
دنیا ایسی خطرناک صورتحال سے دوچار ہونے والی ہے جس کی کئی عشروں میں مثال نہیں ملتی۔ حالیہ برسوں میں جنگ میں آنے والی تیزی ہمارے نتائج کی صلاحیت پر لگنے والا سوالیہ نشان ہے۔ مہاجرین کے عالمی بحران سے لے کر دہشت گردی کا پھیلاؤ، تنازعات کو حل کرنے اور نئے خطرات کو سراٹھانے سے روکنے میں ہماری ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ حتیٰ کہ پُرامن معاشروں میں خوف کی سیاست خطرناک تقسیم اور جذباتی سیاست سے پیدا ہونے والے اشتعال کے خدشات بڑھا رہی ہے۔
اس پس منظر میں امریکیوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنا صدر منتخب کرلیا۔ درحقیقت ٹرمپ کے انتخاب کو گزشتہ برس کا سب سے اہم واقعہ قرار دیا جاسکتا ہے، جس کے مستقبل میں دوررس نتائج برآمد ہوں گے۔ یہ سنگین مضمرات کا حامل بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ ٹرمپ کی ممکنہ خارجہ پالیسی پر بہت کچھ کہا اور لکھا جاچکا، لیکن ہم کم ازکم ایک بات جانتے ہیں کہ اُن کے بیانات سے جنم لینے والا غیر یقینی پن گہرے عدم استحکام کا باعث بن سکتا ہے، خاص طورپر جب اس غیر یقینی پن کا تعلق عالمی اسٹیج کے سب سے طاقتور کھلاڑیوں سے ہو۔ پہلے یورپ سے لے کر مشرقی ایشیا تک کے اتحادی ٹرمپ کے ٹویٹ اور بیانات کی طرف سے گھبراہٹ کا شکار ہیں۔ کیا وہ یورپ کی قیمت پر روس کے ساتھ ڈیل کریں گے؟ کیا وہ ایران کے ساتھ ہونے والی ایٹمی ڈیل کو منسوخ کردیں گے؟ کیا وہ واقعی ہتھیاروں کی نئی دوڑ شروع کرنے جارہے ہیں؟
گزشتہ ساٹھ برس کے دوران ویتنام سے لے کر روانڈا اور عراق جنگ تک، مختلف بحران سراٹھاتے رہے۔ لیکن دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکی قیادت میں تشکیل پانے والا عالمی نظام اہم ریاستوں کے تعلقات استوار کرنے میں کامیاب رہا۔ خاص طورپر سرد جنگ کے اختتام کے بعد اسے کامیاب ترین نظام قرار دیا جانے لگا۔ دنیا کم و بیش امریکی قیادت پر اتفاق کرچکی تھی۔ تاہم ٹرمپ کے انتخابات جیتنے سے پہلے ہی یہ نظام تبدیل ہونا شروع ہوگیا تھا۔ صدر اوباما کے دَور میں واشنگٹن نے معاشی گراوٹ کو محسوس کرنا شروع کر دیا، لیکن صدر اوباما نے عالمی اداروں کو سہارا دیتے ہوئے خلا کو پُر کرنے کی کوشش کی، لیکن آج ہم یہ فرض نہیں کرسکتے کہ عالمی نظام میں ’’سب سے پہلے امریکا‘‘ کا معروضہ مستعمل ہے، یا اسے آج بھی بلا شرکتِ غیرے استحقاق حاصل ہے۔ تاہم امریکا کی نرم طاقت کے زوال کے بعد اسے حاصل مہیب ترین عسکری طاقت کو دنیا اپنے لیے ایک خطرہ سمجھے گی۔ یورپ، خاص طورپر برطانیہ میں بریگزٹ اسی غیر یقینی پن کا اظہار ہے۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ان ریاستوں میں دائیں بازو کی قوم پرست طاقتیں ابھر رہی ہیں۔ جرمنی، فرانس اور ہالینڈ جیسے اہم ممالک میں دائیں بازو کی جماعتوں نے انتخابات میں اہم کارکردگی دکھائی ہے۔ درحقیقت یورپ کے سیکولر اور لبرل تصورات آزمائش کی بھٹی سے گزر رہے ہیں۔ یورپی یونین کا مستقبل آج کا ایک بڑا چیلنج ہے کیونکہ اس کے بغیر یورپ دنیا میں اپنی توانا آواز کو برقرار نہیں رکھ پائے گا۔
اس دوران دنیا کے کچھ دیگر خطوں میں علاقائی، نسلی اور نظریاتی رقابتیں اپنا رنگ دکھا رہی ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال خلیجی ریاستیں ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ پر تسلط قائم کرنے کے لیے ایران اور خلیجی ریاستوں کے درمیان کشمکش ابھرتی محسوس ہوتی ہے۔ ان کے درمیان ہونے والی پراکسی جنگوں نے شام، عراق اور یمن کو تباہ کر دیا ہے۔ بہت سے عالمی رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ گہری ہوتی ہوئی تفریق کا حل یہ ہے کہ عالمی سطح پر دہشت گردی کے خلاف اتحاد قائم کیا جائے۔ تاہم یہ ایک التباسی تصور ہے، کیونکہ دہشت گردی ایک تزویراتی منصوبہ ہے، چنانچہ اس سے لڑنے کے لیے کوئی تزویراتی منصوبہ بندی نہیں کی جاسکتی۔ جہادی گروہ کوئی صورتحال پیدا نہیں کرتے، وہ جنگوں اور ریاستوں کواپنی لپیٹ میں لینے والے عدم استحکام کا فائدہ اٹھا کر قدم جماتے اور خود کو تقویت دیتے ہیں۔ چنانچہ جنگ سے پیدا کردہ منفی صورتحال کا مداوا ایک جنگ نہیں کرسکتی۔ درحقیقت اس کشمکش کا تدارک کرنے کے لیے عالمی نظام کو ایک ایسی مربوط کوشش کرنی چاہیے جس میں ریاستیں متحارب فریق کے بجائے بلڈنگ بلاکس کا کردار ادا کریں۔ لیکن اس ہم آہنگی کے لیے عالمی نظام کو ایک مشترک دشمن کا ہَوّا کھڑا کرنے سے کچھ بڑھ کر درکار ہوگا۔
