دہشت گرد ذہنوں کو قابو میں رکھنے کے ماہر ہیں۔ بہت کم لوگوں کو ہلاک کرتے ہیں مگر کروڑوں انسانوں کو دہشت زدہ کردیتے ہیں، یورپی یونین اور امریکا جیسے سیاسی ڈھانچوں میں بھونچال پیدا کردیتے ہیں۔ نائن الیون سے اب تک دہشت گردوں نے ہر سال یورپی یونین کے ۵۰ لوگ ہلاک کیے ہیں، دس افراد امریکا میں، سات باشندے چین کے اور پوری دنیا میں مجموعی طورپر ۲۵ ہزار کی تعداد تک لوگ سالانہ مارے گئے ہیں (ان کی اکثریت عراق، افغانستان، پاکستان، نائجیریا اور شام سے تعلق رکھتی ہے) (اس پیراگراف کے اعدادوشمار واضح کرتے ہیں کہ جسے دہشت گردی کے خلاف جنگ کہاجاتا ہے، وہ مسلم ملکوں پرجارحیت کا بہانہ ہے)۔ جبکہ ہر سال ٹریفک حادثات میں ۸۰ ہزار یورپی باشندے، ۴۰ ہزار امریکی شہری، دولاکھ ستر ہزار چینی شہری اور دنیا بھرمیں بارہ لاکھ پچاس ہزار لوگ ہلاک ہوجاتے ہیں۔ ذیابطیس ہر سال ۳۵ لاکھ انسانوں کی جان لے لیتا ہے۔ فضائی آلودگی ۷۰ لاکھ لوگوں کوموت کی نذر کر دیتی ہے۔ پھرہم کیوں ذیابطیس کے مقابلہ میں دہشت گردی سے زیادہ ڈرتے ہیں؟ پھر کیوں حکومتوں کو فضائی آلودگی سے نمٹنے میں ناکامی پر کچھ نہیں کہا جاتا؟ اور کیوں یہ حکومتیں کبھی کبھار کے دہشت گرد حملوں کے سبب انتخابات ہار جاتی ہیں؟ (یعنی مغرب میں دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک سیاسی ’نعرہ‘ ہے۔ اس سے دومزیدباتیں واضح ہوتی ہیں: مغرب میں منفی پراپیگنڈے کے ذریعہ مسلمان مخالف ووٹ بینک مستحکم کیا گیا ہے اور نائن الیون کی جنگ ’سیاسی‘ فیصلہ تھا، جس کا مقصد مشرق وسطیٰ میں مسلم ممالک کی تباہی تھا۔)
اس اصطلاح پر غور کریں، ’دہشت گردی‘ ایک فوجی حکمت عملی ہے: یعنی دہشت پھیلا کر سیاسی فائدے حاصل کرنا ہے۔ یہ کمزور جماعتوں کا ہتھیار ہے، جو مادی طور پر زیادہ نقصان پہنچانے کی صلاحیت نہیں رکھتیں، لیکن دہشت پھیلا کر ہدف پورا کرنا چاہتی ہیں۔ یقینا فوج کا ہر ایکشن خوف پھیلاتا ہے۔ لیکن روایتی جنگ میں دہشت جانی نقصان کے سبب پیدا ہوتی ہے۔ جبکہ دہشت گردی کے معاملہ میں ’خوف‘ مرکزی حیثیت کا حامل ہے۔ دہشت گردوں کی عملی کارروائی کا حجم اور اثر بہت کم ہوتا ہے، اس کی اصل قوت ’دہشت‘ کا زیادہ سے زیادہ پھیلاؤ ہوتا ہے۔ (اصطلاح ’دہشت گرد‘ اور ’دہشت گردی‘ کے معاملہ میں پروفیسرصاحب بھی عالمی میڈیا کی مانند گنجلک ہیں۔ بین السطوراشارہ مسلمانوں کی جانب ہے۔ تہذیب کے باب میں پروفیسرہراری ’تہذیبوں کے تصادم‘ کا تصوررد کرچکے ہیں۔ مگر یہاں مغربی تہذیب کے نمائندے بن کر سامنے آرہے ہیں۔)
