
لبرل کہانی میں انسان کی آزادی اولین قدر ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اختیار ساراکا سارا فرد کے آزاد ارادے سے برآمد ہوتا ہے، جس کا اظہار اس کے جذبات، احساسات اور خواہشات میں ہوتا ہے۔ سیاست میں، لبرل ازم اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ ووٹرسے بہترکسی کی رائے نہیں۔ لہٰذا جمہوری انتخابات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ معیشت میں، لبرل ازم کا مؤقف ہے کہ گاہک ہمیشہ صحیح ہے۔ اس طرح آزاد منڈی کے اصولوں کی واہ واہ کی جاتی ہے۔ ذاتی معاملات میں، لبرل ازم لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ اپنے دل کی سنیں، اپنی آزادی کا بھرپور استعمال کریں، مگردوسروں کی آزادی میں دخل اندازی سے بچیں۔ یہ شخصی آزادی لبرل انسانی حقوق کی روح ہے۔
مغرب کے سیاسی بیانیہ میں لبرل کی اصطلاح کبھی کبھی زیادہ تنگ دائرے میں استعمال ہوتی ہے، جیسے کچھ لوگ خاص معاملات میں حقوق کی بات کرتے ہیں، جیسے ہم جنس پرستوں میں شادی، ہتھیاروں کی روک تھام اور اسقاط حمل وغیرہ۔ اکثر نام نہاد قدامت پرست بھی لبرل تصورجہاں تسلیم کرتے ہیں۔ بالخصوص امریکا میں ریپبلکن اور ڈیموکریٹس کو جب لڑائی سے فرصت ملتی ہے، یہ ثابت کرتے پھرتے ہیں کہ وہ لبرل اقدار پر زیادہ یقین رکھتے ہیں، جیسے شفاف انتخابات، آزاد عدلیہ اور انسانی حقوق وغیرہ۔
خاص طور پر ماضی قریب میں دائیں بازو کے ہیرو رونالڈ ریگن اور مارگریٹ تھیچر نہ صرف آزاد معاشی پالیسیوں کے چیمپئن تھے، بلکہ فرد کی آزادی کے معاملات میں بھی کامیاب ثابت ہوئے۔ ۱۹۸۷ کے معروف انٹرویو میں مارگریٹ تھیچر نے کہا تھا ’’معاشرہ نام کی کوئی شے نہیں ہے۔ بس مردوں اور عورتوں کی ایک زندہ نسل ہے۔۔۔ اور ہمارے معیارِ زندگی کا انحصار اس بات پر ہے اور رہے گا، کہ کون کتنی ذمے داری نبھانے کے لیے تیار ہے۔‘‘ کنزرویٹوجماعت میں تھیچر کے ورثا لیبر پارٹی کی اس بات سے متفق ہیں کہ سیاسی اختیار فرد کی آزادی سے ہی برآمد ہوتاہے۔ لہٰذا جب برطانیہ کو یورپی یونین سے علیحدگی کی ضرورت پیش آئی، وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے ملکہ ایلزیبتھ یا آرچ بشپ آف کینٹربری سے نہیں پوچھا کہ کیا کرنا ہے؟ یہاں تک کہ پارلیمان سے بھی نہیں پوچھا، بلکہ انہوں نے ریفرنڈم کروایا، اور ہر برطانوی سے پوچھ لیا، کہ وہ اس حوالے سے کیا محسوس کرتا ہے؟
شاید آپ کہیں، کہ’’آپ کیا محسوس کرتے ہیں؟‘‘ کہ بجائے سوال یہ ہونا چاہیے تھا، کہ ’’آپ کیا سمجھتے ہیں؟‘‘ مگر یہ عام غلط فہمی ہے۔ ریفرنڈم اور انتخابات ہمیشہ انسانوں کے احساسات سے متعلق ہی ہوتے ہیں، ان کا عقل وشعور سے کچھ لینا دینا نہیں۔ اگر جمہوری فیصلوں میں کوئی معقولیت ہوتی، تو ہر فرد کو یہ آزادی کبھی نہ دی جاتی، بلکہ ووٹ کاحق دیا ہی نہیں جاتا۔ اس بات کے شواہد عام ہیں، کہ کچھ لوگ دیگر بہت سے لوگوں کے مقابلے میں زیادہ ذہین اور سیاسی شعور کے حامل ہوتے ہیں۔ ظاہرہے، جب بات احساسات کی ہو، توآئن اسٹائن اور رچرڈ ڈاکنزکسی بھی عام آدمی سے برتر نہیں۔ یہ احساسات صرف ووٹر پر ہی نہیں، سیاستدانوں کی فیصلہ سازی پربھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ جیسا کہ بریگزٹ ریفرنڈم کے مرحلہ میں جگہ جگہ نظر آیا۔
انسانی احساسات پر ایسا انحصار شاید لبرل جمہوریت کا کمزور پہلو ہے۔ مثال کے طورپر اگر کوئی بیجنگ میں یا سین فرانسسکو میں اس قابل ہوسکے، کہ لوگوں کے دلوں کوٹیکنالوجی کے ذریعہ ہیک کرسکے اور اپنی مرضی پرچلاسکے، تو پھر کیا ہوگا؟ جمہوری سیاست محض جمہوری تماشا بن کر رہ جائے گی۔
ایلگوریتھم کیا کہتا ہے؟ سنیے!
