
اب جب کہ مارک زکربرگ آن لائن کمیونٹی کو متحد کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ آف لائن دنیا کے حالیہ واقعات ’تہذیبوں کے تصادم ‘ میں سانس لیتے محسوس ہوتے ہیں۔ بہت سے سیاست دان، ماہرین، عام لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ شام کی خانہ جنگی، داعش کا عروج، بریگزٹ کا بحران اوریورپی یونین میں عدم استحکام کا سبب مغربی تہذیب اور اسلامی تہذیب کا تصادم ہے۔ مغرب کی جانب سے مسلمان قوموں پرانسانی حقوق جبراً مسلط کرنے کی کوششوں کا بُرا نتیجہ نکلا، اسلامی دنیا سے پرتشددردعمل سامنے آیا۔ (انسانی حقوق کی بات پراپیگنڈہ ہے، درحقیقت مسلم قوموں پر جارحیت کی گئی اور انہیں دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا، اوراُن پر ہی دہشت گردی کا الزام تھوپا گیا۔ مترجم) مسلمان تارکین وطن اوردہشت گرد حملوں نے یورپی ووٹروں کے بین الثقافتی ہم آہنگی کے خواب تتر بتر کردیے۔ وہ مقامی شناختوں کے حوالے سے متعصب ہوگئے۔ (یہ قطعی طورپر جھوٹ ہے، تارکین وطن مسلمانوں پرجھوٹے الزامات لگائے گئے، اسلام کا تشخص مجروح کیا گیا، یہ وہ سازشیں تھیں جونظریہ ’تہذیبوں کے تصادم‘ کا نتیجہ تھیں، مگرپروفیسر ہراری میڈیا پراپیگنڈہ کی بنیاد پراپنے دلائل مستحکم کررہے ہیں۔ مترجم)
نظریہ ’تہذیبوں کے تصادم‘ کے مطابق، انسانیت ہمیشہ سے مختلف تہذیبوں میں پروان چڑھی ہے، ان تہذیبوں کے نمائندوں نے دنیا کوغیر مصالحانہ نظر سے دیکھا ہے۔ ان ناموافق نظریات نے تہذیبوں میں تصادم کوناگزیر بنادیا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے فطری چناؤ کے قوانین کے تحت بہت سی انواع اپنی بقا کے لیے لڑتی رہی ہیں۔ لہٰذا پوری تاریخ میں تہذیبیں باہم جنگوں سے گزری ہیں اورباقی رہ جانے والی تہذیب نے فتح کے گیت گائے ہیں۔ جو لبرل سیاستدان اور انجینئر اس تلخ حقیقت کو نظر انداز کرتے ہیں، وہ اپنا ہی نقصان کرتے ہیں۔ نظریہ ’تہذیبوں کے تصادم‘ کے سیاسی اثرات دوررس ہیں۔ اس کے حامی یقین رکھتے ہیں کہ ’مسلمان دنیا‘ اور مغرب میں مصالحت کی ہر کوشش ناکام ہوگی۔ مسلم ریاستیں کبھی بھی مغربی اقدار نہیں اپنائیں گی اورمغربی ممالک کبھی بھی مسلمان اقلیتوں کو اپنے اندر جذب نہیں کرسکے ہیں۔ یہ یقین رکھتے ہیں کہ امریکا کو شام اور عراق کے تارکین وطن کو اپنے ملکوں میں داخلے سے روکنا چاہیے اور یورپی یونین کوکثیر الثقافتی خود فریبی سے نکل جانا چاہیے اوراپنی مغربی شناخت کا تحفظ کرنا چاہیے۔ کیونکہ بالآخر، فطری چناؤ کی آزمائشوں سے گزر کر ایک ہی تہذیب کوباقی اور غالب رہنا ہے۔
