
دو نومبر کو اعلانِ بَیلفور (Balfour Declaration) کے ۱۰۰ سال مکمل ہوگئے۔ اس اعلان نے صہیونیت کی بنیاد پر یہودیوں کی ایک ریاست کے قیام کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ یہودیوں کے لیے ان کی اپنی آبائی سرزمین پر ایک ریاست کو معرض وجود میں لانے کا عہد برطانیہ نے کیا۔
اس عہد پر عمل کے نتیجے ہی میں ۱۹۴۸ء میں فلسطینیوں کی نسلی تطہیر ہوئی اور اسرائیل دنیا کے نقشے پر ابھرا۔
اعلانِ بَیلفور کو جدید عرب تاریخ میں انتہائی متنازع دستاویزات میں شمار کیا جاتا ہے اور تاریخ دانوں کو اس دستاویز نے عشروں تک خلجان میں مبتلا رکھا ہے۔
اعلانِ بَیلفور ہے کیا؟
اعلانِ بَیلفور دراصل برطانیہ کی طرف سے کیا جانے والا عہد تھا کہ وہ فلسطین میں یہودیوں کے لیے ایک ریاست قائم کرے گا۔ یہ عہد اس وقت کے برطانوی وزیر خارجہ آرتھر بَیلفور نے ایک خط میں کیا تھا، جو برطانیہ میں یہودی کمیونٹی کے سربراہ لایونل والٹر روتھس چائلڈ کے نام لکھا گیا تھا۔ یہ خط پہلی جنگ عظیم کے دوران لکھا گیا تھا اور برطانیہ کے فلسطینی مینڈیٹ اور خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے کی شرائط میں شامل کردیا گیا تھا۔ اس وقت کی بڑی (یورپی) قوتوں نے مینڈیٹ سسٹم کے زیر عنوان استعماریت اور نوآبادی نظام کا ڈھانچا تیار کیا تھا، جس کا بنیادی مقصد کمزور اقوام کو آپس میں تقسیم کرنا تھا۔ پہلی جنگ عظیم میں شکست کھا جانے والی قوتوں (جرمنی، آسٹرو ہنگیرین ایمپائر، خلافتِ عثمانیہ اور بلغاریہ) کے زیر قبضہ علاقوں کو فاتحین کے حوالے کیا جانا تھا۔
مینڈیٹ سسٹم کے تحت نئی ابھرنے والی ریاستوں کا نظم و نسق (جب تک وہ اپنے پیروں پر کھڑی نہ ہوجائیں) جنگ میں فتح پانے والی اقوام کے حوالے کیا گیا۔ فلسطین کا معاملہ البتہ مختلف تھا۔ برطانیہ نے فلسطینی علاقوں میں یہودیوں کے لیے قومی ریاست قائم کرنے کا فیصلہ کیا جبکہ اس وقت وہاں یہودیوں کی آبادی ۱۰فیصد سے بھی کم تھی۔
۱۹۲۲ء سے ۱۹۳۵ء کے درمیان برطانیہ نے یورپی یہودیوں کو فلسطین میں بسانا شروع کیا اور پھر وہاں یہودیوں کی آبادی ۹ فیصد سے ۲۷فیصد تک جاپہنچی۔ اعلانِ بَیلفور میں رسمی طور پر یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ فلسطین میں آباد غیر یہودی آبادیوں کے شہری اور مذہبی حقوق کو کسی بھی صورت داؤ پر نہیں لگنے دیا جائے گا، تاہم حقیقت یہ ہے کہ یہودیوں کو وہ سب کچھ دیا گیا جس کی بنیاد پر وہ دوسروں کو نیچا دکھاکر اپنی مرضی سے کھیل سکیں۔
اعلانِ بَیلفور بہت سی وجوہات کی بنیاد پر متنازع تھا۔
٭ عظیم فلسطینی دانشور ایڈورڈ سعید کے مطابق یہ ایک غیریورپی سرزمین کا معاملہ تھا، جس کا فیصلہ ایک یورپی طاقت نے کیا اور ایسا کرتے وقت مقامی اکثریتی آبادی کی امنگوں کو یکسر نظر انداز کردیا گیا۔ یہودیوں کے لیے ایک ایسی سرزمین پر قومی ریاست کے قیام کا وعدہ کیا گیا جہاں مقامی آبادی ۹۰ فیصد سے زائد اکثریت رکھتی تھی۔
