۲۰۱۲ء کا مصری جمہوری آئین

مصر میں حسنی مبارک کے تیس سالہ ظالمانہ دَور کے عوامی جدوجہد کے نتیجے میں اختتام اور مختلف مراحل میں ہونے والے عام انتخابات میں اخوان المسلمون نے بے مثال کامیابی حاصل کی۔ اس کے اگلے مرحلے میں صدارتی انتخابات میں بھی اخوان المسلمون سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر محمد مرسی کامیاب ہوئے اور جون ۲۰۱۲ء میں صدارتی حلف اٹھایا۔ ملک میں دستور ساز کمیٹی قائم کی گئی، جس نے دستور سازی کا عمل مکمل کیا، اس دستور پر دو مرحلوں میں ریفرنڈم کروایا گیا، تاکہ عوامی رائے معلوم کی جاسکے۔ ۱۵؍دسمبر اور ۲۲؍دسمبر ۲۰۱۲ء کو ہونے والے اس ریفرنڈم میں عوام کی بڑی تعداد نے آئین کے حق میں ووٹ دیا اور اس طرح مصر میں جمہوری آئین کی تشکیل کا عمل مکمل ہوا۔ ہم، مصر میں تشکیل پانے والے نئے آئین کو قسط وار پیش کر رہے ہیں۔ اس کی پہلی قسط ملاحظہ فرمائیے۔ (ادارہ)


دستوری دیباچہ

ہم ، مصر کے عوام،
خدائے رحمن و رحیم کے نام سے، اور اس کی مدد سے،
برملا اعلان کرتے ہیں کہ:

یہ ہے ہمارا دستور، ۲۵؍ جنوری کے انقلاب کی دستاویز، وہ انقلاب جس کا آغاز نوجوانوں نے کیا، ہمارے عوام نے جسے قبول کیا، ہماری مسلح افواج نے جس کی حمایت کی،

(ہم) تحریر اسکوائر میں اور ملک بھر میں ناانصافی، تشدد، ظلم و جبر، استبداد، تفریق، لوٹ کھسوٹ اور اجارہ داری کی ہر صورت کو یکسر مسترد کر چکے ہیں،

ہم ’’روٹی، آزادی، سماجی انصاف اور انسانی وقار‘‘ پر اپنے حقوق کا بھرپور اعلان کرتے ہیں، ان حقوق کے لیے ہمارے شہدا نے اپنا خون بہایا، زخمیوں نے تکلیف برداشت کی، بچوں نے خواب دیکھے، اور ہمارے مردوخواتین نے جدوجہد کی۔ (ہم نے) اپنی عظیم تہذیب کی روح اور اپنے تابناک ماضی کو پھر سے حاصل کیا، کہ ابدی و دائمی دریائے نیل کے کناروں پر ہم نے وہ قدیم ترین ریاست قائم کی تھی جو مدنیت اور مساوات کا ہمیشہ سے استعارہ رہی ہے، (ہم نے) انسانیت کو اولین حروف ابجد عطا کیے، وحدانیت اور خالق کائنات کی معرفت کی راہ کھولی، خدا کے پیغمبروں اور ان کے پیغام کی تصدیق کی، اور تاریخ کے اوراق کو تخلیقی کارناموں سے زینت بخشی،اور ایک جدید جمہوری ریاست کی تعمیر کی خاطر تمام مصریوں کو متحد کر دینے والے اس مبارک انقلاب کے تسلسل میں ہم درج ذیل اصولوں کی پیروی کا اعلان کرتے ہیں:

اول: تمام مقتدر اداروں (Authorities) کا منبع عوام ہیں۔ یہ ادارے عوام ہی نے بنائے ہیں اور ان کو عوام ہی نے جواز عطا کیا ہے، اور یہ عوام ہی کی امنگوں پر منحصر ہیں۔ ذمہ داریوں اور قابلیتوں کی انجام دہی ایک فرض ہے، کوئی استحقاق نہیں اور نہ اس کے ذریعے رعایت حاصل کی جا سکتی ہے۔

دوم: حکومت کے جمہوری نظام (کے پابند رہیں گے)، جس نے اقتدار کی پرامن منتقلی کی فضا پیدا کی، سیاسی تنوع کی استعانت کی، منصفانہ انتخابات اور فیصلہ سازی کے عمل میں عوام کی شرکت کو یقینی بنایا۔

سوم: فرد کا احترام دراصل قوم ہی کے احترام کی توسیعی شکل ہے۔ نیز، جس ملک میں خواتین کو احترام نہ ملے، وہ ملک بھی قابل احترام نہیں ہوتے۔ خواتین مردوں کی بہنیں ہیں اور تمام قومی فتوحات اور ذمہ داریوں میں شرکت کی اہل ہیں۔

