
معارف فیچر | 16 نومبر 2014ء
پندرہ روزہ معارف فیچر
جلد نمبر:7 – شمارہ نمبر:22
پندرہ روزہ معارف فیچر
جلد نمبر:7 – شمارہ نمبر:22
اس میں کوئی شک نہیں کہ کھودورکو وسکی تن تنہا ولادیمیر پیوٹن کو شکست نہیں دے سکتا مگر وہ اپنے وسائل کی مدد سے ایسی صورت حال ضرور پیدا کرسکتا ہے جس کے نتیجے میں حکومت کے لیے مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔
تیونس میں سیاست دانوں کو اندازہ ہے کہ خطہ کس طرف جارہا ہے۔ ان کے لیے اقتدار کی منتقلی سب سے اہم معاملہ ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ جمہوریت کی راہ پر گامزن نہ رہنے کی صورت میں ایک بار پھر فوج اقتدار میں آجائے گی اور ملک دوبارہ پولیس اسٹیٹ میں تبدیل ہوجائے گا۔ النہضہ پارٹی کے بیشتر رہنماؤں نے جلا وطنی کا زمانہ یورپ میں گزارا ہے اور وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ معاملات کو بہتر انداز سے چلانے کے لیے ہم آہنگی اور سمجھوتہ پسندی لازم ہے۔ دوسروں کو برداشت کرنے ہی میں معاشرے اور سیاست کی بہتری ہے۔
شام کی شمالی سرحد پر ’’کوبانے‘‘ شہر کو عراق و شام میں اسلامی ریاست کے قیام کی دعویدار تنظیم ’’داعش‘‘ نے اپنے کنٹرول میں لے رکھا ہے۔ یہ شہر کردوں کا ہے، جو اَب اپنے آپ کو داعش کے تصرف سے آزاد کرانے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ ’’کوبانے‘‘ کا حال عجیب ہے۔ یہ شہر ایک طرف تو داعش کے قبضے میں ہے اور دوسری طرف ترکی کی فوج الرٹ کھڑی ہے
بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے پاکستان کے خلاف سخت پالیسی اپنائی ہے۔ اُنہوں نے کئی مواقع پر واضح کر دیا ہے کہ پاکستان کے معاملے میں کوئی بھی نرمی روا نہیں رکھی جائے گی۔ بھارتی سفارت کار ششی تھرور کہتے ہیں کہ بھارت کی یہ پالیسی دراصل اُس کی ’’اینوائے اسرائیل‘‘ سوچ کا نتیجہ ہے۔
جدید زمانے کی جنگ بے چہرہ ہوتی جا رہی ہے۔ گزرتے وقت کے ساتھ اسلحہ خودکار اور مزید خودکار ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے خودکار ہتھیار بنانے کی دوڑ لگی ہوئی ہے، جن کو استعمال کرنے میں انسانی ارادے کا کوئی عمل دخل نہ ہو۔ قاتل ڈرون اور روبوٹ ایسے ہی ہتھیار ہیں۔
ملا عبدالسلام ضعیف کا کہنا ہے کہ خود کش حملے خفیہ ایجنسیوں کے ایجنٹوں کا کام ہے، طالبان اِس قبیح فعل میں کبھی ملوث نہیں ہوسکتے۔ اس خیال کا اظہار انہوں نے حال ہی میں جنوبی افریقا میں ’’کیج افریقا‘‘ کی لانچنگ کے موقع پر کیا۔ اُن کی باتوں سے طالبان کے بارے میں پایا جانے والا اچھا خاصا اشکال دور ہوا ہے۔
ستم اور درندگی کی انتہا یہ ہے کہ ہزاروں غیر بنگالیوں کو قتل کرنے کے بعد اُنہیں اجتماعی قبروں میں ڈالنے کے بعد عوامی لیگ نے یہ پروپیگنڈا کیا کہ یہ لاشیں اُن بنگالیوں کی ہیں جنہیں پاکستانی فوج نے قتل کیا۔ بہت سے پاکستان نواز اور خدا ترس بنگالیوں نے پورے شواہد کے ساتھ بتایا کہ غیر بنگالیوں کو قتل کر کے ان کی لاشیں بنگالیوں کی حیثیت سے دنیا کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی گئی۔