٭ یہ اعلان ان تین غلط وعدوں میں سے تھا جو برطانوی سلطنت نے حالتِ جنگ میں کیے تھے۔ جب یہ اعلان کیا گیا تب برطانوی حکمران اہلِ عرب سے وعدہ کرچکے تھے کہ ۱۹۱۵ء کی حسین میک میہون خط و کتابت کی بنیاد پر انہیں سلطنتِ عثمانیہ سے آزادی دلائیں گے۔ برطانوی قیادت ۱۹۱۶ء کے سائکس پائیکوٹ معاہدے کے ذریعے فرانس سے وعدہ کرچکی تھی کہ فلسطینی علاقہ بین الاقوامی انتظامیہ کے تحت رکھا جائے گا۔ جبکہ خطے کے دیگر علاقے یا ممالک کو فرانس اور برطانیہ آپس میں تقسیم کرلیں گے۔ اعلانِ بَیلفور سے یہ بات طے ہوگئی کہ فلسطینی برطانوی انتظام کے تحت آجائیں گے اور وہاں آباد عربوں کو آزادی نہیں ملے گی۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ اعلانِ بَیلفور میں ’’نیشنل ہوم‘‘ کے الفاظ شامل تھے، جن کا اس وقت تک بین الاقوامی قوانین میں کوئی ذکر نہ تھا۔ ’’ریاست‘‘ کے بجائے یہودیوں کے لیے ’’قومی گھر‘‘ کی اصطلاح خاصی ڈھیلی ڈھالی تھی، جس کے مختلف مفاہیم اخذ کیے جاسکتے تھے۔ ابتدائی مسودوں میں یہ درج تھا کہ فلسطینی علاقوں کو نئی شکل دے کر یہودی ریاست میں تبدیل کیا جائے گا۔ بعد میں یہ الفاظ حذف کرکے ’’نیشنل ہوم‘‘ کی اصطلاح شامل کی گئی۔
۱۹۲۲ء میں صہیونی لیڈر چائم وائزمین سے ملاقات کے بعد آرتھر بَیلفور اور اس وقت کے برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ لائڈ جارج نے کہاکہ اعلانِ بَیلفور کا حتمی مقصد یا ہدف یہودی ریاست کا قیام ہی ہے۔
ایک اہم سوال یہ ہے کہ اعلانِ بَیلفور جاری ہی کیوں کیا گیا؟ اس سوال پر تاریخ دانوں اور تجزیہ کاروں نے عشروں تک بحث کی ہے۔ اور مختلف پہلو تراشنے کی کوشش کی ہے۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس وقت کی برطانوی قیادت میں صہیونی بھی تھے، جو چاہتے تھے کہ دنیا بھر کے یہودیوں کو ایک مرکز پر لایا جائے۔ دوسری طرف بعض لوگوں کی رائے یہ تھی کہ یورپ میں یہودیوں سے شدید نفرت پائی جاتی تھی اور اس کا حل یہ سوچا گیا کہ فلسطینی سرزمین پر یہودی ریاست قائم کردی جائے تاکہ یہودی مخالف لہر دم توڑ دے یا اس کی شدت میں کمی آجائے۔
آراء تو اور بھی بہت سی ہیں، مگر مرکزی دھارے کے اسکالر جن آراء پر متفق دکھائی دیتے ہیں وہ یہ ہیں:
٭ فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کی صورت میں اس پورے علاقے پر برطانوی کنٹرول یقینی بنانا تاکہ مصر اور سوئیز کینال پر اپنا تصرّف برقرار رکھا جاسکے۔
٭ برطانیہ کو یہودیوں کا ساتھ دینا ہی تھا تاکہ امریکا اور روس میں یہودی لابیاں حتمی فتح تک دوسری عالمی جنگ میں برطانوی افواج کو ثابت قدم رہنے کے قابل بنانے میں بھرپور مالی معاونت کرسکیں۔
٭ برطانیہ اور برطانوی حکومت میں صہیونی لابی بہت مضبوط تھی۔ برطانوی حکمرانوں میں صہیونیوں کے رابطے اور اثرات غیر معمولی تھے اور وہ بہت سے اہم فیصلوں پر اثر انداز بھی ہوتے تھے۔ بہت سے برطانوی اعلیٰ حکام بھی صہیونی تھے۔
٭ یورپ بھر میں یہودیوں پر مظالم ڈھائے جارہے تھے اور برطانوی حکومت ان سے ہمدردی کے اظہار کے طور پر ان کے لیے ریاست کا قیام چاہتی تھی۔
