انٹرنیشنل کرائسز گروپ نے چار سالہ تحقیق کے نتیجے میں نئی ترک حکومت کے لیے جن دس بنیادی مقاصد کا تعین کیا ہے وہ یہاں بیان کیے جارہے ہیں۔
٭ یورپی یونین میں شمولیت کے عمل کو تیز کرنا۔ یورپی یونین کے اندرونی اختلافات اور بعض سیاست دانوں کی جانب سے ترکی کے بارے میں خاصا معاندانہ رویہ ترکی کو یورپی یونین کا رکن بنانے کی راہ میں مزاحم رہا ہے۔ ترک حکومت بظاہر اس صورت حال سے بددل دکھائی دیتی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ترکی کو یورپی یونین کا حصہ بنانے کے عمل کو تیز کیا جائے۔ ترک نسل کے چالیس لاکھ افراد یورپ کے مختلف ممالک میں آباد ہیں۔ ترکی کی نصف تجارت یورپی ممالک سے ہے۔ ترکی کی دو تہائی سرمایہ کاری یورپی یونین کے رکن ممالک کی جانب سے ہے۔ ترکی کے دفاع میں معاہدہ شمالی بحر اوقیانوس کی تنظیم (نیٹو) کا مرکزی کردار ہے۔ ترکی میں قائم ہونے والی نئی حکومت کو چاہیے کہ اپنے ملک کو یورپی یونین کا حصہ بنانے پر غیر معمولی توجہ دے۔
٭ قبرص کا معاملہ طے کیا جائے۔ ترک حکومت کو چاہیے کہ ۲۰۰۵ء میں یورپی یونین میں شمولیت کے لیے مذاکرات کی ابتدائی شرط کے طور پر طے پانے والے معاہدے کے تحت یونانی قبرص کے لیے اپنی بندر گاہیں کھول دے اور تجارت کا باضابطہ آغاز کرے۔ یورپی یونین اگر چاہتی تو ترک قبرصیوں کو تجارت کی سہولت فراہم کرسکتی تھی مگر اس نے ایسا نہیں کیا۔ اب ترکی کو اس معاملے میں اوپن اپ ہو جانا چاہیے۔ ترک حکومت مذاکرات کا عمل بھی تیز کرسکتی ہے۔
٭ آئینی اصلاحات پر غیر معمولی توجہ دینا ہوگی۔ ترک حکومت کا فرض ہے کہ آئینی اصلاحات سے قبل ملک میں اختلافات اور تنازعات ختم کرنے پر توجہ دے۔ ملک میں صدارتی نظام نافذ کرنے سے متعلق آئینی اصلاحات اگر اختلافات کو جنم دیں گی تو حکومت کی مشکلات میں بھی اضافہ ہوگا۔
٭ کرد مسئلے کے حل کے لیے وسیع البنیاد اصلاحات بھی نافذ کرنا پڑیں گی۔ حکومت کے لیے لازم ہے کہ اس مسئلے کو خوش اسلوبی سے حل کرنے پر توجہ دے تاکہ یورپی یونین میں شمولیت کا کیس مضبوط ہو اور بنیادی حقوق سے متعلق کسی بھی اعتراض کی کوئی گنجائش نہ رہے۔ اے کے پی کی حکومت ملک کی پندرہ فیصد کرد آبادی کے مسئلے کو حل کرنے میں دلچسپی لیتی رہی ہے۔ اس عمل کو اب تیز کرنے کی ضرورت ہے۔
٭ ترکی کو مشرق وسطیٰ میں اپنا کردار مستحکم کرنے پر بھی توجہ دینا ہوگی۔ یورپی یونین میں شمولیت کی کوشش اپنی جگہ، تاہم مشرق وسطیٰ کو نظر انداز کرنا ترکی کے لیے انتہائی خطرناک ہوگا کیونکہ اس خطے کو نظر انداز کرکے ترکی اپنی پوزیشن کمزور کرے گا۔ معمولی سرحدی تنازعات کو بڑے بحران کی راہ ہموار کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ ترک وزیر خارجہ احمد داؤد اوغلو نے زیرو پرابلم کی بات کی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ترک اپنے سرحدی تنازعات ختم کرے اور تمام ممالک کے ساتھ ایسے تعلقات استوار کرے جن سے علاقائی استحکام کی صورت نکلے۔ ترکی کو مشرق وسطیٰ کے ممالک کے ساتھ معاملات درست کرنے، تجارت کو توسیع دینے اور ویزا سے متعلق سہولتوں کا دائرہ وسیع کرنے پر توجہ دینا چاہیے تاکہ خطے میں حقیقی امن اور استحکام کی راہ ہموار ہو۔ اسی صورت ترکی کے خارجہ پالیسی سے متعلق مقاصد حاصل ہوسکیں گے۔
