
میں ۱۹۳۷ء میں سیاسی زندگی میں داخل ہوا۔ اس وقت میں بالکل جوان تھا۔ چونکہ میں نے میٹرک کا امتحان قدرے کم عمر میں پاس کر لیا تھا لہٰذا کالج میں جلد داخل ہو گیا تھا۔ اُن دنوں پونے میں ایک طرف آر ایس ایس اور ساورکری (وینایک دامود ساورکر کے پیروکار) بہت فعال تھے تو دوسری جانب نیشنلسٹ، سوشلسٹ اور لفٹسٹ تنظیمیں بھی بہت متحرک تھیں۔ یکم مئی ۱۹۳۷ء کو ہم نے یوم مئی منانے کے لیے ایک جلوس نکالا۔ شرکائے جلوس پر آر ایس ایس اور ساورکریوں نے حملہ کر دیا جس میں دوسروں کے علاوہ بہت ہی معروف انقلابی رہنما سیناپتی باپت اور ہمارے سوشلسٹ رہنما ایس ایم جوشی بھی زخمی ہو گئے۔ ہند تو کی علمبردار ان تنظیموں کے ساتھ ہمارا ہمیشہ سے شدید اختلاف تھا۔ ہمارا آر ایس ایس کے ساتھ پہلا اختلاف قوم پرستی کے مسئلے پر تھا۔ ہمارا عقیدہ تھا کہ ہر شہری کو بھارتی قومیت میں یکساں حقوق حاصل ہیں۔ لیکن آر ایس ایس اور ساورکری ہندو راشٹر کا تصور لے کر سامنے آئے تھے۔ محمد علی جناح بھی اسی سے مشابہ تصورِ جہاں بینی کے اسیر تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ہندوستان کی تشکیل دو قوموں سے مل کر ہوئی ہے یعنی ایک مسلم قوم اور دوسری ہندو قوم۔ ساورکر بھی ایسے ہی خیال کا حامل تھا۔ دوسرا بڑا فرق ہمارے مابین یہ تھا کہ ہم ایک جمہوریہ کی پیدائش کا خواب دیکھ رہے تھے۔ جبکہ آر ایس ایس کا دعویٰ تھا کہ جمہوریت ایک مغربی تصور ہے جو ہندوستان کے لیے مناسب نہیں ہے۔ ان دنوں آر ایس ایس کے ارکان اڈولف ہٹلر کی تعریف میں پوری طرح رطب السان تھے۔ گرو جی (مادھو سداشیو گولوالکر) آر ایس ایس کے صرف سر سنگھ چالک (سربراہ) ہی نہیں تھے بلکہ وہ ایک نظریاتی گرو بھی تھے۔ گروجی اور نازیوں کے خیالات میں حیرت انگیز مشابہت تھی۔ گروجی کی ایک کتاب “We or Our Nationhood Defined” (ہم یا ہماری تعریف کردہ قومیت) کے متعدد ایڈیشن شائع ہو چکے تھے۔ اس کا چوتھا ایڈیشن ۱۹۴۷ء میں شائع ہوا تھا۔ اس کتاب میں ایک جگہ گروجی فرماتے ہیں ’’غیر ہندو عوام کو ہندوستان میں لازماً ہندو ثقافت اور زبان اختیار کرنا چاہیے، انہیں ہندو مذہب کا احترام اور اُن سے عقیدت کے اظہار کا سلیقہ ضرور سیکھنا چاہیے۔ انہیں کسی افکار کو دل و دماغ میں جگہ نہیں دینی چاہیے سوائے ان افکار کے جن سے ہندو نسل اور ثقافت کی عظمت و افتخار کو جلا ملتی ہو۔ جس کا مطلب ہے کہ انہیں نہ صرف اس سرزمین اور اس کی قدیم روایات کے تئیں عدم برداشت اور نااحسان مندی کا رویہ ترک کر دینا چاہیے۔ بلکہ اس کے بجائے انہیں اس کے تئیں محبت و قربانی کا جذبہ بھی خلق کرنا چاہیے۔ ایک مفہوم میں یہ کہ انہیں غیر ملکیوں والا رویہ چھوڑ دینا چاہیے اور یہ کہ وہ اسی صورت میں اس ملک میں ٹھہر سکتے ہیں جبکہ وہ ہندو قوم کے ماتحت بن کر رہیں اور کسی چیز کا دعویٰ نہ کریں اور کسی مراعات کا مستحق اپنے آپ کو نہ ٹھہرائیں کجا کہ وہ اپنے لیے کسی ترجیحی سلوک کی خواہش کریں۔ حتیٰ کہ انہیں اپنے شہری حقوق کا بھی مطالبہ نہیں کرنا چاہئے‘‘ برسبیل تذکرہ یہ عرض کروں کہ ان کے یہ افکار کوئی نئے نہیں تھے۔ اس وقت جبکہ ہم کالج میں تھے (۱۹۳۰ء کی دہائی کے وسط میں) آر ایس ایس کے ارکان ہٹلر کے نظریات کے پیرو تھے۔ اُن کے خیال میں ہندوستان میں مسلمان اور عیسائی اسی سلوک کے مستحق ہیں جو سلوک جرمنی میں ہٹلر نے یہودیوں کے ساتھ روا رکھا تھا۔ نازی پارٹی کے خیالات کے ساتھ گروجی کی ہمدردیاں کس حد تک تھیں وہ مذکورہ کتاب کے ایک اقتباس سے ظاہر ہے۔
’’نسل و ثقافت کی اصلیت کو برقرار رکھنے کے لیے جرمنی نے یہودیوں کا صفایا کر کے دنیا کو حیران کر دیا۔ نسلی افتخار کی معراج کا یہاں اظہار ہوا۔ جرمنی نے یہ دکھا دیا کہ نسلوں اور ثقافتوں کی بنیاد اور جڑوں میں اختلافات پائے جانے کی وجہ سے انہیں ایک قوم میں بدلنا تقریباً ناممکن ہی کیوں نہ ہو انہیں ایک متحدہ کل میں ضم کیا جا سکتا ہے جو کہ ہمارے لیے ہندوستان میں اچھا سبق ہے سیکھنے کے لیے اور اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے۔ (We or Our Nationhood Defined, 1947.P\42) آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایک پرانی کتاب ہے اور ایسے وقت کی ہے جب ہندوستان جدوجہد آزادی کی مشکلات سے گزر رہا تھا لیکن ان کی لکھی ایک دوسری کتاب بھی ہے Bunch of Thoughts (افکار کا گُچھہ)۔ اس معروف کتاب سے جو ۱۹۶۶ء میں شائع ہوئی مَیں ذیل میں ایک نمونہ پیش کرتا ہوں۔
اس کتاب میں گروجی بھارت کی داخلی سلامتی کو موضوعِ بحث بناتے ہوئے تین داخلی خطرات کی نشاندہی کرتے ہیں۔ پہلا خطرہ مسلمان، دوسرا خطرہ عیسائی، اور تیسرا خطرہ کمیونسٹس۔ گروجی کے خیال میں ہر بھارتی مسلمان، ہر عیسائی اور ہر کمیونسٹ قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔ یہ تھا ان کا نظریہ۔
ہمارا دوسرا بڑا اختلاف گروجی اور آر ایس ایس کے ساتھ ذات پات کے مسئلے پر تھا، وہ لوگ ذات بات کے نظام کے حامی تھے اور مجھ جیسا ایک سوشلسٹ اس کا عظیم ترین دشمن تھا۔ میں اپنے آپ کو برہمنیت اور ذات پات کے نظام کا سب سے بڑا دشمن تصور کرتا تھا۔ میرا یہ خیال بہت مضبوط تھا کہ ہندوستان میں اس وقت تک اقتصادی اور معاشرتی مساوات قائم نہیں ہو سکتا ہے جب تک کہ ذات پات کے نظام اور اس پر مبنی عدم مساوات اور نابرابری کا خاتمہ نہ کر دیا جائے۔ لیکن گروجی فرماتے ہیں: ’’ہمارے معاشرے کی دوسری منفرد خصوصیت ورن وِیوَستھا (ذات پات کا نظام) یعنی پیشہ ورانہ بنیادوں پر معاشرے کی تقسیم ہے جو کہ آج کی دنیا میں جاتی پر تھا (ذات پات کا سخت گیر نظام) کے عنوان سے بہت ہی مذموم خیال کیا جاتا ہے‘‘۔ وہ مزید لکھتے ہیں:
’’معاشرے کی پیدائش ایک قادر مطلق خدا کی شبیہ پر ہوئی ہے جس کے چار پہلو ہیں اور جس کی پرستش مختلف لوگ اپنے طریقے سے کرتے ہیں جو ان کی مختلف سطح کی صلاحیتوں سے ماخوذ ہے۔ برہمن کو بہت عظیم خیال کیا جاتا ہے کہ وہ علم تقسیم کرنے والے ہیں۔ کھتری کو بھی یکساں طور سے عظیم خیال کیا جاتا ہے کیونکہ وہ دشمنوں کو تباہ کرنے والے ہیں۔ ویش بھی کسی طرح سے دوسروں سے کم نہیں ہیں کہ وہ زراعت اور تجارت کے ذریعہ ایک معاشرتی ضرورت کو پورا کرتے ہیں۔ شودر بھی اہم ہیں کیونکہ وہ اپنی محنت مزدوری کے ذریعہ معاشرے کی خدمت کرتے ہیں‘‘۔ یہاں بہت ہی چالاکی سے یہ اظہار کیا گیا ہے کہ شودر اپنی محنت مزدوری کے ذریعہ ایک اہم معاشرتی ضرورت کو پورا کر رہے ہیں۔لیکن چانکیا کا ارتھ شاستر (علمِ اقتصاد) جہاں سے گروجی اپنی فکری غذا حاصل کرتے ہیں واضح طور سے بیان کرتا ہے کہ شودر کی یہ مذہبی ذمہ داری ہے کہ وہ برہمن، کھتری اور ویش کی خدمت کرے۔ بہت ہی عیاری سے گروجی ’’اعلیٰ ذات کی خدمت‘‘ کو ’’معاشرے کی خدمت‘‘ سے بدل دیتے ہیں۔ ان کا مقصد لوگوں کے زندگی کے ہر پہلو میں صرف داخل ہونا نہیں ہوتا ہے بلکہ اسے کنٹرول کرنا بھی ہوتا ہے۔ لگ بھگ اُسی زمانے میں انڈین ایکسپریس میں لکھے گئے ایک مضمون میں جارج فرنانڈس نے دَتّو پنتھ تھینگڈی کی ایک مثال کا استعمال اسی نکتے کی وضاحت کے لیے کیا۔ تھینگڈی نے یہ کہہ کر جواب دیا کہ آر ایس ایس کا مقصد پورے معاشرے کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کا ہے۔ یہ کسی شخص کی زندگی کے ہر ایک پہلو تک رسائی حاصل کیے بغیر بیٹھنا نہیں چاہتی۔ یہ زندگی کے ہر شعبے میں اپنی بالادستی قائم کرنا چاہتی ہے۔ یہ کسی بھی فسطائی تنظیم کی حقیقت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آر ایس ایس جنتا پارٹی پر قبضہ کرنا چاہتی تھی اور اس کے ذریعہ ریاستی اداروں پر اپنا کنٹرول جمانا چاہتی تھی۔ اس کے لیے انہوں نے بیک وقت کئی جنتا پارٹی کے رہنمائوں کو وزیراعظم کی کرسی کی پیشکش کا جھانسہ دیا، ایک طرف وہ مرارجی ڈیسائی کو آخر تک یقین دلاتے رہے کہ وزیراعظم کے لیے وہ ان کا انتخاب ہیں۔ کسی وقت وہ چوہدری چرن سنگھ سے وعدہ کرتے کہ وہ وزیراعظم کے لیے ان کی حمایت کریں گے تو ساتھ ہی وہ یہی یقین دہانی چندرشیکھر، جگجیون رام اور جارج فرنانڈس کو بھی کرتے۔ یہ بات کہ یہ لوگ (آر ایس ایس والے) مشکل مواقع پر خدمات انجام دیتے ہیں کم اہمیت کی حامل ہے۔ کیا آر ایس ایس نے کبھی یہ کہا ہے کہ انہوں نے گروجی کا طرزِ فکر ترک کر دیا ہے؟ صرف اٹل جی نے کہا ہے کہ ہمیں قومیت، جمہوریت، سوشلزم اور معاشرتی عدل وغیرہ کے اصولوں پر مبنی ایک متوازن مجموعہ کو قبول کرنا چاہیے ورنہ ہم اس کے بغیر آج کی دنیا میں پیش قدمی نہیں کر سکتے ہیں۔ لیکن اٹل جی واحد آدمی ہیں جو یہ کہتے ہیں۔ ہم دوسرے سنگھیوں پر اعتماد نہیں کر سکتے۔
(بحوالہ ’’سبرنگ ڈاٹ کام‘‘ ۸ مئی ۲۰۰۸ء)
Leave a Reply