اب یہ دیکھنا ہوگا کہ فلسطینیوں اور عربوں نے اعلانِ بَیلفور پر کس نوعیت کا ردعمل ظاہر کیا؟ ۱۹۱۹ء میں اس وقت کے امریکی صدر ووڈرو ولسن نے شام اور فلسطین میں مینڈیٹری سسٹم کے حوالے سے رائے عامہ کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیشن قائم کیا۔ اسے کنگ کرین کمیشن کا نام دیا گیا۔ کمیشن نے تحقیقات کے بعد بتایا کہ فلسطینیوں کی اکثریت صہیونیت کے خلاف ہے اور مینڈیٹ کے اہداف کے حوالے سے نئے سرے سے غور و خوض کے ذریعے بہت کچھ دوبارہ طے کرنا پڑے گا۔
معروف قوم پرست فلسطینی سیاست دان عونی عبدالہادی مرحوم نے اعلانِ بَیلفور پر شدید نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ یہ دستاویز ایک انگریز نے تیار کی ہے، جس کا فلسطین سے کوئی تعلق نہیں اور یہ دستاویز ایک ایسے یہودی کے لیے تیار کی گئی ہے جس کا فلسطینی علاقے پر کوئی حقِ ملکیت نہیں۔
۱۹۲۰ء میں حیفہ میں منعقدہ تیسری فلسطینی کانگریس نے اعلانِ بَیلفور کو یہ کہتے ہوئے مسترد کردیا کہ یہ صہیونیت کی واضح حمایت کرتا ہے اور مقامی آبادی کے حقوق کی ضمانت فراہم کرنے والے بین الاقوامی قوانین کے یکسر منافی ہے۔
پریس کے ذریعے اعلانِ بَیلفور کے بارے میں مزید بہت سی آراء سامنے آسکتی تھیں مگر پہلی جنگ عظیم کے آغاز ہی میں سلطنتِ عثمانیہ نے اس پر پابندی لگادی تھی۔ ۱۹۱۹ء میں پریس کو بحالی کا موقع ملا، تاہم اس بار برطانوی ملٹری سینسر شپ بنیادی شرط کے طور پر ساتھ تھی۔
نومبر ۱۹۱۹ء میں شام کے دارالحکومت دمشق سے عربی روزنامہ “الاستقلال العربی” کی اشاعت دوبارہ شروع ہوئی تو برطانوی کابینہ کے صہیونی وزیر ہربرٹ سیمیوئل کی طرف سے اعلانِ بَیلفور کی بھرپور حمایت کے جواب میں اخبار نے ایک مضمون میں صاف صاف لکھا کہ ہمارا ملک عرب ہے، فلسطین عرب ہے اور یہ عرب ہی رہے گا۔
اعلانِ بَیلفور اور برطانوی مینڈیٹ کے سامنے آنے سے پہلے بھی عرب دنیا کے بیشتر اخبارات خبردار کرچکے تھے کہ صہیونیت کو فروغ دینے اور فلسطینیوں کو ان کے علاقوں سے نکالنے کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ پہلی جنگِ عظیم کے خاتمے پر مقبوضہ بیت المقدس کے استاد اور مصنف خلیل سکاکینی نے لکھا ’’جو قوم ایک مدت سے سوئی ہوئی ہو وہ حالات کے ہاتھوں بری طرح جھنجھوڑے جانے پر بیدار ضرور ہوتی ہے، مگر مرحلہ وار۔ یہ تھی فلسطین کی حالت جو صدیوں سے سویا ہوا تھا۔ ایک عظیم جنگ نے اِسے جگادیا۔ صہیونیت نے اِسے چونکایا اور برطانیہ کی غیر منصفانہ پالیسیوں نے اِسے بیدار ضرور کیا مگر مکمل طور پر نہیں‘‘۔
برطانیہ اور دیگر یورپی طاقتوں کی شہہ پر جب یورپ کے یہودیوں نے فلسطین میں آباد ہونا شروع کیا، تب صورتِ حال کشیدہ ہونے لگی۔ ۱۹۲۰ء میں نبی موسیٰ ریوالٹ کی شکل میں فلسطینیوں کا پہلا شدید ردعمل سامنے آیا۔ اس واقعے میں چار فلسطینی اور پانچ یورپی یہودی مارے گئے۔
اور کون کون پشت پر تھا؟