ٹرمپ انتظامیہ کے فعال ہونے سے عارضی سفارت کاری اور اس سے حاصل کردہ نتائج پر قناعت کا رجحان بڑھے گا۔ ان کی ایک جھلک نمایاں ہونا شروع ہو گئی ہے۔ محدود اور قلیل مدتی تزویراتی عوامل دیرپا پالیسیوں کی جگہ لے رہے ہیں۔ روس اور ترکی کے درمیان تناؤ کے بعد ہونے والا معاہدہ خوش آئند ہے، کیونکہ اس کی وجہ سے شام میں ہونے والی خانہ جنگی ختم ہوسکتی ہے۔ تاہم ماسکو اورانقرہ کو دمشق میں گورننس کے مسائل پرتوجہ دینی چاہیے ورنہ وہ شام کی دلدل میں دھنستے چلے جائیں گے اور وہاں انسانی خون بہتا رہے گا۔ چنانچہ دنیا کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ مشرقِ وسطیٰ کے آمریتوں کو عارضی استحکام دے کر کبھی بھی امن قائم نہیں ہوگا کیونکہ اس کا مطلب عوام کی اکثریت کے مطالبے کو رَد کرنا ہوگا۔ یورپی یونین مثبت اور فعال سفارتکاری کی بہت بڑی حامی ہے۔ اس نے ماضی میں بھی ترکی، افغانستان اور افریقی ریاستوں کے ساتھ معاہدے کیے تاکہ مہاجرین کے مسائل سے نبرد آزما ہوسکے۔ دوسری طرف امریکا اور روس کے تعلقات میں بہتری کا یورپ کو بھی فائدہ ہوسکتا ہے، لیکن اس کے لیے یورپی ریاستوں کو جذباتیت کے بجائے عملیت پسندی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
ایشیا میں بیجنگ دیگر ایشیائی ریاستوں کے ساتھ تعلقات بڑھا رہا ہے۔ اس کی رسائی افریقی اور لاطینی امریکا کی ریاستوں تک بھی ہے۔ اس سے ایسا لگتا ہے کہ چین امریکی نرم طاقت میں آنے والی کمزوری سے پیدا ہونے والے خلا کو پُر کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ تاہم ایسے عارضی انتظامات عملیت پسندی کا اظہار تو ہوسکتے ہیں لیکن دیگر عالمی نظام قائم کرنے کے لیے موقع پرستی سے بڑھ کر بھی کچھ درکار ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب مزید تزویراتی عوامل نہ ہوں تو ہونے والی ڈیل ختم بھی ہوسکتی ہے۔ چنانچہ قابلِ قبول قوانین اور مضبوط ادارے رکھنے والے قابلِ فہم نظام کی غیر موجودگی میں مہم جوئی کا خطرہ موجود رہے گا۔ مزید یہ کہ اس وقت دنیا تحلیل اور تبدیل ہوتے ہوئے نظام کا حصہ ہے۔ اس میں ایک سے زیادہ طاقتیں سر اٹھا رہی ہیں۔ انہی کے درمیان غیر ریاستی عناصر بھی اپنی موجودگی ظاہر کررہے ہیں۔
منہ کے بَل گرنے والی اس دنیا کو ایک، یا چند ایک طاقتیں اپنے پاؤں پر نہیں کھڑا کرسکتیں، اور نہ ہی وہ مقامی طور پر جاری کشمکش کو روکنے کی پوزیشن میں ہیں۔ دوسری طرف ہمیں اچھا لگے یا بُرا، گلوبلائزیشن ایک حقیقت ہے، اور ہم سب اس کا حصہ ہیں۔ شام کی خانہ جنگی سے پیدا ہونے والے مہاجرین کے مسئلے کے نتیجے میں بریگزٹ کی نوبت آئی۔ بریگزٹ کے دیگر یورپی اقوام پر معاشی اور سیاسی اثرات مرتب ہوں گے۔ اب ہوسکتا ہے کہ کوئی ملک اپنی سرحدیں بند کرلینا چاہے لیکن عالمی نظام کا حصہ بنے بغیر خوشحالی اور ترقی کا خواب بھی نہیں دیکھا جاسکتا۔ اس لیے ضروری ہے کہ آنکھیں بند کرنے کے بجائے مسائل کا ادراک کرتے ہوئے انہیں حل کرنے کی کوشش کی جائے، یا اس کوشش کا حصہ بنا جائے۔
اس پس منظر میں موجودہ برس کے دوران کچھ اہم تنازعات کو، جو خطرناک رُخ اختیار کرسکتے ہیں، دیکھنا اور سمجھنا ضروری ہوگا۔ ان کا ایک جائزہ پیش خدمت ہے۔
۱۔ شام اور عراق
چھ سالہ خانہ جنگی کے بعد بھی، جس میں پانچ لاکھ ہلاکتیں ہوئیں اور بارہ ملین افراد بے گھر ہوئے، شامی صدر بشارالاسد اقتدار میں ہیں، لیکن غیر ملکی طاقتوں جیسا کہ روس، ایران اور حزب اللہ کے تعاون کے باوجود شام کی سرکاری فورسز اس خانہ جنگی کو ختم کرنے اور کھوئے ہوئے علاقے واگزار کرانے کی پوزیشن میں نہیں۔ ان کی ناکامی کی ایک مثال داعش کے جنگجوؤں کا تدمر کے تاریخی شہر پر دوبارہ قبضہ ہے۔ اس سے پہلے روسی فوج کی مدد سے شامی فورسز نے داعش کو تدمر سے مار بھگایا لیکن نو ماہ بعد وہ دوبارہ وہاں آگئے۔ اس دوران بشارالاسد کی حکمتِ عملی یہ تھی کہ وہ سیاسی اپوزیشن کو کمزور کردے۔ تاہم اس منفی کوشش کے نتیجے میں جہادی گروہ، جیسا کہ داعش اور جباۃ النصرہ مضبوط ہوئے۔ غیر جہادی باغیوں کو حلب میں ہونے والی شکست نے مزید کمزور کر دیا ہے۔ اب وہ کمزور اور منتشر ہیں۔