اگرچہ نظریہ ’تہذیبوں کے تصادم ‘ کو قبول عام حاصل ہے۔ مگر یہ نظریہ گمراہ کُن ہے۔ اسلامی بنیاد پرستی یقینا انقلابی خطرہ بن سکتی ہے۔ مگر یہ خطرہ مغربی تہذیب کو نہیں بلکہ عالمی ’تہذیب‘ کو درپیش ہوگا۔ (یہ مولانا مودودی کے فلسفہ ’اسلام اور جاہلیت‘کے تناظرمیں قدرے درست بات ہے۔ مترجم) مثال کے طورپر ’داعش‘ نے اپنے خلاف امریکا اور ایران کو متحد کردیا۔ جیسا کہ پنکج مشرا اور Christopher de Bellaigue نے مؤثر دلائل سے ثابت کیا ہے کہ انقلابی مسلمان مارکس اور فوکو سے اتنے ہی متاثر ہوئے ہیں جتنا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) سے، اور یہ انیسویں صدی کی یورپی بادشاہتوں کے اتنے ہی وارث ہیں کہ جتنے اموی اور عباسی بادشاہتوں کے۔ لہٰذا اسے اس طرح دیکھنا درست ہوگا کہ داعش بھی اُس عالمی تہذیب کا حصہ ہے جوہم سب کی تہذیب ہے۔ (اس مضمون میں پروفیسر ہراری نے داعش کومسلمانوں کی ترجمان جماعت کے طورپر بار بار پیش کیا ہے، جو صریح علمی بددیانتی ہے، اسلامی دنیا نہ داعش کو قبول کرتی ہے نہ تسلیم کرتی ہے اور نہ ہی کسی کواس بات کا حق دیتی ہے کہ وہ داعش کومثال بنائے۔ مترجم)
سب سے اہم بات یہ ہے کہ تاریخ اور حیاتیات کے درمیان مطابقت یہ واضح کرتی ہے کہ ’تہذیبوں میں تصادم ‘ کا نظریہ غلط ہے۔ ( یہ دعویٰ نظریہ ارتقا کی بنیاد پر ہے، مگر یہ بنیاد ہی غلط ہے۔ انسانی تہذیب کی نشوونما کی تشریح نظریہ ارتقا کے تحت کرناغیرعلمی رویہ ہے۔ نظریہ ارتقا بالکل بھی ثابت شدہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک ناکام مفروضہ ہے۔ اس لیے پروفیسر ہراری کا یہ دعویٰ بے بنیاد ہے۔ مترجم) قبائل سے لے کر تہذیبوں تک انسانی گروہ بنیادی طورپر جانوروں سے مختلف ہوتے ہیں۔انسانی تہذیبوں میں تاریخی تنازعات اور نظریہ ارتقا کی سرگرمیوں میں کوئی مطابقت نہیں ہے۔ (ہراری صاحب یہاں خود یہ فرق تسلیم کررہے ہیں۔ مترجم) جانوروں کے انواع معروضی شناختوں کے حامل ہوتے ہیں اور ہزاروں نسلوں تک انہیں قائم رکھتے ہیں۔آپ چمپینزی ہیں یا گوریلا، یہ آپ کے عقائد پر نہیں بلکہ جینز پر منحصر ہے، اور مختلف جینز مختلف معاشرتی رویے سامنے لاتے ہیں۔ چمپینزی مادہ اور نر مل جل کررہتے ہیں۔ یہ باہم مسابقت کے لیے نر اور مادہ دونوں سے اپنے اپنے گروہ ترتیب دیتے ہیں۔ جبکہ گوریلوں میں معاملہ مختلف ہے۔ یہاں ایک نر سب کولے کر چلتا ہے۔ کسی چیلنج کرنے والے نر کوگروہ سے باہر نکال دیتا ہے۔ چمپینزی گوریلے جیسی معاشرتی زندگی اختیار نہیں کرسکتا۔ یہ دونوں طرز معاشرت ہزاروں سال سے یوں ہی قائم ہیں۔
آپ انسانوں میں ایسا کچھ نہیں پاتے۔ بالکل ٹھیک۔ انسانوں کے معاشرتی نظام مختلف ہوسکتے ہیں۔ مگر یہ جینیاتی طورپر مستحکم نہیں ہیں۔ اسی لیے یہ چند صدیوں سے زائد قائم نہیں رہ پاتے۔ جرمن قوم اہم مثال ہے۔ سچائی یہ ہے کہ یورپی تہذیب وہ ہے جسے یورپیوں نے بنایا۔ عیسائی تہذیب وہ ہے جسے عیسائیوں نے بنایا۔ اسلامی تہذیب وہ ہے جسے مسلمانوں نے بنایا۔ یہودیت وہی کچھ ہے جویہودیوں نے بنائی۔ اوران سب نے صدیوں میں ’ تہذیب‘ کی مختلف صورت گری کی۔