
بھارت کی مدد سے عوامی لیگ جب بھی بنگلا دیش کا اقتدار سنبھالتی ہے، ۱۹۷۱ء کے حوالے سے پاکستان پر سنگین الزامات عائد کیے جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ۱۹۷۱ء میں سابق مشرقی پاکستان میں تعینات کیے جانے والے پاکستانی فوجیوں نے ۳۰ لاکھ بنگالیوں کو قتل کیا اور ۲ لاکھ بنگالی عورتوں کی حرمت کو داغدار کیا۔ یہ پروپیگنڈا بھارت کے خفیہ ادارے ’’را‘‘ کی ایماء پر کیا جاتا ہے۔
بنگلا دیش کے اندر اور باہر بہت سے لوگ ہیں جو اس پروپیگنڈے پر یقین نہیں رکھتے۔ بہت سوں کو اس حوالے سے بیان کیے جانے والے اعداد و شمار کے درست ہونے کا ذرا بھی یقین نہیں۔ بھارت کی ہندو اسکالر شرمیلا بوس نے اپنی کتاب ’’دی ڈیڈ ریکننگ‘‘ میں لکھا ہے کہ بنگلا دیش کے قیام کی تحریک کے دوران اگر ہلاکتیں ہوئی بھی ہوں گی تو زیادہ سے زیادہ ایک لاکھ اور اُن میں بھی بنگالی، غیر بنگالی، ہندو، مسلم، بھارتی و پاکستانی سبھی شامل ہوں گے۔
بنگلا دیش کے پہلے سیکرٹری خارجہ سید اے کریم کہتے ہیں کہ شیخ مجیب الرحمٰن نے بنگلا دیش کے قیام کی تحریک کے دوران مارے جانے والوں کی تعداد تیس لاکھ بتائی جو انتہائی زائد ہے اور حقیقت سے میل نہیں کھاتی۔ پرنسٹن یونیورسٹی کے پروفیسر گیری باس کہتے ہیں کہ ایک سینئر بھارتی فوجی افسر نے یہ کہا تھا کہ بنگلا دیش کے قیام کی تحریک کے دوران تین لاکھ (تیس لاکھ نہیں) مارے گئے ہوں گے۔ اس وقت کے بھارتی وزیر خارجہ سورن سنگھ نے یہ بات اچک لی اور کہہ دیا کہ بنگلا دیش میں کم و بیش دس لاکھ افراد مارے گئے ہیں۔ ناروے کے دی پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کا کہنا ہے کہ بنگلا دیش کے قیام کے وقت تقریباً ۵۸ ہزار ہلاکتیں واقع ہوئیں۔ سوئیڈن کے صحافی انگ وَر اوجا نے ۱۹۷۳ء میں لکھا تھا کہ تیس لاکھ ہلاکتوں کا دعوٰی مبالغے کی انتہا ہے۔ برطانوی اخبار دی ٹیلی گراف میں پیٹر گل نے ۱۶؍اپریل ۱۹۷۳ء کی اشاعت میں لکھا کہ پاکستانی فوج ایک بغاوت کو کچل رہی تھی۔ اس نے کسی بیرونی سرزمین پر قبضہ نہیں کر رکھا تھا۔ شیخ مجیب الرحمٰن کے مطابق پاکستانی فوج نے دس ماہ کے دوران تیس لاکھ بنگالیوں کو قتل کیا۔ یہ اعداد و شمار اگر پچاس ساٹھ گنا نہیں تب بھی تقریباً بیس گنا زائد تو ہیں ہی۔
پاکستانی فوج پر بنگالی خواتین کی آبرو ریزی سے متعلق دعوے بھی بے بنیاد ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستانیوں کی وردی میں بھارتی فوجیوں نے یہ انسانیت سوز مظالم ڈھائے۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ نومبر ۱۹۷۱ء میں رمضان المبارک تھا۔