بشار حکومت نے دسمبر میں مشرقی حلب پر ایک طویل جنگ کے بعد قبضہ کرلیا۔ اسے ناقدین نے شامی خانہ جنگی میں ایک موڑ قرار دیا تھا۔ تاہم اس فتح کے لیے شام کی سرکاری فورسز نے شہریوں پر بے دریغ بمباری کی۔ مغربی سفارت کاروں نے انسانی لہو کی اس ارزانی پر گہرے دکھ اور خوف کا اظہار کیا، لیکن اُن کی طرف سے اس قتلِ عام کو رکوانے کے لیے کچھ نہ کیا گیا۔ تاہم ایران، ترکی اور روس کے درمیان ہونے والے ایک معاہدے کے نتیجے میں مشرقی حلب سے شہریوں کے انخلا کا امکان پیدا ہوا ہے۔ لیکن بعض واقعات اس معاہدے کو سبوتاژ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ماسکو میں ہونے والی یہ سہ فریقی ڈیل جنگ بندی کے لیے تھی، اس میں نہ تو امریکا اور نہ ہی اقوام متحدہ کو شرکت کی دعوت دی گئی، بلکہ ان سے مشورہ تک نہیں کیا گیا۔ دسمبر کے اختتام تک جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا لیکن چند ہی دن بعد اس کی خلاف ورزی ہونے لگی۔ دمشق کے دستوں نے جارحیت جاری رکھی۔ اس وقت یہ بات برملا کہی جاسکتی ہے کہ شام میں ہونے والی خانہ جنگی کا کوئی فوجی حل ممکن نہیں۔ اس کے لیے سفارت کا بازو استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔
داعش کے خلاف جنگ بھی جاری رہے گی، لیکن اس دوران یہ ضروری ہوچکا ہے کہ اس کا دائرہ پھیلنے نہ پائے۔ داعش کو محدود کیا جانا ضروری ہے، ورنہ ہونے والا تشدد اور بہنے والا لہو داعش اور اس جیسے دیگر گروہوں کی آبیاری کرتا رہے گا۔ شام کاایک اور گروہ، کردوں کے خلاف کی جانے والی کارروائی نے ترک حکومت اور شامی کردوں کی حامی گروہ، ’’پی کے کے‘‘ کو آمنے سامنے لاکھڑا کیا ہے۔ گزشتہ چند ہفتوں سے ترکی بھی دہشت گرد حملوں کی زَد میں ہے۔ واشنگٹن نے ان کے درمیان تصادم روکنے کے لیے کی جانے والی کوششوں کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ ضروری ہے کہ جلد ہی ذمہ داری سنبھالنے والی ٹرمپ انتظامیہ اس معاملہ کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش کرے۔ داعش کو شکست دینے کے ساتھ ساتھ ترکی اور کردوں کا تصادم روکنا ضروری ہے۔ اگر ترکی اور کرد لڑتے رہے تو اس کے نتیجے میں پھیلنے والی شورش کا فائدہ داعش کو ہی ہوگا۔
کمزور ہو جانے کے باوجود داعش ابھی تک عراق اور شام کے کچھ حصوں میں نام نہاد خلافت قائم کیے ہوئے ہے۔ اس کی فعالیت کی نوعیت ایسی ہے کہ اگر اسے ان علاقوں میں شکست سے دوچار کر بھی دیا گیا تو بھی یہ ملک کے دیگر خطوں میں ابھر سکتی ہے۔ چنانچہ ضروری ہے کہ فوجی کارروائی کے ساتھ ساتھ گورننس کے پہلو پر بھی توجہ دی جائے۔ عراق میں داعش گورننس کی ناکامی کی وجہ سے ہی پیدا ہوئی تھی۔ وہاں اس نے حکومت کی کارکردگی سے مایوس نوجوانوں کو اپنی صفوں میں شامل کیا۔ اس نے مسلکی بنیادوں پر تقسیم معاشرے کا بھی فائدہ اٹھایا اور قدیم تنازعات کو ابھار کر تشدد کی راہ ہموار کی۔ موصل کو داعش سے واپس چھیننے کی امریکی کوشش جاری ہے، لیکن اگر یہ ناکامی سے دوچار ہوگئی تو اس کے نتیجے میں مزید پراکسی دستے نمودار ہوں گے۔ پہلے ہی ایران اور ترکی اپنے اپنے پراکسی دستوں کے ذریعہ زور آزمائی کررہے ہیں۔ ضروری ہے کہ امریکا عراق میں داعش کے خلاف کارروائی جاری رکھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ داعش سے واگزار کرائے جانے والے علاقے پر گورننس قائم کرنے میں بھی مدد دے۔
۲۔ ترکی
نئے سال کی آمد پر استنبول میں ہونے والا حملہ، جس میں ۳۹؍افراد ہلاک ہوئے، تشدد کی ابھرنے والی لہر کی خبر سناتا ہے۔ اس حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی۔ یہ انتہا پسند گروپ ترکی کے بارے میں اپنے رویے میں تبدیلی لاتے ہوئے آنے والے دنوں میں مزید انتہائی ہتھکنڈے اپنا سکتا ہے۔ شام اور عراق کی جنگوں کے منفی اثرات سے نبرد آزما ہونے والے ترکی کو کرد علیحدگی پسندوں، جیسا کہ ’’پی کے کے‘‘ کے ساتھ بھی جنگ کرنی پڑے گی۔ سیاسی طور پر تقسیم اور معاشی طور پر دباؤ کا شکار ترکی مہیب کشمکش کے دہانے پر کھڑا دکھائی دیتا ہے۔
