
معارف فیچر | 16 ستمبر 2014ء
پندرہ روزہ معارف فیچر۔ 16 ستمبر 2014ء۔ جلد نمبر: 7، شمارہ نمبر: 18
پندرہ روزہ معارف فیچر۔ 16 ستمبر 2014ء۔ جلد نمبر: 7، شمارہ نمبر: 18
عوام نے کانگریس سے بدظن ہوکر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو بھرپور مینڈیٹ دیا تاکہ وہ اپنے ایجنڈے کے مطابق کام کرسکے اور اس کے پاس یہ جواز نہ ہو کہ اس کے پاس تو کوئی اختیار تھا ہی نہیں۔ بہت سے مبصرین کے نزدیک کانگریس کا زوال انقلاب سے کم نہ تھا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ کانگریس کی کارکردگی سے بددل ہوکر لوگوں نے بی جے پی کو ووٹ دیے۔ یہ کوئی انقلاب نہیں تھا بلکہ محض جذباتیت تھی۔
ہندو انتہا پسندی کو فروغ دینے والے دانشوروں نے بہت چالاکی سے اس تصور کو فروغ دیا ہے کہ سکھ مت، جین ازم اور بدھ ازم بھارت ہی کی سرزمین سے ابھرے ہیں، اِس لیے وہ اپنے ہیں جبکہ اسلام اور عیسائیت باہر سے آنے والے ادیان ہیں، اِس لیے وہ بھارتی الاصل قرار نہیں دیے جاسکتے۔
اسکاٹ لینڈ اپنی تقدیر کا چاہے جو بھی فیصلہ کرے، ریفرنڈم کے بعد تقریباً نصف فیصد ووٹر خود کو طاقتور محسوس کریں گے جب ہ خود کو ایسے ملک میں پائیں گے جس کی بنیادی سیاسی شناخت کے خلاف انہوں نے ووٹ دیا ہوگا اور پھر ایک مصالحتی عمل کا سامنا کریں گے جو شاید کئی سال تک جاری رہے۔ اگر اسکاٹ لینڈ آزادی کی شاہراہ پر گامزن ہوچکا ہے تو ہارس ٹریڈنگ اور نئے سرے سے اسٹرکچر تشکیل دینے کی ضرورت پڑے گی
مصر کی فوج نے معیشت کو دیمک کی طرح چاٹ لیا ہے۔ یہ آکاس بیل ہے جو درخت کا خون چوس رہی ہے۔ معیشت اور معاشرے کے ہر شعبے پر فوج مکمل متصرف ہونے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے۔ فوج کے ہاتھوں مصری معیشت کا جو حال ہے اُسے دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ مصر کبھی فوج کے اثرات سے آزاد ہوسکے گا۔
قطر نے الاخوان المسلمون کے ۷؍راہنمائوں کو ایک ہفتے کے اندر اندر ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا ہے۔ جن راہنماؤں کو ملک بدری کے احکامات جاری کیے گئے ہیں ان میں اخوان کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر محمود حسین، آزادی اور انصاف پارٹی کی ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن ڈاکٹر عمر ودراج اور ڈاکٹر حمزہ زوبع، پارٹی کی مجلس عاملہ کے رکن انجینئر اشرف بدرالدین، اخوان المسلمون کے رہنما اور وزارت اوقاف کے سابق سیکرٹری ڈاکٹر جمال عبدالستار اور ان کے علاوہ اسلام کے دو بڑے علماء شیخ عصام تلیمہ اور اخوان کے قریب سمجھے جانے والے شیخ وجدی غنیم شامل ہیں۔
پاکستان کے لیے ’’نیویارک ٹائمز‘‘ کے نمائندے میلکم براؤن نے جو ڈسپیچ بھیجا وہ ۷ مئی ۱۹۷۱ء کو شائع ہوا۔ اِس میں لکھا تھا کہ ’’افسران نے بتایا ہے کہ پاکستانی فوج کے دستوں کی آمد سے قبل میمن سنگھ میں بنگالی باغیوں نے کم و بیش ایک ہزار غیر بنگالیوں کو موت کے گھات اتارا۔