پرتشدد طریقوں سے سیاسی صورتحال بدلنا ہمیشہ آسان نہیں ہوتا۔ دہشت گرد کس طرح بہت بڑا سیاسی فائدہ حاصل کرسکتے ہیں۔ لہٰذا، یہ ایک ایسی مکھی کی مانند ہیں جو ایک چائنا شاپ تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ مکھی تو چائے کا ایک کپ بھی نہیں ہلاسکتی۔ پھر کس طرح وہ چائنا شاپ تباہ کرسکتی ہے؟ یہ ایک بیل کے کان میں جاگھستی ہے، بھنبھناتی ہے۔ بیل خوف سے دیوانہ وار بھاگتا ہے اور چائنا شاپ تباہ کردیتا ہے۔ ایسا ہی کچھ نوگیارہ کے بعد ہوا، اسلامی بنیاد پرستوں نے امریکی بیل کے کان میں بھنبھناہٹ کی، اور اُس نے مشرق وسطیٰ کی چائنا شاپ تباہ کردی۔ اب دہشت گرد ملبے پرپھل پھول رہے ہیں۔ دنیا میں پاگل بیلوں کی کوئی کمی نہیں۔ (نائن الیون حملوں کی تحقیق آج تک کچھ بھی ثابت نہیں کرسکی۔ اسلامی بنیاد پرستوں کی کہانی دیو مالائی ہے۔ زمینی حقائق نائن الیون کمیشن کی تحقیقات سے قطعی مطابقت نہیں رکھتے۔)
پتے دوبارہ پھینٹنا
دہشت گردی ایک بے کشش ملٹری اسٹریٹجی ہے کیونکہ یہ سارے فیصلے دشمن کے ہاتھوں میں دے دیتی ہے۔ وہ کیا فیصلہ کرے؟ یہ اُس کا کُلّی اختیار ہوتا ہے۔ فوجیں عام طورپر ایسی صورتحال سے بچنے کی کوشش کرتی ہیں۔ وہ حقیقت میں بہت زیادہ مادی نقصان پہنچانا چاہتی ہیں، مگر ایسی صورتحال میں یہ دشوار ہوتا ہے۔ کسی ٹھوس نقصان کے بغیر دشمن کو اشتعال دلانا دراصل ’مایوسانہ‘ کوشش ہے۔ مگر دہشت گردوں کے پاس انتخاب کا اختیار کم ہی ہوتا ہے۔ وہ اتنے کمزور ہوتے ہیں کہ جنگ نہیں چھیڑ سکتے۔ اس لیے وہ ’دہشت‘ کا بہت بڑا منظر تخلیق کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ دشمن بڑھ چڑھ کر ردعمل دے۔ وہ چند لوگوں کو مار کر لاکھوں لوگوں پر دہشت قائم کردیتے ہیں۔ اس خوف کو کم کرنے کے لیے حکومتیں بڑے بڑے سیکورٹی اقدامات اٹھاتی ہیں، جیسا کہ پوری پوری قوموں کو سزا دینا اور غیر ملکوں پر حملے کرنا وغیرہ۔ اکثر معاملات میں دہشت گردی پر ردعمل زیادہ دہشت ناک صورتحال پیدا کرتا ہے۔ دہشت گرد فوجی جنرلوں کی طرح نہیں سوچتے۔ یہ تھیٹر پروڈیوسرز کی طرح سوچتے ہیں۔ نائن الیون کی مثال لے لیجیے۔ دہشت گردوں نے فوجی اڈے پینٹاگون سے زیادہ ٹوئن ٹاورز کی تباہی پر توجہ مرکوز کی تاکہ ’دہشت‘ عام ہو (پروفیسر ہراری کے مطابق امریکی و دیگر حکومتیں بہت ہی سادہ اور بے وقوف ہیں جبکہ مسلمان دہشت گرد بڑے ہی شاطر اور چالاک ہیں! پروفیسر یا توبہت ہی نادان ہیں یا قاری کونادان سمجھتے ہیں)۔
سب سے بڑھ کر، اگر ہم چاہتے ہیں کہ دہشت گردی کا خاتمہ کیا جائے تو ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ وہ ہمیں کسی طور شکست نہیں دے سکتے۔ یہ صرف ہم ہیں جو خود کو شکست سے دوچار کرسکتے ہیں۔ اگر ہم اشتعال میں آکر بے جا ردعمل دیں گے تو مات کھائیں گے۔
