی اور چانگ کنگ میں معیشت تیزی سے فروغ پارہی ہے۔ ان تینوں علاقوں میں ہائر اینڈ سروس سیکٹر زیادہ تیزی سے پنپ رہا ہے۔ چین میں توانائی کی کھپت کا درست اندازہ لگانا دشوار ہے، تاہم سی بی بی انٹر نیشنل کی رپورٹ سے یہ اندازہ تو لگایا جاسکتا ہے کہ توانائی کی کھپت میں کمی رونما ہو رہی ہے۔ صنعتی شعبہ، جو بجلی سب سے زیادہ استعمال کرتا ہے، کمزور پڑ چکا ہے اور تجارتی شعبہ، جس میں توانائی سب سے کم استعمال ہوتی ہے، اب تیزی سے فروغ پارہا ہے۔ اگر یہ تبدیلی واقعی رونما ہو رہی ہے تو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ اب تک تو یہ سمجھا جارہا تھا کہ چین پوری دنیا کے لیے فیکٹری کا کردار ادا کر رہا ہے۔ تجارتی شعبے کی ترقی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اب چین میں کنزیومر اکانومی پنپ رہی ہے، لوگ خرچ کے رجحان کی طرف جارہے ہیں یعنی چین میں دوسروں کے مال کی کھپت کی گنجائش بھی بڑھے گی۔ دنیا یہی تو چاہتی ہے کہ چین صرف پیداواری ملک نہ ہو، صارف بھی بنے۔
رہائشی املاک کی خرید و فروخت سے وابستہ جن افراد سے سی بی بی نے انٹرویو کیا ان میں سے ساٹھ فیصد نے بتایا کہ ششماہی کے دوران قیمتیں اوپر گئی ہیں۔ قرضوں سے متعلق اعداد و شمار بھی بتاتے ہیں کہ چھ ماہ کے دوران قرضوں کا رجحان کم ہوا ہے۔ صنعتی مقاصد کے لیے قلیل المیعاد قرضوں کے حصول پر زیادہ توجہ دینے کے بجائے اب لوگ طویل المیعاد رہائشی قرضوں کے حصول پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔ یہ بھی اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ چینی معیشت اب تیزی سے کنزیومر ازم کی طرف بڑھ ہی ہے۔ حکومت کی طرف سے حوصلہ افزائی کے لیے دیے جانے والے صنعتی نوعیت کے قرضوں کا حجم غیر معمولی حد تک گھٹ چکا ہے۔ چینی برآمدات میں اضافے کی شرح ایک فیصد کے آس پاس رہی ہے، جو مایوس کن نہیں۔ گولڈ مین شیز ایسیٹ مینجمنٹ کے چیئرمین جم اونل (Jim O’Neill) کا کہنا ہے کہ ۲۰۰۷ء سے اب تک چین کے ٹریڈ سرپلس میں نصف کی حد تک کمی واقعی ہوچکی ہے۔ ۲۰۰۷ء میں دنیا چاہتی تھی کہ چین اپنی برآمدات گھٹائے۔ اگر قیمتوں کے فرق دس فیصد کے بجائے سات فیصد کو مدنظر رکھا جائے تو یہ کوئی مایوس کن صورتِ حال نہیں۔
اگر چین کی برآمدات میں کمی کا سلسلہ جاری رہا تو بیروزگاری بڑھے گی اور اس کے نتیجے میں معاشرے میں اضطراب بھی بڑھے گا۔ یہ دونوں عوامل عالمی سطح پر بھی اثرانداز ہوں گے۔ مگر ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ معیشت میں خطرے کا عنصر تو ہمیشہ رہتا ہے۔ اگر چین پیداواری معیشت کے سانچے سے نکل کر کنزیومر ازم کے سانچے میں ڈھلنے کی تیاری کر رہا ہے تو اس تبدیلی کا دنیا بھر میں خیر مقدم کیا جانا چاہیے۔
سی بی بی کی رپورٹ سے ایک اہم بات یہ معلوم ہوئی کہ چند ماہ قبل چانگ کنگ (Changqing) میں بدنام پارٹی سیکرٹری بوژیلائی (Bo Xilai) کی برطرفی سے علاقے میں براہِ راست سرمایہ کاری بڑھی اور کنزیومر ازم کو کسی حد تک فروغ ملا۔ دوسری طرف قرضوں کی فراہمی اور ترسیل میں بھی آسانیاں پیدا ہوئیں۔ ہوسکتا ہے کہ علاقے میں معاشی اعتبار سے اعتماد کی بحالی کے لیے حکومت نے اپنے طور پر یہ اہتمام کیا ہو مگر اس سے یہ پتا ضرور چلتا ہے کہ چینی معیشت میں اپنی خرابیوں سے سیکھنے اور بہتری کی طرف بڑھنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔ ہم جسے چینی معیشت کی کریش لینڈنگ سمجھ رہے ہیں، وہ معاشی استحکام کی طرف بڑھنے کا عمل بھی تو ہوسکتا ہے۔
(“Inside China’s Black Box of Statistics”… “Time”, September 3rd, 2012)
Leave a Reply