براعظم افریقا کے مسلمان ملک موریتانیہ کے علما اور مذہبی حلقوں نے حکومت کی جانب سے ہفتہ وار تعطیلات جمعہ اور ہفتہ کے بجائے ہفتے اور اتوار کے روز کرنے کے فیصلے کی سخت مخالفت کی ہے۔ گزشتہ جمعہ کے اجتماعات میں علما نے حکومت پر جمعہ کی تعطیل ختم کرنے پر کڑی تنقید کی اور مطالبہ کیا کہ ہفتہ تعطیلات میں جمعہ کی چھٹی بحال رکھی جائے۔
برما میں انسانی اسمگلنگ کے منظم گروہ کام کر رہے ہیں اور مسلمان، بالخصوص نابالغ بچے ان کا سب سے آسان شکار ہیں۔ وحشی صفت لوگ مسلمانوں کے گھروں پر ہلہ بولتے اور ان کی عورتوں اور بچوں کو یرغمال بنا لیتے ہیں۔ بعد ازاں انہیں مرضی کی قیمت پر فروخت کیا جاتا ہے۔ مسلمان بچوں کی خرید و فروخت کے باقاعدہ اڈے کام کر رہے ہیں۔ بعض اوقات ایک مسلمان بچے کو ایک تھیلا چاول یا ڈیزل کے ایک گیلن کے عوض سماج دشمن گروپوں کو فروخت کیا جاتا ہے۔
حوثی قبائل کو مکمل طور پر ایرانی سرپرستی حاصل ہے۔ ایران پہلے تو انکار کر رہا تھا لیکن بعد میں ایسے واقعات ہوئے جس کی وجہ سے یمن میں مداخلت سے انکار نہ کرسکا۔ تاہم کھلم کھلا حمایت کا راز اس وقت کھلا جب تہران کے امام جمعہ نے اپنے خطبے میں علی الاعلان یمن کے صدر کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا
دوسری عالمی جنگ کے ۷۵ سال مکمل ہونے پر جرمن دارالحکومت برلن میں وفاقی جرمن پارلیمان کی طرف سے عراق کے کرد جنگجوؤں کو جہادی گروپ اسلامک اسٹیٹ کے ساتھ مقابلے کے لیے ہتھیار فراہم کرنے کی متنازعہ تجویز کی منظوری محض ایک اتفاق ہے۔
پندرہ روزہ معارف فیچر، یکم ستمبر 2014، جلد نمبر:7، شمارہ نمبر:17
جوکووی کے لیے بنیادی چیلنج کرپشن ختم کرنے کا ہوگا۔ انڈونیشیا میں کرپشن اب بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ سرکاری مشینری میں رشوت لینا اب بھی کوئی بہت ناپسندیدہ بات نہیں۔ جوکووی پر عوام نے بھرپور اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ اب انہیں ثابت کرنا ہوگا کہ وہ ملک کو درست سمت میں لے جانے اور کرپشن سے پاک کرنے کی بھرپور اہلیت رکھتے ہیں۔
افغانستان کے عوام کے لیے قومی اتحادی حکومت کا سیاسی ڈھانچہ ان کے مسائل کو حل کرنے کی بجائے ان میں مزید اضافے کا ہی سبب بنے گا۔ مخلوط کمیشن جسے دونوں فریقوں میں اختلافات ختم کرنے کا کام سونپا گیا تھا بذات خود اختلافات کا شکار ہے۔ دونوں فریقین معاہدے کی ایک دوسرے سے بہت مختلف اپنی اپنی مرضی کی تشریحات پیش کرنے میں لگے ہوئے ہیں
سیاست کے میدان میں آنے سے قبل اولو استنبول کی مارمارا یونیورسٹی میں سیاسیات اور بین الاقوامی امور کے پروفیسر تھے۔ وہ ۲۰۰۳ء میں وزیرِاعظم اردوان کے مشیر برائے خارجہ پالیسی کی حیثیت سے اے کے پارٹی میں شامل ہوئے، جس کے بعد ۲۰۰۹ء میں انہیں ملک کا وزیرِ خارجہ مقرر کیا گیا۔
Copyright © 2023 | WordPress Theme by MH Themes