
امریکا اور اس کے اتحادی افغانستان سے انخلا کی تیاری کر رہے ہیں۔ ۲۰۱۴ء میں انخلا مکمل ہونے کی صورت میں معاملات کیا رخ اختیار کریں گے، سب جانتے ہیں۔ طالبان کی پوزیشن مستحکم ہے اور اس کا زیادہ امکان ہے کہ وہ دوبارہ اقتدار میں آ جائیں گے۔
افغانستان میں چالیس سال سے حالات انتہائی سنگین ہیں۔ لڑائیاں ہوتی رہی ہیں۔ سوویت یونین کی لشکر کشی کے بعد مغربی طاقتوں نے پاکستان اور دیگر ممالک سے جہادیوں کو فنڈنگ کے ذریعے افغانستان میں متحرک کیا اور بالآخر سوویت افواج کو نکلنے پر مجبور کیا۔ ان چالیس برسوں میں افغان عوام مستقل بنیاد پر غیر یقینی صورت حال کا شکار رہے ہیں۔ امریکا، برطانیہ اور ان کے ہم خیال ممالک افغانستان سے نکلنے کی تیاری کر رہے ہیں مگر کسی کو بھی اندازہ نہیں کہ اس اقدام سے افغانستان میں حقیقی استحکام پیدا ہوگا یا نہیں۔ افغان عوام کا کہنا ہے کہ اتحادیوں کے انخلا سے وہ خوش ہیں مگر میں نے کبھی افغانوں کے موڈ کو اس قدر مایوس نہیں دیکھا۔ عالمی برادری نے افغانستان کی تعمیر نو اور بہبودِ عامہ کے لیے اربوں ڈالر کی امداد دینے کے وعدے کیے ہیں مگر یہ وعدے کس حد تک ایفا ہوتے ہیں، یہ تو وقت ہی بتائے گا۔
۲۰۰۱ء میں طالبان کی حکومت کے خاتمے سے افغانوں نے جو امیدیں باندھ رکھی تھیں، وہ خاک میں ملتی دکھائی دیتی ہیں۔ غیر ملکیوں نے جو بڑے بڑے دعوے اور وعدے کیے تھے، اُن کے مطابق اپنی کارکردگی کا گراف بلند کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ کابل کو سکیورٹی کے لیے قلعے کی سی شکل دے دی گئی ہے۔ غیر ملکی سفارت کار اپنی آرمرڈ گاڑیوں میں گھومتے ہیں۔ حساس علاقوں میں غیر متعلقہ افراد کا داخلہ سختی سے ممنوع ہے۔ غیر ملکی صحافی، این جی او کے کارندے اور عام مغربی باشندے کابل اور دیگر شہروں میں پیدل چلنے سے گریز کرتے ہیں کیونکہ انہیں شک بھری نظروں سے دیکھنے والوں کی کمی نہیں۔ انہیں پشتو یا دری زبان میں مغلظات کا سامنا بھی ہوسکتا ہے اور پتھراؤ بھی۔
افغان باشندے حکام پر الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ امدادی رقوم کھاگئے۔ حکام کا کہنا ہے کہ مغرب نے وعدوں کے مطابق بھرپور امداد دی ہی نہیں۔ امریکی فوجی حکام پر بھی کرپشن کو فروغ دینے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔
مغربی سفارت کار اس تاثر کو پروان چڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے رخصت ہونے کے بعد افغان فوج سکیورٹی کا انتظام بہتر ڈھنگ سے انجام دے سکے گی۔ مگر افغانوں کو ان کی بات کا کم ہی یقین ہے اس لیے بیشتر مالدار افغان باشندے اپنے خاندانوں کو دبئی اور دیگر محفوظ مقامات پر منتقل کر رہے ہیں۔ بہت سے لوگ اپنے مکانات بیچ رہے ہیں تاکہ ملک سے نکلنے کے لیے کیش حاصل کرسکیں۔ استعمال شدہ کاریں فروخت کرنے والوں کی تعداد میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
افغان فوج نے کئی علاقوں میں کامیابی کا دعویٰ کیا ہے مگر اب بھی اس کے پاس افرادی قوت، تربیت اور آلات کی کمی ہے۔ بیشتر کارروائیوں میں اتحادی افواج اب افغان فوج کی بھرپور معاونت نہیں کرتیں اور ان کے زخمیوں کو علاج کی سہولت فراہم کرنے سے بھی گریز کرتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب نہیں جو کچھ بھی کرنا ہے، اپنے طور پر کرنا ہے۔ افغان فوجیوں کی طرف سے اتحادی فوجیوں پر حملوں کا ایک بنیادی سبب یہ بھی ہے کہ جب وہ مل کر کارروائی کرتے ہیں تو صاف پتا چلتا ہے کہ دونوں میں اسلحے، آلات اور سہولتوں کا کتنا واضح فرق ہے۔