انسانی گروہ تسلسل کے بجائے تبدیلیوں سے تشکیل پاتے ہیں۔ مگر وہ اپنی صدیوں پرانی شناختیں بھی قائم رکھتے ہیں اور اُس کی وجہ قصہ گوئی ہے۔ (پروفیسرہراری نے انسانی تہذیب کے طرز زندگی کوکمال سادگی سے قصہ گوئی قرار دے دیا ہے جبکہ بندروں اور گوریلوں کی من گھڑت کہانی میں کمال سنجیدگی دکھاگئے ہیں۔ مترجم) یہاں تک کہ ایک فرد بھی اپنی زندگی میں انقلابی تبدیلیاں لاسکتا ہے۔ مثال کے طورپرمیں پہلے ایک اشتراکی تھا، پھر بعد میں ایک سرمایہ دار بن گیا، میں فرانس میں پیدا ہوا تھا مگر امریکا میں رہائش پذیر ہوں۔ میں شادی شدہ تھا مگر پھر طلاق ہوگئی۔ مجھے کینسر تھا مگر پھر میں صحت مند ہوگیا۔ بالکل اسی طرح ایک جرمن گروہ جو انتہائی بنیادی تبدیلیوں سے گزرا ہو: وہ پہلے نازی تھا مگر اب جمہوریت پسند ہوچکا ہے، اور کون جانے ۲۰۵۰ء تک کیا شناخت اختیار کرے گا؟
عموماً لوگ یہ تبدیلیاں تسلیم نہیں کرتے، خاص طورپر جب بات سیاسی ومذہبی عقائد کی ہو۔ ہم اصرار کرتے ہیں کہ ہماری اقدار ہمارے بزرگوں کا قیمتی ورثہ ہے۔ ہم ایسا کہنے میں اس لیے آزاد ہیں کہ ہمارے بڑے مرچکے ہیں، وہ کچھ نہیں کہہ سکتے۔ مثال کے طورپر یہودیوں کا اپنی خواتین سے رویہ دیکھ لیجیے، الٹرا آرتھوڈوکس یہودی پبلک مقامات پر خواتین کی تصاویرپرپابندی عائد کرتے ہیں۔ ان کے بل بورڈ اور اشتہارات میں صرف مرد اور لڑکے نظر آتے ہیں۔ یہ کہتے ہیں (عورت کا پردہ) ہزاروں سال سے ہماری روایات کا حصہ ہے۔ سیناگاگ سے زیادہ پردے کے لیے سختی کہیں اور نہیں دیکھی۔ قدیم روایات پرمبنی مسخ شدہ قوانین دیگر مذاہب میں بھی موجود ہیں۔ جیسے داعش نے بڑ ماری کے وہ اسلام کے اصل ابتدائی اور خالص ورژن سے تعلق رکھتی ہے۔ جبکہ حقیقت میں یہ اسلام کی بالکل نئی قسم ہے: یہ اسلامی قوانین اور روایات کی من مانی تشریحات کرتے ہیں اور جسے چاہتے ہیں چھوڑتے ہیں جسے چاہتے ہیں قبول کرتے ہیں۔ مقدس تعلیمات کی من مانی تشریحات ایک جدید رویہ ہے۔ اسلام میں یہ کام علما کے ذمے رہا ہے۔ جید مسلمان علما ابوبکر بغدادی کو مسترد کرچکے ہیں۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ داعش غیر اسلامی یا اسلام مخالف ہے۔ جیسا کہ اوپر بتایا گیا کہ کسی بھی مذہب کی طرح اسلام وہی ہے جو مسلمان پیش کرتے ہیں۔ (پروفیسر صاحب یہاں پھر گول مول دلیل دے رہے ہیں۔ مترجم)
جرمن اور گوریلے
جانوروں کے انواع اور انسانی گروہوں میں فرق کی گہرائی ایک اور طریقے سے بھی سمجھی جاسکتی ہے۔ جانوروں کے انواع تقسیم ہوتے ہیں، مگر کبھی بھی ضم نہیں ہوتے۔ تقریباً ستر لاکھ سال پہلے چمپینزیوں اور گوریلوں کے آباء اجداد ایک ہی تھے۔ مگر پھر یہ دو سلسلوں میں آگے بڑھے۔ دونوں کا ارتقا الگ ہوا۔ جب ایک بار یہ سلسلہ چل پڑا تو واپسی کا کوئی امکان نہ رہا۔ گوریلے چمپینزیوں میں ضم نہیں ہوسکتے، زرافے ہاتھیوں میں اور کتے بلیوں میں ضم نہیں ہوسکتے۔
