انفوٹیک اور بائیو ٹیک کے انضمام نے آزادی اور مساوات کی جدید لبرل اقدار کے لیے خطرات پیدا کردیے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے عالمگیر تعاون ناگزیر ہوگا۔ مگرقوم پرستی، مذہب، اور ثقافتوں پر مبنی تقسیم عالمی سطح پر انسانوں میں تعاون ممکن نہ ہونے دے گی۔ (مصنف پروفیسر نوح ہراری کا یہ دعویٰ درست نہیں کہ مذہب اور ثقافتیں تقسیم کا باعث ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انسانی تاریخ تہذیبوں کی تاریخ ہے اور تہذیبوں کی بنیادیں مذہبی اور ثقافتی ہیں۔ ٹیکنالوجی کا چیلنج لبرل اقدار کا ہی وہ تباہ کن نتیجہ ہے جوآزادی کے گمراہ کُن تصور سے برآمد ہوا ہے۔ ٹیکنالوجی کا علاج صرف اخلاقیات اور تہذیبی حکمت عملی سے ممکن ہے۔بے لگام ٹیکنالوجی لبرل اقدار ہی کا ایک فتنہ ہے، جس سے انسانی تہذیب کی بقا خطرے میں ہے۔)
انسان گوشت پوست رکھتے ہیں!
(امریکا کی ریاست)کیلیفورنیا میں زلزلے آتے رہے ہیں، مگر ۲۰۱۶ء کے انتخابات میں یہاں ایسا سیاسی زلزلہ آیا تھا، جس سے سیلیکون ویلی میں بھونچال آگیا تھا۔ یہاں کے باشندوں کو محسوس ہوا کہ وہ انتخابی عمل میں مسئلہ بن کر سامنے آئے تھے (آن لائن روسی مداخلتوں کی شکایتیں موصول ہوئی تھیں، مترجم)۔ مینلو پارک فیس بک ہیڈ کوارٹر میں جیسے ہلچل مچ گئی تھی۔ سوشل نیٹ ورکنگ معاشرتی ابتری بنتی نظر آرہی تھی۔ تین ماہ کی تحقیقات کے بعد، فیس بک مالک مارک زکربرگ نے نئے اصولوں پر مبنی منشور جاری کیا تاکہ عالمی فیس بک کمیونٹی کو مستحکم کیا جاسکے۔ مارک زکر برگ نے وعدہ کیا کہ وہ آن لائن کمیونٹی کی تعمیر وترقی میں بھرپور کردار ادا کریں گے، اورانجینئر مصلحین اورپادریوں کی جگہ سنبھالیں گے۔ ہم ایک ایسا پراجیکٹ شروع کریں گے، جو آپ کو مفید گروہ میں شمولیت کے لیے مشورے فراہم کرے گا۔ یہ کام مصنوعی ذہانت نے پہلے ہی شروع کردیا ہے اور یہ بھرپور کام کرتا ہے۔ ابتدائی چھ ماہ میں مصنوعی ذہانت نے پچاس فیصد صارفین کومطلوبہ کمیونٹی میں شامل ہونے میں مدد فراہم کی۔ مارک زکربرگ کا ہدف ہے کہ ایک ارب صارفین کو مختلف کمیونٹیز کا حصہ بنایا جائے تاکہ انسانی برادریوں اور گروہ بندی کی گرتی شرح پر قابو پایا جاسکے اورایک عالمی سوشل نیٹ ورک منظم کیا جاسکے۔ دنیا بھر کی کمیونٹیز کو قریب لایا جائے۔ یہ فیس بک کا مشن قرار پایاتھا۔
مارک زکربرگ نے یقینا صحیح کہا تھا کہ انسانی کمیونٹیز کی گھٹتی شرح تشویشناک تھی۔ مگرچند ماہ ہی بعد مارک زکربرگ کا ارادہ اور وعدہ اُس وقت مشکل میں پڑگیا جب کیمبرج اینالٹیکا اسکینڈل سامنے آیا۔ انکشاف ہوا کہ تیسری پارٹی فیس بُک ڈیٹا خرید کر دنیا بھر کے انتخابات میں دھاندلی کروا رہی تھی۔ زکربرگ کے عزائم مذاق بن کر رہ گئے۔ لوگوں کا فیس بک پر سے اعتبار اٹھ گیا۔
