
معارف فیچر | 16 جون 2014
پندرہ روزہ معارف فیچر کراچی، جلد نمبر:7، شمارہ نمبر:12
مدیر سید شاہد ہاشمی
پندرہ روزہ معارف فیچر کراچی، جلد نمبر:7، شمارہ نمبر:12
مدیر سید شاہد ہاشمی
[easy-media med=”2527″][easy-media cat=”221″ col=”2″ align=”center”]
میری طرح بہت سے دوسرے لوگوں کو بھی یہ رائے قائم کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں ہو رہی کہ جنرل السیسی اپنی صدارت کو جائز اور درست ثابت کرنے کے لیے اسلام کا بھرپور سہارا لیں گے۔ اور انہوں نے چند ایسے اشارے بھی دیے ہیں جن کی مدد سے کوئی بھی اسلام کی طرف ان کے بڑھتے جھکاؤ کا اندازہ لگا سکتا ہے۔
امریکی قیادت جو کچھ افغانستان میں کرنا چاہتی ہے اس کے لیے بڑے پیمانے پر وہاں فوجیوں اور شہریوں کو تعینات رکھنا لازم ہے، مگر چند امور کی وضاحت لازم ہے۔ مثلاً یہ کہ امریکی قیادت آخر افغانستان میں کرنا کیا چاہتی ہے، جو مشن سوچ رکھے ہیں، ان کی تکمیل کے لیے کتنے لوگ کتنی میعاد کے لیے درکار ہوں گے، اس دوران امریکی فوجی اور سویلینز کس حد تک خطرات کی زَد پر ہوں گے اور امریکی فوجیوں، سویلینز اور کنٹریکٹرز کے لیے خطرات کی نوعیت کیا ہوگی؟
موجودہ ترکی دراصل سلطنتِ عثمانیہ کے خاتمے کے بطن سے پیدا ہوا۔ تب کی عسکری قیادت اور اشرافیہ کے غیر عسکری عناصر نے مل کر جدید ترکی کے آئین کی بنیاد رکھی۔ جن لوگوں نے ملک کے لیے نیا رنگ روپ سوچا، ان کے ذہن میں مستقبل کے ملک کی ایک تصویر تھی۔ وہ شخصی آزادی کے تصور پر مبنی مغربی سیاسی نظریے کو قبول کرچکے تھے اور ترکی کو بھی اسی رنگ میں رنگا ہوا دیکھنا چاہتے تھے۔ اس مقصد کے حصول کو یقینی بنانے کے لیے انہوں نے ایک ایسے آئین کی بنیاد رکھی، جس میں تمام اختیارات کسی ایک شخصیت میں مرتکز کردیے گئے تھے
سب سے پہلے تو میں یہ اعتراف کرنا چاہتا ہوں کہ اِس تحریر کا عنوان میرا نہیں۔ مجھ میں فیلڈ مارشل (ریٹائرڈ) السیسی کو مصر کے نئے سلطان کا لقب دینے کی جرأت ہر گز نہیں۔ برطانیہ کے اخبار ’’گارڈین‘‘ کے مصر میں نامہ نگار رابرٹ فِسک نے اپنے تازہ کالم میں جنرل السیسی کو Egyptian Emperor کا خطاب عطا فرمایا۔
حد یہ ہے کہ رجسٹرڈ ووٹروں میں سے بھی ۶۵ کروڑ نے بی جے پی کو حمایت سے نہیں نوازا۔ اس وقت بی جے پی نے جو حکومت بنائی ہے، وہ بھارت کی تاریخ میں سب سے غیر مقبول اور غیر نمائندہ ہے۔ اس صورت حال کا ایف پی ٹی پی سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ معاملات کو بگاڑا گیا ہے، انتخابی سیٹ اپ سے کھلواڑ کی گئی ہے۔
مئی ۲۰۱۴ء میں ہونے والے بھارتی انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی واضح کامیابی جہاں نئے حالات کی صورت گری کرتی ہے، وہیں انتخابی نتائج کئی حوالوں سے بھارت کی ایک دوسری تصویر بھی پیش کرتے ہیں۔