جب کہ انسانی قبائل بڑے گروہوں میں ڈھلتے گئے۔ جدید جرمن نسل سیکسنز، پروشینز، بویرینز وغیرہ کے اختلاط کا نتیجہ ہے۔ اسی طرح فرانسیسی نسل فرینکس، بریٹنز، نارمنز وغیرہ کے اختلاط سے وجود میں آئی۔ انسانی نسلوں میں اختلاط اور انضمام مسلسل جاری ہے اور کہیں ختم ہوتا نظر نہیں آرہا۔ یہ عمل دس ہزار سال پہلے شروع ہوا جب انسان بے شمار قبائل میں بٹ گئے تھے۔ اگلے ہی ہزاریے میں یہ بڑے گروہوں اور پھر نمایاں تہذیبوں میں ڈھل گئے۔ موجودہ دنیا میں ساری تہذیبیں ایک عالمی تہذیب میں ضم ہورہی ہیں۔ کوئی بھی تہذیب معاشی وپیداواری تعامل کے بغیرباقی نہیں رہ سکتی۔ انسانی اتحاد کی دو واضح شکلیں ہیں: دوستیاں اور دشمنیاں۔ جنگیں بھی اس سلسلے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔ زمانہ جنگ میں لوگوں کے روابط زیادہ مستحکم ہوتے ہیں۔ امریکا اور روس سرد جنگ کے دور میں ایک دوسرے سے زیادہ قریب تھے۔ لوگ تاجر دوستوں سے زیادہ جنگی دشمنوں کی خبر رکھتے تھے۔ ویتنام پر ہالی ووڈ کی درجنوں فلمیں ایک مثال ہیں۔
اکیسویں صدی میں معاملات گروہوں کے روابط سے آگے نکل چکے ہیں۔ اب دنیا کا ہر آدمی دوسرے فرد سے رابطے میں ہے۔ عقائدونظریات اورکاموں کا تبادلہ ہورہا ہے۔ ہزار سال پہلے، زمین کئی درجن سیاسی نظاموں کے لیے بہت زرخیز تھی۔ یورپ میں زمینداری، تھیوکریسی، اور شہری ریاستوں کی کشمکش تھی۔ اسلامی دنیا میں خلافت تھی جوکائناتی اقتدار اعلیٰ کا دعویٰ کرتی تھی۔ مگر پھر بادشاہتوں اور امارتوں کے تجربات کیے گئے۔ چینی سلطنت خود کو واحد جائز سیاسی نظام سمجھتی رہی۔ ہر معاشرے کا اپنا سیاسی نظام رہا ہے، اور اُسے دیگر سیاسی نظاموں کو سمجھنے میں دشواری کا سامنا رہا ہے۔ جبکہ آج کی دنیا میں صرف ایک ہی سیاسی نظام پوری دنیا میں رائج ہے۔ دنیا جودوسو خود مختار ریاستوں میں بٹی ہوئی ہے۔ اب عموماً ایک ہی سفارتی پروٹوکول پرمتفق ہے اور ایک ہی طرح کے عالمی قوانین کی پیروی کررہی ہیں۔ سوئیڈن، نائجیریا، برازیل اور تھائی لینڈ سب ہی اقوام متحدہ کے ارکان ہیں۔ تہران، ماسکو، کیپ ٹاؤن، نئی دلی، لندن اور پیرس انسانی حقوق کے ایک ہی بیانیے کی پیروی کرتے ہیں؛ یہ سب عالمی قوانین اور ریاستی خودمختاری کے اصول تسلیم کرتے ہیں۔ دنیا میں بہت سی ریاستیں ناکام بھی ہوسکتی ہیں، مگرسب کا کامیاب ریاست کے ایک ہی معیار پراتفاق ہے۔ کئی گوریلا قوتیں اوردہشت گرد تنظیمیں نئی ریاستیں مستحکم کرنے میں کامیاب ہوئیں مگر انہوں نے بھی ایسا کرنے کے لیے عالمی سیاسی نظام کی بالادستی کو قبول کیا ہے۔ یہاں تک کہ طالبان بھی چاہتے ہیں کہ عالمی برادری افغانستان میں اُن کی حکومت تسلیم کرے۔ کوئی بھی گروہ عالمی قوانین کو مسترد کرکے کسی خطے میں اقتدار قائم نہیں کرسکا ہے۔ آج قوموں کے درمیان مسابقت بھی عالمی طورپر مربوط ہونے کی علامت ہے۔
ایک ڈالر سب پرحکمراں