اگرچہ ممکن ہے کہ اکیسویں صدی میں انسان خدائی خاصیتوں کی سطح پر اپ گریڈ ہوجائیں، تاہم اب (۲۰۱۸) تک ہم پتھر کے دور جیسے جانور ہی ہیں۔ اجتماعی نشوونما کے لیے آج بھی ہمیں گروہ بندی میں زندگی گزارنے کی ضرورت ہے۔ کروڑوں سال انسان چھوٹی چھوٹی ٹولیوں کی صورت میں ہی زندگی بسر کرتا آیا ہے۔ چاہے فیس بُک پر ہم کتنے ہی دوستیوں کا دعویٰ کریں، آج بھی ہم شخصی طور پر صرف سو ڈیڑھ سو افراد سے ہی جان پہچان رکھتے ہیں۔ اس گروہ بندی کے بغیر انسان خود کو تنہا اور مرکزی دھارے سے کٹا ہوا محسوس کرتا ہے۔
بد قسمتی سے، گزشتہ دو صدیوں سے انسانی گروہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ باہم جان پہچان رکھنے والے چھوٹے گروہ قوموں اور سیاسی جماعتوں کی تصوراتی کمیونٹیز کا متبادل نہیں بن سکے ہیں۔ آپ کے قومی خاندان کے کروڑوں بھائیوں میں سے کوئی بھی آپ کی داد رسی نہیں کرسکتا، مگرکوئی بھی قریبی دوست یا بہن بھائی آپ کی اشک شوئی آسانی سے کرسکتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ فرد مضبوط ترین روابط کی دنیا میں خود کو تنہا محسوس کررہا ہے۔ آج کی دنیا میں معاشرتی اور سیاسی انتشار کی یہی وجہ ہے۔ (پروفیسر ہراری کا یہ دعویٰ حقیقت کے برعکس ہے کہ معاشرتی انتشار کا سبب معاشرے کا بہت بڑا حجم ہے۔ سچ یہ ہے کہ مغربی معاشرے میں انتشار کی وجہ تہذیبی طرز زندگی سے محرومی ہے۔ جب خاندان جیسا بنیادی ادارہ ہی جڑ سے اکھاڑدیا جائے گا تومعاشرہ کس طرح مستحکم رہ سکے گا؟ )
لہٰذا، مارک زکربرگ کی جانب سے آن لائن لوگوں کو باہم جوڑنے کا نظریہ بروقت ہے۔ مگرالفاظ کی عمل کے آگے کوئی وقعت نہیں ہے۔ جب کہ اس نظریے کے اطلاق کے لیے فیس بک کو شاید اپنے کاروبار کا پورا نمونہ ہی بدلنا پڑ جائے۔ جب آپ لوگوں کی توجہ شکار کرکے اشتہاری کمپنیوں کو بیچ رہے ہوں تو عالمی کمیونٹی کی تشکیل جیسا کام نہیں ہوسکتا۔ اکثر کارپوریشنز یقین رکھتی ہیں کہ اصل ہدف پیسہ بنانا ہے، حکومتوں کو اس معاملے میں کم سے کم ملوث ہونا چاہیے اور انسانوں کوفیصلہ سازی کے لیے منڈی کی قوتوں پر ہی بھروسہ کرنا چاہیے۔ دنیا بھر میں ایسی تنظیموں کی کوئی کمی نہیں جوانسانوں کو بڑے پیمانے پر منظم کرنا چاہتی ہیں۔ مگر فیس بک کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ عالمی نوعیت کی کوشش کررہا ہے، اسے کارپوریشن کی پشت پناہی حاصل ہے، اور اس کا ٹیکنالوجی پرپختہ ایمان ہے۔ (یہاں مصنف کا مدعا مضمون واضح ہوتا ہے۔ یہ کارپوریشنزکی ترجمانی کررہے ہیں۔ ٹیکنالوجی پر ایمان رکھتے ہیں اور چاہتے ہیں سب ٹیکنالوجی کی طاقت کے آگے سرجھکادیں)۔ زکربرگ کی اس بات میں وزن ہے کہ فیس بک مصنوعی ذہانت نہ صرف’بامعنی کمیونٹیز‘ تشکیل دے سکتا ہے، بلکہ بڑے معاشرتی گروہ بھی منظم کرسکتا ہے، پوری دنیا کو باہم متحد کرسکتا ہے۔ (ٹیکنالوجیکل عالمگیریت کا ایجنڈا ہے۔) گاڑی چلانے یا کینسرکی تشخیص کی نسبت مصنوعی ذہانت کے لیے یہ بہت بڑا اوراہم کام ہے۔ عالمی سطح پر معاشرتی انجینئرنگ کے لیے مصنوعی ذہانت کا یہ استعمال شاید پہلی ایسی کوشش ہے۔ یہ ایک آزمائشی مقدمہ ہے۔ اگر یہ کامیاب ہوتا ہے، تومزید اس طرح کی کوششیں کی جاسکتی ہیں۔ یوں ایلگوریتھم انسانی معاشی نیٹ ورکس کے نئے ماسٹرتسلیم کرلیے جائیں گے۔ اگر یہ ناکام ہوتا ہے، تونئی ٹیکنالوجی کی حدود واضح ہوجائیں گی۔ایلگوریتھم شاید کار ڈرائیونگ اور علاج وغیرہ کے لیے ہی زیادہ مناسب ہے۔ مگر جہاں تک معاشرتی مسائل کا تعلق ہے، ہمیں فی الحال سیاست دانوں اور پادریوں پر ہی انحصار کرناچاہیے۔ (پوری کتاب میں مصنف نے گاجر اور چھڑی سے ’انسان‘ قاری کو قابو میں رکھنے کی کوشش کی ہے۔۔۔ پہلے ٹیکنالوجی کے طوفان سے ڈراتے ہیں پھراُسے دھیرے دھیرے طوفان کا عادی بنانے کی سعی کرتے ہیں)۔
آن لائن بمقابلہ آف لائن
حالیہ سالوں میں فیس بُک نے حیرت انگیز کامیابی حاصل کی ہے۔ اس وقت اس کے دو ارب سرگرم صارف ہیں۔ اگریہ اپنے وژن پر عمل درآمد کرنا چاہتا ہے تو اسے آن لائن اور آف لائن دنیا کے درمیان پُل بننا ہوگا۔ آن لائن کمیونٹی کا اجتماع آغاز ہوسکتا ہے مگردور رس اثرات کے لیے آف لائن دنیا میں جڑیں پکڑنی ہوں گی۔ اگر ایک دن کسی آمر نے فیس بُک پرپابندی لگادی توآن لائن کمیونٹی ہوا میں تحلیل ہوکر رہ جائے گی۔ کیا وہ پلٹ کراُس آمر کا مقابلہ کرسکے گی؟ کیا وہ کوئی منظم احتجاج منعقد کرسکے گی؟
گوشت پوست کی انسانی برادریاں تخیلاتی آن لائن کمیونٹی سے بہت زیادہ گہرائی اور وزن رکھتی ہیں۔ مستقبل قریب میں بھی آن لائن دنیا آف لائن دنیا پرغالب نہیں آسکتی۔ اگراسرائیل میں میں اپنے گھرپربیمار پڑا ہوں، توکوئی آن لائن دوست کیلیفورنیا سے نیک خواہشات کا اظہار ہی کر سکتا ہے۔ مگر ایک کپ کافی یا سوپ بناکرنہیں پلاسکتا۔
انسان گوشت پوست رکھتے ہیں۔ گزشتہ صدی کے دوران ٹیکنالوجی ہمیں ہمارے جسموں سے دورکرتی رہی ہے۔ ہم کیاسونگھ رہے ہیں؟ کیا کھارہے ہیں؟ اس پر توجہ دینے کی ہمارے پاس فرصت ہی نہیں رہی۔ ہم اسمارٹ فون اورکمپیوٹر میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ہم اس میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں کہ سائبر کی دنیا میں کیا ہورہا ہے۔ ہمارے گھر کے نیچے گلی میں کیا واقعہ پیش آرہا ہے؟ اس کی ہمیں چنداں فکر نہیں! سوئٹزرلینڈ میں اپنے کزن سے بات کرنا آسان ہے مگر ناشتے پر شوہر سے بات کرنا مشکل ہے۔کیونکہ وہ بھی مجھ پر توجہ دینے کے بجائے مسلسل اسمارٹ فون میں گم ہے۔