بھارت کے نئے وزیراعظم نریندر مودی اور ان کی کابینہ کے ارکان کی حلف برداری کی تقریب جس شاندار انداز سے اور جتنے بڑے پیمانے پر منعقد کی گئی، اُسے دیکھتے ہوئے تو یہ کسی وزیر اعظم کی حلف برداری سے کہیں زیادہ کسی شہنشاہ کی تاج پوشی کی تقریب دکھائی دے رہی تھی۔ نریندر مودی نے جس طور انتخابی مہم پر اربوں روپے خرچ کیے، حلف برداری کی تقریب بھی اسی کا ایک حصہ دکھائی دی۔
باغیوں نے منافرت کی جو آگ بھڑکائی تھی، اُس کے شعلوں نے ضلع رنگ پور کے ہر شہر اور ہر قصبے کو اپنی لپیٹ میں لیا۔ سعید پور، لال منیر ہاٹ اور نیلفاماری میں بنگالی باغیوں کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتارے جانے والے غیر بنگالیوں کی تعداد پانچ سے دس ہزار کے درمیان تھی۔ شہید ہونے والوں کی درست تعداد معلوم کرنا یہاں بھی انتہائی دشوار تھا کہ بہت سے غیر بنگالیوں کو قتل کے بعد دریا میں پھینک دیا گیا یا اُن کی لاشیں جلتے ہوئے گھروں میں راکھ ہوگئیں
یہ کتنی عجیب بات ہے کہ سیکولر ریاست کے غیر جانبداریت کے اس جھوٹے دعوے سے متاثر ہو کر تمام مذہبی گروہ اور طبقے اس کے ہاتھوں میں خوشی خوشی اپنی جڑیں کٹوا لینے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ یعنی بریلوی،دیوبندی، سلفی، شیعہ سب ایک ایسی انفرادیت (ہیومن) اور اجتماعیت (سول سوسائٹی) کے غلبے کو قبول کر لینے پر آمادہ ہو جاتے ہیں جو ان سب کی نفی اور بیخ کنی کر دیتی ہے
معروف طبی جریدے ’’نیوانگلینڈ جرنل آف میڈیسن‘‘ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق سعودی عرب میں ایک اونٹ اور اس کے ہلاک ہونے والے ۴۴ سالہ مالک میں پائے جانے والے وائرس کے نمونے یکساں تھے۔
رنگ برنگی جھِلّیاں، شیشے کے ٹکڑوں یا مختلف رنگوں کے چشموں سے بچپن میں ہم سبھی نے کھیلا ہوگا۔ ہرے رنگ کی جھِلّی اوڑھ لی جائے تو ہرا ہی ہرا سجھائی دیتا ہے۔ لال رنگ کا چشمہ پہننے والے کے لیے آسمان سے لے کر زمین تک سب کچھ لالہ زار ہوجاتا ہے۔ بس اسی طرح نظریات کو مختلف رنگوں کے چشموں پر قیاس کیا جاسکتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ چشمے آنکھوں پر پہنے جاتے ہیں اور نظریات کی عینک دل اور دماغ پر لگی ہوتی ہے۔ چشمے آسانی سے اتارے اور دوبارہ پہنے جاسکتے ہیں، مگر نظریات کی عینک کو اتاردینا ناممکن ہے
انڈونیشیا میں ۹؍اپریل ۲۰۱۴ء کو پارلیمانی انتخاب کے بعد اب صدارتی انتخاب کے لیے باقاعدہ مہم کا آغاز ہوچکا ہے۔ پارلیمانی انتخاب میں کوئی بھی جماعت ۲۰ فیصد نمائندگی یا کل ووٹوں کا ۲۵ فیصد حاصل نہیں کرسکی۔ اس لیے قانون کے مطابق کوئی بھی سیاسی جماعت تنہا اپنا امیدوار نامزد نہیں کرسکتی
جلد نمبر: 7
شمارہ نمبر: 11
Copyright © 2023 | WordPress Theme by MH Themes