فرد کی شخصی آزادی، احساسات اور خواہشات پرلبرل ازم کا اعتقاد نہ فطری ہے نہ قدیم ہے۔ ہزاروں سال سے انسانوں کا ایمان رہا ہے کہ حکم صرف آسمانی قوانین کا ہے، اس میں انسانی مرضی کا کوئی عمل دخل نہیں۔ اس لیے تقدیس صرف حکمِ خدا کی ہے۔ فقط چند صدیوں پہلے اختیارات آسمانی دیوتاؤں سے انسانوں کو منتقل ہوئے۔ (یہ دعویٰ بے بنیاد ہے، آج بھی انسانوں کی اکثریت خدا پرست ہے اور احکام الٰہی کو ہی حتمی حکم مانتی ہے۔پروفیسر ہراری کے مطالعہ میں مسلسل یہ محسوس ہوتا ہے جیسے یورپ اور امریکا دنیا کی اکثریتی آبادی ہے جبکہ باقی دنیا معمولی سی اقلیت ہے)۔ جلد یہ اختیارات انسانوں سے ایلگوریتھم کو منتقل ہوجائیں گے۔ جس طرح آسمانی خدائی نے دیوتاؤں کو اختیارات دیے تھے، جس طرح لبرل کہانی نے انسانوں کواختیارات منتقل کیے، بالکل اسی طرح آنے والا ٹیکنالوجیکل انقلاب شاید بگ ڈیٹا ایلگوریتھم کا اختیار مستحکم کردے گا اور فرد کی آزادی دفن کردے گا۔
جیسا کہ گزشتہ باب میں ذکرآچکا ہے، کہ ہمارے جسم اور دماغ کی سائنسی کارکردگی بتاتی ہے کہ جذبات و احساسات کا کسی روح سے کچھ لینا دینا نہیں، اس سے کوئی آزاد ارادہ برآمد نہیں ہوتا۔ (یہ سائنسی توجیح ہے دلیل قاطع نہیں۔ اس لیے اس کا درجہ محض دعوے کا ہے جسے قبول عام حاصل نہیں ہے)۔ بلکہ یہ بائیو کیمیکل مکینزم کا نتیجہ ہے یہ طریقہ تمام ممالیہ اور پرندے بقا اورزندگی میں امکانات کے شمار کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ احساسات کا بصیرت اور آزادی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان کا سارا انحصار اعدادوشمار پر ہے۔
جب کوئی بندر، چوہا یا انسان سانپ کو دیکھتا ہے تو خوف زدہ ہوجاتا ہے کیونکہ دماغ کے کروڑوں نیورونز متعلقہ ڈیٹا کا حساب کتاب لگاکر جان لیتے ہیں کہ موت کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ اخلاقی احساسات جیسے کہ غصہ، شرمندگی اورمعافی وغیرہ سب نیورل مکینزم سے برآمد ہوتے ہیں جو انسانی گروہوں میں تعاون ویکجائی کے امکانات بڑھادیتے ہیں۔ یہ تمام بائیوکیمیکل ایلگوریتھم کروڑوں سال کے ارتقا سے ترقی کی موجودہ شکل اختیار کرسکے ہیں۔ اگر کسی قدیم انسان نے کوئی غلطی کی تواحساسات تشکیل دینے والے جینزنے اگلی نسل میں ان کی منتقلی روک دی۔ اس طرح احساسات معقولیت سے متضاد نہیں بلکہ یہ ارتقائی معقولیت کو تقویت پہنچاتے ہیں۔
ہم عام طور پر یہ سمجھنے میں ناکام ہوجاتے ہیں کہ احساسات درحقیقت اعداد وشمارکا نتیجہ ہیں۔کیونکہ ہم ان کے تیزرفتار عمل کومحسوس نہیں کرپاتے اور یہی سمجھتے رہتے ہیں کہ کوئی پراسرار آزاد ارادہ ہے جو ہمارے احساسات پیدا کرتا ہے۔ ہمارے احساسات کی تشکیل اور اس کا شماریاتی نظامِ کائنات کا وہ بہترین فیصلہ ساز پروگرام ہے جوبتاتا ہے کہ آیا ہمیں کیا پڑھنا چاہیے، کس سے شادی کرنی چاہیے اور کس کو ووٹ دینا چاہیے۔اورکوئی خارجی نظام اس بات کی امید نہیں کرسکتا کہ وہ ہم سے بہترہمارے احساس کو سمجھ سکتا ہے۔ تمام عملی مقاصد کے لیے یہ دلیل معقول ہے کہ کوئی خارجی قوت ہماری خواہشات اور ارادوں کونہیں جان سکتی، یہی ہمارا ا ٓزاد ارادہ ہے۔ اسی دلیل کی بنیاد پر لبرل ازم لوگوں کی اس ذہن سازی میں حق بجانب ہے کہ وہ کسی پادری اور سیاسی مداری کے بجائے اپنے دل کی سنیں۔ تاہم جلد کمپیوٹر ایلگوریتھم انسان کی نسبت ان احساسات کا حساب کتاب زیادہ بہتر کرسکیں گے، زیادہ بہتر مشورے دے سکیں گے۔ لبرل ازم کا آزاد ارادہ ایک دیومالائیت بن کر رہ جائے گا، اور اس کے عملی فوائدشاید باقی نہ رہیں۔