چہارم: آزادی ایک حق ہے: سوچ، اظہار اور تخلیقیت کی آزادی، مکان، املاک اور سفر کی آزادی، اس (آزادی) کے اصول مالکِ حقیقی نے کائنات کی حرکت اور انسانی فطرت میں ودیعت کر دیے ہیں۔

پنجم: حقوق اور فرائض دونوں میں مساوات اور مساوی مواقع تمام شہریوں، مرد ہوں یا خواتین، کے لیے بلاامتیاز، بلااقربا پروری، یا ترجیحی سلوک کے بغیر قائم کیے جا چکے ہیں۔

ششم: فرد کی آزادی کی بنیاد قانون کی حکمرانی، مقتدرہ کا قانونی جواز اور ریاست کی جانب سے قانون کا احترام ہے۔ عدل و احسان کی طاقت کے آگے کوئی طاقت ٹھہر نہیں سکے گی، عدلیہ آزاد ہوگی، آئین کے دفاع کا معزز مشن اس کے سپرد ہو گا، وہ انصاف کو برقرار رکھے گی اور حقوق و آزادی کو تحفظ دے گی۔

ہفتم: قومی اتحاد کی حمایت ایک فرض ہے، یہ جدید مصر کی تعمیر کا سنگِ بنیاد اور ترقی کا واحد راستہ ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے تحمل اور اعتدال کی اقدار کو فروغ دیا جائے گا، اور بلاامتیاز تمام شہریوں کے حقوق اور آزادیوں کو تحفظ دیا جائے گا۔

ہشتم: قوم کی حفاظت فرض بھی ہے اور اعزاز بھی۔ ہماری مسلح افواج سے ایک ایسا پیشہ ور اور غیر جانبدار ادارہ تشکیل پاتا ہے، جو سیاسی امور میں مداخلت نہیں کرتا۔ یہ ملک کی حفاظتی ڈھال ہے۔

نہم: سلامتی بڑی نعمت ہے، یہ (ذمہ داری) پولیس فورس کے کاندھوں پر ہے، جو عوام کے تحفظ اور انصاف پر مبنی اقدامات کے نفاذ کی خاطر ان کی خدمت کے لیے چوکس ہے۔ چونکہ تحفظ کے بنا انصاف ممکن نہیں، اور سلامتی کے ایسے اداروں کے بنا تحفظ ممکن نہیں جو قانون کی حکمرانی اور انسانی وقار کا احترام کرتے ہوں۔

دہم: اتحاد عرب اقوام کے لیے امید کی کرن ہے۔ یہ تاریخ کی پکار، مستقبل کا امکان، اور تقدیر کا مطالبہ ہے۔ ایسے اتحاد کو وادی نیل کے ملکوں اور مسلم دنیا دونوں کے ساتھ انضمام اور بھائی چارے کے ذریعے طاقت فراہم کی جائے گی، عالمی نقشے پر مصر کی انفرادی حیثیت اسے یہ مقام عطا کرتی ہے کہ وہ ان دونوں (دنیائوں) کی فطری توسیع ہے۔

یازدہم: مصر اپنی بیک وقت طاقت اور نرم روی (Soft Power) کی بنا پر دانش اور ثقافت میں قائدانہ کردار کا حامل ہے۔ یہاں بہ افراط تخلیقی ذہن کے حاملین اور اہل دانش، جامعات، سائنسی مراکز، مراکزِ لسانیات اور تحقیق، پریس، فنون، ادب اور ابلاغ عامہ، نیشنل چرچ اور (جامعہ) الازہر بھی ہے جو قومی علامت ہے، عربی زبان اور اسلامی شریعت اپنی تاریخ کی حامل ہے، اور اعتدال پسند روشن خیالی کا مینارۂ نور ہے۔

ہم، مصر کے عوام،

خدائے واحد اور اس کے ابدی پیغام پر ایمان رکھتے ہیں،ملک اور قوم کا حق تسلیم کرتے ہیں،قوم اور انسانیت کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کا شعور رکھتے ہیں۔

(ہم) اس آئین میں وضع کردہ اصولوں کے ساتھ مخلص رہنے کا وعدہ کرتے ہیں، جنہیں ہم نے قبول کیا ہے اور جو ہمیں عطا کیے گئے ہیں، ہم اسے برقرار رکھنے اور اس کا دفاع کرنے کا عزم دہراتے ہیں، اور وثوق سے کہتے ہیں کہ ریاستی حکام اور عوام اس کا تحفظ کریں گے اور اس کا احترام کریں گے۔

