زوال پذیر جاگیرداری کو سیاست کا سہارا!

میں نے جاگیر داری کے ثبات کے مسئلے کا مطالعہ کرنے کی غرض سے سندھ کا ایک ابتدائی تحقیقی دورہ کیا۔ وہاں جانے سے پہلے میرے لیے یہ بات باعثِ تذبذب تھی کہ سندھ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں اب بھی بڑے جاگیردار خاندان موجود ہیں، جن کے پاس بڑی تعداد میں اجرت پر کام کرنے والے کسان اور گہرا اثر و رسوخ موجود ہے۔ یہ بات اس لیے بھی باعثِ غور تھی کہ اس طرح کے جاگیردارانہ رجحانات پاکستان کے دیگر صوبوں اور پڑوسی ممالک میں دم توڑ چکے ہیں۔ جن جگہوں پر میں نے وقت گزارا ان میں کراچی، حیدرآباد، سانگھڑ، سکھر، شکارپور، لاڑکانہ، خیرپور، ٹھٹہ، گھارو اور دیگر شامل تھیں۔ جن علاقوں میں میں نے فیلڈ ورک کیا وہ سندھ کے نمائندہ علاقے تھے کیونکہ ان میں صوبے کے جنوبی اور شمالی دونوں دیہی علاقوں کے علاوہ بڑے شہری مراکز بھی شامل تھے۔ روایتی طور پر سندھ کی تقسیم جنوب، شمال اور دیہی، شہری خطوط پرہے۔ شمال میں زراعت کے لیے پانی زیادہ ہے مگر زمین نمکین ہے اور باآسانی سیلاب زدہ ہو جاتی ہے۔ جنوب میں پانی کم ہے لیکن جن علاقوں میں زراعت ہوتی ہے وہ بہت زرخیز ہیں۔سندھ کی بیشتر زمین اور آبادی (زیادہ تر اندازوں کے مطابق ۷۶ فیصد) کو دیہی کہا جاسکتا ہے۔ جاگیرداریت سے منتقلی زیادہ تر دیہی علاقوں کو متاثر کرتی ہے اگرچہ شہری مراکز میں بھی اس کے اثرات محسوس کیے جاتے ہیں۔ امن و امان کی صورتِ حال کے لحاظ سے بھی سندھ میں تفاوت پایا جاتا ہے۔ جنوب کے دیہی علاقے پرتشدد اموات، اغوا اور ڈاکوں کی وارداتوں میں شمال کے علاقوں سے کہیں آگے ہیں۔ سندھ کے شہری علاقوں میں بھی تشدد کچھ کم نہیں لیکن اس کی نوعیت مختلف ہے۔ وہ زیادہ تر جماعتی اور نسلی بنیادوں پر ہے، نہ کہ خاندان اور قبیلے کی بنیاد پر۔

وہاں رہائش کے دوران میں نے جو بھی انٹرویو کیے، ان سب میں جاگیر داروں نے چاہے وہ جنوب کے ہوں یا شمال کے، جاگیر داری نظام کی بتدریج ٹوٹ پھوٹ کی شکایت کی۔ دوسری طرف اجرت پر کام کرنے والے کسان بہت سے مسائل کے بارے میں پریشان نظر آئے جیسے غربت، بنیادی سہولتوں کا فقدان اور کہیں کہیں دوسری برادری سے تعلق رکھنے والے جاگیر دار۔ کسانوں نے خاصے کھلے انداز میں بعض جاگیر داروں کے ظلم کے بارے میں بھی بات کی اگرچہ امید تھی کہ وہ اس طرح کی بات کرنے سے خوف زدہ ہوں گے۔اگرچہ ان تمام مسائل کا احاطہ کرنا ممکن نہیں جو جاگیر داری نظام کی ٹوٹ پھوٹ کے مسئلے کو سمجھنے میں سامنے آئے لیکن ان میں سے چند یہ ہیں: وراثت میں زمینیں تقسیم ہونے کی وجہ سے انفرادی ملکیتی زمین کا کم ہونا، جاگیر دار کا فی نفسہ موجود نہ ہونا، کسانوں کا مشرقِ وسطیٰ کے ممالک سے متعارف ہونا، جاگیردار کے ساتھ تعلقات تلخ ہونے کی صورت میں دوسرے شعبوں میں معاش کے راستے کھلے ہونا اور جمہوریت کا آنا، جس کے ذریعے کسان ایک جاگیر دار کے خلاف دوسرے کو استعمال کر سکتے ہیں۔

یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ سندھ وہ زمین ہے جہاں جمہوریت اپنے متوقع مثبت اثرات لانے میں ناکام رہی۔ سندھ تعلیم، صحت اور غربت سے متعلق انسانی ترقی کے تمام اشاروں میں بہت پیچھے ہے۔ فیلڈ ورک کے دوران ایک چیز جو بہت زیادہ نمایاں تھی وہ یہ کہ جاگیر داری نظام زوال پذیر ہونے کا احساس تو موجود تھا، لیکن جاگیردار سے سیاست دان بننے والے نہ صرف اپنی جاگیریں بر قرار رکھنے بلکہ طاقت کو مرتکز رکھنے میں بھی کامیاب تھے۔ قبائلی ساتھیوں اور کسانوں کی غیر متزلزل وفاداریوں کے ساتھ ساتھ ریاستی حمایت نے انہیں دولت مند اور بااثر بنا دیا ہے۔ جاگیردار کے لیے طاقت کو ہاتھ میں رکھنے کا ایک لازمی عنصر حکومت میں کسی قسم کی حیثیت حاصل کرنا ہے، ایک کامیاب سیاست دان کی شکل میں یا ایک اونچے بیورو کریٹ کے طور پر، یا پھر افواج کا حصہ بن کر۔ریاست کی طاقت کی حمایت کے بغیر جاگیر دار کی طاقت قابلِ اعتبار نہیں ہے۔

جو بات ہر جگہ معروف تھی وہ یہ کہ ریاستی عہدیدار انتہائی بد عنوان ہیں، جوسندھ کے غریب عوام کے لیے جاری ہونے والے ترقیاتی فنڈز میں سے اکثر خود ہضم کرجاتے ہیں۔ چنانچہ پھر معمہ یہ تھا کہ بد عنوانی کے باوجود سیاست دانوں کی موجودہ کھیپ عوام کے درمیان ووٹ بنک قائم رکھنے میں کیسے کامیاب ہے۔اس قسم کے سوال کا جواب سیدھا سادھا نہیں ہے اور ایشیاا ور لا طینی امریکا میں پیٹرون۔کلائنٹ تنظیمی ڈھانچوں پر ہونے والی تحقیقات اس سلسلے میں کچھ راہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ان تحقیقات کا جائزہ یہ بتاتا ہے کہ بعض اوقات پیٹرون چند ریاستی سہولتوں کا وعدہ کرکے یا کچھ رقم خرچ کر کے اپنے کلائنٹس کے ووٹ خرید لیتا ہے۔ بعض جگہوں پر اشرافیہ ووٹروں کے دل میں اتنا خوف بٹھا نے میں کامیاب ہو جاتی ہے کہ ووٹنگ والے دن ووٹر بے وفائی کرنے کی جرأت نہیں کر پاتے۔سندھ میں بھی یہی سب عوامل موجود ہیں۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ جاگیر داراپنے بہت سے کارندوں اور بروکرز کے ذریعے اپنے حمایتیوں کی پولیس سے بخشش یقینی بنا لیتے ہیں۔ ریاستی اداروں سے تحفظ کی یقین دہانی کس طرح ایک سیاست دان کو ووٹ دینے کی ایک وجہ بن سکتی ہے، اس پر پاکستان میں زیادہ تحقیق نہیں کی گئی۔

محسوس ہوتا ہے کہ سندھ کا عام آدمی حکومت سے متعلق کسی بھی شے پر اعتبار کھو چکا ہے۔ایک اوسط شہری کی نظر میں سارے سیاست دان اور سارے بیورو کریٹ بدعنوان ہیں۔ چنانچہ ایک بہترین حکمتِ عملی یہ ہے کہ جو سیاست دان کچھ دے سکتا ہے اس سے زیادہ سے زیادہ حاصل کر لیا جائے، یا ایسے کی حمایت کی جائے جو مستقبل میں فائدہ پہنچانے کے اعتبار سے قابلِ بھروسہ ہو۔اس ذہنیت کا نتیجہ ہے کہ سیاست دانوں کو ووٹ ملیں گے چاہے وہ انتہائی قلیل فائدہ ہی مہیا کر رہے ہوں۔ سیاست میں نو آموزوں کے لیے مشکل یہ ہے کہ انہیں تبدیلی لانے کے لیے قابلِ اعتبار نہیں سمجھا جاتا۔نتیجہ یہ ہے کہ ایک عام سندھی جس کے پاس بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے، وہ قریب کا سوچتا ہے اور کسی نئی سیاسی جماعت یا امیدوار کو ووٹ دینے سے ہچکچاتا ہے، کیونکہ ایک غریب شہری کے لیے یہ ایک بہت بڑا رسک ہے۔

(ترجمہ: طاہرہ فردوس)

“Why are rural Sindhis hesitant to change the way they vote?”.
(“Express Tribune”. September 16th, 2016.)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*