
زیرِ نظر تحریر بنگلا دیش کے اخبار ’’دی ڈیلی اسٹار‘‘ میں حال ہی میں شائع ہونے والے مضامین کے سلسلے کی آخری کڑی ہے۔ اخبار کے مطابق مضامین کے اس سلسلے کا مقصد ’’۱۹۷۱ء میں بنگلا دیش میں پاکستانی فوج کے جنگی جرائم کے متعلق پاکستان کی منافقت اور دہرے معیار کو بے نقاب کرنا ہے‘‘۔ (ادارہ)
پاکستانی فوج کے ۱۹۵؍افسران اور اہلکار ۱۹۷۱ء کے قتلِ عام کے اخلاقی اور قانونی مجرم ہیں اور بنگلا دیش کے پاس اُن کے خلاف مقدمات چلانے کے تمام اخلاقی اور قانونی جواز موجود ہیں۔ ۱۹۷۴ء کے سہ فریقی معاہدے، جسے پاکستان ہمیشہ ایک عذر کے طور پر پیش کرتا آیا ہے، ان ملزمان کو معافی نہیں مل سکتی۔
پاکستانی فوج کے ان ۱۹۵؍اہلکاروں کے خلاف بنگلادیشی حکام کے پاس جامع شواہد موجود ہیں۔ اِس بات سے قطع نظر کے ۱۹۷۴ء میں دہلی میں ہونے والے معاہدے میں کیا تحریر ہے، ان ملزمان پر اب بھی عالمی عدالت میں مقدمہ چلایا جاسکتا ہے۔ [پاکستان کا دعویٰ ہے کہ سہ فریقی معاہدے کے تحت اِن فوجیوں کو قانونی کارروائی سے استثنیٰ حاصل ہے]
جنگی قیدیوں کے حوالے سے ہونے والے طویل اور مشکل مذاکرات کے بعد بنگلا دیش نے اپریل ۱۹۷۴ء میں ہندوستان کے شہر دہلی میں پاکستان اور بھارت کے ساتھ سہ فریقی معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ اس معاہدے میں بنگلا دیش کی جانب سے کہا گیا تھا کہ ’’پاکستانی وزیراعظم کی بنگلا دیش کے عوام سے ماضی کی غلطیوں کو بھلانے اور معاف کرنے کی درخواست کے پیشِ نظر بنگلا دیش نے اظہارِ ہمدردی کی بنیاد پر مقدمات نہ چلانے کا فیصلہ کیا ہے‘‘۔
بنگلا دیش نے اِس معاہدے پر دستخط اِس وجہ سے کیے تھے کیونکہ پاکستان نے اپنے ۱۹۵؍گرفتار افسران کے بدلے میں ۲۰۳ بنگلا دیشی افسران کو حراست میں لے رکھا تھا۔ پاکستان نے بنگلا دیش کو اس معاہدے پر مجبور کرنے کے لیے چار لاکھ بنگلا دیشیوں کی وطن واپسی کا عمل غیر یقینی بنادیا تھا اور عالمی برداری کے ذریعے بنگلا دیش پر سخت دباؤ ڈال رہا تھا۔
لیکن معاہدے میں مذکور ’’نرم رویے یا معافی‘‘ کا اطلاق اُن افسران کے مقدمے پر نہیں ہوسکتا جو بنگلا دیش کے قیام کے وقت نسل کُشی میں ملوث تھے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کی ۲۰۰۹ء کی رپورٹ بعنوان ’’بین الاقوامی قانون اور معافی پر اقوام متحدہ کی پالیسی‘‘ میں صاف صاف لکھا ہے کہ ’’بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی عالمی پالیسی کے اصولوں کے تحت جنگی جرائم اور نسل کُشی کے مرتکب کسی بھی شخص کے خلاف قانونی کارروائی روکنے کی غرض سے ملزم کو معاف کردینے کی اجازت نہیں دی جاسکتی‘‘۔
نسل کُشی کے ملزم کو معافی دینے کا عمل نسل کُشی سے متعلق عالمی کنونشن اور روایتی بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق، ’’ایسی عام معافی، جس سے جنگی جرائم کے ملزمان کے خلاف قانونی کارروائی متاثر ہو، ۱۹۴۹ء کے جنیوا کنونشن اور ۱۹۷۷ء میں اس کی روشنی میں بننے والے ضابطوں کے تحت ریاست پر عائد ہونے والی ذمہ داریوں سے مطابقت نہیں رکھتی‘‘۔ جن ممالک نے جنیوا کنونشن پر دستخط کیے ہیں، اُن پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ایسے مجرموں کو تلاش کرکے اُن پر مقدمہ چلائیں جو جنگی جرائم اور نسل کُشی میں ملوث ہوں۔
یورپ کی انسانی حقوق کی عدالت نے بھی فریڈ مارگس کے مقدمے کی سماعت کے دوران اِسی نوعیت کا فیصلہ دیا تھا۔ فریڈ مارگس کروشیا کی فوج کے افسر تھے جن پر ۱۹۹۰ء کی دہائی میں ہونے والی جنگ میں کروشین نژاد سربوں کے قتل عام کا الزام تھا۔ دوران سماعت عدالت نے اپنے ریمارکس میں قرار دیا تھا کہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں سے متعلق مقدمات میں ملزمان کو [مقامی یا علاقائی قوانین اور معاہدوں کے تحت] معافی دینے کے عمل کو بین الاقوامی قوانین کے تحت کالعدم قرار دینے کے رجحان میں اضافہ ہورہا ہے۔