ہم اس وقت دو بہت بڑے انقلابات کے درمیان ہیں۔ ایک جانب بائیولوجسٹ انسانی جسم کے اسراروں کا کھوج لگارہے ہیں۔خاص طور پر دماغ اور احساسات کا۔دوسری جانب کمپیوٹر سائنٹسٹ ہمیں ڈیٹا پراسسنگ کی انتہائی بے مثال قوت مہیا کررہے ہیں۔ جب بائیوٹیک انقلاب انفوٹیک انقلاب میں ضم ہوجائے گاتویہ بہت بڑا ڈیٹا ایلگوریتھم پیدا کرے گا، جو ہمارے احساسات ہم سے بہتر انداز میں سمجھ سکے گا۔ تب شاید اختیارات غالباً انسانوں سے کمپیوٹرکومنتقل ہوجائیں گے۔ آزاد ارادے سے متعلق ہماری خام خالی ختم ہوجائے گی۔ادویات کے شعبہ میں یہ پہلے ہی ہورہا ہے۔ میڈیکل کی دنیا کے اہم ترین فیصلے آج ڈاکٹر کی مشاورت یا مریض کی کیفیات،یا بیماریوں کی نوعیت دیکھ کر نہیں کیے جارہے بلکہ کمپیوٹرکے اعداد وشمار پر ہورہے ہیں جو ہمارے اجسام کا مطالعہ ہم سے بہتر انداز میں کررہے ہیں۔ چند دہائیوں میں ہمارے بائیو میٹرک ڈیٹا کی مدد سے بگ ایلگوریتھم چوبیس گھنٹے ہماری صحت کی خبر رکھ سکے گا۔ یہ بہت ہی ابتدائی اسٹیج پرانفلوئنزا، کینسر، یا الزایمرکا پتا لگاسکے گا۔ مناسب دوا، خوراک اور دیگر ضروریات سے آگاہ کرسکے گا۔ ہماری مخصوص جسامت، ڈی این اے، اور شخصیت کے اعتبار سے رہنمائی کرسکے گا۔ (میڈیکل کی دنیا میں یہ ترقی واقعی انقلاب ثابت ہوسکتی ہے۔ خاص طور پر موذی امراض کے ضمن میں انتہائی مفید ہوسکتی ہے)۔ تاریخ میں پہلی بار لوگ بہترین طبی سہولیات سے بہرہ مند ہوسکیں گے۔ مگر ایک مشکل درپیش ہوگی۔ ہر وقت کوئی نہ کوئی طبی نسخہ ملتا ہی رہے گا کیونکہ ایلگوریتھم جسم میں ہر کمی اور مسئلہ پر نظر رکھے گااور ٹوکتا رہے گا۔ اگر آپ نے اس کا مشورہ نہ مانا توہیلتھ کارڈ بیکار ہوجائے گا۔ جب بائیومیٹرک سینسر کینسر کے چند سیلز کا کھوج لگا کر رپورٹ کردے گا اور یہ رپورٹ آپ کی والدہ سے لے کر باس تک پہنچ جائے گی، توپھر آپ کو تمباکو نوشی چھوڑنی ہی پڑے گی۔
فیصلہ سازی کاڈراما
دوا سازی کے شعبہ میں جوکچھ شروع ہوچکا ہے، وہ اب زیادہ سے زیادہ شعبہ جات میں ہونے جارہا ہے۔ بائیومیٹرک سینسرکی ایجاد چابی ہے۔ جو لوگ پہن سکتے ہیں یا جسم میں لگواسکتے ہیں۔ یہ جسم کے حیاتیاتی عمل کوالیکٹرونک معلومات میں ڈھال دیتا ہے۔ اسے کمپیوٹرذخیرہ کرسکتے ہیں اوراس کا تجزیہ بھی کرسکتے ہیں۔ بائیو میٹرک ڈیٹا اور کمپیوٹنگ طاقت مل کرانسان کی ساری خواہشات، فیصلے، خیالات اور احساسات ہیک کرسکتے ہیں۔یہ جان سکتے ہیں کہ درحقیقت کون سا انسان کیا ہے۔ اکثر لوگ خود سے اچھی طرح واقف نہیں ہیں۔۲۰۵۰ تک شاید ایلگورتھم آپ کو کچھ پر کشش خواتین اور مردوں کی تصاویر دکھائے اور آپ کی آنکھوں کی جنبش کا جائزہ لے، آپ کا بلڈ پریشر نوٹ کرے اور دماغ کی حرکات سمجھے، اور پانچ منٹ میں آپ کی پسند آپ کے سامنے پیش کردے۔ یوں آپ کو بہت سی بورنگ صحبتوں سے بچالے۔ اگر آپ اس سے بچنا چاہیں گے تب بھی آپ ایمیزون، علی بابا اور سیکرٹ پولیس سے نہیں چھپ سکیں گے۔ جوں ہی آپ ویب استعمال کریں گے،یوٹیوب دیکھیں گے، یا سوشل میڈیا پرفیڈ پڑھیں گے، الگوریتھم بہت باریکی سے آپ کا جائزہ لے گا، تجزیہ کرے گا، اور کوکا کولا والوں کو بتادے گا کہ صارف کو ٹھنڈے مشروب کی ضرورت ہے، اس قسم کی معلومات کی قدروقیمت اربوں ڈالر تک جائے گی۔ جو لوگ خوشی خوشی ایلگوریتھم کی نگرانی قبول کرلیں گے، وہ اچھے مشورے حاصل کرسکیں گے، بہترین فیصلے کرسکیں گے۔ اس کے لیے یہ زیادہ بہتر ہوگا کہ اپنی خواہش ایلگوریتھم کوبتانے کے بجائے اُسے ہی مشورہ دینے کا موقع دیں کیونکہ وہ آپ کاتجزیہ آپ سے بہتر کرسکے گا۔
انجینئر ان دنوں ایک ایسا سوفٹ وئیر تیار کررہے ہیں، جو آنکھوں اور چہرے کے پٹھوں کی حرکات سے جذبات وکیفیات معلوم کرسکے۔ ایک اچھا کیمرہ ٹیوی سے منسلک کیجیے اور ایلگوریتھم کو جائزہ لینے دیجیے کہ کس منظر سے آپ پر کیا کیفیت گزرتی ہے۔ اس کے بعد ایلگوریتھم کو بائیو میٹرک سینسر سے منسلک کیجیے، وہ بتادے گا کہ کس منظر سے دل کی کیا کیفیت ہوئی اور بلڈ پریشر کی صورتحال کیا رہی، دماغ کس مرحلے پر کس طرح کام کررہا تھا۔
یقینا الگوریتھم نامکمل ڈیٹا کے سبب مسلسل غلطیاں کرے گا۔ اسے نقص سے پاک ہونے کی ضرورت بھی نہیں۔ بس ضرورت یہ ہے کہ انسانوں سے بہتر فیصلہ سازی کرسکے اور یہ کچھ مشکل نہیں کیونکہ اکثر لوگ خود کو بہترطریقے سے نہیں سمجھتے اور زندگی کے اہم ترین فیصلوں میں سنگین غلطیاں کرتے ہیں۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ایلگوریتھم کی نسبت انسان ڈیٹا کی کمی کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔ آپ شاید ایلگوریتھم کی بہت سی خامیاں گنوادیں اور کہیں کہ لوگ اسے کبھی قبول نہیں کریں گے، یعنی آپ جمہوریت کو دلیل بنائیں گے۔ مگر جمہوریت کیا ہے؟ ونسٹن چرچل کا مشہور بیان ہے کہ ’’جمہوریت سے بدترین سیاسی نظام کوئی نہیں‘‘۔ صحیح یا غلط، لوگ کچھ بھی سوچیں، ہمارے پاس ایلگوریتھم کے سوا کوئی متبادل نظام موجود نہیں۔
جوں جوں سائنسدان انسانی فیصلوں کی حیاتیاتی نوعیت گہرائی میں سمجھ رہے ہیں، ایلگوریتھم پر انحصار کا امکان بڑھتا جارہا ہے۔ جیسے جیسے حکومتیں اور کارپوریشنیں انسانی نظام زندگی کو ہیک کرلیں گی اور ہماری آراء کا انحصار ایلگورتھم کے ہاتھوں میں چلا جائے گا۔ ہمیں اس پائلٹ کی طرح الگوریتھم نظام پر بھروسہ کرنا ہوگا جو دوران پرواز مشینی ہدایات پر عمل کرتا ہے۔
چند ملکوں میں اور چند خاص حالات میں شاید لوگوں پرجبر کیا جائے گا کہ وہ بگ ڈیٹاایلگوریتھم نظام کے تابع ہوجائیں۔ (نئے جبری ورلڈ آرڈر کے لیے ذہن سازی کا سا اسلوب ہے)۔ ذرا سوچیے، صرف دودہائیوں میں اربوں لوگ گوگل سرچ انجن ایلگوریتھم پر بھروسا کرنے لگے ہیں۔ درحقیقت ہم معلومات سرچ نہیں کرتے بلکہ گوگل کرتے ہیں اور ہماری ذاتی قابلیت گھٹتی چلی جاتی ہے۔ آج سچ کا پیمانہ گوگل سرچ انجن ایلگوریتھم بن چکا ہے۔ (کافی مبالغہ آرائی محسوس ہوتی ہے۔ یقینا گوگل معلومات کے لیے سب سے بڑا سرچ انجن ہوگا، لیکن اس کا ڈیٹا بھی انسان ہی مرتب کرتے ہیں اور آپریٹ کرتے ہیں۔ کم از کم مشرقی اور مذہبی معاشروں میں گوگل سچ کا پیمانہ ہرگز نہیں ہے۔ لوگ اسے معلومات کا ذریعہ ضرور سمجھتے ہیں مگر پروفیسر کی طرح کوئی مقدس صحیفہ نہیں سمجھتے۔ اس کتاب میں مصنف کا سائنس ٹیکنالوجی پر اندھا ایمان جا بجا ملے گا جو سراسر نامعقول رویہ ہے، مگر مشکل یہ ہے کہ عالمی اشرافیہ کا رویہ یہی ہے اور مفاد بھی اسی میں ہے، اور ممکنہ ایجنڈے کی روح بھی یہی ہے)۔
ایک بار جب مصنوعی ذہانت ہم سے بہتر فیصلے کرنے لگے گی تو انسانیت کا سارا تصور ہی بدل جائے گا۔ لبرل جمہوریت، عیسائیت اور اسلام کا کیا بنے گا، جب فیصلہ سازی انسانوں کے ہاتھوں سے نکل جائے گی؟ (اسلام کے حوالے سے یہ کہنا ہی سراسر غلط فہمی ہے کہ فیصلہ سازی انسانوں کے ہاتھوں سے نکل جائے گی کیونکہ مسلمان کی فیصلہ سازی امر الٰہی کی پیروی میں ہوتی ہے۔ لہٰذا جب تک وہ ہوش وحواس میں ہے کسی بھی دوسری قوت کو یہ حق نہیں دے سکتا۔ جبر کی بات اور ہے۔ ظلم وجبر سے تو آج بھی انسانوں کی زندگی کم عذاب میں نہیں ہے)۔ جیسے جیسے فیصلوں کے لیے ہمارا انحصار مصنوعی ذہانت پر بڑھتا جائے گا، انسانی زندگی سے فیصلہ سازی کا ڈراما ختم ہوجائے گا۔ سارا نظام ڈیٹا کا بہاؤ بن کر رہ جائے گا۔ ہمارے اجسام بائیوکیمیکل ایلگوریتھم ہوکر رہ جائیں گے۔
فلسفیانہ گاڑی
لوگ شاید اعتراض کریں، کہیں کہ ایلگوریتھم ہمارے لیے کبھی اہم فیصلے نہیں کرسکتے۔ کیونکہ ان فیصلوں کا ایک اخلاقی دائرہ ہوتا ہے اور ایلگوریتھم اخلاقیات نہیں سمجھتے۔ لیکن اب یہ باور کرنے کی کوئی وجہ نہیں رہ گئی کہ ایلگوریتھم ایسا نہیں کرسکتے۔ مثال کے طورپر آج اسمارٹ فون اور خودکار گاڑی جیسے آلات وہ کام کررہے ہیں، جن پر کبھی انسان کی اجارہ داری تھی۔ یہ آلات اخلاقی مسائل سے نمٹ رہے ہیں۔ مثال کے طورپر ایک بچہ کھیلتے کھیلتے اچانک سڑک پر خود کارگاڑی کے سامنے آجائے توایلگوریتھم اعداد وشمار سے اس نتیجے پر پہنچے گا کہ فوری طور پر بچے کو بچانے کے لیے دوسری لین پرمنتقل ہوجائے، مگر ایسی صورت میں دوسری لین سے ٹرک سامنے آگیا توپچھلی نشست پر سوئے ہوئے گاڑی کے مالک کا بچنا کتنا ممکن ہوگا؟ ستر فیصد؟ اب ایلگوریتھم کیا کرے گا؟
فلسفی ہزاروں سال سے ’ٹرالی مسائل‘ پرمباحث کررہے ہیں۔ انہیں ٹرالی مسائل اس لیے کہا جاتا ہے کہ جدید فلسفیانہ مباحث کی ٹیکسٹ بک مثالوں میں اسے ٹرالی کی شکل میں ہی پیش کیا جاتا ہے، جو ریلوے ٹریک پردوڑی چلی جارہی ہو۔ اب تک ان فلسفیانہ مباحث نے شرمندگی کی حد تک رویوں پر بہت ہی کم اثر مرتب کیا ہے۔ کیونکہ بحرانات کے ادوار میں انسانوں نے فلسفے چھوڑ کر جذبات اور احساسات کی پیروی کی ہے۔
سماجی علوم کی تاریخ کا ایک بہت ہی بُرا تجربہ اُس وقت سامنے آیا، جب دسمبر ۱۹۷۰ میں پرنسٹن تھیولوجیکل سیمینری کے ایک طلبہ گروپ، جوپریسبائٹیرین چرچ میں وزارتوں کے لیے امیدوار تھا، کہا گیا کہ ہرطالب علم قریبی لیکچر ہال تک تیزی سے جائے اورایک ’اچھے سماروی‘ پرتمثیلی قصہ سنائے۔ ایک ایسے یہودی کا قصہ جسے یروشلم سے اریحا تک سفر کے دوران لوٹ لیا جاتا ہے اور ڈاکو اسے سڑک کنارے زخمی حالت میں چھوڑ جاتے ہیں۔ کچھ دیر بعد وہاں سے ایک یہودی پادری اورلاوی (معاون) گزرتے ہیں مگر وہ زخمی کی کوئی مدد نہیں کرتے۔ ان کے بعد ایک سماروی(ایک یہودی فرقہ جسے انتہائی حقارت سے دیکھا جاتا ہے) وہاں سے گزرتا ہے اور زخمی کی مدد کرتا ہے۔ اس قصے کا اخلاقی سبق یہ تھا کہ لوگوں کو اُن کے عمدہ اعمال کی بنیاد پر دیکھا جانا چاہیے، فرقہ اور مذہبی وابستگی پرترجیح نہیں دینی چاہیے۔ ہر طالب علم بڑے جوش میں لیکچر ہال تک پہنچا اور بہتر سے بہتر انداز میں یہ قصہ سنایا۔ تجربہ کرنے والوں نے ہال کے رستے میں ایک بہروپیا بٹھادیا جو بدحالی اور بیماری کا ڈراما کررہا تھا۔ اکثر طلبہ نے رک کر اس کی مدد تو درکنارحال تک نہ پوچھا، بلکہ خستہ حال بیمارسے بچتے بچاتے ہال تک پہنچے۔ ہال تک جلد از جلد پہنچنے کے جذبے نے اُن میں مدد کا جذبہ دبادیا تھا۔ اس تجربے میں یہ سب ناکام ہوئے تھے۔
انسانوں نے فلسفیانہ موشگافیوں اور اخلاقیات کے بے شمار کلیات گھڑ کرتاریخ کومثالوں سے بوجھل بنادیا ہے۔حقیقی مثالی رویے کم ہی سامنے آئے۔ کتنے عیسائی ہیں جواپنا دوسرا گال بھی آگے کردیتے ہیں؟ کتنے بدھ بھکشو ہیں جوانانیت کے فریب سے آزاد ہوئے ہوں؟ اور کتنے یہودی ہیں جو اپنے پڑوسیوں سے وہی سلوک کرتے ہیں جوسلوک وہ اپنے لیے پسند کرتے ہیں؟
یہی ہے فطرت کا وہ چناؤ جس نے انسانوں کوتشکیل دیا ہے۔ ممالیہ کی طرح انسان بھی زندگی اور موت کے فیصلے تیزی سے کرتے ہیں۔ ہم نے غصہ، شہوت اور خوف کروڑوں آباء و اجداد سے میراث میں پایا ہے۔ جو فطرت کے چناؤ میں ’کوالٹی کنٹرول‘ سے گزر کر یہاں تک پہنچے ہیں۔ مگر بد قسمتی سے کوئی بہتری نہیں آئی۔ ذہنی تناؤ سے پریشان اور غصیلے ڈرائیور ہر سال دس لاکھ لوگوں کو صرف ٹریفک حادثات میں ماردیتے ہیں۔ مذکورہ دو مثالوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اخلاقیات کے عملی مظاہربڑے مسائل سے دوچار رہے ہیں۔ (یہاں تضاد ہے۔ چند پیراگراف پیچھے مصنف انسان کی ارتقائی معقولیت کے معترف لگ رہے تھے کہ’’اخلاقی احساسات جیسے کہ غصہ، شرمندگی اورمعافی وغیرہ سب نیورل مکینزم سے برآمد ہوتے ہیں جوانسانی گروہوں میں تعاون ویکجائی کے امکانات بڑھادیتے ہیں۔ یہ تمام بائیوکیمیکل ایلگوریتھم کروڑوں سال کے ارتقا سے ترقی کی موجودہ شکل اختیار کرسکے ہیں۔ اگر کسی قدیم انسان نے کوئی غلطی کی تواحساسات تشکیل دینے والے جینزنے اگلی نسل میں ان کی منتقلی روک دی۔ اس طرح احساسات معقولیت سے متضاد نہیں بلکہ یہ ارتقائی معقولیت کو تقویت پہنچاتے ہیں۔‘‘)
جب کہ کمپیوٹر ایلگوریتھم کے ساتھ کوئی اخلاقی مسئلہ نہیں ہے۔ یہ فطرت کے کسی چناؤ کا نتیجہ نہیں ہیں اور نہ ہی ان کے کوئی جذبات ہوتے ہیں۔ اس لیے بحران کے لمحات میں ایلگوریتھم انسانوں سے بہتراخلاقیات کا مظاہرہ کرسکتے ہیں۔ اس طرح ہر خودکار گاڑی ایک جیسی اخلاقی ہدایات پر کاربند ہوگی، اور حادثات کے خدشات کی شرح ڈرامائی حد تک کم ہوجائے گی۔ اس طرح اخلاقیات کا فلسفہ انجینئرنگ کا مسئلہ بن جائے گا(اخلاقیات انجینئرڈ کی جائیں گی۔ مترجم)۔