جولائی ۲۰۱۵ء میں جنگ بندی کے خاتمے کے بعد سے ریاست اور ’’پی کے کے‘‘ کے انتہا پسندوں کے درمیان کشمکش میں شدت آتی جارہی ہے۔ اُس وقت سے لے کر اب تک ’’پی کے کے‘‘ کی جدوجہد گزشتہ تین عشروں کی تاریخ کے انتہائی خونچکاں دور میں داخل ہوچکی ہے۔ اس جنگ میں ۲۵ ہزار انتہا پسند، سیکورٹی فورسز کے اہلکار اور عام شہری ہلاک ہوچکے ہیں، جبکہ جنگ کی شدت سے بعض علاقوں سے شہریوں کو ہجرت بھی کرنا پڑی ہے۔ اب تک ساڑھے تین لاکھ شہری بے گھر ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ترک فورسز نے بھاری ہتھیار استعمال کرتے ہوئے جنوب مشرق میں کرد آبادی کی اکثریت رکھنے والے بہت سے شہروں کو تباہ کر دیا ہے۔ ’’پی کے کے‘‘ سے وابستگی رکھنے والے انتہا پسندوں نے گزشتہ دسمبر میں استنبول میں ایک فٹ بال اسٹیڈیم میں بم حملہ کرتے ہوئے ۴۵؍افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ اس حملے کے ردعمل میں حکومت نے کرد تحریک کے نمائندوں اور حامیوں کو گرفتار کرکے جیلوں میں ڈالنا شروع کر دیا۔ اس سے کرد تنظیموں اور ترک ریاست کے درمیان سیاسی مکالمہ ختم ہوگیا۔
اگرچہ کرد مسئلہ خالصتاً ترکی کا داخلی مسئلہ ہے لیکن شام اور عراق میں کرد گروہوں کو ملنے والی کامیابی نے انقرہ کو پریشان کر دیا ہے۔ کیونکہ اُن کی کارروائیاں ترک کردوں کو شہ دے سکتی ہیں۔ داعش کا خطرہ اس کے علاوہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انقرہ نے داعش کو کچلنے کے بہانے شام اور عراق میں فوجی کارروائیاں کیں، لیکن ان کا نشانہ زیادہ تر کرد دستے ہی تھے۔ اس کارروائی نے مشرقِ وسطیٰ کے بحران کو مزید گہرا کر دیا۔ داخلی طور پر طیب ایردوان کی حکومت گزشتہ برس جولائی کے ناکام فوجی شب خون کے بعد سے اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف کریک ڈاؤن کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ وہ صدارتی نظام میں تبدیلی کرنے کے لیے آئینی ترمیم کی بھی کوشش کر رہی ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے اس موسم بہار میں ریفرنڈم کا انعقاد دیکھنے میں آسکتا ہے۔ شبِ خون کے بعد سے اب تک ایک لاکھ کے قریب سرکاری افسران کو حراست میں لیاجاچکا ہے۔
ترکی کے مغربی اتحادیوں کو اگرچہ مضبوط فوج رکھنے والے ترکی کی اپنے جنوبی بارڈر پر ضرورت ہے۔ ترکی نیٹو میں شامل ریاستوں میں سب سے بڑی فوج رکھتا ہے۔ تاہم طیب ایردوان حکومت کے آمرانہ طرزِ عمل اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر یورپ میں تنقید ہو رہی ہے۔ اس کی وجہ سے یورپی یونین اور انقرہ کے درمیان ترکی کی یورپی بلاک میں شمولیت کے لیے ہونے والے مذاکرات جمود کا شکار ہو گئے ہیں۔ نومبر میں طیب ایردوان نے برسلز میں ہونے والی تنقید کی وجہ سے مشتعل ہوتے ہوئے دھمکی دی تھی کہ وہ مارچ ۲۰۱۶ء میں مہاجرین کو یورپ میں داخل ہونے سے روکنے والے معاہدے کو پھاڑ پھینکیں گے۔ اس وقت ۲۷ لاکھ سے زیادہ شامی مہاجرین ترکی میں رجسٹرڈ ہیں۔ ان کی وجہ سے ریاست اور معاشرہ شدید دباؤ کا شکار ہے۔
ترکی اور واشنگٹن کے درمیان تعلقات بھی دباؤ کا شکار ہیں۔ اس کی وجہ ترکی کا کردوں کے خلاف کریک ڈاؤن ہے۔ نیز ترکی گزشتہ سال جولائی میں ناکام شب خون کا الزام ایک مذہبی عالم فتح اللہ گولن پر لگاتا ہے۔ فتح اللہ گولن امریکا میں خودساختہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ترکی نے واشنگٹن سے اُن کی حوالگی کا بارہا مطالبہ کیا ہے، لیکن واشنگٹن کا موقف ہے کہ ترکی گولن کے اس شب خون میں ملوث ہونے کے ٹھوس ثبوت فراہم کرے۔ اس دوران ترکی کے ماسکو کے ساتھ بھی تعلقات کی نوعیت پریشان کن ہے۔ گزشتہ دسمبر میں جبکہ ترکی روس کے قریب ہوتا جارہا تھا، ترکی میں روسی سفارت کار کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔ یہ بات واضح دکھائی دیتی ہے کہ ترکی اپنے یورپی اتحادیوں سے کناراکشی کرتے ہوئے ماسکو اور تہران کے قریب ہوتا جارہا ہے۔ تاہم ترکی اور ایران کے درمیان بہت سے تنازعات باقی ہیں۔ ان کا تعلق شام اور عراق میں دونوں ممالک کے متصادم مفادات سے ہے۔
۳۔ یمن