حصہ اول: ریاست اور معاشرہ

باب اول: سیاسی اصول

دفعہ۔۱: عرب جمہوریہ مصر ایک آزاد خودمختار، متحد اور ناقابل تقسیم، ریاست ہے، اس کا نظام جمہوری ہے۔ مصر کے عوام عرب اقوام اور مسلم اقوام کا حصہ ہیں۔ انہیں اس بات پر فخر ہے کہ وہ وادی نیل اور افریقا سے تعلق رکھتے ہیں اور ایشیا تک ان کی رسائی ہے، اور انسانی تہذیب و تمدن کی ترقی میں ان کا کردار ہے۔

دفعہ۔۲: اسلام ریاست کا مذہب ہے، اور عربی ریاست کی سرکاری زبان ہے۔ اسلامی شریعت کے اصول قانون سازی کا بنیادی ماخذ ہیں۔

دفعہ۔۳: مصر کے عیسائیوں اور یہودیوں کے اصولِ قانون ان کے انفرادی امور سے متعلق قوانین، مذہبی امور اور ان کے روحانی پیشوائوں کے انتخاب کے لیے قانون سازی کا اہم منبع ہیں۔

دفعہ۔۴: شیخ الازہر کا عہدہ غیر جانبدار ہے، اور اسے برطرف نہیں کیا جا سکتا۔ سینئر علما میں سے شیخ الازہر کے تقرر کا طریقہ کار قانون طے کرے گا۔

ریاست جامعہ ازہر کو اس کے مقاصد کے حصول کے لیے مناسب اور کافی مالیات کی فراہمی یقینی بنائے گی۔

مذکورہ بالا تمام دفعات قانونی ضوابط پر منحصر ہیں۔

دفعہ۔۵: خودمختاری صرف اور صرف عوام کے لیے ہے، اور وہی اقتدار کا سرچشمہ ہیں۔ آئین میں بیان کردہ طریقوں کے مطابق ہی عوام اس خودمختاری کو استعمال کریں گے، اور اس کا تحفظ کریں گے اور قومی اتحاد کی حفاظت کریں گے۔

دفعہ۔۶: سیاسی نظام ان اصولوں پر مبنی ہے: جمہوریت اور شورائیت، شہریت (جس کے تحت تمام شہری حقوق اور فرائض میں مساوی حیثیت کے حامل ہیں)، کثیر جماعتی نظام، اقتدار کی پرامن منتقلی، اختیارات کی علیحدگی اور ان کے مابین توازن، قانون کی حکمرانی، اور انسانی حقوق اور آزادیوں کا احترام، جیسا کہ آئین میں ان تمام کی صراحت ہے۔

صنف، نسل یا مذہب کی بنیاد پر امتیاز روا رکھنے والی کوئی سیاسی جماعت قائم نہیں کی جا سکے گی۔

دفعہ۔۷: مادرِ وطن اور ارضِ وطن کا دفاع مقدس فریضہ ہے اور لازمی فوجی خدمت قانون کے مطابق فرض ہے۔

باب دوم: سماجی اور اخلاقی اصول

دفعہ۔۸: ریاست انصاف، مساوات اور آزادی کے حصول کے اسباب فراہم کرنے کی ضامن ہے، اور وہ معاشرے کے ارکان کے مابین سماجی بھلائی اور اتفاق کی راہیں استوار کرنے میں مخلص ہے، وہ افراد اور املاک کے تحفظ کو یقینی بنائے گی اور ان کی تمام شہریوں کو فراہمی کے لیے کوشاں رہے گی۔ یہ تمام امور قانون کے تناظر میں دیکھے جائیں گے۔

دفعہ۔۹: ریاست تمام شہریوں کو بلاامتیاز تحفظ، سلامتی اور مساوی مواقع کی فراہمی یقینی بنائے گی۔

دفعہ۔۱۰: خاندان معاشرے کی بنیاد ہے اور یہ مذہب، اخلاق اور حب الوطنی سے تشکیل پاتا ہے۔

ریاست مصری خاندان کے اصل کردار، اس کے باہمی ارتباط اور استحکام کو محفوظ رکھنے کے لیے اور اس کی اخلاقی قدروں کے تحفظ کے لیے کوشاں ہے، جیسا کہ قانون میں وضاحت ہے۔

ریاست ماں اور بچے کی صحت کے لیے بلامعاوضہ خدمات کو یقینی بنائے گی اور خاندان اور ملازمت کے حوالے سے خاتون کے فرائض کے مابین توازن لائے گی۔

ریاست گھرانوں کی کفیل خواتین، مطلقہ خواتین اور بیوائوں کو خصوصی دیکھ بھال اور تحفظ فراہم کرے گی۔

دفعہ۔۱۱: ریاست اخلاقیات، اخلاقِ عامہ (Public Morality) اور نظمِ عامہ کی حفاظت کرے گی اور تعلیم کے اعلیٰ معیار اور مذہبی اور حب الوطنی کی اعلیٰ اقدار، سائنسی اندازِ فکر، عرب ثقافت، اور عوام کے تاریخی اور ثقافتی ورثے کو فروغ دے گی، جیسا کہ قانون اس کا ضابطہ بنائے گا۔