غلام اعظم کے چہرے کو دیکھیے! یوں لگتا ہے کوئی خود سے روبرو ہو گیا ہو۔ جیسے چہرے کو آئینہ نہیں آئینے کو چہرہ مل گیا ہو۔ کیا اتنا ہی؟ نہیں، اس سے بہت زیادہ۔ غلام اعظم کی موت زندگی کا پیغام ہے اور ہماری زندگی موت کا اعلان ہے۔ پروفیسر غلام اعظم کے باب میں پاکستان کا قومی رویہ ایک ایسا واقعہ ہے جس کے ذریعے ہم اپنے قومی مزاج اور ریاستی کردار کا حقیقی محاسبہ کر سکتے ہیں۔
نوبل انعام پر اکثر اس وجہ سے بھی تنقید کی جاتی ہے کہ اس میں حقیقت اور بصیرت کا فقدان ہے۔ درست ہے کہ نوبل انعام طلسمی چھڑی نہیں ہے کہ آپ اسے ہلائیں اور ہر قسم کے مسائل حل ہو جائیں۔ اس قسم کے نتائج کوئی بھی حاصل نہیں کر سکتا اور یہ بھی کہ ناروے کے پانچ نامعلوم افراد پر مشتمل کمیٹی بھی اس قسم کے نتائج حاصل کرنے سے قاصر رہتی ہے۔
سڑسٹھ سال ہوچکے ہیں مگر کشمیر کا مسئلہ اب تک زندہ ہے۔ بین الاقوامی تعلقات میں یہ مسئلہ اب تک زندہ ہے اور حل طلب ہے۔ اگر بڑی طاقتوں کے مفادات کو ذہن نشین رکھا جائے اور بین الاقوامی تجارت کے تناظر میں سوچا جائے تو کشمیر کوئی ایسا مسئلہ نہیں جو بڑی طاقتوں کے لیے زیادہ اہم ہو۔ وہ اُن خطوں کے بارے میں زیادہ سوچتی ہیں جو اُن کے مفادات کے لیے فیصلہ کن اہمیت رکھتے ہوں۔
بھارت میں سیکولر ووٹوں کی تقسیم سے ایک بار پھر مرکز میں حکمران ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے اقتصادی لحاظ سے دو اہم صوبوں مہاراشٹرا اور دہلی سے متصل ہریانہ میں صوبائی انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے۔ صوبائی اسمبلی کے ان نتائج میں سب سے قابلِ رحم حالت کانگریس کی ہوئی ہے، جو دونوں صوبوں میں تیسرے نمبر پر چلی گئی۔
تیونس کے حالیہ پارلیمانی انتخابات میں حیرت انگیز بات یہ ہوئی کہ خطے کے رجحانات کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے عوام نے اقتدار سیکولر عناصر کو سونپ دیا۔ النہضہ پارٹی کا اقتدار ختم ہوا، اب ندا تونس پارٹی اقتدار میں ہے۔ النہضہ پارٹی نے عوام کے فیصلے یعنی اپنی شکست کو انتہائی پُرامن انداز سے تسلیم کر لیا۔
پندرہ روزہ معارف فیچر – جلد نمبر:7 – شمارہ نمبر:21
نائن الیون کے تیرہ سال بعد امریکی صدر ٹی وی اسکرین پر نمودار ہوا اور قوم کو بتایا کہ انسدادِ دہشت گردی کی جنگ میں نئے دُشمن کے خلاف نیا محاذ کھولا جارہا ہے۔ یہ کوئی ایسا اعلان نہیں تھا جس کی براک اوباما نے توقع کی ہو۔ اُنہوں نے قوم کو بتایا کہ نئی جنگ چھیڑنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
Copyright © 2023 | WordPress Theme by MH Themes