یمن میں ہونے والی جنگ (اگر اسے جنگ کہا جاسکے) ایک اور انسانی المیہ ہے جس نے عرب دنیا کے اس غریب ترین ملک کو اجاڑ کر رکھ دیا ہے۔ اس وقت یمن میں لاکھوں افراد کو قحط کے خطرے کا سامنا ہے، چنانچہ ضروری ہے کہ وہاں جنگ بندی ہو اور معاملے کو فوری طور پر سیاسی بنیادوں پر حل کیا جائے۔ نہتے یمنی شہریوں نے جدید طیاروں سے کی جانے والی بے دریغ بمباری اور وحشیانہ راکٹ حملوں کی وجہ سے بے پناہ جانی نقصان برداشت کیا ہے، لیکن وہ حملہ آور طاقتور عرب ملک کے خلاف کچھ نہیں کرسکتے۔ اس کشمکش کا آغاز گزشتہ سال مارچ میں ہوا تھا جب ایک اہم عرب ملک نے حوثی قبیلے کے خلاف کارروائی شروع کردی۔ ان حوثی قبائل کو مسلکی اعتبار سے ایران کے قریب سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ اُس عرب ملک کو خدشہ تھا کہ ان کے ذریعے ایران خطے میں اپنے مفادات کو آگے بڑھانے کی کوشش میں ہے۔ چنانچہ اُس نے ان گروہوں کو کچلنے کے لیے بمباری شروع کردی۔ دوسری طرف حوثی قبائل بھی جارحانہ کارروائیاں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ دونوں نے متعدد بار اقوام متحدہ کی قیامِ امن کے لیے کی جانے والی کوشش کو پٹری سے اتار دیا۔ نومبر میں اُس اہم عرب ملک کی حمایت یافتہ یمنی حکومت نے اقوام متحدہ کی طرف سے قیامِ امن کے لیے طے کیے جانے والے روڈ میپ کو مسترد کر دیا۔ خدشہ ہے کہ اگر اس کشمکش کو جلد نہ روکا گیا تو النصرہ، داعش اور دیگر انتہا پسند گروہ اس کے نتیجے میں پھیلنے والی شورش سے فائدہ اٹھا کر یہاں اپنے قدم مضبوط کر سکتے ہیں۔
۴۔ گریٹر ساحل اور لیک چاڈ بیسن
گریٹر ساحل اور لیک چاڈ بیسن میں بڑھتی ہوئی کشمکش کے نتیجے میں بے پناہ انسانی المیہ رونما ہو رہا ہے۔ اس کی وجہ سے اب تک ۴۲ لاکھ افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ جہادی اور مسلح گروہ اور جرائم پیشہ افراد کے گینگ غربت کے شکار اس خطے کو اپنی شکار گاہ سمجھتے ہیں۔ اس کی سرحدیں انتہائی مسام دار ہیں اور حکومت ان گروہوں کی نقل و حرکت کو روکنے اور اپنی سرحدیں محفوظ بنانے کی پوزیشن میں نہیں۔ ۲۰۱۶ء میں وسطی ساحل سے تعلق رکھنے والے جہادیوں نے مغربی نیجر، برکینافاسو اور آئیوری کوسٹ میں تباہ کن حملے کیے۔ وہاں بھی القاعدہ اور المرابطون فعال اور متحرک ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وہاں بھی شہریوں اور غیر ملکیوں پر حملے جاری رہیں گے۔ مالی میں اقوام متحدہ کا امن مشن انتہائی خطرناک حالات میں کام کر رہا ہے۔ گزشتہ تین برسوں کے دوران اس مشن کے ستر کے قریب اہلکار ہلاک ہوچکے ہیں۔
مالی کو اس سال ایک بڑے بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا، کیونکہ ۲۰۱۵ء میں بماکو امن معاہدے پر عملدرآمد کو خطرات لاحق ہیں۔ صومالیہ میں باغیوں کے اتحاد کے ٹوٹنے اور آوازاد تحریک نے مسلح گروہوں کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کیا ہے اور تباہی کا سلسلہ مالی کے وسط تک جاپہنچا ہے۔ مقامی طاقتوں کو جنوری میں ہونے والے افریقن یونین کے سربراہی اجلاس کی مدد سے امن کے سلسلے کو بحال کرنا چاہیے اور ان گروہوں کو واپس لانا چاہیے جو چھوڑ کر جاچکے ہیں۔ الجزائر جو کہ خطے میں استحکام تباہ کرنے والا اہم ملک ہے، اسے اس میں ثالث کا کردار ادا کرنا چاہیے۔
چاڈبیسن میں نائیجریا، نائیجر، کیمرون اور چاڈ کی سیکورٹی فورسز نے بوکو حرام کے خلاف حملوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ دسمبر کے آخر میں نائیجریا کے صدر نے بوکوحرام کے خلاف فیصلہ کن لڑائی کا اعلان کیا۔ قیادت کی لڑائی نے اس جہادی تحریک کو تقسیم ضرور کیا ہے مگر اب بھی اس کی جارحانہ کارروائیاں جاری ہیں۔ اگرچہ بین الاقوامی توجہ کا رُخ بوکوحرام کی اغواکاریوں اور خواتین سے کیے جانے والے برتاؤ کی جانب ہے لیکن یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ کچھ خواتین نے سماجی اور معاشی مواقع کی تلاش میں اس تحریک میں خود شمولیت اختیار کی ہے۔ بوکوحرام کی شورش اور اس کے خلاف سخت فوجی مزاحمت اور اس جھگڑے میں پکڑے جانے والوں کی کمزور معاونت، ان سب نے ایک نہ ختم ہونے والا تشدد اور تباہ کن ماحول پیدا کرنے کے خطرے کو جنم دیا ہے۔ اگر مقامی حکومتوں کی جانب سے سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کیا گیا تو یہ تحریک مقامی کمیونٹی کو ساتھ لے کر مستقبل میں بغاوت کرسکتی ہے۔ ریاستوں کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اس قسم کے گروہوں کی روک تھام کے لیے خود کو معاشی طور پر مضبوط بنائیں۔
