
بنگلا دیشی حکومت نام نہاد ’’انٹرنیشنل وار کرائمز ٹربیونل‘‘ کی آڑ میں ۱۹۷۱ء کے مبینہ ’’جنگی مجرموں‘‘ کے خلاف یکطرفہ اور ظالمانہ کارروائی کرتے ہوئے حزب اختلاف کے متعدد رہنماؤں کو پھانسیاں دے رہی ہے۔ بنگلا دیش نیشنلسٹ پارٹی اور بنگلا دیش جماعت اسلامی کے مزید کئی رہنماؤں کو سزائے موت اور عمرقید جیسی سزائیں سنائی جا چکی ہیں۔ وزیراعظم شیخ حسینہ اپنی اس کارروائی پر بضد ہیں اور کسی کی بات ماننے کو تیار نہیں۔ اس موقع پر ہم ۱۹۷۴ء میں دہلی میں سہ ملکی معاہدے کا متن پیش کر رہے ہیں۔ اس معاہدے کی رو سے پاکستان نے اپنے ہی مشرقی حصے کی علیحدگی قبول کی تھی، اُس کی آزاد ریاستی حیثیت مان لی تھی اور شیخ مجیب الرحمن کو بنگلا دیش کا پہلا وزیراعظم بھی تسلیم کر لیا تھا۔ بنگلا دیش کے وزیرخارجہ کے دستخط کے ساتھ یہ دستاویز موجود ہے کہ جنگ بقائے پاکستان /جنگ آزادیٔ بنگلا دیش میں شرکت کرنے والوں کے خلاف کارروائی نہ کی جائے گی۔ چوالیس سال بعد یہ ظلم و ستم، جبر ناروا، دہشت و بربریت، قتل و غارت کیوں؟
بنگلا دیش، پاکستان، انڈیا کے سہ فریقی معاہدے کا مکمل متن، جس پر نئی دہلی میں ۹؍اپریل ۱۹۷۴ء کو دستخط ہوئے، حسب ذیل ہے:
۱۔ ۲جولائی ۱۹۷۲ء کو پاکستان کے صدر اور انڈیا کے وزیراعظم نے شملہ (SIMLA) کے مقام پر ایک تاریخی معاہدے پر دستخط کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ:
’’دونوں ممالک اس کشمکش اور تنازعے کے خاتمے کا اعلان کرتے ہیں، جس کی وجہ سے اُن کے تعلقات شدید متاثر رہے ہیں۔ نیز یہ بھی اعلان کرتے ہیں کہ وہ برصغیر میں دوستانہ اور ہم آہنگی پر مبنی تعلقات، نیز برقرار رہنے والے امن کے قیام کے لیے کام کریں گے‘‘۔ معاہدے میں یہ بھی طے پایا کہ وہ اپنے اختلافات دیگر پُر امن ذرائع کے ذریعے جن پر اتفاق ہوا ہو، حل کریں گے۔
۲۔ بنگلا دیش نے شملہ معاہدے کا خیرمقدم کیا۔ بنگلا دیش کے وزیراعظم نے پُر زور انداز میں مفاہمت، اچھی ہمسائیگی اور برصغیر میں تادیر قیامِ امن کے مقاصد میں مدد گار بننے کااعلان کیا۔
۳۔ ۱۹۷۱ء کے افسوسناک المیہ کے درمیان روپذیر واقعات انسانی مشکلات (Humanitarian Problems) کی صورت میں اُبھرے اور برصغیر کے ممالک کے درمیان مفاہمت اور بحالی کے راستے میں اہم ترین رکاوٹ کی صورت اختیار کرگئے۔ تسلیم (Recognition) کیے جانے کے بغیر یہ ممکن نہ تھاکہ انسانی مشکلات کے حل کے لیے سہ فریقی مذاکرات کا آغاز کیا جائے، چونکہ بنگلا دیش ایسے مذاکرات میں شرکت ہی نہ کر سکتا تھا، سوائے یہ کہ اُس کی خودمختاری و برابری کو تسلیم کرلیا جائے۔
۴۔ ۱۷؍اپریل ۱۹۷۳ء کو انڈیا اور بنگلا دیش نے انسانی مشکلات کے مسئلے کے حوالے سے تعطل کو ختم کرتے ہوئے ایک بڑا قدم اٹھایا اور ’’تسلیم‘‘ کے سیاسی مسئلے کو ایک طرف کردیا۔ اُس روز ایک اعلان جاری ہوا، جس میں انہوں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ چپقلش کے خاتمے، برصغیر میں باہمی دوستانہ تعلقات کے فروغ اور دیرپا قیامِ امن کے لیے کوششیں جاری رکھیں گے اور مل جل کر کام بھی کریں گے۔