ماقابل جدید دور میں، انسانی معاشروں میں نہ صرف مختلف سیاسی نظام رائج تھے، بلکہ کئی معاشی نظام بھی حرکت میں تھے۔ روسیوں، ہندوؤں، اور چینیوں کے ہاں ’پیسے ‘ کے لیے مختلف تصورات موجودتھے۔ تجارت، محصولات اور ذرائع روزگار کے مختلف ڈھانچے تھے۔ جب کہ آج تھوڑے بہت فرق کے ساتھ ہر کوئی سرمایہ دار نظام کی پیروی کررہا ہے۔ چاہے آپ منگولیا میں رہتے ہوں یا کانگو میں، نیوزی لینڈ میں ہوں یا بولیویا، آپ کی معاشی سرگرمیاں ایک ہی معاشی تھیوری کے تحت ہیں۔ سب ایک ہی طرح کی کارپوریشنز اور بینکوں کے نظام میں جُڑے ہیں۔ اگر اسرائیل اور ایران کے وزرائے مالیات لنچ پر ملاقات کریں اُن کی معاشی زبان ایک ہی ہوگی، وہ ایک دوسرے کے معاشی مفادات اور نقصانات پرآسانی سے تبادلہ خیال کریں گے۔
داعش نے عراق اورشام کے بڑے علاقوں پر قبضہ کیا، ہزاروں لوگوں کو قتل کیا، آثار قدیمہ کو تباہ وبرباد کیا، مجسمے ڈھا دیے اورمغربی ثقافتوں کے آثار مٹادیے۔ مگر جب وہ بینکوں میں داخل ہوئے تووہاں انہیں امریکی ڈالروں کے ڈھیر ملے جن پر امریکی صدرکی تصویرچھپی ہوئی تھی، انہوں نے امریکی استعماریت کی ان نشانیوں کو آگ نہ لگائی۔ کیونکہ ڈالر بل پوری دنیا میں ہرسیاسی و مذہبی معاشرے میں یکساں طورپر قابل بھروسہ ہے۔ یہ ڈالر کی ساکھ ہی ہے کہ اسلامی بنیاد پرست ہو یا میکسیکن اسمگلریا شمالی کوریائی آمر، سب ہی اس کا لین دین کرتے ہیں۔
آج دنیا بھر کے انسانوں میں یکسانیت اتنی نمایاں ہے، جیسی کے دنیا کے قدرتی مناظرمیں ہے۔ ہزاروں سال پہلے جب آپ بیمار ہوتے تھے، توعلاج کا انحصار اُس جگہ پرہوتا تھا، جہاں آپ زندگی گزارتے تھے۔ یورپ میں پادری آپ سے کہتا کہ تم نے خدا کو ناراض کردیا ہے۔ اب تمہیں چاہیے کہ گرجا گھر کو چندہ دو، توبہ استغفار کرو، اور کسی مقدس مقام کی زیارت کرو۔ چین، ہندوستان، اور مشرق وسطیٰ کی دنیا میں بھی مقامی روایتی طریقہ علاج ہی کیا جاتاتھا۔جبکہ آج کی دنیا میں آپ کہیں بھی رہتے ہوں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ چاہے آپ ٹورنٹو میں ہوں یا تل ابیب میں یا تہران میں، ایک جیسی شکل و صورت والے اسپتال سے آپ کا واسطہ پڑے گا۔ ایک جیسے سفید کوٹ پہنے ڈاکٹرسے آپ کا سامنا ہوگا۔ ایک جیسی ادویات اور ایک جیسا علاج ہوگا۔ داعش نے جب موصل اور رقہ پرقبضہ حاصل کیا تھا تواسپتال تباہ نہیں کیے تھے، بلکہ دنیا بھر کے مسلمان ڈاکٹروں اور نرسوں سے درخواست کی گئی تھی کہ رضاکارانہ تعاون کریں۔ آج کی دنیا میں لوگ مادے، توانائی اور زمان ومکاں کے بارے میں ایک جیسی معلومات کے حامل ہیں۔ ایران اور شمالی کوریا کے نیوکلیئر پروگرامات واضح مثال ہیں۔ طبیعات کے بارے میں ان کے وہی نظریات ہیں جو اسرائیلیوں اور امریکیوں کے ہیں۔ (مصنف کے یہاں تہذیب مادے سے متعلق ہے، جو ظاہر ہے تہذیب کی گمراہ کُن تعریف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پروفیسر ہراری کا ’تہذیب‘ پر تجزیہ مادی و ثقافتی صورتحال تک محدود ہے۔ مترجم)