۵۔ عوامی جمہوریہ کانگو
عوامی جمہوریہ کانگو کو نئے سال کے موقع پر، آدھی رات کے بعد، کچھ اچھی خبریں ملیں جب کیتھولک بشپ نے اعلان کیا کہ ملک کے سیاسی بحران کو حل کرنے کے لیے ایک معاہدہ طے پاگیا ہے۔ صدر جوزف کابیلا (Joseph Kabila) نے فی الحال اس ڈیل، جو اُن سے تازہ انتخابات جو ۲۰۱۷ء کے اختتام پر ہوں گے، کے بعد اپنے منصب سے الگ ہونے کا مطالبہ کرتی ہے، پر دستخط نہیں کیے ہیں۔ تمام فریقوں کے درمیان پائے جانے والے انتہائی عدم اعتماد کے باوجود ڈیل (کانگو کے کیتھولک چرچ کی ثالثی میں ہونے والی ڈیل) ہی آگے بڑھنے کا بہترین راستہ ہے۔ اب درپیش چیلنج انتخابات کی تیاری، عارضی حکومت کا قیام اور پرامن انتقالِ اقتدار ہے۔ ان مراحل کے لیے عالمی تعاون اور نگرانی ضروری ہے۔
صدر کابیلا کانگو کے آئین سے سرتابی کرتے ہوئے اپنی دوسری مدت کے بعد بھی عہدے پر براجمان رہنے کا تہیہ کیے ہوئے ہیں، لیکن انہیں اپوزیشن کی طرف سے احتجاجی مظاہروں کا سامنا ہے۔ ۲۰۱۶ء میں ان مظاہروں کے دوران شدت آگئی، اور اُن کا سلسلہ تمام سال جاری رہا۔ خدشہ ہے کہ موجودہ سال بھی ان کی تازہ اور شدید لہر ابھرتے دیکھے گا۔ کانگو میں جاری بدعنوانی اور انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والے کا تمام سیاسی عہدوں پر قابض ہونے، اور جمہوریت کی آڑ میں آمر بن جانے کا مسئلہ بہت پرانا ہے۔ خدشہ ہے کہ صدر کابیلا آسانی سے عہدہ نہیں چھوڑیں گے، کیونکہ ایسا کرتے ہی وہ بدعنوانی کے الزامات کی زَد میں آجائیں گے۔ امریکی اور مغربی طاقتوں کو اپنی کاوشوں کو مربوط کرتے ہوئے کانگو کو مزید علاقائی عدم استحکام کا دوچار ہونے سے بچانا ہوگا۔ کانگو میں اقوام متحدہ کا امن مشن، MONUSCO، ایسے مہیب چیلنجوں سے عہدہ برا ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتا، لیکن اگر اسے مینڈیٹ دے دیا جائے تو پھر اداروں کی تعمیر اور انسانی حقوق کی نگرانی کرنے کے لیے دفاتر قائم کرسکتا ہے۔
کانگو میں پُرتشدد فسادات کا سلسلہ استحکام کے راستے کی ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ گزشتہ ستمبر میں صدر کابیلا کے خلاف ہونے والے پُرتشدد احتجاجی مظاہروں میں کم ازکم ۵۳؍افراد، جن میں زیادہ تعداد سیکورٹی اہلکاروں کی تھی، ہلاک ہوگئے۔ مظاہرین اور سیکورٹی فورسز کے درمیان ہونے والی جھڑپوں کا سلسلہ کئی شہروں تک پھیل گیا اور مظاہروں کا سلسلہ اگلے ماہ، یعنی دسمبر میں داخل ہوگیا۔ انیس اور بیس کو ہونے والے شدید مظاہروں میں چالیس افراد کی ہلاکت کی رپورٹس ملیں۔ چنانچہ مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر انتخابات کو ملتوی کرنے کی کوشش کی گئی تو مظاہروں کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو سکتا ہے۔ مرکزی اپوزیشن اتحاد، راسمبل منٹ (Rassemblement) کا دعویٰ ہے کہ اگر صدر کابیلا نے عہدہ چھوڑنے سے انکار کیا تو وہ گلیوں میں مظاہرے شروع کردیں گے اور عوامی دباؤ سے انہیں عہدہ چھوڑنے پر مجبور کریں گے۔ کشمکش کا شکار مشرقی علاقوں کنشاسا میں ہونے والے سیاسی تناؤ کی وجہ سے بھی تشدد میں اضافہ ہوچکا ہے۔
۶۔ جنوبی سوڈان
تین سالہ خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد بھی دنیا کے ’’نوجوان ترین ملک‘‘ کو انواع و اقسام کے مسائل نے گھیرا ہوا ہے۔ مرکزی حکومت کے ساتھ پیدا ہونے والے مسائل اور نسلی بنیادوں پر ہونے والے تشدد کی وجہ سے اٹھارہ لاکھ افراد کو اپنے گھربار چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔ کم و بیش بارہ لاکھ افراد ملک چھوڑ کر فرار ہوچکے ہیں۔ ملک میں وسیع پیمانے پر ہونے والے تشدد اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی وجہ سے عالمی تشویش میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اس دوران ۲۰۱۵ء میں طے پانے والے امن معاہدے کے نفاذ کی کوششیں بھی بیکار گئی ہیں۔ دسمبر میں صدر سلواکیر (Salva Kiir) نے تازہ جنگ بندی اور قومی سطح پر مذاکرات شروع کرنے کا مطالبہ کیا تاکہ امن اور مفاہمت کے عمل کو موقع دیا جاسکے۔ کوششیں کامیابی سے ہمکنار ہوں گی یا نہیں، اس کا دارومدار حکومت کی مذاکرات کرنے کی نیت اور خلوص اور مسلح گروہوں کے رویے پر ہے کہ کیا فریقین اپنے اپنے موقف میں کوئی لچک دکھاتے ہیں یا نہیں۔
