
معارف فیچر | 16 فروری 15
پندرہ روزہ معارف فیچر
جلد نمبر:8، شمارہ نمبر:4
پندرہ روزہ معارف فیچر
جلد نمبر:8، شمارہ نمبر:4
مغرب کی سامراجی طاقتیں قبضے اور لوٹ مار کی جنگیں کسی اور کی سرزمین پر لڑنے کی عادی تھیں اور ان کے گھر محفوظ رہتے تھے۔ لیکن اب جنگ کے خطرات ان کے سر پر منڈلارہے ہیں۔ مغرب نے الجزائر، افغانستان، عراق، مالی اور تیسری دنیا کے دیگر ملکوں سے اپنی فوج واپس بلالی، لیکن جنگ ہے کہ ان کا پیچھا ہی نہیں چھوڑ رہی۔ اب وہ اپنی گلیاں محفوظ بنانے کے لیے بھرپور جنگی تیاریاں کررہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ جنگی یا انسانیت سوز جرائم سے متعلق بین الاقوامی قوانین کو سمجھنے اور برتنے میں بنگلا دیش انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل کے ججوں اور فریقین کے وکلا کو شدید مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بنگلا دیشی حکومت اور ٹربیونل دونوں ہی کی یہ بھرپور کوشش رہی ہے کہ کوئی بھی بین الاقوامی ایکسپرٹ اِس ٹربیونل کے سامنے پیش نہ ہو۔
ایک اہم وجہ جس کی وجہ سے لوگ تیل کی قیمت میں کمی کا اندازہ نہ لگا پائے، وہ یہ ہے کہ انھوں نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ سیاست کس طرح تیل کی پیداوار کو متاثر کرتی ہے، خاص طور پر مشرقِ وسطیٰ میں۔ دو غلط فہمیوں نے بہت عرصے سے لوگوں کو اس بات پر قائل کر رکھا ہے کہ قیمتیں بہت زیادہ نہیں گر سکتیں۔
ہم اپنے لوگوں کی فطرت اور سوچ سے بخوبی آگاہ ہیں، اگر وہ سیاسی نظام میں مضبوط رہنماؤں اور حکومت کے لیے صدارتی نظام کی حمایت کرتے ہیں، تو میں نہیں سمجھتا کہ صدارتی نظام کامیاب تجربہ نہ ہو۔ جون کے انتخابات کا پہلا مقصد ایک نیا آئین بنانے کے لیے اکثریتی تعداد میں نشستوں کا حصول ہے۔ ایک نئے آئین کے بغیر، مطلو بہ صدارتی یا نیم صدارتی نظام ناممکن ہے
حکومت ۷ جون سے پہلے انتخابات کروانے کی پابند ہے۔ جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی (AKP) ان انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کرکے آئین میں تبدیلیاں لانا چاہتی ہے۔ پارلیمانی نظام کو صدارتی نظام میں ڈھالنے کی حتمی توثیق بھی اس نئی پارلیمان سے کرانا پیشِ نظر ہے۔ اس تمام صورتحال کے تناظر میں، ایک بار پھر رجب طیب اردوان کو بدنام کرنے کے لیے گولن تحریک کے میڈیا ہائوسز کے خلاف عدالتی کارروائی کو، میڈیا کے خلاف سمجھا اور لکھا جارہا ہے۔
جو تفہیم اور سہولت انسان کو اپنی مادری یا قومی زبان میں ہو سکتی ہے کسی بدیسی زبان میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا بھلے ساری عمر ہی کیوں نہ سیکھی جائے؟ پھر انسان کی تخلیقی صلاحیتیں جس طرح اپنی زبان میں بروئے کار آتی ہیں کسی اور زبان میں کیسے آسکتی ہیں؟ وجہ سادہ سی ہے کہ اپنی زبان انسان کی سرشت میں ہوتی ہے، اس کے خمیر میں ہوتی ہے۔