فلسفی ایلگوریتھم سے یقینا غلطیاں ہوں گی۔ بہت سے لوگ زخمی ہوں گے۔ راہگیر مر جائیں گے۔ قانونی پیچیدگیاں پیدا ہو جائیں گی۔ پہلی بار ایسا ہوگا کہ آپ کسی فلسفی ایلگوریتھم کے خلاف مقدمہ دائر کریں گے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ایلگوریتھم کو صرف انسانوں سے بہتر کارکردگی دکھانی ہے۔ یہ منطق صرف ڈرائیونگ تک ہی نہیں، دیگر کئی معاملات میں بھی یہ اسی طرح صادق آتی ہے۔ مثال کے طور پر نوکریوں کی درخواستوں میں سے بہترین کے انتخاب کے لیے ایلگوریتھم کی مدد زیادہ مفید ہوگی۔ کیونکہ یہ ہر تعصب اور جانب داری سے آزاد ہوتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ اخلاقی ہدایات کی پروگرامنگ کے لیے فلسفیوں کی کافی اسامیاں مستقبل میں پیدا ہو سکتی ہیں۔
ڈیجیٹل آمریت
مصنوعی ذہانت عموما لوگوں کو ڈرا دیتی ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ تابعدار نہیں۔ سائنس فکشن فلموں میں یہ دیکھا گیا ہے کہ روبوٹ اپنے ہی مالکان کے خلاف میدان میں اتر آئے۔ سڑکوں پر نکل آئے۔ قتل عام شروع کردیا۔ حالانکہ حقیقت بالکل برعکس ہے۔ روبوٹ ہمیشہ تابع رہتے ہیں، یہاں تک کہ ان کے مالک چڑجائیں۔ جب تک روبوٹ نیک دل مالکان کی اندھی تابعداری کریں، کوئی غلط بات نہیں۔ یہاں تک کہ حالت جنگ میں پہلی بار ایسا ہوگا کہ (ایلگوریتھم) اخلاقیات میدانِ جنگ میں عملاً نظر آئیں گی۔ انسان جذبات اور غصے میں آکر مفتوحین کو پائمال کرتے ہیں۔ ان کا استحصال کرتے ہیں۔ مگر ایلگوریتھم روبوٹ ایسا کچھ نہیں کریں گے۔ انہیں ذاتی خوف یا نفرت کا خدشہ ہی نہیں ہوگا۔
اس کے باوجود ہمیں قاتل روبوٹس تیار کرنے سے پہلے یہ یاد رکھنا ہوگا کہ یہ ہمیشہ اپنے کوڈ آف کنڈکٹ پر چلتے ہیں۔ جب تک یہ کوڈ صبروبرداشت اور نیک عملی پر مبنی ہوں گے، روبوٹ ایک انسانی فوجی کا بہتر متبادل ہوگا۔ لیکن اگر یہ کوڈ ظلم وجبر اور استحصال پر مبنی ہوا تو تباہی آجائے گی۔ روبوٹ کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ اُن کی مصنوعی ذہانت نہیں بلکہ ان کے مالکان کی مکارانہ اور ظالمانہ ذہنیت ہوسکتی ہے۔ ایسے قاتل روبوٹوں سے مسلح ظالم آمربہت تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے۔ اسے کبھی یہ خوف نہیں ہوگا کہ روبوٹ کبھی بغاوت کرسکیں گے، خواہ وہ کتنے ہی احمقانہ احکامات ان پر مسلط کرے۔ (اس مقام پر انسان کی ایلگوریتھم پر بالادستی صاف محسوس ہوتی ہے۔ دلیل یہاں دوہرے پن کا شکار ہے۔)
یہ خطرہ قاتل مشینوں تک محدود نہیں رہے گا۔ جاسوسی کا نظام بھی اتنا ہی خطرناک ہوسکتا ہے۔ اچھی حکومت کے تحت سرویلنس ایلگوریتھم بہت ہی پسندیدہ نتائج سامنے لاسکتے ہیں۔ مگر یہی بگ ڈیٹا مستقبل کے بگ برادرکے لیے مددگار بھی ہوسکتا ہے۔ یوں آرویلین سرویلنس سسٹم شاید ہر شہری کی جاسوسی پرمنتج ہو۔
درحقیقت یہ معاملہ شاید آرویل نظام کے تصور سے بھی ماورا ہو۔ ایک ایسی حکومت جو نہ صرف ہم سب کی خارجی سرگرمیوں پر نگراں ہو بلکہ داخلی زندگی میں بھی دخیل ہو۔ ممکن ہے کہ ایسی کوئی حکومت ہر شہری کو بائیو میٹرک ڈیوائس پہننے یا نصب کرنے پرمجبور کرے۔ مثال کے طورپرفلسطین کے مقبوضہ علاقے مغربی کنارے (غالباً غزہ کے ساتھ یہ معاملہ نہیں) کا سارا ڈیٹا اسرائیل کی گرفت میں ہے۔ جب یہاں سے کوئی فون کال ملاتا ہے، یاسوشل میڈیا پرکچھ پوسٹ کرتا ہے، اسرائیلی مائیکروفون، اسپائی سوفٹ وئیر، ڈرون کی گرفت میں سارا ڈیٹا آجاتا ہے، اوراسے چیک کیا جاتا ہے۔ یہی وہ انفوٹیک ہے کہ تھوڑے سے اسرائیلی فوجی بغیرجانی نقصان پچیس لاکھ فلسطینیوں پرقابو رکھتے ہیں۔
