CIA چیف سے دس سوالات

پورٹر گوس صرف سات ماہ کے لیے اس وقت سی آئی اے ڈائریکٹر رہے تھے جب اس سی آئی اے کے جاسوس کو اپنا زیادہ تر اختیار امریکی نیشنل انٹیلی جینس کے نئے ڈائریکٹر John Negroponte کو سونپنا پڑا تھا۔ لیکن ۶۶ سالہ پورٹر گوس کا کہنا ہے کہ اب ان کے پاس امریکا کی سب سے بڑی خفیہ Human ایجنسی کو چلانے کا زیادہ موقع ہے۔ وہ اپنے اپنے انٹرویو کے لیے ’’ٹائم‘‘ کے نمائندے Timotly J. Burgoo کے ساتھ ہم کلام ہوئے:


س: امریکا اسامہ کو تلاش کرنے میں کب کامیاب ہو گا؟

ج: اس سوال کی گہرائی اس سے کہیں زیادہ ہے جتنا کہ آپ واقف ہیں۔ اس تسلسل میں کہ آپ کو کامیابی کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو لپیٹنا ہے‘ ہمیں کچھ کمزور رابطے میسر آئے ہیں اور میری تحقیق ہے کہ جب تک ہم ان تمام رابطوں کو مضبوط نہیں کر لیتے ہیں‘ ہم شاید اسامہ کو انصاف کے کٹہرے میں لانے میں کامیاب نہ ہوں۔ ہم اس سلسلے میں بہت اچھی پیش رفت کر رہے ہیں۔ لیکن جب آپ کو خود مختار ملکوں میں اس کی پناہ گاہوں جیسے مشکل سوال سے سابقہ پیش آتا ہے تو بین الاقوامی ذمہ داریوں سے متعلق ہمارے احساس اور جائز طریقوں کے استعمال جیسے نکات کا بھی آپ کو خیال کرنا پڑتا ہے۔ ہم روایتی دنیا میں ایسے غیرروایتی طریقوں کی تلاش میں ہیں جو عالمی برادری کے لیے قابلِ قبول ہوں۔

س: اس سے تو یہی جھلکتا ہے کہ آپ کو معلوم ہے کہ وہ (اسامہ) کہاں ہیں۔ بتائیں کہاں ہیں؟

ج: وہ کہاں ہے‘ اس کا ہمیں بخوبی اندازہ ہے۔ آپ کا اگلا سوال کیا ہے؟

س: نائب صدر ڈک چینی کا کہنا ہے کہ عراقی مزاحمت اپنے آخری مرحلوں میں ہے‘ کیا یہ آپ کا بھی مشاہدہ ہے؟

ج: میرا خیال ہے کہ یہ بالکل اپنے آخری مرحلوں میں نہیں ہے لیکن بہت قریب ضرور ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہر دن گزرنے کے ساتھ عراق میں عراقیوں کی اپنی حکومت صورت پذیر ہو رہی ہے۔ اس سمت میں ان کی پیش قدمی مزاحمت کاروں کو بے نقاب کر رہی ہے کہ وہ کس قدر ناپسندیدہ عناصر ہیں۔

س: کیا امریکا جھوٹی خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر پھر دوبارہ کوئی جنگ چھیڑ سکتا ہے؟

ج: میں اس مفروضے سے اتفاق نہیں کروں گا کہ امریکا نے جھوٹی خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر جنگ چھیڑی تھی۔ میرے خیال میں درست سوال یہ ہے کہ کیا امریکا کو لاحق ممکنہ خطرات کی تفتیش کرتے رہنا چاہیے؟ اس کا جواب ہاں میں ہے اور کیا ہمیں بعض ایسے خطرات کا علم ہو گا جو حقیقت سے زیادہ سنی سنائی بات ہو گی؟ ہاں! ایسا ہو گا۔

س: کیا القاعدہ کی جانب سے دوبارہ امریکا پر حملہ ہو سکتا ہے؟

ج: ہاں! ہو سکتا ہے۔ یقینا ان کے عزائم بہت اونچے ہیں اور ہم اس محفوظ مقام تک پہنچنے کی کوشش میں ہیں جو ان کی استعداد سے ماورا ہو۔ میرے خیال میں اب تک ہم نے ان کا تعاقب بہت اچھے سے کیا ہے اور میرے خیال میں ہماری یہ کوششیں موثر ثابت ہوئی ہیں۔

س: آپ سی آئی اے کے ہیومن انٹیلی جینس کے بہت بڑے ناقد رہے ہیں۔ آپ نے اس کو درست کرنے کے لیے کیا کیا ہے؟