اس وژن (Vision) سے نئی روح اخذ کرتے ہوئے نیز ’’برصغیرمیں مفاہمت اور امن و استحکام‘‘ کے وسیع تر مفاد کے پیش نظر انہوں نے مشترکہ طور پر تجویز کیا کہ گرفتاراور محصور افراد کے مسئلے کو انسانی ہمدردی کی بنا پر حل کیا جانا چاہیے اور اس کے لیے ایسے تمام افراد کی بیک وقت آبادکاری (Rehabilitation) کی جائے، سوائے اُن جنگی قیدیوں کے، جن کے بارے میں حکومت بنگلا دیش واضح الزامات کی بنا پر مقدمہ چلانا چاہے۔
۵۔ اس اعلامیہ کے بعد انڈیا، بنگلا دیش نیز انڈیا، پاکستان کے درمیان مذاکرات کے سلسلے ہوئے۔ ان مذاکرات کا نتیجہ ۲۸؍اگست ۱۹۷۳ء کا معاہدہ تھا جو انڈیا اور پاکستان کے درمیان طے پایا، جس کے دوران بنگلا دیش بھی موجود رہا اور اُس نے غیر حل شدہ انسانی مشکلات کے حل کی یقین دہانی کرائی۔
۶۔ اس معاہدے پر عمل درآمد کرتے ہوئے، سہ طرفی بحالی کاآغاز ۱۹؍ستمبر ۱۹۷۳ء کو شروع ہوا، اس وقت تک تقریباً تین لاکھ افراد بحال ہوچکے ہیں۔ جس کی وجہ سے مفاہمت کی فضا پیدا ہوئی ہے اور برصغیر میں تعلقات معمول کی سطح پر آرہے ہیں۔
۷۔ فروری ۱۹۷۴ء میں تسلیم کے بعد سہ فریقی مذاکرات میں بنگلا دیش کی خود مختاری، برابری کی بنا پر شرکت ممکن ہوگئی جیساکہ معاہدہ دہلی میں طے کیاگیاتھا۔ حکومت بنگلا دیش کے وزیرخارجہ ڈاکٹر کمال حسین، حکومت انڈیا کے وزیر امور خارجہ سورن سنگھ اور حکومت پاکستان کے وزیر مملکت برائے دفاع وامور خارجہ عزیز احمد نے دہلی میں ۵؍اپریل، ۹؍اپریل ۱۹۷۴ء ملاقات کی اور معاہدہ دہلی میں جن امور کا ذکر کیاگیا تھا، اُن پر بحث کی۔ ۱۹۵؍ جنگی قیدیوں کامسئلہ نیز بنگلا دیش /پاکستان کے تعاون سے جنگی قیدیوں کی بحالی کے سہ طرفہ عمل کی تکمیل کی بات ہوئی۔
۸۔ وزراء نے سہ طرفہ بحالی کے عمل (معاہدہ دہلی ۲۸؍اگست ۱۹۷۳ء) کے مطابق جائزہ لیا، وہ مطمئن تھے کہ تین ممالک میں گرفتار یا محصور افراد اپنے مقامات تک پہنچ چکے تھے۔
۹۔ انڈیاکی طرف سے کہاگیاکہ انڈیا میں بقیہ پاکستانی جنگی قیدی (Prison of War) اور شہری، دہلی معاہدہ کے مطابق آزاد کردیے جائیں، جن کی تعداد ۶۵۰۰ہے، کو متبادل ایام میں ٹرین کے معمول کے اوقات کے مطابق بحال کیا جائے۔ کمبھ میلے ۱۰؍اپریل سے ۱۹؍اپریل ۱۹۷۴ء کے درمیان ٹرینیں بندرہیں گی۔ ۱۹؍اپریل کے بعد سے اضافی ٹرینیں چلائی جائیں گی۔ اس طرح یہ اُمید کی گئی تھی کہ جنگی قیدیوں کی رہائی کا عمل اپریل ۱۹۷۴ء تک پورا کرلیا جائے گا۔
۱۰۔ پاکستان کی جانب سے کہا گیا کہ پاکستان سے بنگلا دیشی شہریوں کی آبادکاری کا عمل مکمل ہونے کے قریب ہے۔ پاکستان میں موجود بقیہ بنگلا دیشی شہری بغیر کسی رکاوٹ یا تاخیر کے بحال کردیے جائیں گے۔
۱۱۔ بنگلا دیش میں غیر بنگالیوں کے حوالے سے پاکستان کی جانب سے کہا گیا کہ حکومت پاکستان نے اُن غیر بنگالیوں کے لیے کلیرنس جاری کردی ہے جو سابقہ مغربی پاکستان کا ڈومیسائل رکھتے تھے اور سینٹرل گورنمنٹ کے ملازمین یا اُن کے رشتہ دار یا تقسیم ہونے والے خاندانوں کے افراد تھے، اُن پچیس ہزار افراد کی کلیرنس کے مسئلے پر کارروائی ہو رہی ہے جو استحقاقی (Hardship) کے زمرے میں آتے ہیں۔
پاکستان کی جانب سے اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ وہ تمام لوگ جو پہلے گروپ میں آتے ہیں، اُن تمام کو بلالحاظِ تعداد قبول کیا جائے گا۔ اُن لوگوں کے معاملے میں جن کی درخواستیں مسترد کردی گئی ہیں، حکومت پاکستان، درخواست وصول ہونے پر وجوہات بیان کرے گی۔ وہ اپنی درخواست پر نظرثانی کا معاملہ اٹھا سکتا ہے، بشرطیکہ وہ نئے شواہد فراہم کرے جن میں واضح کیا گیا ہو کہ وہ مذکورہ بالا درجہ بندیوں میں سے کسی ایک گروپ کی شرائط پر پورا اُترتا ہے، اس صورت میں کہ جب کسی درخواست پر نظرثانی کا معاملہ انتہائی گنجلک ہو۔ حکومتِ پاکستان اور بنگلا دیش باہمی بات چیت سے اس مسئلے کو حل کرسکتے ہیں۔