آرتھو گرافی، قواعد اور صَرف و نحو کا حسن ہوتا ہے مگر الفاظ کے تلفظ اور ان کے املاء میں اغلاط اس کے حسن کو گہنا دیتے ہیں۔ کتب کی اشاعت اور ان کی تصحیح ایک بنیادی فریضہ اور ذمہ داری ہے مگر گرامر کی تدریس میں شین قاف درست کرنا تو بہت دور کی بات ہے، اس میں اغلاط درجہ بدرجہ ہر سال اسی طرح کی جارہی ہیں
بن سوٹر کا کہنا ہے کہ ہم اس سلسلے میں بہت زیادہ تحقیق و جستجو نہیں کرتے کہ یونیورسٹیاں کیا کررہی ہیں۔ یونیورسٹی کی درجہ بندی کا یہ بہت ہی دوٹوک طریقہ ہے اور اس قسم کی فہرست سازی کی یہی خوبی بھی ہے اور کمزوری بھی۔
وہ انگریزی زبان یا ادب سے نفرت نہیں کرتے، وہ کہتے ہیں کہ جسے سیکھنا ہے‘ وہ انگریزی سیکھے، لیکن اس زبان میں تعلیم کیوں دی جائے؟ اسے ہمیں جوتی کی طرح استعمال کرنا چاہیے، اسے گھر سے باہر رکھنا چاہیے، جب باہر جائیں تو پہن لیں۔ نموڑے جی کی بات کو میں تھوڑا آگے بڑھاتا ہوں۔ ہم بھارتی لوگوں نے اس جوتی کو اپنی پگڑی بنا رکھا ہے حالانکہ اس کی جگہ ہمارے پاؤں میں ہونی چاہیے‘ ہمیں اس کو سر پر نہیں سجانا چاہیے۔
انگریزوں نے حکومت مسلمانوں سے چھینی اور مسلمانوں نے اس کی مدافعت کی، تو فطری طور پر وہ مسلمانوں کے دشمن بن گئے اور انہیں ہی خاص طور پر نشانہ بنایا جانے لگا۔ پھر جب ملک کی تقسیم کے ساتھ آزادی کا سورج طلوع ہوا، تو خوشحال اور ذی حیثیت مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ ترکِ وطن پر مجبور ہو گیا۔ اس طرح آبادی کا تناسب گھٹ گیا اور جو مسلمان یہاں رہ گئے وہ ناگفتہ بہ حالات کا شکار ہو گئے۔ رہی سہی کسر بعد کی حکومتوں نے پوری کردی۔
عالمی ساہوکاروں کی عیارانہ پالیسیوں سے تنگ آئے یونانی عوام نے گویا کھلی بغاوت کر دی۔ انہوں نے اُس “Syriza” کو ووٹ دیا جس نے اعلان کر رکھا تھا کہ یونان اپنے ذمہ قرض (۴۱۱؍ارب امریکی ڈالر) کی ادائیگی نہیں کر سکتا، نہ (صاحبِ ثروت لوگوں کے علاوہ) اپنے عوام پر ٹیکسوں کا مزید بوجھ ڈال سکتا ہے اور نہ رفاہی کاموں پر سرکاری خزانے سے خرچ ہونے والی رقم میں مزید کٹوتی کر سکتا ہے
پندرہ روزہ معارف فیچر
جلد نمبر:8، شمارہ نمبر:3
چینی حکام نے اگر نریندر مودی کو آتا ہوا دیکھ لیا تھا تو بھارت کو بھی آتا ہوا دیکھ لینا چاہیے تھا۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ بھارت کی حقیقی طاقت کا اندازہ لگانے میں اُنہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا یا انہوں نے اس طرف کچھ خاص توجہ نہیں دی۔
ڈاکٹر ولی رضا نصر مشرقِ وُسطیٰ اور بین الاقوامی تعلقات کے ماہر، خارجہ امور پر امریکی حکومت کے مشیر اور ایک معروف دانشور ہیں۔ اس وقت وہ امریکا کی جان ہاپکنز یونیورسٹی کے اسکول آف ایڈوانسڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز میں ڈین اور بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر نصر امریکا کے معروف ادارے ’کونسل آن فارن افیئرز‘ کے تاحیات رکن ہونے کے ساتھ ساتھ امریکی محکمۂ خارجہ کے پالیسی بورڈ کے بھی رکن ہیں۔
Copyright © 2023 | WordPress Theme by MH Themes