دہشت گرد ایک ناممکن مشن پر ہوتے ہیں: کسی فوج کے بغیر تشدد کے ذریعے سیاسی صورتحال کا توازن بگاڑا جائے۔ جب ریاست چیلنج کرتی ہے تو دہشت گرد کامیابی سے کچل دیے جاتے ہیں۔ چند دہائیوں میں ریاستوں نے سیکڑوں دہشت گرد تنظیمیں ختم کی ہیں۔ اسرائیل نے انتہائی خطرناک دہشت گرد مہمات طاقت کے ذریعہ کچلی ہیں (اسرائیلی پروفیسر کا تعصب یہاں کُھل کر سامنے آگیا ہے۔ دہشت گرد ریاست اسرائیل کے غصب اور ظلم کو نہ صرف جواز مہیا کررہے ہیں بلکہ فلسطین کے اصل باشندوں کودہشت گرد قرار دے رہے ہیں۔ یہاں پروفیسر کا سیکولرازم صہیونیت اختیار کرگیا ہے)۔
دہشت گرد ایک جواری کی مانند ہے۔ جو اپنے مخالفین کو پتے دوبارہ پھینٹنے پر مائل کرتا ہے۔ وہ کچھ نہیں ہارتا اور سب جیت سکتا ہے۔
بڑے جگ میں چھوٹا سا سکہ
دہشت گردوں کی جانب سے مادی نقصان توجہ کے قابل نہیں، پھرریاست پتے دوبارہ پھینٹنے پر کیوں تیار ہو جاتی ہے؟ درحقیقت ریاست عموماً غصہ میں آپے سے باہر ہو جاتی ہے، طاقت کا اندھا دھند استعمال کرتی ہے اور دہشت گردوں کے ہاتھوں میں کھلونا بن جاتی ہے۔ اس طرح وہ اپنا سیاسی جواز کھو بیٹھتی ہے۔ جبکہ یہی ریاست جنسی اور گھریلو تشدد جیسے واقعات پر نسبتاً نرم رویہ اختیار کرتی ہے، کیونکہ ان واقعات سے حکومت کو کوئی سیاسی خطرہ درپیش نہیں ہوتا۔ فرانس میں ہر سال عصمت دری کے دس ہزار واقعات رپورٹ ہوتے ہیں اور مزید ہزاروں واقعات رپورٹ نہیں ہوتے لیکن عزت لوٹنے والے اور تشدد پسند شوہر اس ریاست کے لیے خطرہ نہیں۔ کیونکہ ریاست نے دہشت گردی کچلنے کا وعدہ کیا ہے جنسی جرائم کے خاتمہ کا نہیں۔
یہی رویہ ہے جو دہشت گردی کے تھیٹر کو کامیاب بناتا ہے(یہ بالکل درست بات ہے۔ دراصل ’دہشت گردی تھیٹر‘ مغرب میں انتہا پسند سیاست کا ایجنڈا ہے۔ بُش نے ’صلیبی جنگ‘ کی اصطلاح سوچ سمجھ کر استعمال کی تھی، جھوٹ کے سہارے عراق اور افغانستان پرجنگیں مسلط کی گئیں، جن سے صورتحال واضح ہوگئی)۔ ریاست نے سیاسی تشدد کے لیے بڑی جگہ مہیا کی ہے، چھوٹے سے چھوٹا واقعہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ بیلجیم میں چند لوگوں کی موت نائجیریا یا عراق میں ہزاروں کی ہلاکت سے زیادہ توجہ حاصل کرتی ہے۔ صدیوں کی خونیں جدوجہد کے بعد ہم تشدد کے بلیک ہول سے باہر نکل آئے تھے، مگر لگتا ہے یہ بلیک ہول اب تک موجود ہے، اور ہمیں نگلنے کی تیاری کررہا ہے۔
دہشت گردی کا بہترین جواب شاید اچھی انٹیلی جنس اور مالی نیٹ ورکس پرحملہ ہے۔ مگریہ کوئی ایسی چیز نہیں جسے لوگ ٹی وی پر دیکھ سکیں۔ لوگ نائن الیون پر جڑواں ٹریڈ سینٹر کی تباہی کا دہشت گرد ڈراما دیکھ چکے ہیں۔ اس لیے ریاست مجبور ہوئی کہ اُس سے بھی بڑا ڈرامائی ردعمل پیدا کرے۔ جس میں زیادہ آگ اور دھواں ہو۔ خاموش اور مؤثر کارروائی کے بجائے اندھا دھند طاقت کا استعمال کیا گیا اور دہشت گردوں کے خواب پورے کیے گئے۔