بیسویں صدی کے اواخر میں جمہوریتوں نے آمریتوں کو پچھاڑ دیا۔ اس کی وجہ بہترڈیٹا پراسیسنگ تھی۔ معلومات اور فیصلے لوگوں اور اداروں کے درمیان رہ کرکیے گئے۔ جب کہ آمریتوں نے معلومات اور ڈیٹا پراسیسنگ کوایک ہی مقام پر محصور کردیا۔ یہی وجہ تھی کہ سوویت یونین نے امریکا کے مقابلے میں بُرے فیصلے کیے۔ یہی وجہ تھی کہ روسی معیشت امریکی معیشت سے آگے نہ نکل سکی۔
تاہم اب ایلگوریتھم صورتحال کارخ پلٹ دے گا۔ یہ ممکن ہوسکے گا کہ معلومات کا ذخیرہ بہت کم وقت میں ایک ہی جگہ جمع کیا جاسکے گا۔ مصنوعی ذہانت اب نظاموں کو مرکزیت عطا کرے گا۔ جیسے ہی ایلگوریتھم ہمیں بہتر انداز میں سمجھنے لگیں گے۔ آمرانہ حکومتیں شہریوں پر بھرپور کنٹرول حاصل کرسکیں گی۔ان حکومتوں کے خلاف کسی بھی قسم کی مزاحمت یکسر ناکام ہوجائے گی۔ یہ حکومت نہ صرف جان سکے گی کہ آپ کیا محسوس کرتے ہیں بلکہ وہ آپ کووہ کچھ محسوس کرنے پر مجبور کرے گی جووہ چاہے گی۔ جمہوریت اپنی موجودہ حالت میں زندہ نہیں رہ پائے گی۔ لوگ ڈیجیٹل ڈکٹیٹرشپ میں زندگی گزارنے کے عادی ہوجائیں گے۔
مصنوعی ذہانت اور فطری حماقت
یہاں خوشی کی ایک خبر یہ ہے کہ چند دہائیوں تک مصنوعی ذہانت کی ڈراؤنی رات سے ہمارا پالا نہیں پڑنے والا۔ اس دوران اس بات کا خطرہ نہیں کہ انسانیت صفحہ ہستی سے ہی مٹادی جائے گی یا غلام بنالی جائے گی۔ فی الحال ہم ایلگوریتھم سے کام لینا شروع کریں گے۔ وہ ابھی انسانوں پر بالادستی کی حیثیت میں نہیں ہیں۔ مصنوعی ذہانت میں احساس وشعور کبھی بھی پیدا نہیں ہوگا۔
یہ سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ ذہانت اور شعور و احساس بالکل مختلف چیزیں ہیں۔ مصنوعی ذہانت کبھی بھی باشعور یا حساس نہیں ہوسکتی۔ ذہانت میں مسائل حل کرنے کی اہلیت ہوتی ہے جبکہ شعور غم، خوشی، درد، محبت وغیرہ محسوس کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ ہم نہیں جانتے ہوسکتا ہے کہ مصنوعی ذہانت شعور کی کوئی صورت اپنے لیے پیدا کرلے!
ہماری علمی حالت ابھی ایسی نہیں کہ ہم کوئی باشعور کمپیوٹرسسٹم ایجاد کرسکیں۔ اس لیے مصنوعی ذہانت کو کافی عرصہ تک انسانی شعور سے کام چلانا پڑے گا۔ مگر انسان کی حماقتیں مشینی ذہانت سے کام لے کر دنیا کو تباہی تک لے جاسکتی ہیں(حقیقت میں تو یہی ہوتا رہا ہے، سائنس اور ٹیکنالوجی نے فطری تہذیب میں کافی بگاڑ پیدا کیا ہے۔(مترجم)
صرف ڈیجیٹل آمریت کا خطرہ ہی ہمارا منتظرنہیں۔ بگ ڈیٹا ایلگوریتھم شاید آزادی بھی ختم کردے۔ یہ شاید معاشروں میں انتہائی عدم برابری پیدا کردے۔ تمام دولت اور طاقت شاید چند عالمی اشرافیہ کے ہاتھوں میں چلی جائے۔ جب کہ اکثریت استحصال کے کرب سے بھی دوچار نہ ہو بلکہ اس سے بھی بڑھ کریعنی ’لا تعلقی‘ کے بحران میں مبتلاکردی جائے۔
(کتاب: ’’اکیسویں صدی کے اکیس سبق‘‘۔ ترجمہ و تلخیص: ناصر فاروق)
Leave a Reply