دفعہ۔۱۲: ریاست معاشرے کی ثقافتی اور لسانی اجزا کی حفاظت کرے گی، اور تعلیم، سائنس اور علم کو عرب ساخت میں ڈھالنے کی سرپرستی کرے گی۔

دفعہ۔۱۳: شہری خطابات کا رواج ممنوع ہو گا۔

باب سوم: اقتصادی مبادیات

دفعہ۔۱۴: قومی معیشت اِن امور کے مطابق منظم کی جائے گی: ترقی کا مستقل جامع منصوبہ، قومی آمدنی میں اضافے کو یقینی بنانا، معیارِ زندگی بڑھانا، غربت اور بیروزگاری کا خاتمہ، ملازمت کے مواقع بڑھانا، اور پیداوار میں اضافہ۔

ترقیاتی منصوبہ سماجی انصاف اور یکجہتی قائم کرے گا، منصفانہ تقسیم کو یقینی بنائے گا، صارف کے حقوق کی حفاظت کرے گا، اور مزدوروں کے حقوق کا تحفظ کرے گا، وہ ترقیاتی لاگتوں کو سرمائے اور محنت میں تقسیم کرے گا اور آمدنی بھی منصفانہ طور پر بانٹے گا۔

اجرتیں پیداوار سے منسلک ہوں گی، آمدنی میں تفاوت کو دور کر کے کم از کم اجرت کا ایسا معیار مقرر کیا جائے گا جو تمام شہریوں کو معقول معیارِ زندگی کی ضمانت دے، نیز سول سروس کے عہدوں میں زیادہ سے زیادہ اجرت بھی طے کی جائے گی، تاہم استثنائی صورتیں قانون طے کرے گا۔

دفعہ۔۱۵: زراعت قومی معیشت کا بنیادی اثاثہ ہے۔ ریاست زرعی اراضی کو تحفظ دے گی اور اس میں اضافہ کرے گی، فصلوں اور پودوں کی انواع کو ترقی دینے پر کام کرے گی، حیوانات پروری اور ماہی پروری کو ترقی اور تحفظ دے گی، غذا کی ضمانت (Food Security) دے گی، زرعی پیداوار کی ضروریات، اس کا عمدہ انتظام اور بازارکاری (Marketing) فراہم کرے گی، اور زرعی صنعتوں کے ساتھ تعاون کرے گی۔

قانون کی مدد سے اراضی اس طرح استعمال کی جائے گی کہ سماجی انصاف حاصل ہو سکے اور کاشت کاروں اور زرعی محنت کشوں کو استحصال سے بچایا جا سکے۔

دفعہ۔۱۶: ریاست مضافاتی علاقے اور صحرائی علاقے کی ترقی کے ساتھ مخلص ہے، وہ کاشت کاروں اور صحرا نشینوں کا معیارِ زندگی بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہو گی۔

دفعہ۔۱۷: صنعت بھی ملکی معیشت کا بنیادی اثاثہ ہے۔ ریاست تزویراتی (Strategic) صنعتوں کو تحفظ دے گی، صنعتی ترقی میں معاون بنے گی اور نئی ٹیکنالوجیاں اور ان کے اطلاقات (Applications) درآمد کرے گی۔

ریاست چھوٹے پیمانے کی دستکاری صنعتوں کو فروغ دے گی۔

دفعہ۔۱۸: ریاست کے قدرتی وسائل عوام کی ملکیت ہیں، ان وسائل کی آمدنی پر ان کا حق ہے۔ ریاست آئندہ نسلوں کے لیے ان وسائل کو تحفظ دینے اور ان کے بہتر استعمال کا وعدہ کرتی ہے۔

ریاستی املاک ہڑپ نہیں کی جائے گی۔ اس کے استعمال کا حق، یا سرکاری استعمال کا حق صرف قانونی ضوابط کے مطابق عطا کیا جائے گا۔

جس رقم کا کوئی مالک نہ ہو، وہ ریاست کی ملکیت ہو گی۔

دفعہ۔۱۹: دریائے نیل اور آبی وسائل قومی دولت ہیں۔ ریاست ان کے انتظام، ترقی اور غلط استعمال کی روک تھام سے مخلص ہے۔ ایسے وسائل کا استعمال قانونی ضوابط کے تحت ہو گا۔

دفعہ۔۲۰: ریاست اپنے ساحلی علاقوں، سمندروں، آبی گزر گاہوں اور جھیلوں کو تحفظ دے گی، یادگاروں اور قدرتی مقامات کی دیکھ بھال کرے گی، اور تجاوزات ختم کرے گی۔

(۔۔۔جاری ہے!)

☼☼☼

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*