عالمی برادری کے تعاون سے طے پانے والا امن معاہدہ جولائی ۲۰۱۶ء میں اُس وقت دم توڑ گیا جب جبا میں حکومت اور مسلح باغیوں کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ اپوزیشن لیڈر اور سابق نائب صدر، ریک ماچر (Riek Machar) نے مسلح باغیوں کی قیادت کی۔ اس سے پہلے ریک ماچر ملک سے فرار ہوگئے تھے لیکن پھر کچھ شرائط طے کرنے کے بعد واپس جبا آئے تھے۔ اس کے بعد سے اب تک صدر سلواکیر کی پوری توجہ دارالحکومت اور دیگر خطوں میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کی طرف ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ نگران یا عارضی حکومت میں بھی اُن کے حامی افراد شامل ہوں۔ جبا میں سیکورٹی کی صورتحال حالیہ مہینوں کے دوران قدرے بہتر ہوئی ہے، اگرچہ نسلی بنیادوں پر تشدد کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔ عالمی سفارتی کوششوں کا محور چار ہزار اہلکاروں پر مشتمل ایک پروٹیکشن فورس کا قیام ہے، جو تشدد اور فسادات کو کنٹرول کرنے کی اہل ہو۔
۷۔ افغانستان
افغانستان میں ہونے والی جنگ اور سیاسی عدم استحکام عالمی امن اور سلامتی کے لیے گزشتہ پندرہ برسوں سے سنگین خطرہ بنا ہوا ہے۔ اس جنگ کا آغاز اُس وقت ہوا جب نائن الیون کے بعد امریکا اور اس کی اتحادی طاقتوں نے القاعدہ کو شکست دینے کے لیے افغانستان پر حملہ کر دیا۔ اُس وقت افغانستان پر طالبان کی حکومت تھی، جو چند ہفتوں کے اندر گرگئی لیکن پھر افغان طالبان نے تخریبی کارروائیاں شروع کردیں۔ آج پندرہ سالہ خانہ جنگی جس میں مذہبی اور مسلکی رنگ غالب آچکا ہے، کے بعد بھی طالبان پہلے جیسے طاقتور اور فعال ہیں۔ ۲۰۰۷ء کے بعد تشدد کے سلسلے میں نہ صرف اضافہ ہوا ہے بلکہ شہری ہلاکتوں کی بھی تعداد بڑھی ہے۔ اس وقت طالبان سے نمٹنے کے لیے قائم کی گئی سیکورٹی فورسز کمزوری کا شکار ہیں، جبکہ طالبان ملک کے بڑے علاقوں پر قبضہ کرتے جارہے ہیں۔
اس وقت جبکہ امریکی دستے افغانستان میں موجود ہیں اور یہ امریکی تاریخ کی سب سے طویل جنگ بن چکی ہے، لیکن جائے حیرت ہے کہ گزشتہ صدارتی انتخابات کے دوران دونوں اہم امیدواروں نے اس جنگ یا دستوں کے مکمل انخلا یا افغان مسئلے کا کوئی حل نکالنے کو اپنا موضوع نہ بنایا۔ اس وقت جبکہ ٹرمپ حلف اٹھانے جارہے ہیں، اُن کی افغان پالیسی تاحال غیر واضح اور مبہم ہے۔ انہوں نے کبھی اس مسئلے پر کھل کر اپنے موقف کا اظہار نہیں کیا، اگرچہ وہ اس کے حوالے سے کچھ مایوس کن باتیں کرتے رہتے ہیں۔ اُن کی نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر کے طور پر لیفٹیننٹ جنرل (ر) مائیکل فلائن کی نامزدگی کو مبصرین نے ایک متنازعہ فیصلہ قرار دیا ہے۔ مسٹر فلائن نے عراق اور افغانستان میں اسپیشل آپریشنز کی کمان کی تھی، اور ان کا فوکس ’’مذہبی انتہا پسندی کی وجہ سے ہونے والی دہشت گردی‘‘ ہے۔ چنانچہ خدشہ ہے کہ ان کی مذہبی انتہا پسندی سے نمٹنے کی کوشش افغانستان کے علاوہ کچھ دیگر خطوں کو بھی عدم استحکام سے دوچار کردے گی۔
اس وقت طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنا اہم ترین ضرورت خیال کیا جاتا ہے، اور خاص بات یہ ہے کہ چین بھی اس سلسلے میں دلچسپی لے رہا ہے۔اس کی وجہ ہے کہ چین اس خطے میں بھاری سرمایہ کاری کررہا ہے۔ اس کی معاشی راہداری کے لیے پُرامن افغانستان کی ضرورت ہے۔ چنانچہ چین، روس اور خطے کا اہم ملک پاکستان افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کرتے ہوئے کسی نتیجے پر پہنچنے کی کوشش میں ہیں۔ فی الحال کابل کو ہونے والے سہ فریقی مذاکرات سے باہر رکھا گیا۔ اس دوران افغانستان کے پاکستان کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہیں کیونکہ کابل کا الزام ہے کہ اسلام آباد انتہا پسندوں، خاص طور پر حقانی نیٹ ورک کو اپنے علاقوں میں پناہ گاہیں فراہم کرنے کی پالیسی رکھتا ہے تاکہ انہیں افغانستان میں اپنے پراکسی دستوں کے طور پر استعمال کر سکے۔ اسلام آباد اس الزام کی سختی سے تردید کرتا ہے۔ گزشتہ دنوں جب پاکستان نے افغان مہاجرین کو ملک سے زبردستی نکالنے کا ارادہ کیا تو دونوں ممالک کے درمیان تناؤ ایک مرتبہ پھر بڑھ گیا۔ افغانستان کے مسائل میں مزید اضافے کا خدشہ ہے کیونکہ یورپی یونین ۸۰ ہزار افغانوں کو ڈی پورٹ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ افغانستان تشدد کے علاوہ شدید مالی بحران کا بھی شکار ہے اور ان دونوں میں کمی کے آثار دکھائی نہیں دیتے۔