ماضی میں لوگ اس قسم کی لاپروائی اور عدم توجہ برداشت نہیں کرسکتے تھے۔ قدیم شکاری انسان ہر وقت چوکنے اور سرگرم رہتے تھے۔ جنگلوں میں گھومتے پھرتے تھے۔ کھمبیاں تلاش کرتے تھے۔ گھاس میں ذرا سی حرکت پر بھی نظر رکھتے تھے کہ کہیں سانپ نہ چھپا بیٹھا ہو۔ آج کے مالدار معاشروں میں ایسی فکروپریشانی ضروری نہیں رہی۔ ہم سپرمارکیٹ کی روشوں میں چلتے پھرتے ٹیکسٹ پیغامات بھیجتے اور وصول کرتے رہتے ہیں اور ساتھ ساتھ منتخب اشیا کی خریداری بھی کرتے رہتے ہیں۔مگر جو کچھ بھی ہم خریدتے ہیں وہ عجلت میں ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر کھاتے ہیں۔ ای میل چیک کرتے ہوئے یا ٹی وی دیکھتے ہوئے ہم کھانے اور اُس کے ذائقے پر بالکل توجہ نہیں دے پاتے۔
مارک زکربرگ کا کہنا ہے کہ فیس بک کے ذریعے ہم اپنے تجربات اور جذبات کا تبادلہ کرتے ہیں۔ اس طرح ہمارا احساس یا تبصرہ اہمیت اور توجہ حاصل کرتا ہے۔ اپنے اجسام سے اجنبی لوگ اور اپنے ماحول سے کٹتے ہوئے افراد بے مقصدیت کا شکار ہوسکتے ہیں۔ ماہرین عموماً اس تنہائی کو مذہبی اور قومی تعلقات میں گراوٹ کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ مگر انسان کا اپنے جسم سے دور ہوناغالباً زیادہ اہم مسئلہ ہے۔ انسان لاکھوں کروڑوں سال بغیر مذاہب اور اقوام زندہ رہے ہیں، یہ اکیسویں صدی میں بھی اس طرح زندگی گزار سکتے ہیں۔ (یکسر بے بنیاد اور لغو قسم کا جھوٹ ہے۔ انسان ہمیشہ سے مذہبی اور معاشرتی زندگی کے عادی رہے ہیں۔) وہ خوش نہیں رہ سکتے اگر انہیں ان کے جسموں سے دور کردیا جائے۔ اگر آپ اپنے جسم میں گھر کی سی اپنائیت محسوس نہیں کررہے، تواس دنیا کو کبھی بھی آپ اپنے گھر کی طرح محسوس نہیں کرسکتے۔
آن لائن تعلقات پر حدیں مقرر کی جاسکتی ہیں؟ مگر اس طرح مارک زکربرگ کا معاشرتی ٹکراؤسے بچاؤ کا نسخہ ناکام ہوجائے گا۔ مارک زکربرگ کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ لوگوں کا جن دلچسپیوں میں اتفاق ہے وہ اُس پر روابط مستحکم کرسکتے ہیں، اور جن معاملات میں اختلافات ہیں اُن پر مکالمہ کرسکتے ہیں۔ تاہم اب بھی سب انسانوں کا ایک دوسرے کو پوری طرح جان لینا بہت مشکل ہے۔ اس میں بہت وقت لگے گا۔ اس کے لیے بالمشافہ روابط کی ضرورت ہوگی۔ مگر یہ ناممکن ہے۔
