
گھریلو اشیا سے لے کر پالتو جانوروں کی غذا اور جینز تک، جو اشیا بھی آپ خریدتے ہیں، ان کا منافع دس بڑی کاروباری کمپنیوں کے حصے میں آتا ہے۔
’’ریڈٹ‘‘ (Reddit) نامی ویب سائٹ سے لیے گئے اس چارٹ کے مطابق جس کا عنوان ’’انتخاب کا دھوکا‘‘ ہے، ہر کمپنی کا تعلق ایک ربط کی صورت دنیا کی دس بڑی کمپنیوں میں سے کسی ایک سے جا ملتا ہے۔ آپ نے ضرور ان بڑی کمپنیوں کے بارے میں سنا ہوگا لیکن ان کی ملکیت اور اثرورسوخ حیرت انگیز ہے۔
(نوٹ: اس چارٹ کے مطابق پیرنٹ کمپنیاں یا تو چھوٹی کمپنیوں کی مالک ہیں یاان کے حصص رکھتی ہیں، یا ان کی ذیلی کمپنی کی شراکت دار(پارٹنر) ہیں۔ مثال کے طور پر کوکا کولا ’’مونسٹر‘‘ کی مالک نہیں ہے بلکہ وہ اس کی ترسیل (ڈسٹری بیوشن) کرتی ہے۔ قابل ذکر یہ ہے کہ ہمیں نہیں معلوم یہ چارٹ کتنا نیا ہے، کیوں کہ ’’پرینگلز ٹو کیلوگز‘‘ کو ’’پراکٹر اینڈ گیمبل‘‘ کا حصہ ظاہر کیا گیا ہے جب کہ پراکٹر اینڈ گیمبل نے پرینگلز ٹو کیلوگز فروری ۲۰۱۳ء میں فروخت کردی تھی۔ جیسے ’’یم برانڈز‘‘ (Yum Brands) پیپسی ہی کی ایک کمپنی ہے، جسے پیپسی نے علیحدہ رکھا ہوا ہے۔ یم برانڈز ’’کے ایف سی‘‘ اور ’’ٹیکوبیل‘‘ کی مالک ہے۔ یم برانڈز کے تمام ریستورانوں پر پیپسی ہی کی مصنوعات فروخت ہوتی ہیں، کیوں کہ ان دونوں کمپنیوں کے درمیان ایک خصوصی شراکت داری قائم ہے۔
پراکٹر اینڈ گیمبل کا بزنس ۸۴؍ارب ڈالرہے اور یہ امریکا میں تشہیر پہ سب سے زیادہ خرچ کرنے والی کمپنی ہے۔ پراکٹر اینڈ گیمبل کا دواؤں سے لے کر ٹوتھ پیسٹ اور جدید فیشن کی مصنوعات بنانے والی کئی مختلف کمپنیوں سے جوڑ ہے۔ پراکٹر اینڈ گیمبل کی رسائی اپنے اس نظام (نیٹ ورک) کے ذریعہ پوری دنیا میں ۴؍ارب ۸۰ کروڑ لوگوں تک ہے۔
نیسلے کا بزنس ۲۰۰؍ ارب ڈالر کا ہے۔ چاکلیٹ کی وجہ سے مشہور یہ کمپنی دنیا کی سب سے بڑی غذائی اشیا بنانے والی کمپنی ہے۔ نیسلے دنیا بھر میں تقریبا ۸۰۰۰ برانڈز کی مالک ہونے کے علاوہ دیگر چھوٹی کمپنیوں میں بھی شراکت دار ہے۔ نیسلے کے نیٹ ورک میں شیمپو بنانے والی کمپنی ’’لورئیال‘‘ (L’Oreal) کے علاوہ بچوں کی غذائی اشیا بنانے والی کمپنی ’’جربر‘‘، لباس بنانے والا برانڈ ’’ڈیزل‘‘ اور پالتو جانوروں کی غذا بنانے والی کمپنی ’’پورینا‘‘ اور ’’فرسکیز‘‘ بھی شامل ہیں۔
’’یونی لیور‘‘ جو صابن بنانے کی شہرت رکھتی ہے، مبینہ طور پر پوری دنیا میں ۲؍ارب لوگوں کو اپنی مصنوعات فروخت کرتی ہے۔ ان کا نیٹ ورک مادہ جذب کرنے والی کپاس کی کلیاں بنانے سے لے کر مونگ پھلی کا مکھن بنانے تک، ہر شے بنا رہا ہے۔
یہ بات صرف ان اشیا تک محدود نہیں جو آپ خریدتے اور استعمال کرتے ہیں، بلکہ جو خبریں اور معلومات آپ کوملتی ہیں، حالیہ دہائی میں وہ سب بھی یکجا ہو چکی ہیں۔ اعدادوشمار بتانے والے ادارے ’’فروگل ڈاڈ انفو گرافک‘‘ کے مطابق ۹۰ فیصد میڈیا صرف ۶ کمپنیوں کی ملکیت میں ہے جو کہ ۱۹۸۳ء میں ۵۰ کمپنیوں کے زیر اثر تھا۔
مزید غور کریں تو ’’فیڈرل ریزرو‘‘ کے اس نقشے کے مطابق ۳۷ بینکوں کے انضمام کے نتیجے میں صرف ۴ بینک، جے پی مارگن چیز، بینک آف امریکا، ویلز فارگو اور سٹی گروپ باقی رہ گئے ہیں۔
’’مادر جونز‘‘ نامی ویب سائٹ کے مطابق ملک کے ۱۰ بڑے مالیاتی ادارے ہمارے ۵۴ فیصد مالیاتی اثاثوں کے مالک ہیں، جب کہ ۱۹۹۰ء میں یہ ادارے صرف ۲۰ فیصد اثاثوں کے مالک تھے۔ مزید برآں دورانِ عرصہ بنکوں کی تعداد ۱۲۵۰۰ سے کم ہو کر ۸۰۰۰ رہ گئی ہے۔
چارٹ کو دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اعدادو شمار میں قابل قدر کمی واقع ہوئی ہے اور یہ ایسی حقیقت جسے قبول کرنادشوار ہے۔
ترجمہ: سمیع اللہ حسینی
(“10 corporations control almost everything you buy”… “policymic.com”. October 31, 2013)
Leave a Reply