ہتھیار ڈالنے والے پاکستانی فوجیوں کی تعداد کے حوالے سے بھی انتہائی مبالغے سے کام لیا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ۹۰ ہزار یا پھر ۹۳ ہزار فوجیوں نے ہتھیار ڈالے۔ یہ اعداد و شمار بالکل غلط ہیں۔ جنرل اے کے نیازی نے اپنی کتاب ’’دی بیٹریئل آف ایسٹ پاکستان‘‘ میں لکھا ہے کہ ان کی کمان میں لڑنے والے فوجیوں کی تعداد ۳۴ ہزار سے زائد نہ تھی۔ اگر ایسا ہے تو پھر ہتھیار ڈالتے وقت یہ تعداد ۹۰ ہزار یا اس سے زائد کیسے ہوگئی۔ شرمیلا بوس بھی اس بات پر یقین رکھتی ہیں کہ اے کے نیازی کے دیئے ہوئے اعداد و شمار بالکل درست ہیں۔ بنگلا دیش، بھارت، امریکا اور دیگر ممالک میں غیر جانب دار مبصرین اس بات کے قائل ہیں کہ سابق مشرقی پاکستان میں بھارتی فوج اور مکتی باہنی سے لڑنے والے پاکستانی فوجیوں کی تعداد ۳۵ ہزار سے زائد نہ تھی۔
۹۰ ہزار افراد کو قیدی بنائے جانے کی بات البتہ درست ہوسکی ہے۔ ان میں ۳۵ ہزار فوجی ہوں گے۔ ان کے علاوہ غیر بنگالی سویلین ملازمین، سول انجینئرز، ڈاکٹرز اور ان کے اہل خانہ کو بھارت لے جایا گیا ہوگا۔
یہ بات قابلِ غور ہے کہ ۳۵ ہزار پاکستانی فوجیوں نے سابق مشرقی پاکستان میں کم و بیش ۲ لاکھ بھارتی قابض فوجیوں اور انہی سے تربیت پائے مکتی باہنی کے ڈیڑھ لاکھ سے زائد باغیوں کا سامنا کیا۔
یہ پروپیگنڈا بھی بہت زور و شور سے کیا جاتا ہے کہ جب سابق مشرقی پاکستان بنگلا دیش نہیں بنا تھا یعنی پاکستان کا حصہ تھا تب وہاں ترقی نہیں ہوئی تھی یعنی وفاق نے اسے نظر انداز کر رکھا تھا۔ یہ بھی سراسر بے بنیاد بات ہے۔ پاکستان نے گوادر میں بندر گاہ کی تعمیر اب شروع کی ہے۔ صدر ایوب کے دور میں بنگلا دیش میں منگلا کی بندر گاہ تعمیر کی گئی تھی۔ صدر ایوب ہی کے دور میں مغربی پاکستان میں صرف حسن ابدال میں کیڈٹ کالج کھولا گیا تھا جب کہ سابق مشرقی پاکستان میں چار کیڈٹ کالج کھولے گئے تھے۔ چاٹگام میں ۱۹۵۸ء میں، جھینیدا میں ۱۹۶۳ء میں، راجشاہی اور ٹنگالی میں ۱۹۶۵ء میں۔ کراچی سے پہلے پاکستان ٹیلی ویژن نے ڈھاکا سے نشریات کا آغاز کیا۔ یہ ۱۹۶۴ء کی بات ہے۔ پاکستان میں تربیلا ڈیم تعمیر کیا گیا تو سابق مشرقی پاکستان میں کپتال ڈیم تعمیر کیا گیا۔ جب مغربی پاکستان میں کوئی اسٹیل مل نہیں تھی تب سابق مشرق پاکستان میں اسٹیل مل قائم کی گئی۔ واضح رہے کہ کراچی میں اسٹیل مل ملک کے دو لخت ہونے کے بعد قائم کی گئی تھی۔
۱۹۴۷ء میں صرف ایک مسلم بنگالی آئی سی ایس افسر تھا جس کا نام نور النبی تھا۔ قیام پاکستان کے بعد مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے سی ایس پی افسران، سفارت کاروں اور مختلف سروس گروپس سے تعلق رکھنے والے بنگالیوں کی تعداد ہزاروں میں تھی۔ یہ سب کچھ پاکستان کے سول سروس اسٹرکچر کا کرشمہ تھا۔ ۱۹۴۷ء میں برٹش آرمی (بری، بحری اور فضائی فوج تینوں میں) سے تعلق رکھنے والے مشرق پاکستان کے افسران کی تعداد ۱۲ تا ۱۵ تھی۔ ۱۹۷۱ء میں پاکستان کے اعلیٰ ترین فوجی اداروں سے تربیت پانے کے بعد پاکستانی فوج میں خدمات انجام دینے والے سابق مشرقی پاکستان کے بنگالی افسران کی تعداد ہزاروں میں تھی۔