ہم صرف یہ امید کرسکتے ہیں کہ فیس بُک اپنے کام کا انداز بدلے گا اور زیادہ سے زیادہ آف لائن ٹیکس فرینڈلی پالیسی اختیار کرے گا، اور اس عمل کے دوران دنیا کو متحد بھی کرسکے گا، اور منافع بخش بھی رہے گا۔ تاریخی طورپر کارپوریشنز کبھی بھی سیاسی اور معاشرتی انقلابات کا محرک نہیں بن سکی ہیں۔ انقلاب قربانی مانگتا ہے اور کارپوریشنز اور اُن کے ملازمین قربانی نہیں دے سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ انقلابی گرجا گھر بناتے ہیں، سیاسی جماعتیں تشکیل دیتے ہیں، اورفوجیں تیار کرتے ہیں۔ (یہاں ہراری صاحب برطانوی استعماریت، نوآبادیاتی فوج کشی اورکارپوریشنز کے لیے گھڑی گئی جنگوں کوکیسے نظر انداز کرگئے؟) عرب دنیا میں ٹوئٹر اور فیس بُک کے نام نہاد انقلاب نے آن لائن کمیونٹی کا امید افزا کام شروع کیا تھا، مگر جیسے ہی وہ آف لائن دنیا میں ابھرے، مذہبی جنونیوں اورملٹری جنتا نے کمانڈ سنبھال لی۔ (پروفیسر ہراری نے یہاں پھر ناانصافی سے کام لیا ہے، مغربی میڈیا کے جھوٹے پراپیگنڈے کی تکرار کردی ہے۔ حالانکہ اُن پر یہ بالکل واضح ہونا چاہیے کہ مصر میں انقلاب کی آبیاری اخوان المسلمون نے طویل عرصے کی ہے۔ اس انقلاب کے لیے اخوان کی زندگیاں جیلوں میں گزری ہیں۔ جدید مصر کی تاریخ میں اخوان المسلمون مقبول ترین سیاسی اور جمہوری جماعت ہے، جسے مغرب نے فوج کی مدد سے نہ صرف اقتدار سے محروم کیا بلکہ ظلم ودہشت کی خونیں تاریخ لکھی۔رابعہ العدویہ پرعورتوں تک کوٹینکوں تلے کچلا گیا۔ آج بھی منتخب وزیراعظم محمد مرسی سلاخوں کے پیچھے ہیں اورنام نہاد جمہوری دنیا جنرل السیسی کی پشت پناہی میں تمام حدیں پامال کرچکی ہے۔ مصری انقلاب میں سوشل میڈیا کا کرداررابطے کی ایک ڈیوائس سے زیادہ کچھ نہ تھا۔) اگر فیس بُک ایک عالمی انقلاب برپا کرنا چاہتا ہے توآن لائن اور آف لائن دنیا کے درمیان فاصلے ختم کرے۔ اس وقت آن لائن جائنٹس کا رویہ یہ ہے کہ وہ انسانوں کو Audiovisual جانور سمجھتے ہیں: آنکھوں اور کانوں کے ایسے جوڑے جوانگلیوں سے رابطے میں ہیں اور کریڈٹ کارڈ تک جاتے ہیں۔ اگر انسانوں کو جوڑنا ہے توسمجھنا ہوگا کہ وہ گوشت پوست کا وجود رکھتے ہیں۔
یقینا جب ٹیک جائنٹس کواحساس ہوگا کہ آن لائن ایلگوریتھم کی حدود آڑے آرہی ہیں تو وہ آن لائن اور آف لائن دنیا کے درمیان فاصلہ مٹانے کی تگ ودو تیز کردیں گے۔ گوگل گلاس جیسی ڈیوائسز استعمال کرکے یہ فرق مٹایا جائے گا اور واحد اضافی حقیقت (Augmented Reality) میں ڈھال دیا جائے گا۔ اس کے لیے بائیو میٹرک سینسر اور دماغ وکمپیوٹرکے براہ راست تعامل کی صلاحیت استعمال کی جاسکتی ہے، جو الیکٹرونک مشینوں اور انسانی اجسام میں تفریق ختم کردیں۔ ایک بار جب ٹیکنیکل جائنٹس ہمارے اجسام پرقابو پالیں گے، تو پھر شاید موجودہ طریقوں پر ہی وہ ہماری آنکھوں، ہاتھوں اور کریڈٹ کارڈ کا استعمال کریں۔ ہم شاید پھر اُن سنہرے دنوں کو یاد کریں کہ جب آن لائن اور آف لائن زندگی علیحدہ ہواکرتی تھی۔
(کتاب: ’’اکیسویں صدی کے اکیس سبق‘‘۔ ترجمہ و تلخیص: ناصر فاروق)
Leave a Reply