ریاست کو دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟ انسداد دہشت گردی مہم تین محاذوں پر کامیاب ہوسکتی ہے۔ حکومت کو چاہیے دہشت گردوں کا نیٹ ورک توڑے۔ دوسرا میڈیا ہسٹریا کا مظاہرہ کرنے کے بجائے چیزوں کو اصل تناظر میں دیکھے، دہشت بغیر پبلسٹی کے کامیاب نہیں ہوسکتی۔ بدقسمتی سے میڈیا عموماً یہ دہشت بالکل مفت میں عام کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دہشت گردی کی خبریں بہت بکتی ہیں جبکہ ذیابطیس اور فضائی آلودگی کی خبروں کی مانگ نہیں ہے۔ تیسری شے ہمارا تصور ہے، جس پر دہشت گرد چھائے رہتے ہیں، اور اسے ہمارے خلاف استعمال کرتے ہیں۔ ہمیں اپنے تصورکو ’دہشت‘ سے آزاد کرنا ہوگا، اور اس خطرہ کا درست تناسب سمجھنا ہوگا۔ یہ ہمارے اندر کا خوف ہے جو میڈیا کو بھرپور خوراک فراہم کرتا ہے، حکومتوں کوبڑھ چڑھ کر کارروائیوں کا جواز مہیا کرتا ہے۔
دہشت گردی نیوکلیئرہورہی ہے!
مذکورہ تجزیہ ’دہشت گردی‘ کی عمومی تعریف واضح کرتا ہے۔ تاہم، اگردہشت گردوں کے ہاتھ بڑی تباہی پھیلانے والے ہتھیارآجاتے ہیں توصورتحال ڈرامائی طورپربدل سکتی ہے۔ اگرچھوٹی تنظیموں کے چند جنونی شہر کے شہرتباہ کرسکتے ہوں توکوئی بھی محفوظ نہ رہے گا۔ اس اعتبارسے آج کی دہشت گردی کل کی نیوکلیائی دہشت گردی بن سکتی ہے۔ سائبر دہشت گردی یا بائیو دہشت گردی زیادہ سنگین نتائج سامنے لاسکتی ہے۔ ہمیں دہشت گردی کے خدشات اوراس کی اصل شدت میں فرق ملحوظ رکھنا ہوگا۔۔۔ نیوکلئیر دہشت گردی کے خدشے کی بنیاد پرہسٹریائی ردعمل کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ ریاست کوردعمل میں بہت زیادہ محتاط ہونا چاہیے۔
آخری دودہائیوں میں امریکا نے کھربوں ڈالردہشت گرد ی کے خلاف جنگ میں ضائع کیے۔ ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ نے نہ صرف پوری دنیا میں زبردست تباہی پھیلائی ہے بلکہ فائدہ مند سرمایہ کاری کے مواقع گنوائے ہیں۔ یہ خطیر سرمایہ عالمی حدت کے خاتمے کے لیے استعمال ہوسکتا تھا، ایڈز اورغربت کے خلاف استعمال کیا جاسکتا تھا۔ لوگ شاید بش، بلئیر اور اوباما پرغلط محاذ آرائی کا الزام عائد کریں۔ مگر الزام لگانے والے ان خطرات کے بارے میں کیا کہیں گے جو ممکنہ طور پر انسداد دہشت گردی مہم کی وجہ سے وقوع پذیر نہ ہوسکے۔ یقینا نیوکلیئر دہشت گردی کا راستہ روکنا چاہیے مگر اسے نمبر ون ایجنڈا نہیں بنایا جاسکتا۔
(کتاب: ’’اکیسویں صدی کے اکیس سبق‘‘۔ ترجمہ و تلخیص: ناصر فاروق)
Leave a Reply