ج: ہم اس کی کمیت اور کیفیت کو درست کر رہے ہیں۔ ہم طریقہ کار میں تبدیلی لارہے ہیں۔ ہم اس کے سسٹم کو بدل رہے ہیں۔ ہم اسے شروع سے آخر تک بدلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یعنی بھرتی کے لیے جس قسم کے افراد کو ہم اپنی جانب متوجہ کرنا چاہتے ہیں‘ سے لے کر ان افراد تک جنہیں ہم اپنے اندر داخل کر لینا چاہتے ہیں‘ پھر انہیں تربیت کے ذریعہ تجربہ سے آراستہ کرنا چاہتے ہیں۔ ان راہوں پر ہم انہیں تعینات کرنا چاہتے یا ان جگہوں پر ان کی تعیناتی پیشِ نظر ہے‘ جہاں وہ ہمارے لیے مفید ہو سکتے ہیں۔ ہم نے اپنی توجہ اس امر پر مرکوز رکھی ہے کہ ہم وہ طریقے دریافت کر سکیں جس سے بصارت اور سماعت عالمی بنیاد پر فعال ہو۔ اور ہم ہر کام اس طرح انجام دے رہے ہیں کہ آپ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ حتیٰ کہ ہم اسے تھوڑا بہت بھی بحث کا موضوع بنانا نہیں چاہتے۔

س: سی آئی اے کے وقار کو ڈائریکٹر کی صدر سے ملاقاتوں یا ان سے وقت کے حصول میں کمی آنے سے اور انٹیلی جینس کے ایک اہم شعبے کی سربراہی جان نیگرو پونٹے کے حوالے کر دینے سے کتنا نقصان پہنچا ہے؟

ج: میں اپنے پیٹھ پر ساٹھ پائونڈ وزن والے تھیلے سے چھٹکارا پانے کے مترادف سمجھتا ہوں ایسی حالت میں جبکہ کوئی چڑھائی پر چڑھ رہا ہو۔ مجھے اچانک یہ محسوس ہوا کہ میں عافیت میں آگیا ہوں۔ امریکا کے صدر سے آپ کی جس قدر ملاقات ہو گی ان کی مصروفیت کے پیشِ نظر آپ کی یہی خواہش ہو گی کہ ان کا وقت بہت احتیاط سے لیا جائے اور ان کے وقت کو خوامخواہ ضائع نہ کیا جائے یعنی آپ اس طرح ان کی مدد کرنا چاہیں گے۔ لہٰذا میں صدر کے اوقات کا احمقانہ طریقے سے استعمال نہیں کروں گا۔

س: آپ کا اس منصب پر کتنے وقت تک مامور رہنے کا ارادہ ہے؟

ج: جب تک دہشت گردی کے ساتھ ہماری جنگ جاری رہے گی؟ یہ ایک وقت تک جاری رہے گی اور ہمیں اس عرصے میں بہت کچھ کرنا ہے۔ ہم یہاں تعمیرِ نو کے مرحلے میں ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہی ہمارا لمحہ ہے۔ میں یہا رہوں گا جب تک کہ یہ لمحہ ختم نہیں ہوتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اسے ختم ہونے میں ایک وقت لگے گا۔ اس لیے کہ ہمیں تعمیر کے مواقع ملے ہیں۔

س: کیا آپ نیگرو پونٹے کے ذاتی دوست ہیں؟

ج:میں ان کے ساتھ اسکول جایا کرتا تھا۔ ہمارے درمیان اتفاق تھا کہ ہم ثالے (Yale) کے بارے گفتگو نہیں کریں گے۔ نیگرو پونٹے اور میرے مابین معاہدہ کہ اگر تم کچھ نہیں کہو گے تو میں تمہیں کچھ نہیں کہوں گا۔

س: کیا آپ کی دلچسپی نامیاتی باغبانی میں ہے؟ یہ کیسے ہوا؟

ج: بعض پروسسڈ فوڈز کے لیبل کو پڑھ کر میری بیوی کافی گھبرائی۔ ہمارا ایک فارم تھا‘ جس میں نہ ہم کسی Pestisides کا استعمال کرتے تھے اور نہیں ہارمونز اور کا Additers استعمال کرتے تھے۔ اس میں صرف کمپوسٹ یعنی گوبر کھاد کا استعمال کرتے تھے اور سخت محنت کرتے تھے اور ہم فطرت کی نشوونما کرتے تھے۔ مجھے کہنا چاہیے کہ یہ بہت سودمند تھا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ناقدین ہر پودے کا نصف لے لیتے ہیں۔ ان کا فروخت ہونا مشکل ہے۔ ہم نے ناقدین کی ابھی تک تربیت نہیں کی۔

(بشکریہ: ’’ٹائم میگزین‘‘۔ ۲۷ جون ۲۰۰۵ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*


This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.