
اکثر لوگ یہ یقین رکھتے ہیں کہ وہ دنیا کا مرکز ہیں، اور اُن کی ثقافت تاریخ کی سب سے درخشاں تہذیب سے تعلق رکھتی ہے۔ بہت سے یونانی یقین رکھتے ہیں کہ تاریخ ہومر اور افلاطون سے شروع ہوئی، اس لیے سارے اہم نظریات اور ایجادات ایتھنز، اسپارٹا، اسکندریہ یا قسطنطنیہ میں ہوئیں۔ چینی قوم پرست پُرزور انداز میں کہتے ہیں کہ تاریخ دراصل زرد ایمپائر سے شروع ہوئی، Xia اور Shang شاہی خاندانوں سے معاشرے آگے بڑھے۔ جو کچھ مغربیوں، مسلمانوں اور ہندوستانیوں نے حاصل کیا، وہ چینی کامیابیوں کا پرتو تھا۔ ہندو ان چینی دعوؤں کو مسترد کرتے ہیں، اور دعویٰ کرتے ہیں کہ ہوائی جہاز اور ایٹم بم بھی قدیم ہندوستان کی ایجادیں ہیں اور اُس وقت کنفیوشس، افلاطون، آئن اسٹائن، رائٹ برادرز کا کہیں کچھ پتا نہ تھا۔ مثال کے طورپر، تمہیں معلوم ہے؟ یہ مہارشی بھردواج تھے جنھوں نے سب سے پہلے راکٹ اور جہاز بنائے تھے، وشوا مترا نے نہ صرف میزائل ایجاد کیے تھے بلکہ انھیں استعمال بھی کیا تھا، اچاریہ کناد ایٹمی تھیوری کا خالق تھا، اور مہابھارت میں ایٹمی ہتھیاروں کا ذکر ہے۔
دین دار مسلمان پیغمبر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) سے پہلے کی تاریخ کوغیر متعلق قرار دیتے ہیں۔ وہ نزول قرآن کے بعد کی تاریخ ہی کوتاریخ سمجھتے ہیں (حقیقت یہ ہے کہ قرآن حکیم سے قبل کی تاریخ جاننے کا واحد مستند ذریعہ سوائے قرآن حکیم کوئی نہیں۔ اگر قبل از قرآن تاریخ جاننے کا کوئی مستند ذریعہ ہے؟ توبتایا جائے؟ قرآن حکیم سے بڑی تاریخی سچائی، کائناتی سچائی اورانسانی سچائی کوئی نہیں۔ یہ کھُلا چیلنج ہے۔ اگر قرآن سے زیادہ مستند اور لامبدل ذریعہ علم کوئی ہے، تو سامنے لایا جائے! مغرب میں توتاریخ آج تک درست اسناد سے محروم ہیں)۔ البتہ ترک، ایرانی، اورمصری قوم پرست کہتے ہیں کہ اسلام سے پہلے اُن کی قومیں انسانی تہذیب کی روحِ رواں تھیں اور اسلام کی آمد کے بعد بھی اُن ہی کی اقوام تہذیب اسلامی کی اصل جانشین ہیں۔ (مسلم دنیا میں قوم پرستی کی وبا ایک المیہ ہے، جس نے بلا شبہ شدید نقصان پہنچایا ہے۔)
یہ کہنا غیرضروری ہوگا کہ برطانوی، فرانسیسی، جرمن، روسی اور جاپانی سب ہی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اگراُن کی قوم کے کارہائے نمایاں نہ ہوتے توانسانیت بربریت کا شکارہوجاتی، جہالت کے اندھیروں میں بھٹکتی رہ جاتی۔ یہ سارے دعوے جھوٹے ہیں۔ یہ سب تاریخ سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے۔ جب انسانوں نے دنیا کواپنی نوآبادیات بنایا، اُس وقت کوئی مذہب کوئی قوم وجود نہیں رکھتی تھی (پروفیسر صاحب ڈارونسٹ ہیں۔ اس بات پرایمان رکھتے ہیں کہ انسان بندر سے بنا ہے۔ یہ نقطہ نظرخالصتاً ارتقا سے متعلق ہے، اور اسے عمومیت نہیں دی جاسکتی۔ اسے ہرگزقبول عام حاصل نہیں ہے)۔ ان کی پیدائش افریقا میں پتھرکے زمانے میں ہوئی۔ اس لیے انہیں کسی بھی بعد کے دور سے منسوب کرنا درست نہیں۔ اخلاقیات، فن، روحانیت اور تخلیق کی صلاحیتیں ہمارے ڈی این اے میں موجود ہیں۔ میں ذاتی طورپراس بھدی انانیت سے مانوس ہوں، کیونکہ میرے اپنے لوگ ’یہودی‘ بھی یہی سمجھتے ہیں کہ وہ دنیا کے اہم ترین لوگ ہیں۔ کسی بھی انسانی کامیابی یا ایجاد کا ذکر کریں، یہودی فوراً خود کو اس سے منسوب کردیں گے۔ میں ایک باریہودی یوگا استاد کے پاس گیا، تواس نے تعارفی کلاس میں بڑی سنجیدگی سے بتایا کہ یوگا ابراہم (حضرت ابراہیم علیہ السلام) کی ایجاد ہے۔ عبرانی کے حروف تہجی کی صورتوں میں یوگا کا ہرانداز موجود ہے۔ ابراہم نے جنہیں یوگا سکھائی، وہ بھارت گئے اور ہندوؤں کویوگا سکھائی۔ جب میں نے اُن سے اس بات کا ثبوت مانگا، تو انہوں نے کتاب مقدس کا ایک پیراگراف پڑھ کر سنادیا، جس میں اس بات کا ذکر تھا کہ ابراہم نے اپنے بیٹوں کو تحفے دے کرمشرق کی جانب بھیجا تھا۔ آپ کیا سمجھتے ہیں وہ کیا تحفے تھے؟ آرتھوڈکس یہودیوں میں یہ عقیدہ عام ہے کہ اگر ربی مقدس صحیفوں کی تلاوت ترک کردیں تو کائنات کا شیرازہ بکھر جائے۔ اگر کوئی اس عقیدے کوچیلنج کرے تو وہ نرا جاہل بے وقوف قرار دیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ سیکولر یہودی بھی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ وہ انسانی تاریخ کے ہیرو ہیں۔ میں یہاں یہودیت کی افضلیت کے بے بنیاد دعوؤں کی قلعی کھولوں گا اوریہ قاری پرچھوڑدوں گا کہ وہ اپنے گروہ کی خود پسندی کے غبارے سے خود ہوا نکالے۔
فرائڈ کی ماں
میری کتاب سیپئنز: انسانیت کی مختصر تاریخ پہلی بار عبرانی میں لکھی گئی، یہ اسرائیلی شہریوں کے لیے تھی۔ پہلی اشاعت کے بعد جن سوالوں سے میرا سب سے زیادہ سامنا ہوا، وہ یہ تھے کہ: مذکورہ تاریخ میں یہودیت کا ذکر سرسری سا ہے، کیوں؟ عیسائیت، اسلام اور بدھ مت پربہت زیادہ لکھا گیا ہے، کیوں؟ تاریخ میں یہودیت کے عظیم کردارکا ذکر کیوں نہ کیا گیا؟ کیا اس کتاب کا کوئی سیاسی ایجنڈا ہے؟ یہ سوال فطری تھے، کیونکہ اسرائیلی یہودی کنڈر گارٹن سے یہی سیکھتے ہیں کہ وہ انسانی تاریخ کے ہیرو ہیں۔ اسرائیلی طلبہ بارہ سال تک مطالعہ میں عالمی تاریخ کی بمشکل ہی کوئی بھنک پاتے ہیں۔ ان کی تعلیم عہد نامہ قدیم سے شروع ہوتی ہے؛ یہ دربدری سے صہیونیت کے عروج پرپہنچتی ہے؛ یہاں سے ہولوکاسٹ اورپھر قیام اسرائیل تک پہنچتی ہے۔ جب اسرائیلی طلبہ اسکول سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں، اُن کے نزدیک تاریخ بس یہی کچھ ہوتی ہے۔ سلطنت روما اور فرانسیسی انقلاب کا ذکربھی یہ جاننے کے لیے کیا جاتا ہے کہ ان مراحل پر’یہودیوں‘ کے ساتھ کیا معاملہ روا رکھا گیا۔ انہیں چین، بھارت اور افریقا کے بارے میں کچھ نہیں پڑھایا جاتا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہودیت نے انسانی تاریخ میں معمولی کردار ادا کیا ہے۔ عیسائیت، اسلام اور بدھ مت جیسے کائناتی مذاہب کے مقابلہ میں یہودیت کی حیثیت قبائلی عقیدہ سے زیادہ نہیں۔ اس کا سارا ارتکاز چھوٹی سی قوم اورچھوٹی سی زمین کی تقدیر پر ہے۔ دیگر ملکوں میں کیا ہورہا ہے، یہ ان کا درد سر ہی نہیں۔ مثال کے طورپر، انہیں اس بات کی کم ہی پروا ہے کہ جاپان یا برصغیرمیں کیا حالات وواقعات ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا تاریخی کردار بہت کم ہے (یہودیوں کا تاریخی کردار ہرگز معمولی نہیں، البتہ یہ غیرمعمولی کردار تعمیری نہیں تخریبی ہے۔ شاید اسی وجہ سے پروفیسر صاحب کے معیار ترقی پر یہودیت کا کردار پورا نہ اترا ہو)۔ یہ سچ ہے کہ یہودیت نے عیسائیت کوجنم دیا اور اسلام کی پیدائش پر یہ اثرانداز ہوا۔ تاہم عیسائیت اور اسلام کی عالمی کامیابیاں اُن کی اپنی ہیں۔ یہودیت کا کردار فرائڈ کی ماں جیسا ہے۔ اچھا یا بُرا، سگمنڈ فرائڈ کا جدید مغرب کی سائنس، ثقافت اور آرٹ پر گہرا اثر ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ اگر فرائڈ کی ماں نہ ہوتی تو فرائڈ بھی نہ ہوتا، اور نہ اُس کی کوئی شخصیت ہوتی، نہ اس کے ارادے ہوتے اور نہ منفرد خیالات ہوتے۔ مگر جب کوئی جدید مغرب کی تاریخ پرلکھنے کا ارادہ کرے، توکیا اُس سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ فرائیڈ کی ماں پر پورا باب لکھے؟ بالکل اسی طرح، یہ بات درست ہے کہ یہودیت کے بغیر عیسائیت کا کوئی وجود نہیں، مگر دنیا کی تاریخ لکھتے ہوئے اس بات کی کوئی اہمیت نہیں رہ جاتی۔ اہمیت اس بات کی ہے کہ عیسائیت نے یہودی میراث کے ساتھ کیا کیا؟ یہ بھی سچ ہے کہ اپنی مختصر سی تعداد کے باوجود یہودیوں نے آخری دوہزار سالوں کی تاریخ پر لامحدود اثرات مرتب کیے۔ مگر جب آپ تاریخ کے مکمل منظر نامے پر نظر ڈالتے ہیں تو یہودیت کی شراکت داری بہت محدود نظر آتی ہے۔ انسانوں نے پوری دنیا میں بودوباش اختیار کی، زراعت اپنائی، ابتدائی شہر تعمیر کیے، طرز تحریر ایجاد کیا اورپیسے کا استعمال وضع کیا۔ یہ سب یہودیت کے ظہور سے ہزاروں سال پہلے ہوچکا تھا۔ یہاں تک کہ اگر آپ گزشتہ دو ہزاریوں کا جائزہ لیں، اسے چینی اور ریڈ انڈینز کے تناظرمیں بیان کریں توشاید ہی کوئی یہودی کارنامہ نظر سے گزرے۔ یہودیوں کا چینی سلطنت کی تعمیر میں، یورپی سمندری مہمات میں، صنعتی انقلاب میں، یا جمہوری نظام کے استحکام میں کوئی قابل ذکر کردار نہیں ہے۔ پرنٹنگ پریس ہو یا اسٹیم انجن سب غیر یہودیوں کی ایجادیں ہیں۔ عیسائیت کے ماننے والے سب سے زیادہ ۳ء۲؍ارب ہیں، مسلمانوں کی تعداد ۸ء۱؍ارب ہے جبکہ یہودی صرف ڈیڑھ کروڑ ہیں۔ ہندو مذہب کے ایک ارب معتقد ہیں اور بدھ مت کے پچاس کروڑ ماننے والے ہیں۔ ڈھائی کروڑ سکھوں اور پانچ کروڑ شنتو معتقدین کا تو ذکر ہی کیا! یہودی پیغمبروں کی اخلاقیات بھی کوئی انوکھی شے نہ تھی۔ یہ اخلاقی اصول سمیری شہروں میں بھی رائج تھے۔ فرعون کے مصر اور بابلیوں میں بھی اخلاقیات پائی جاتی تھیں۔ بادشاہ حمورابی نے یہودی پیغمبروں سے بہت پہلے ریاستی قوانین متعارف کروا دیے تھے، ان میں اخلاقیات بھی موجود تھیں۔ ہندوستان میں مہاراجہ اشوک نے تیسری صدی قبل مسیح میں محبت اور اخلاقیات کا درس دیا۔
یہودی فزکس، عیسائی بائیولوجی
صرف انیسویں اور بیسویں صدی میں یہودیوں کی غیر معمولی کاوشیں سامنے آتی ہیں۔ خاص طورپر جدید سائنس میں یہودی کردار حیرت انگیز ہے۔ بیس فیصد نوبل انعام یافتہ سائنس دان یہودی ہیں۔ مگر یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ان کامیابیوں میں انفرادی کوششوں کا بڑا ہاتھ ہے۔ اہم ترین یہودی سائنس دانوں نے جو کچھ کیا، مذہبی دائرے سے باہر رہ کر کیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہودیوں کی سائنسی کامیابیاں اس لیے انجام پائیں، کہ وہ عبادت گاہوں سے نکل کر لیبارٹریز میں جا پہنچے تھے۔ ۱۸۰۰ عیسوی سے پہلے یہودیوں کی سائنسی کامیابیاں محدود تھیں۔ یہ عظیم تبدیلی یہودیوں کی سیکولرائزیشن کے بعد ہی ممکن ہوئی۔ جس وقت نیوٹن اور گیلیلیو سائنسی اکتشافات کررہے تھے، آئن اسٹائن کے دادا پردادا تالمود پڑھنے میں مگن تھے۔ حیاتیاتی نظریۂ ارتقا چارلس ڈارون کا کارنامہ تھا، جو عیسائی تھا۔ اسی طریقے سے تاریخ کا دھارا بدلنے والے حیاتیاتی نظریات عیسائی سائنس دانوں کی کاوشیں تھیں۔
اس سے پہلے کہ مجھ پر سامی مخالف ہونے کا الزام لگادیا جائے، واضح کردوں کہ میں یہودیت کو کسی بُرائی کے طورپر پیش نہیں کررہا۔ بلکہ صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ تاریخ میں اس کی کوئی خاص اہمیت نہیں۔ عموماً سامی مخالف سمجھتے ہیں کہ یہودیوں نے پوری دنیا کا نظام سنبھالا ہوا ہے، بینکنگ نظام ان کے ہاتھوں میں ہے، ذرائع ابلاغ ان کی مٹھی میں ہے، اور عالمی حدت سے لے کر نائن الیون حملوں تک، ہرواقعہ کا ذمے دار انہیں ٹھہرایا جاتا ہے۔ یہ سب ویسی ہی حماقت ہے کہ جیسی یہودیوں کواپنی اہمیت کے حوالے سے لاحق ہے۔
تمام مذاہب کے لیے عاجزی ضروری ہے، حلم درکار ہے۔ سب سے بہترین عجز وہ ہے، جو خدا کے سامنے کیا جائے۔ جب جب وہ خدا سے ہم کلام ہوتے ہیں، عاجزی کا اظہار کرتے ہیں، مگر پھر اُسی خدا کا نام لے کر اپنے بھائیوں پرمسلط ہوجاتے ہیں۔
(کتاب: ’’اکیسویں صدی کے اکیس سبق‘‘۔ ترجمہ و تلخیص: ناصر فاروق)
مترجم کو اپنے علم میں اضافے کی ضرورت ہے
یقینا۔۔۔ کون ایسا ہے جسے علم میں کامل ہونے کا دعوٰی ہو؟