عام طور پر یہ تصور کیا جاتا ہے کہ اعلانِ بَیلفور برطانوی سلطنت نے جاری کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ جنگ میں اس کے دیگر بڑے اتحادیوں کے مشوروں اور اجازت کے بغیر یہ اعلان ممکن نہیں ہوسکتا تھا۔ ستمبر ۱۹۱۷ء میں برطانیہ کی جنگی کابینہ کے ایک اجلاس میں طے کیا گیا کہ باضابطہ ڈکلیریشن سے قبل اس وقت کے امریکی صدر ووڈرو ولسن سے بھی منظوری لینا درست ہوگا۔ ۴؍اکتوبر کو برطانوی کابینہ نے آرتھر بَیلفور کو یاد دلایا کہ معاہدہ کے لیے امریکی صدر کی بھرپور حمایت ہر حال میں یقینی بنائی جائے۔
فلسطینی علاقوں میں دنیا بھر کے یہودیوں کو آباد کرنے کے اس منصوبے کو فرانس کی بھی حمایت حاصل تھی۔ مئی ۱۹۱۷ء میں فرانسیسی سفارتکار جولے کیمبون نے پولینڈ کے صہیونی لیڈر ناہم سوکولو کے نام خط میں لکھا کہ فرانسیسی حکومت فلسطینی علاقوں میں یہودیوں کی آباد کاری کے اس منصوبے کی بھرپور حمایت کرتی ہے۔ خط میں مزید درج تھا کہ یہودیوں کو جن علاقوں سے صدیوں پہلے نکال دیا گیا تھا انہیں وہاں دوبارہ آباد کرنا دراصل یہودی قوم پرستی کے احیا میں بھرپور معاونت اور انصاف کا بول بالا کرنے جیسا اقدام ہوگا اور اس حوالے سے اتحادی برطانیہ کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہوں گے۔ زبان و بیان کے اعتبار سے اس خط کو اعلانِ بَیلفور کا ’’نقیب‘‘ قرار دیا جاسکتا ہے۔
اعلانِ بَیلفور کے فلسطینیوں پر اثرات
اعلانِ بَیلفور کو بیشتر فلسطینی ۱۹۴۸ء میں رونما ہونے والے ’’نکبہ‘‘ کا نقیب قرار دیتے ہیں، جب برطانیہ کی بھرپور حمایت سے تربیت یافتہ صہیونیوں کے مسلح گروپوں نے ۷۵ ہزار سے زائد فلسطینیوں کو ان کی آبائی زمین سے بے دخل کردیا تھا۔ جنگی کابینہ کے چند ایک ارکان نے اعلانِ بَیلفور کے سنگین نتائج سے خبردار کیا تھا، مگر اس کے باوجود برطانوی قیادت نے یہ اعلان ضروری سمجھا اور جو فیصلہ کرلیا تھا اس پر عمل کر دکھایا۔
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ یہودیوں کو غیر معمولی قوت اور تیزی کے ساتھ فلسطینی علاقوں میں قدم جمانے کا موقع فراہم کرنے میں برطانوی قیادت نے کلیدی کردار ادا کیا۔ اور اسی کے نتیجے میں ۱۹۴۸ء میں یہودی ریاست کا قیام عمل میں آیا۔ سوال صرف یہودیوں کو ریاست کا حق دینے کا نہیں تھا، اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس حق کا دیا جانا یقینی بنانے کے عمل میں فلسطینی اپنے ہی آبائی علاقوں سے بے دخل کردیے گئے۔ ۱۹۴۷ء میں برطانیہ نے مینڈیٹ سسٹم ختم کرکے فلسطین کا معاملہ اقوام متحدہ کے حوالے کیا، مگر تب تک برطانیہ کی بھرپور حمایت سے صہیونیوں کے مسلح گروپ منظم فوج کی شکل اختیار کرچکے تھے۔ ان گروپوں کو برطانوی فوج کے شانہ بہ شانہ لڑنے کا تجربہ بھی حاصل تھا۔ قصہ مختصر، برطانیہ نے یہودیوں کو فلسطینی علاقوں میں خود مختاری کے حصول کے قابل بنانے میں بھرپور معاونت کی۔ قدم قدم پر حوصلہ افزائی کی گئی اور دوسری طرف فلسطینیوں کو خود مختاری کے حصول سے روکا گیا۔ اس کے نتیجے میں یہودیوں کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسلی تطہیر کی راہ ہموار ہوئی۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“100 years on: The Balfour Declaration explained”. (“Al-Jazeera”. Oct. 29, 2017)
Leave a Reply