اتحادیوں کے انخلا کا ایک واضح مطلب مختلف علاقوں کے کنٹرول سے محروم ہونا بھی ہے۔ اتحادیوں نے کئی صوبوں میں اہم مقامات کو کسی نہ کسی طور اپنے کنٹرول میں رکھا تھا۔ اب ان کے جانے کے بعد طالبان، حزب اسلامی اور دیگر عسکریت پسند گروپ اپنی پوزیشن مستحکم کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ علاقوں پر کنٹرول کے لیے طالبان اور افغان فوج میں لڑائی شدت اختیار کرتی جائے گی۔ جنوب اور مشرق میں پختون اکثریتی علاقوں میں طالبان کا واضح کنٹرول ہوگا۔ شاہراہوں پر طالبان کی چیک پوسٹیں بھی ہوں گی۔ دوسری طرف بھی فوج بھی لوگوں کو روکے گی۔ مقامی جنگجو سرداروں کے اسلحہ بردار غنڈے بھی معاملات کو اپنے ہاتھ میں لینا چاہیں گے۔ ایسے میں عام افغانوں کے لیے سکیورٹی کا مسئلہ سنگین شکل اختیار کرتا جائے گا۔
دس سال سے طالبان کے خلاف پروپیگنڈا ہو رہا ہے۔ کابل میں تعلیمی اداروں کے لیے بڑے پیمانے پر گرانٹ دی جاتی رہی ہے۔ شہر کے تھوڑے سے بدلے ہوئے حالات میں ایسی نئی نسل تیار ہوئی ہے جس کے دل میں بہت کچھ کرنے کی تمنا ہے۔ مگر حالات سے مایوس ہوکر بہت سے نوجوان ملک چھوڑ کر جارہے ہیں۔ این جی اوز اب بھی سرگرم ہیں اور بہبودِ عامہ کے مختلف منصوبوں پر خطیر رقوم خرچ کر رہی ہیں۔ ذہنی صحت کا معیار بلند کرنے اور میڈیا کی ترقی کے لیے بہت کچھ خرچ کیا جارہا ہے۔ مگر ان این جی اوز کو بھی اندازہ ہے کہ ان کے فنڈ میں بہت جلد کٹوتی کردی جائے گی۔
بے روزگاری کا خطرہ بھی افغان باشندوں کے سروں پر منڈلا رہا ہے۔ اتحادیوں کے جانے کے بعد ان کے ساتھ کام کرنے والے مترجمین، مددگار اور دوسرے بہت سے لوگ بے روزگار ہو جائیں گے۔ صوبائی سطح پر بہت سے ترقیاتی منصوبے غیر ملکیوں کی مشاورت اور تکنیکی امداد کے ذریعے چل رہے ہیں۔ جب غیر ملکی چلے جائیں گے تو یہ منصوبے بھی کھٹائی میں پڑ جائیں گے۔
بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر حکومت چاہے تو دو سال میں بہت سی ایسی تبدیلیوں کی راہ ہموار کرسکتی ہے، جن سے طالبان کا اثر کم ہو جائے گا۔ آئندہ سال صدارتی اور پارلیمانی انتخابات ہونے ہیں۔ ان انتخابات کو حقیقی معنوں میں شفاف بنانے کی ضرورت ہے۔ طالبان کا زور اس بات پر ہے کہ وہ حکومت کی کرپٹ مشینری کے مقابلے میں تیزی سے انصاف فراہم کر سکتے ہیں۔ اگر انتخابات شفاف ہوں، سرکاری عہدوں پر اہل لوگ فائز ہوں اور عام آدمی کو انصاف ملے تو طالبان کا اثر و رسوخ کم کرنے میں غیر معمولی مدد ملے گی۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ اب کوئی بڑی تبدیلی رونما نہیں ہوگی۔ محض ایک سال میں کرپشن پر قابو نہیں پایا جاسکتا۔ حکومتی مشینری میں جو خرابیاں ایک عشرے میں پیدا ہوئی ہیں، وہ محض ایک دن میں دور کرنا ممکن نہیں۔
افغانستان کے بارے میں بیرون ملک بھی عوام کی دلچسپی ختم ہوچکی ہے۔ امریکا اور برطانیہ میں لوگ اب افغانستان کے بارے میں زیادہ نہیں سوچتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ترجیح انخلا کو دی جانی چاہیے۔ افغانستان کی تعمیر و ترقی اور سکیورٹی کو ترجیح دینے سے گریز کیا جارہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بش اور بلیئر نے بہت سی غلطیاں کیں۔ دس برسوں کے دوران افغانستان میں ایسی حماقتیں سرزد ہوئیں جن کے باعث اتحادیوں کو اپنے مقاصد میں کامیابی نہ مل سکی۔ ان حماقتوں سے مغرب کو بہت کچھ سیکھنا ہوگا۔
(“10 Years of Western Folly has Erased Afghan Hope”… “The Guardian”. Dec. 12th, 2012)
Leave a Reply