۸۔ میانمار
میانمار کی نئی سویلین حکومت جس کی قیادت نوبل امن انعام جیتنے والی آنگ سان سوچی کر رہی ہیں، نے وعدہ کیا تھا کہ ملک میں قومی سطح پر مفاہمت اُن کی ترجیحات میں شامل ہوگا۔ تاہم حالیہ دنوں پھوٹنے والے پُرتشدد فسادات نے ۷۰ سالہ مسلح کشمکش کے خاتمے کے امکانات کو معدوم کر دیا۔ نومبر میں چار مسلح گروہوں پر مشتمل شمالی اتحاد نے چین کی سرحد کے قریب تجارتی زون میں غیر معمولی انداز میں پُرتشدد کارروائیوں کا سلسلہ شروع کردیا۔ اس دوران ملک کی اقلیت روہنگیا مسلمان بھی عالمی تشویش کا مرکز ہیں۔ اس آبادی کو نسل کشی کا سامنا ہے۔ ان کے خلاف ۲۰۱۲ء سے پُرتشدد کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے، جس کی وجہ سے ان میں سے بہت سے جان بچانے کے لیے اپنے علاقوں سے فرار ہوئے۔ گزشتہ سال اکتوبر اور نومبر میں ملک کی بنگلادیش کی سرحد کے قریبی علاقوں میں پولیس اور سیکورٹی فورسز پر حملوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اس پر سیکورٹی فورسز نے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا اور ایسا کرتے ہوئے عام مسلمان شہریوں اور انتہا پسندوں کے درمیان کوئی فرق روا نہیں رکھا گیا۔ روہنگیا مسلمانوں کا قتل اور خواتین کی اجتماعی آبروریزی میانمار کے عام واقعات اور انسانی اقدار کے منہ پر ایک طمانچہ ہیں۔ اقوام متحدہ کی گزشتہ دسمبر کو تیار کی جانے والی رپورٹ کے مطابق ۲۷ ہزار روہنگیا افراد نے بنگلادیش میں پناہ لی ہے۔ اگرچہ روہنگیا کبھی بھی انتہا پسند آبادی نہ تھے، لیکن حکومت کے جبر کے ردعمل میں اب وہ بھی ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہیں۔ فی الحال اس مسئلے کا کوئی حل دکھائی نہیں دیتا۔
۹۔ یوکرائن
روس کی فوجی مداخلت کے نتیجے میں جنگ پر محیط تقریباً تین سالوں میں ہونے والی دس ہزار اموات نے یوکرائن کی سیاسی صورتحال کے تمام پہلوؤں کو واضح کردیا۔ کرپشن اور تنازعات سے تقسیم شدہ معذور یوکرائن میں مزید بے یقینی کی صورتحال ہے۔ ٹرمپ کی جانب سے روسی صدر پیوٹن کی حمایت نے کیو کو مزید خوفزدہ کردیا ہے جیسا کہ افواہیں تھیں کہ امریکا نے روس کے خلاف ہونے والی منظوریوں کو ریزہ ریزہ کردیا ہے۔ فروری ۲۰۱۵ء میں ہونے والے منسک امن معاہدے پر عملدرآمد تعطل کا شکار ہے۔ معاشی طور پر اصلاحات کرنے اور کرپشن کے خلاف اقدامات کرنے کی قابلیت اور خواہش نہ ہونے کی وجہ سے صدر پیٹرو اپنی حمایت میں شدت سے کمی لارہے ہیں۔ ان کے مسائل اسی صورت میں حل ہوسکتے ہیں جب ۲۰۱۷ء کے آغاز میں ہی پارلیمانی الیکشن منعقد کرالیے جائیں۔
۱۰۔ میکسیکو
میکسیکو اور امریکا کے درمیان موجود انتہائی درجے کے تناؤ میں ناگزیر اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ ٹرمپ کی صدارتی مہم میں کیے گئے وعدے ہیں۔ ان میں سرحدی دیوار تعمیر کرنے، غیر قانونی تارکین وطن کو واپس بھیجنا اور شمالی امریکا کے تجارتی معاہدے کو ختم کر دینا شامل ہے۔ ٹرمپ نے میکسیکو کے مہاجرین پرمنشیات فروش اور جرائم پیشہ ہونے کا الزام بھی لگایا تھا۔ مستقبل کی کسی بدمزگی سے بچنے کے لیے میکسیکو کے صدر انریق پینانیٹو نے ٹرمپ کو ستمبر میں دورے کی دعوت دے ڈالی۔ اس سے عوام میں ان کے خلاف اس غم و غصے کو تقویت ملی جو کہ ملکی مسائل مثلاً کرپشن، کمزور معیشت کی وجہ سے پہلے ہی موجود تھا۔ لیکن میکسیکن صدر جانتے ہیں کہ وہ ہمسائے میں اپنا کوئی دشمن پیدا نہیں کرسکتے۔ میکسیکو کے تارکین وطن اس وقت غربت و افلاس کا سامنا کررہے ہیں۔ ۲۰۱۶ء میں ہونے والے ایک سروے کے مطابق میکسیکو میں پُرتشدد واقعات کی وجہ سے ۳۴۰۰۰؍افراد ہلاک ہوئے۔ امریکا کو سوچنا ہوگا کہ وہ میکسیکو کے ساتھ تعلقات بہتر کرکے اپنے مفادات کو تقویت پہنچا سکتا ہے۔
(ترجمہ: ابوالابصار)
“10 Conflicts to Watch in 2017”.(“Foreign Policy”. Jan.5, 2017)
Leave a Reply