٭ ترکی کو اسرائیل سے تعلقات بہتر بنانے پر بھی خاص توجہ دینا ہوگی۔ غزہ کی ناکہ بندی ختم کرنے کے لیے ایک اور فلوٹیلا بھیجنا ترک حکومت کے لیے حقیقی آزمائش سے کم نہ ہوگا۔ گزشتہ سال اسی نوعیت کی ایک مہم نے ترک اسرائیل تعلقات میں دراڑ ڈالی تھی تاہم سچ یہ ہے کہ ترک حکومت عالمی برادری کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی اور غزہ کے لوگوں کا کیس مضبوط ہوا۔ ترکی خطے کے تمام ممالک سے متوازن تعلقات کا حامل ہے۔ یہ حقیقت عالمی برادری میں اس کی پوزیشن مزید مستحکم کرنے کا سبب بنے گی اور ساتھ ہی ساتھ اسرائیل پر بھی ترکی سے بہتر تعلقات کی راہ ہموار کرنے کے لیے دباؤ میں اضافہ ہوگا۔
٭ آرمینیا سے تنازعات اور کشیدگی کا خاتمہ ترکی کی بنیادی ضرورت رہی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ترکی اس معاملے میں اپنی پوزیشن واضح کرے اور جو معاہدے آرمینیا سے کیے گئے ہیں ان پر مکمل عملدرآمد یقینی بنائے۔ سرحدی اور نسلی نوعیت کے تنازعات نے دونوں ممالک کو طویل مدت سے ایسے تعلق کے پنجرے میں قید کر رکھا ہے جس میں ان کے لیے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہے۔ اس معاملے میں ترکی کو فراخ دلی کا مظاہرہ کرنا ہوگا تاکہ خطے میں اس کی پوزیشن بہتر ہو اور اس کے حوالے سے علاقائی ممالک کے خدشات ختم یا متعدبہ حد تک کم ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ ترکی کو اب آرمینیا کے معاملے میں ایک نئی راہ کا تعین کرنا ہے تاکہ مستقبل کو زیادہ محفوظ اور تابناک بنانے کا عمل متاثر نہ ہو۔ ترکی ترقی اور استحکام کی اس منزل میں ہے جہاں وہ تنازعات اور کشیدگی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ کوئی ایک ناخوشگوار واقعہ مشکلات کے ایک سلسلے کو جنم دے سکتا ہے۔ نئی ترک حکومت کو چاہیے کہ آرمینیا کے لیے سرحدیں کھولنے اور سفارتی تعلقات بحال کرنے کا کوئی موقع ضائع نہ کرے۔
٭ بحیرہ ایجین کے حوالے سے ترکی اور یونان کے درمیان طویل مدت سے تنازع چلا آ رہا ہے۔ دونوں ممالک نے ۱۹۹۹ء سے اس مسئلے کو حل کرنے پر زیادہ توجہ دی ہے۔ اب بھی چند ایک امور پر اختلافات باقی ہیں۔ ترکی کو چاہیے کہ بحیرہ ایجین سے متعلق بحران کو جلد از جلد ختم کرے تاکہ حقیقی علاقائی امن کی راہ ہموار ہو اور یونان سے اس کے تعلقات بہتر ہوں۔ بحیرہ ایجین کے یونانی جزائر پر ترک فضائیہ کی پروازیں معاملات کو مزید خراب کرسکتی ہیں ایسے میں لازم ہے کہ دونوں ممالک بات چیت کی راہ اپنائیں۔
٭ ترک حکومت داخلی محاذ پر کامیاب رہی ہے۔ جیلوں سے تشدد کا تقریباً خاتمہ ہوچکا ہے۔ ایک پارٹی کی حکومت نے پالیسیوں میں قدرے استحکام پیدا کیا ہے۔ حکومت بیشتر معاملات میں جو کچھ بھی کر رہی ہے، ڈٹ کر کر رہی ہے۔ مقامی اداروں کے استحکام سے شہروں کی حالت بہتر ہوئی ہے اور لوگوں کا معیار زندگی بلند ہوا ہے۔ بنیادی سہولتوں کے معاملے میں حکومت نے بہتر پالیسیاں اپنائی ہیں جن سے عام آدمی کو زیادہ سہولتیں مل رہی ہیں۔ اس راہ پر مزید سفر کی ضرورت ہے۔ یورپی معیار تک پہنچنے کے لیے ترکی کو اب زیادہ محنت یا انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔
٭ اور ترک حکومت کو بیشتر معاملات میں جمہوری طرز فکر و عمل اختیار کرتے رہنے پر توجہ مرکوز کرنا ہوگی۔ اس وقت بھی عوام کو جمہوریت کے ثمرات سے بہرہ مند کرنے کے لیے بہت کچھ کیا جارہا ہے مگر مزید بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ملک حقیقی معنوں میں جمہوری کلچر سے ہمکنار ہو اور لوگ جمہوریت کو اپنے پورے وجود میں محسوس کریں۔
(بحوالہ: ’’سائپرس میل‘‘۔ ۱۴ جون ۲۰۱۱ء)
Leave a Reply