بلا شبہ، آج کی دنیا میں بھی لوگوں کے مختلف مذاہب اور شناختیں ہیں۔ مگر جب بات ریاست کی تعمیر کی ہو، معیشت، اسپتال، یا بم بنانے کی ہو، توپھر ہم سب ایک ہی تہذیب کے تابع نظر آتے ہیں۔ تنازعات یقینا موجود ہیں، مگر یہ تہذیبوں کے داخلی تنازعات ہیں۔ ہماری جن لوگوں سے اکثر لڑائی ہوتی ہے وہ ہمارے خاندان اور گھر کے ہی لوگ ہوتے ہیں۔ پہچان کا تعین عموماً اتفاقات سے نہیں بلکہ تنازعات اور تصادم سے ہوتا ہے۔ آج کی دنیا میں یورپی ہونے کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب گوری چمڑی نہیں ہے۔ اس کا مطلب یسوع مسیح پر ایمان لانا نہیں ہے۔ اس کا مطلب مطلق آزادی بھی نہیں ہے۔ بلکہ اس کا مطلب امیگریشن کے معاملے میں پرجوش مباحثے کرنا ہے۔ اس کا مطلب یورپی یونین کے کردار اور سرمایہ دارانہ نظام کی حدود کا تعین کرنا ہے۔ خود سے یہ سوال کرنا ہے کہ ’تمہاری شناخت تمہاری پہچان کیا ہے؟‘۔ بوڑھی ہوتی آبادی پر فکرمند ہونا ہے۔ صارف معاشرے کی بے چینی کا تدارک کرنا ہے۔ اپنے مسائل میں آج کے یورپی آباؤ اجداد سے مختلف ہیں جبکہ عہد حاضر کے چینی اور بھارتی تاجروں سے زیادہ قریب ہیں۔
جو تبدیلیاں مستقبل میں ہماری منتظر ہیں، اُن میں ممکنہ طور پر تہذیبوں کا تصادم نہیں بلکہ عالمی تہذیب کے اندر الجھاؤ اورچھوٹے موٹے تصادم پیش آسکتے ہیں(پروفیسر ہراری نے اپنے تئیں مغربی تہذیب کو عالمگیر تہذیب قرار دے دیا ہے، جو صریحاً بے بنیاد دعویٰ ہے)۔ اکیسویں صدی کے بڑے مسائل عالمی نوعیت کے ہوں گے۔ کیا عالمی ماحولیاتی تبدیلی تباہ کن ہوگی؟ کیا کمپیوٹر انسانوں کوپیچھے چھوڑ دیں گے؟ بلاشبہ ان معاملات میں ہمارے درمیان بہت اختلافات اور بحث وجدل ہے۔ مگر یہ سب ہمیں الگ تھلگ نہیں کریں گے بلکہ ایک دوسرے پر زیادہ انحصار کا عادی بنائیں گے۔ اگرچہ انسان ہم آہنگ عالمی کمیونٹی کی تشکیل سے ابھی بہت دور ہیں۔ مگرپھر بھی ہم ایک عالمی تہذیب کا حصہ ہیں۔
اگر ایسا ہے تو پھر دنیا بھر میں اٹھتی قوم پرستی کی لہر کا کیا ہوگا؟ شاید ہم عالمگیریت کے جوش میں کچھ پرانی اچھی قوموں کونظر انداز کرگئے ہیں؟ شاید روایتی قوم پرستی کی جانب لوٹنے سے عالمگیریت کے بحرانات پر قابو پایا جاسکے؟ اگر عالمگیریت اپنے ساتھ اتنے مسائل لارہی ہے تو کیوں نہ اُسے ترک ہی کردیا جائے؟
(کتاب: ’’اکیسویں صدی کے اکیس سبق‘‘۔ ترجمہ و تلخیص: ناصر فاروق)
بالکل اٹکل پچو اگر آج سب لوگ ایک ہی طریقہ علاج ایک ہی طرز تعلیم اور ایک ہی رہائش طرز لباس پر متفق ہیں تو وجہ اس کا یوزر فرینڈلی یا باسہولت ہونا ہے نا کہ مغربی تہذیب کی برتری اور مذہب سے تو اس کا کوئی لینا دینا ہے ہی نہیں صرف وجہ سہولت ہے اور خود کسی چیز کا یوزر فرینڈلی ہونا بھی یے اور خود میں کمپرومائیز کرنا بھی ہے