مشرقی پاکستان ۲۴ سال پاکستان کا حصہ رہا۔ اس دوران وہاں سے تعلق رکھنے والی چار شخصیات نے سربراہِ حکومت و ریاست کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ خواجہ ناظم الدین کو گورنر جنرل بنایا گیا۔ اسکندر مرزا نے ۱۹۵۶ء میں صدرِ پاکستان کا منصب سنبھالا۔ محمد علی بوگرا ۱۹۵۳ء میں وزیر اعظم بنائے گئے اور ان کے بعد ۱۹۵۶ء میں حسین شہید سہروردی بھی وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہوئے۔ علاوہ ازیں نور الامین پہلے نائب صدر اور ۱۹۷۱ء میں عبوری وزیر اعظم مقرر کیے گئے۔ بھارت میں مغربی بنگال کے نام سے الگ ریاست یا صوبہ ہے مگر وہاں سے اب تک کسی کو وزیر اعظم منتخب نہیں کیا گیا۔ ۲۰۱۲ء میں پرنب مکھرجی پہلے بنگالی تھے جنہیں صدرِ مملکت منتخب کیا گیا۔
کم ہی لوگ جانتے ہوں کہ فروری ۱۹۴۸ء میں دھیریندر دتہ پہلے بنگالی اور ہندو تھے جنہیں آئین ساز اسمبلی میں بنگالی میں اظہارِ خیال کی اجازت دی گئی۔ دھیریندر دتہ نے صرف ۶ ماہ قبل پاکستان کے قیام کی شدید مخالفت کی تھی۔ وہ تو ۱۹۰۵ء میں بنگال کو تقسیم کیے جانے کے بھی شدید مخالف تھے۔ واضح رہے کہ ہندوؤں کی جانب سے استحصال سے بچنے کے لیے اس تقسیم کا مطالبہ بنگالی مسلمانوں نے کیا تھا۔
قیام کے بعد سے بنگلا دیش نے جو ترقی کی ہے ہم اسے استحسان کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اقوام متحدہ نے بنگلا دیش کو سب سے کم ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں رکھا ہے۔ اگر سب کچھ درست رہا تو امکان ہے کہ ۲۰۲۴ء میں بنگلا دیش اس فہرست سے نکل جائے گا۔ یاد رہے کہ پاکستان کبھی اس فہرست کا حصہ نہیں رہا۔
بھارت کے نام نہاد دانشور اور اسکالرز یہ راگ الاپتے نہیں تھکتے کہ بنگلا دیش کے قیام کے دن ہی محمد علی جناح کا دو قومی نظریہ دم توڑ گیا۔ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ بنگلا دیش نے بھارت میں ضم ہونے کا اعلان کیا ہے نہ اس کا کوئی امکان دکھائی دیتا ہے۔ پاکستان ۱۹۷۱ء میں دو لخت ہوا۔ اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا۔ بنگلا دیش ایک حقیقت ہے اس سے بھی کوئی انکار نہیں کرسکتا مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آج بھی بنگلا دیش کے بہت سے مسلمانوں کے دلوں میں پاکستانیت زندہ ہے۔
پاکستان کو دو لخت کرنے میں کلیدی کردار بھارت نے ادا کیا۔ بھارت کا یہ کردار طشت از بام ہوتے ہی بنگالی مسلمانوں کے دلوں میں بھارتیوں کے لیے نفرت پیدا ہوئی۔ آج بہت سے بنگلا دیشی بنگالی مسلمان اپنی نجی گفتگو میں بھارتیوں کو ملعون قرار دیتے ہیں۔ دوسری طرف بھارتیوں کا کہنا ہے کہ بنگلا دیشی روئے ارض پر سب سے ناشکری قوم ہیں۔ وہ بنگلا دیشیوں کے لیے کاکروچ (لال بیگ) کا لفظ بھی استعمال کرتے ہیں۔
