
(اَیب اوری جِنز /Aborigins =قدیم مقامی باشندے)
یورپی اقوام تہذیب و تمدن کی علامت سمجھی جاتی ہیں۔ ان اقوام نے ناآشنا لوگوں کو تہذیب سے آشنا کرایا اور علم و دانش کے موتی بکھیرے۔ تاہم تہذیب کی رکھوالی کرنے والی ان اقوام کا دوسرا پہلو انتہائی سیاہ ہے۔
سونے کی تلاش میں سرگرداں یورپی سوداگروں اور قدرتی وسائل پررال ٹپکاتے یورپی حکمرانوں نے بہت سی کمزور اقوام کو غلام بنا کر انہیں اپنے ہی وطن میں اجنبی بنا ڈالا۔ یورپی اقوام نے نئی دنیاؤں میں جہاں تہذیب کے نئے شگوفے کھلائے وہیں بہت سی تہذیبوں کی زبان، ثقافت، مذہب اور نسل کو روند ڈالا۔ انگریزوں، ولندیزیوں اور فرانسیسیوں کے ہاتھوں جن اقوام کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا، ان میں آسٹریلیا کے قدیم باشندے ’’ایبوریجنل‘‘ (Aboriginal) بھی شامل ہیں۔ ایبوریجنل آسٹریلیا کے وہ قدیم باشندے ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اس سرزمین پر پڑاؤ ڈالا۔ انہیں جمع کے صیغے میں ’’ایب اوری جنز‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ لفظ انگریزی لغت میں سترہویں صدی میں متعارف ہوا، جس کے معنی ’’پہلا‘‘ یا ’’ابتدائی‘‘ ہیں۔ ۱۷۸۹ء میں یہ لفظ آسٹریلیا کے قدیم باشندوں کے لیے استعمال ہوا۔ ایبوریجنل کی اصطلاح آسٹریلیا اور پپوا نیوگنی کے درمیان واقع جزائر (Torres Strait) اور آسٹریلیا کے قدیم باشندوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ یہ قدیم باشندے تقریباً ۵۰,۰۰۰ سال سے یہاں آباد ہیں۔ ایبوریجنل باشندوں کی مادری زبانیں ۲۰۰ کے قریب ہیں۔ ان میں سے بیس زبانیں زوال کے دہانے تک پہنچ چکی ہیں۔ برطانوی آبادکاروں کی آسٹریلیا آمد کے وقت ایبوریجنل باشندوں کی تعداد ۷,۵۰,۰۰۰ کے قریب تھی۔ برطانیہ نے آسٹریلیا کو اپنی نوآبادی بنانے کی ابتدا ۱۷۸۸ء میں سڈنی سے کی تھی۔ یہ بن بلائے مہمان اپنے ساتھ کئی اقسام کی نئی بیماریاں بھی لائے، جس کی وجہ سے سڈنی کے قرب و جوار میں رہنے والے ایبوریجنل باشندوں کی پچاس فیصد آبادی چیچک سے ہلاک ہو گئی۔
انگریزوں کے سبب ایب اوری جنز کو دوسرا بڑا نقصان اس وقت اٹھانا پڑا جب انگریزوں نے اُن کی زمینوں اور میٹھے پانی کے ذخیروں پر قبضے کرنے شروع کردیے ۔ نئی بیماریوں، زمینوں پر قبضہ اور انگریزوں کے تشدد کے باعث ۱۷۸۸ء سے ۱۹۰۰ء کے درمیانی عرصے میں ایبوریجنل باشندوں کی ۸۰ فیصد آبادی ختم ہو گئی۔ بچے کھچے ایب اوری جنز انگریز آبادکاروں کے یہاں نوکریاں کرنے پر مجبور کر دیے گئے۔ گویا، کل تک جو آسٹریلیا کے مالک تھے وہ اپنی ہی سرزمین پر غلام اور اجنبی بنا دیے گئے۔ بیسویں صدی کی شروعات میں ڈیڑھ لاکھ سے دو لاکھ ایب اوری جنز افراد کا خاتمہ ہو چکا تھا۔ آسٹریلیا کے قدیم باشندے ووٹ ڈالنے کے حق سے بھی محروم رکھے گئے تھے۔ ۱۹۶۲ء میں بین الاقوامی دباؤ کے باعث انہیں ووٹ کا حق دیا گیا۔ ۱۹۷۱ء میں آسٹریلوی جج بلیک برن کے ایک فیصلے نے ایب اوری جنز کے جذبات کو سخت مجروح کیا۔ جج نے Gove land rights case میں فیصلہ سناتے ہوئے برطانوی آباد کاروں کی آمد سے پہلے کے آسٹریلیا کو خالی زمین قرار دیتے ہوئے کہاکہ آسٹریلوی قانون میں دیسی رہائش کا کوئی تصور موجود نہیں ہے۔ ۱۹۹۲ء میں آسٹریلیا کی ہائی کورٹ نے جسٹس بلیک برن کے اس فیصلے کو مسترد کر دیا۔ آسٹریلوی حکومت نے ایب اوری جنز کے ساتھ بدترین لسانی اور نسلی سلوک روا رکھا ۔ ایب اوری جنز کی کثیر تعداد بنیادی سہولتوں مثلاً تعلیم، صحت اور رہائش سے ہنوز محروم ہے، جس کی وجہ سے ایبوریجنل افراد کی طبعی عمریں دیگر آسٹریلوی باشندوں سے ۱۷ سال کم ہو چکی ہیں۔