۱۲۔ ۱۹۵ پاکستانی جنگی قیدیوں کے سوال کو تینوں وزراء نے خصوصی طور پر بحث میں شامل کیا کیونکہ تینوں حکومتیں چاہتی تھیں کہ اس مسئلے کو برصغیر میں جلد از جلد مفاہمت، امن اور دوستی کے لیے حل کردیاجائے۔ بنگلا دیش کے وزیر خارجہ نے کہاکہ ان جنگی قیدیوں نے جو زیادتیاں کیں اور جن جرائم کا ارتکاب کیا، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قراردادوں اور بین الاقوامی قانون کے متعلقہ حصوں کے مطابق جنگی جرائم، انسانیت کے خلاف جرائم اور نسل کشی (Genocide) میں اور بین الاقوامی طور پر اس پر اتفاق پایاجاتاہے کہ ان جرائم کی بنا پر جن کا ارتکاب ۱۹۵ جنگی قیدیوں نے کیا ہے، کا محاسبہ کیا جائے گا اور قانون کے متعین طریق کار کو لاگو کیاجائے گا۔ حکومت پاکستان کے وزیرمملکت برائے دفاع و امورخارجہ نے کہاکہ حکومت پاکستان اس کی مذمت کرتی ہے اور اُن تمام جرائم پر گہرے دکھ کا اظہار کرتی ہے جن کا ارتکاب کیا گیا ہے۔
۱۳۔ اس سلسلے میں تین وزراء کی توجہ یہ تھی کہ اس مسئلے کو تینوں ممالک کے اس عزم کی روشنی میں حل کیاجائے کہ وہ مفاہمت کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں۔ تینوں وزراء نے یہ توجہ بھی دلائی کہ بنگلا دیش تسلیم کرتے وقت حکومت پاکستان نے یہ اعلان کیا تھاکہ وزیراعظم پاکستان بنگلا دیش کے وزیراعظم کی دعوت پر بنگلا دیش کا دورہ کریں گے۔ انہوں نے بنگلا دیش کے لوگوں سے اپیل کی تھی کہ وہ ماضی کی غلطیوں کو معاف کردیں اور فراموش کردیں اور ایک نئے انداز سے آغاز کریں، انہوں نے مزید کہا تھا کہ بنگلا دیش کے لوگ جانتے ہیں کہ معاف کس طرح کیا جاتا ہے۔
۱۴۔ مذکورہ بالا خصوصاً پاکستان کے وزیراعظم کی بنگلا دیش کے عوام کے نام اپیل، جس میں انہوں نے کہاتھاکہ ماضی کی غلطیوں کو فراموش کردیاجائے، بنگلا دیش کے وزیر خارجہ نے کہاکہ بنگلا دیش کی حکومت رحم کامظاہرہ کرتے ہوئے، مقدمات کو مزید جاری نہ رکھے گی۔ اس پر بھی اتفاق کیا گیا کہ دیگر جنگی قیدیوں کی طرح ۱۹۵جنگی قیدیوں کو بھی پاکستان لے جایا جائے اور دہلی معاہدے کی روشنی میں آبادکاری کا سلسلہ جاری کیا جائے۔
۱۵۔ وزراء نے اپنے اس عزم کا اظہار کیاکہ یہ معاہدات اُن انسانی مسائل کے حل کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کررہے ہیں، جو ۱۹۷۱ء کے تنازعے کی صورت میں سامنے آئے ہیں۔ انہوں نے اس کااعادہ کیاکہ تینوں ممالک کے ستر کروڑ عوام کاامن اور خوشحالی دائو پر لگی ہوئی ہے اور انہوں نے اپنی اپنی حکومتوں کی جانب سے تعلقات کو نارمل سطح پر لانے اور برصغیر میں دیرپا امن کے قیام کو ترویج دینے کے عزم کااعادہ کیا۔
۹؍اپریل ۱۹۷۴ء کو نئی دہلی میں دستخط ہوئے، اس کے تین حقیقی متن تیار ہوئے۔ ان میں سے ہر ایک مصدقہ ہے۔
(دستخط)… کمال حسین، وزیر امور خارجہ، حکومت بنگلا دیش
(دستخط)……سؤرن سنگھ، وزیر امور خارجہ،حکومت انڈیا
(دستخط) ………عزیز احمد، وزیر مملکت برائے دفاع و امور خارجہ، حکومتِ پاکستان
***
Leave a Reply