سابق مشرقی پاکستان کے مسلم بنگالیوں نے خود کو زبان اور ثقافت کی بنیاد پر الگ کیا۔ بھارت نے پروپیگنڈا کے محاذ پر بہت زور لگایا اور مشرقی پاکستان کے عام بنگالی کے ذہن میں یہ بات ٹھونس دی کہ اگر کوئی اس کا ہے تو بنگالی بولنے والا ہندو۔ دل خراش حقیقت یہ ہے کہ آج بھی مسلم بنگالیوں اور ہندو بنگالیوں کے درمیان صرف مذہب کا فرق نہیں بلکہ ثقافت اور رسم و رواج کا فرق بھی ہے۔ دونوں کے رہن سہن میں پایا جانے والا فرق اب تک ختم نہیں ہوا۔ ہندو بنگالیوں کا لباس تک الگ ہے۔ یہ وہ معاملات ہیں جن پر کوئی متوجہ نہیں ہوتا۔
پاکستان کا دو لخت ہونا ایسی حقیقت ہے جس پر انتہائی دکھ تو محسوس کیا جاسکتا ہے مگر اس دل خراش حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ بہر حال، یہ سانحہ اعلیٰ سطح کی چند سیاسی اور انتظامی شخصیات کی نا اہلی اور لاپروائی کا نتیجہ تھا۔ سابق مشرقی پاکستان اور سابق مغربی پاکستان میں عام آدمی کا اس سانحے سے کچھ لینا دینا نہیں تھا، وہ کسی بھی درجے میں قصور وار نہ تھا۔ آج پاکستان ایک آزاد مسلم ریاست ہے اور بنگلا دیش بھی اسی درجے پر فائز ہے۔ دونوں الگ ہیں مگر ایک ملت کا حصہ ہیں۔ دادو میاں، حاجی شریعت اللہ اور تیتو میر مسلم بنگالی ہیرو ہیں۔ انہیں پاکستان میں بھی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ شیر بنگال ابو القاسم فضل الحق نے لاہور میں ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء کو اس وقت کے منٹو پاکستان میں (جہاں آج مینارِ پاکستان قائم ہے) قراردادِ پاکستان پیش کی تھی۔ انہیں آج بھی پاکستان اور بنگلا دیش دونوں ممالک میں انتہائی احترام کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے۔ بنگال کے عظیم اسکالر سید امیر علی کو آج بھی پاکستان میں احترام حاصل ہے۔
بنگلا دیش بہر حال ایک حقیقت ہے اور ہمیں یہ حقیقت تسلیم ہے۔ ہمیں اپنی اغلاط اور کوتاہیوں سے سیکھنا چاہیے۔ اب دونوں ممالک کو بہتر تعلقات استوار کرنے چاہئیں تاکہ مخاصمت کی فضاء ختم ہو اور دونوں ممالک کے مسلمان واقعی ایک امت کا حصہ بن سکیں۔
(مصنف بنگلا دیش میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر ہیں۔ انہوں نے اس حیثیت سے ۲۰۱۱ء تا ۲۰۱۴ء خدمات انجام دیں۔ زیر نظر مضمون ان کی کتاب ’’۱۹۷۱ء: فیکٹ اینڈ فکشن‘‘ سے لیا گیا ہے، جو خورشید پبلشنگ ہاؤس، اسلام آباد نے اپریل ۲۰۱۶ء میں شائع کی۔)
بہترین مضمون، راست گوئی اور عمدہ نصیحت کا دلکش نمونہ
البتہ ہمارے محرر (کمپوزر) صاحب جو اردو فونٹ استعمال کر رہے ہیں اس میں ہمیشہ اردو کے ہندسے کسی اجنبی فونٹ میں ہوتے ہیں اور کافی مشقت سے تاریخ سمجھ آتی ہے۔ خدا کے لئے اس مشکل کو آسان کریں
An eye opener and well articulated manuscript.
Thanks Maarif