صرف یہی نہیں بلکہ عالمی قوانین کی تاریخی روایات کے تحت کوئی بھی عدالت ’’انسانیت کے خلاف جرائم، بڑے پیمانے پر یا منظم قتلِ عام، تشدد، جبری گمشدگیوں، بے قاعدہ گرفتاریوں، زبردستی منتقلی اور سیاسی بنیادوں پر قائم مقدمات میں اپنا آفاقی دائرۂ اختیار استعمال کرتے ہوئے کارروائی کرسکتی ہے۔
ریاست کے موجودہ اور سابق سربراہان کو بھی انسانیت کے خلاف جرائم اور تشدد جیسے مقدمات میں بین الاقوامی قانون کے تحت کوئی استثنیٰ حاصل نہیں ہے، چاہے ان کا مقدمہ کسی مقامی عدالت میں زیرِ سماعت ہو یا بین الاقوامی عدالت میں۔
اِس صورتحال میں بنگلا دیش کے پاس یہ اختیار موجود ہے کہ وہ عالمی عدالت سے رجوع کرکے جنگی جرائم (جن میں نسل کُشی، لوٹ مار، جنسی زیادتی جیسے جرائم شامل ہیں) میں ملوث پاکستان کے فوجی افسران کے خلاف مقدمات چلانے کا مطالبہ کرے۔ اِس اقدام کی راہ میں دہلی کا سہ فریقی معاہدہ کسی بھی طرح حائل نہیں ہوتا۔
جیفری رابرٹسن مغربی افریقا کے ملک سیرالیون میں اقوامِ متحدہ کی جنگی جرائم کی عدالت کے صدر کی حیثیت سے فرائض سر انجام دے چکے ہیں۔ انہوں نے ۲۰۱۵ء میں اپنی ایک رپورٹ بعنوان ’’بنگلا دیش کے انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل پر رپورٹ‘‘ میں سہ فریقی معاہدے کے تناظر میں لکھا ہے کہ بنگلا دیش میں ’’ہولو کاسٹ‘‘ اس دور میں ہوا جب عالمی برادری دور دراز کے ان ملکوں کے معاملات سے بے نیاز ہوتی تھی، جن کے بارے میں عالمی طاقتوں کی معلومات [یا مفادات] محدود ہوں۔
اپنی رپورٹ میں جیفری رابرٹسن نے لکھا ہے ’’وہ دور جرائم سے صرفِ نظر کرنے کا دور تھا۔ [اس دور میں عالمی برادری نے] انڈونیشیا میں قتلِ عام، جنرل پنوشے کے تشدد، ارجنٹینا کے ڈیتھ اسکواڈز، یوگنڈا میں عیدی امین اور متابی لینڈ میں رابرٹ موگابے کے مظالم، اور کمبوڈیا میں ۳۰ برس تک جاری رہنے والی کمیئر روڑ کی کارروائیوں [سے اغماض برتا]۔‘‘
۱۹۹۴ء کے بعد عالمی برادری کو اس ضمن میں اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہوا اور بلقان میں میلاسووچ کے مظالم، روانڈا کے قتلِ عام اور کمبوڈیا میں کمیئر روڑ کے خلاف عالمی قوانین کی چھتری تلے عدالتی تحقیقات اور قانونی کارروائی کی گئی۔
رابرٹسن مزید لکھتے ہیں کہ ’’اب چونکہ جرائم کی عالمی عدالت (آئی سی سی) قائم ہوچکی ہے اور دنیا کے ۱۳۲؍ممالک اس کی رکنیت اختیار کرچکے ہیں، یہ اصول تسلیم کرلیا گیا ہے کہ خانہ جنگی کے دوران انسانیت کے خلاف ہونے والے تمام جرائم کی سزا ملنی چاہیے، چاہے اس میں کتنی ہی تاخیر کیوں نہ ہوجائے‘‘۔
اس اصول کے تحت بنگلا دیش اب بھی شیخ مجیب الرحمان کے اس عزم پر عمل کرسکتا ہے، جس کا اظہار انہوں نے ان الفاظ میں کیا تھا، ’’آپ مجھ سے کس طرح توقع کرسکتے ہیں کہ میں یہ سب بھلا دوں؟ تیس لاکھ لوگ قتل کردیے گئے، پاکستانی فوج نے دو لاکھ خواتین کی عصمت دری کی، ایک کروڑ لوگوں کو بھارت میں پناہ لینی پڑی اور ڈیڑھ کروڑ لوگوں کو اپنی جان بچانے کے لیے در در بھٹکنا پڑا۔ دنیا کو یہ حقیقت پتا چلنی چاہیے کہ [بنگلا دیش میں] کیا ہوا ہے‘‘۔ (نیو یارک ٹائمز، ۲۱ جولائی ۱۹۷۲ء)
معروف اطالوی قانون دان، ماہرِ جرمیات، فلسفی اور سیاست دان سیزار بیکاریا نے ۱۷۶۴ء میں واضح کردیا تھا کہ انسانوں کے قتلِ عام میں ملوث ملزمان کو معافی کیوں نہیں دی جاسکتی۔ اس نے کہا تھا کہ روئے ارض پر ہونے والے جرائم کو روکنے کا سب سے مؤثر طریقہ یہ ہے کہ مجرموں پر یہ واضح کردیا جائے کہ انہیں ہر صورت اپنے کیے کا حساب دینا ہوگا اور انہیں کوئی معافی نہیں ملے گی۔
اس پوری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ بنگلا دیش کو ان پاکستانی فوجی افسران اور اہلکاروں کو گرفتار کرنے اور اُن پر مقدمہ چلانے کا ہر ممکن قانونی اور اخلاقی جواز دستیاب ہے۔
(ترجمہ: معاذ احمد)
“195 Pak soldiers can still be tried for genocide in Bangladesh”.
(“The Daily Star” Bangladesh. Dec.14, 2015)
Leave a Reply