ایب اوری جنز کی زیادہ تعداد آسٹریلیا کے جنوبی مشرقی علاقے میں دریائے موری کے قریب آباد ہے۔ ۲۰۰۱ء کی مردم شماری کے مطابق ایب اوری جنز کی تعداد نیو ساؤتھ ویلز میں ۱۳۴۸۸۸، کوئنز لینڈ میں ۱۲۵۹۱۰، مغربی آسٹریلیا میں ۶۵۹۳۱، شمالی علاقہ میں ۵۶۸۷۵، وکٹوریا میں ۲۷۸۴۶، جنوبی آسٹریلیا میں ۲۵۵۴۴، تسمانیا میں ۱۷۳۸۴، اے سی ٹی میں ۳۹۰۹ ہے اور آسٹریلیا کے دیگر خطوں میں ۲۳۳ ایبوریجنل آباد ہیں۔ ابتدائی مردم شماری کے مطابق ۳۰ جون ۲۰۰۶ء تک آسٹریلیا میں ایب اوری جنز کی آبادی تقریباً ۵۱۷۲۰۰ تھی۔
ایبوریجنل باشندوں کے تمام گروپوں کی ثقافت میں یکسانیت پائی جاتی ہے، لیکن وہ ایک سماجی اکائی کی بجائے مختلف برادریوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ان برادریوں کی زبانیں بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ تاہم ان باشندوں کے خدو خال ایک جیسے ہیں اور ان میں قریبی تعلق پایا جاتا ہے۔ ایبوریجنل باشندوں کے مختلف گروپوں کی شناخت مخصوص خطے اور اس خطے میں بولی جانے والی زبانوں سے کی جا سکتی ہے۔ مثلاً نیوسائوتھ ویلز اور وکٹوریا کے علاقے میں رہنے والے قدیم باشندے کوری (Koori) زبان بولتے ہیں۔ اسی طرح کوئنز لینڈ کے رہنے والے موری (Moori)، جنوبی مغربی آسٹریلیا میں نونگر (Noongar)، مرکزی مغربی آسٹریلیا میں یاماتجی (Yamatji)، مغربی آسٹریلین گولڈ فلیڈ میں وینگکائی (Wangkai)، جنوبی آسٹریلیا میں نانگا (Nunga)، شمالی جنوبی، مغربی آسٹریلیا کے قریبی خطوں اور شمالی علاقوں کے لوگ آننگو (Anangu)، مغربی سینٹرل شمالی علاقوں میں یاپا (Yapa)، مشرقی آرنیم لینڈ میں یولنگو (Yolngu) اور تسمانیہ کے قدیم باشندے پالاوا (Palawah) زبان بولتے ہیں۔ ایبوریجنل باشندوں کے ان بڑے گروپوں کی بھی کئی ذیلی شاخیں موجود ہیں۔ آسٹریلیا کے قدیم باشندوں کو ’’بلیک‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔
ستّر کی دہائی میں ایبوریجنل باشندوں کے بہت سے سماجی راہنما اپنے آپ کو بلیک کہلوانا پسند کرتے تھے۔ ان راہنمائوں میں گیری فولے بھی شامل تھے، جو ایبوریجنل باشندوں کے بہت بڑے سماجی راہنما تھے۔ انہوں نے ایبوریجنل باشندوں کے سیاسی حقوق کے لیے ۱۹۷۲ء میں آسٹریلیا کے دارالحکومت کینبرا میں ’’ایبوریجنل ٹینٹ ایمبیسی‘‘ قائم کی تھی۔ گیری فولے نے آسٹریلوی حکومت کی طرف سے قدیم باشندوں کو نظر انداز کیے جانے اوراُن کے سیاسی مطالبات منوانے کے لیے احتجاجاً کینبرا میں قائم پارلیمنٹ کی پرانی عمارت کے لان میں خیمہ نما جھونپڑی لگا کر اسے ایبوریجنل کا سفارت خانہ قرار دیا۔ ایب اوری جنز کے ایک اور مشہور سماجی راہنما اور ادیب کیون گلبرٹ نے ’’لیونگ بلیک‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی تھی، جس میں آسٹریلیا کے قدیم باشندوں کی حالت زار کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔
آسٹریلیا کے شہری علاقوں میں رہنے والے بہت سے نوجوان ایبوریجنل امریکی نیگرو اور افرو کیریبین ثقافت اپنا رہے ہیں۔ ان کا یہ طرز عمل سیاہ فام اقوام کے بین الاقوامی خاکے کو اُبھار رہا ہے۔ ایبوریجنیز پر ڈھائے جانے والے صدیوں پرانے مظالم میں سب سے زیادہ بھیانک ظلم ۱۸۶۹ء سے ۱۹۶۹ء کے درمیان روا رکھا گیا۔ اس عرصے میں آسٹریلوی حکومت اور چرچ کی جانب سے تہذیب و تمدن سے آشنا کرنے اور تعلیم کے نام پر ایبوریجنل والدین سے ان کے بچے چھین لیے گئے۔ اس طرح ایبوریجنل باشندوں کی پوری ایک نسل اپنی تہذیب و ثقافت اور زبان سے محروم ہو گئی۔ آسٹریلوی حکومت ماضی کے اس مکروہ اقدام پر معافی مانگ چکی ہے، تاہم ایبوریجنل باشندوں کا مطالبہ معافی کے ساتھ تلافی سے مشروط ہے۔ چنانچہ آسٹریلوی وزیراعظم کو ایک قدم اور آگے جانا ہو گا اور ’’نسل کی چوری‘‘ پر معافی مانگنے کے ساتھ ایبوریجنیز کے انسانی حقوق اور بنیادی ضروریات زندگی کی چوری کی تلافی بھی کرنا ہو گی۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو یہ تاریخی معافی اپنا مقصد کھو بیٹھے گی۔
(بشکریہ: ’’سنڈے ایکسپریس‘‘ کراچی۔ شمارہ: ۲۴ فروری ۲۰۰۸ء)
Leave a Reply