
جنرل میک کرسٹل نے ابتدا ہی سے کوشش کی کہ افغان جنگ پر اُن کی چھاپ ہو۔ اوباما کو یقین دلایا کہ وہ افغانستان میں فتح دلا سکتے ہیں۔ بعد میں ذاتی پالیسی پر عمل کے لیے وزیر دفاع کو احکامات جاری کیے۔ کرسٹل کی دھونس اور دھمکیوں پر اوباما کو غصہ تھا۔ تمام مطالبات پورے کیے جانے کے باوجود فتح نہ ملی تو کرسٹل کے حامی بھی مخالف ہوگئے۔
یہ رولنگ اسٹون میگزین کی تازہ ترین ر پورٹ ہے جس کے مندرجات شائع ہونے پر جنرل میک کرسٹل کی برطرفی ہوئی۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ امریکی نائب صدر جوزف بائیڈن اور جنرل میک کرسٹل کے درمیان سرد جنگ کا نتیجہ تھا۔ لیکن گہرائی میں جاکر دیکھا جائے تو یہ اشارے ملتے ہیں کہ وہائٹ ہاؤس کو اندازہ ہو گیا ہے کہ میک کرسٹل کی جنگی پالیسی ’’کاؤنٹر انسرجنسی‘‘ جسے ’’کوائن‘‘ کا نام دیا گیا، ناکام ہوسکتی ہے۔ ابتدا میں وہائٹ ہاؤس نے اس پالیسی کی حمایت کی اور جنرل میک کو مطلوبہ ٹروپس اور فنڈز فراہم کیے۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ پالیسی کی ناکامی کے امکانات بڑھنے لگے۔ یہ پالیسی افغان عوام میں زیادہ سے زیادہ رقم تقسیم کرنے اور اسکول، اسپتال اور کھیل کے میدان بنانے پر مشتمل تھی۔ تاہم افغانستان میں لڑنے والے امریکی فوجی خود بھی اس سے مطمئن نہیں تھے۔ جنرل میک کی برطرفی کی دوسری وجہ یہ نظر آتی ہے کہ وہ خود کو بہت طاقتور اور بااختیار سمجھنے لگے تھے اور کسی کو خاطر میں نہ لاتے تھے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ پینٹا گون ان کی حمایت کر رہا تھا اور وہائٹ ہاؤس کو محسوس ہو گیا کہ افغان جنگ کی آڑ میں پینٹا گون خود کو طاقتور بنا رہا ہے۔ زیادہ فنڈ اور اختیارات حاصل کر رہا ہے اور امریکی صدر کو نیچا دکھانا چاہتا ہے۔ یہ تحریر وہائٹ ہاؤس اور پینٹاگون کے درمیان تنازع کو ظاہر کرتی ہے اور زیادہ بڑے پیمانے پر امریکی جمہوریت اور فوجی بالادستی کے درمیان نئی کشمکش کے آغاز کی داستان ہے۔
افغانستان میں اوباما کے تعینات کیے ہوئے اعلیٰ ترین کمانڈر اسٹینلے میک کرسٹل نے افغانستان میں لڑی جانے والی جنگ پر مکمل طور پر گرفت حاصل کرلی تھی تاہم انہوں نے وہائٹ ہاؤس میں بیٹھے ہوئے نکموں کو کبھی نظر انداز نہیں کیا تھا اور ان کو اپنا حقیقی دشمن جان کر ان پر ہر وقت کڑی نگاہ رکھتے تھے۔
وسط اپریل میں جمعرات کی ایک شب کو افغانستان میں امریکا اور ناٹو فورسز کے کمانڈر جنرل اسٹینلے میک کرسٹل پیرس کے ویسٹ منسٹر ہوٹل کے فور اسٹار سوٹ میں بیٹھے ہوئے تھے اس وقت ان کی سوچ یہ تھی کہ اس عشائیہ کے موقع پر، میں کس طرح نفسیاتی دباؤ ڈال کر اپنا مقصد حاصل کر سکتا ہوں۔ وہ اس وقت فرانس میں تھے جہاں انہیں ناٹو حلیفوں کو اپنی نئی جنگی حکمتِ عملی کا قائل کرنا تھا۔ وہ اپنی طے شدہ حکمتِ عملی کو کسی بھی صورت میں گرنے نہ دینے کا عزم کیے ہوئے تھے میک کرسٹل کو افغان جنگ کا چارج لیے ہوئے ایک سال سے زائد عرصہ بیت چکا تھا، اس دوران افغانستان کی جنگ خصوصی طور امریکا کی جنگ بن کر رہ گئی تھی، اس جنگ کی مخالفت کے نتیجہ میں پہلے ہی ڈچ حکومت کا تختہ الٹا جا چکا تھا۔ جرمنی کے صدر کواستعفیٰ دینے پر مجبور کردیا گیا اور کینیڈا و ہالینڈ، دونوں کو اپنے ساڑھے چار ہزار فوجیوں کو واپس بلانے کا اعلان کرنا پڑا تھا۔ میک کرسٹل پیرس اس لیے آئے تھے تاکہ فرانس کو افغانستان کی جنگ میں ساتھ ملا کر رکھا جائے جس کے افغانستان میں ۴۰ فوجی مارے جاچکے تھے اور فرانس بھی تذبذب کا شکار تھا۔ اچانک ان کا چیف آف اسٹاف کرنل چارلی فلمین کمرے میں داخل ہوا اور اس نے کہا ’’سر عشائیہ تیار ہے اور اپنی حکمت عملی کے حوالے سے بات کرنے کے لیے حالات سازگار ہیں‘‘۔ جنرل اس کی یہ بات سن کر کھڑے ہوگئے اور اپنے کمرے کا چاروں طرف سے جائزہ لیا کہ ان کے ساتھ سفر پر آئے ہوئے دس فوجیوں کا اسٹاف ایک فل اسکیل آپریشن سینٹر میں تبدیلی ہوگیا تھا، میزوں پر سلور پینا سونک بکس رکھے ہوئے تھے جبکہ ہوٹل کے قالین پر بلیو کیبلز پھیلے ہوئے تھے جن کے رابطے سٹیلائٹ ڈشز سے تھے اور ان کے ذریعہ رمزیہ فونز اور ای میل مواصلات ہمہ وقت ہورہی تھیں۔ میک کرسٹل بیلوٹائی کے ساتھ سویلین ڈریس میں اپنے آرام دہ کمرے سے نکلے۔ ان کے ایک مشیر کا کہنا ہے کہ پیرس جنرل میک کرسٹل کی افتادِ طبع کے بالکل متضاد شہر ہے۔ دراصل جنرل کو فینسی قسم کے ریستوران پسند نہیں ہیں وہ ایسے مقامات کو پسند نہیں کرتے جہاں میزوں پر کینڈل جلائی جاتی ہیں، انہیں اپنی پسندیدہ بیئر بڈلائٹ لائم اور بورڈیکس مرغوب خاطر ہیں۔ اسی طرح ان کی پسندیدہ فلموں میں Talladega فائٹس اور جین لک گوڈرڈ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ جنرل کو ایسے مقامات پسند ہیں اور وہاں وہ سکون محسوس کرتے ہیں جہاں عام لوگ نہیں ہوتے۔ وہ عام لوگوں کی نگاہوں سے دور رہناپسند کرتے ہیں، صدر اوباما کی جانب سے افغانستان میں لڑی جانے والی جنگ کا انچارج بنائے جانے سے پہلے وہ پانچ سالہ طویل عرصہ تک پینٹا گون کے انتہائی خفیہ بلیک آپریشنز کی قیادت کرتے تھے۔ جنرل میک کرسٹل نے فلمین سے پوچھا: قندھار بمباری کے حوالے سے کیا پیشرفت ہوئی؟ تو چیف آف اسٹاف کرنل چاری فلمین نے بتایا کہ صرف گزشتہ روز ہی دو بڑے کار بم دھماکے ہوئے ہیں جن کی وجہ سے جنرل کی یہ یقین دہانیاں سوالیہ نشان بن چکی میں جن میں انہوں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ قندھار کو طالبان سے چھین سکتے ہیں۔ فلمین نے بتایا کہ ہمارے پاس دو KIAIS ہیں تاہم اس بات کی توثیق نہیں ہو سکی کہ وہ قندھار میں موجود بھی ہیں یا نہیں۔ میک کرسٹل کو یہ سن کر بے حد مایوسی ہوئی اور اس نے غصہ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں ایسی صورت میں عشائیہ میں شریک ہونے کے بجائے یہ بہتر سمجھتا ہوں کہ ایک بھرے پرے کمرے میں کسی کی پشت پر لات ماری جائے‘‘۔ یہ کہتے ہوئے وہ ایک لمحہ کے لیے رکے اور کہا بدقسمتی سے اس کمرے میں ایسا کوئی نہیں جسے اپنے اشتعال کو کم کرنے کے لیے لات ماری جائے یہ کہتے ہوئے وہ دروازے سے باہر نکل آئے۔ میں نے ان کے مشیروں میں سے ایک سے پوچھا کہ جنرل کن لوگوں کے ساتھ ڈنر کرنے جارہے ہیں تو مجھے بتایا گیا کہ فرانس کے چند وزراء کے ساتھ یہ ڈنر ہے۔ اگلے دن میک کرسٹل اور اس کی ٹیم نے ای کول ملڑی اکیڈمی میں ایک خطاب کی تیاری کی یہ فرانس کی ایک ملٹری اکیڈمی ہے۔ جنرل کو خود اپنی کارگزاریوں پر بے حد فخر تھا لیکن اسے اپنے اس گھمنڈ اور احساسِ برتری کی قیمت دینا پڑگئی۔ چونکہ میک کرسٹل ایک سال سے افغانستان میں ہونے والی جنگ کا انچارج تھا اس کے باوجود اس نے قریباً سب ہی کوناراض کیا۔ ہر ایک کو حقیر جانا اور انہیں ذلیل کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ گزشتہ سال موسم خزاں کے دوران لندن میں ایک خطاب کے بعد سوال جواب کے سیشن کے دوران میک کرسٹل نے جوابی دہشت گردی کی حکمت عملی کو سرے سے مسترد کردیا تھا حالانکہ اس کی وکالت نائب صدر جوبائیڈن نے کی تھی۔ میک کرسٹل نے انہیں کوتاہ بین قرار دے دیا اور کہا کہ جوابی دہشت گردی سے انتشار، بد نظمی اور افراتفری پھیلے گی۔ میک کرسٹل نے جو ریمارکس دیے تھے اس پر صدر نے خود میک کرسٹل کی نخوت اور اس کی لگائی ضرب کو محسوس کیا اور جنرل کو زبانی اور طرزِبیان کے حوالے سے ان کی بیہود گی بتانے کے لیے ائیر فورس ون پر ایک نجی ملاقات کے لیے طلب کر لیا تھا اور میک کرسٹل کو جو پیغام دیا گیا تھا وہ بالکل واضح تھا کہ اپنی بکواس بند کرو اور اپنی اوقات میں رہو، میک کرسٹل نے ناراضی اور بیزاری کے اظہار کے لیے اس موقع پر جو کلمات ادا کیے تھے اب پیرس میں ان کے خطاب کے لیے پرنٹ شدہ کارڈپر جوابی دہشت گردی کے حوالے سے ہی جواب دینا تھے۔ اس لیے میک کرسٹل کو بڑی حیرت تھی کہ جو سوال بائیڈن نے اٹھایا تھا آج اسے اس کا جواب دینا پڑسکتا ہے۔ پھر وہ یہ سوچتا رہا کہ اسے کس طرح اس کا جواب دینا چاہیے اس لیے کہ وہ خود بھی اور اس کا اسٹاف بھی اچھی طرح جانتا تھا کہ جنرل کو ایک اچھے انداز میں نائب صدر کے موقف کے خلاف مدلل بات ہی کرنا ہوگی۔ جب براک اوباما اوول آفس میں صدر کے منصب پر پہنچ گئے تو انہوں نے سب سے زیادہ اہمیت اپنی انتخابی مہم کے دوران خارجہ پالیسی کے حوالے سے اہم تبدیلیوں کے وعدے کو پورا کرنے پر مرکوز کی اور افغانستان میں جنگ کا فوکس ازسرنو مرتب کرنا چاہا۔ انہوں نے یہ فوکس پاکستان و افغانستان میں القاعدہ کو درہم برہم کرنے اور اسے مکمل شکست سے دوچار کرنے پر رکھا اس کے ساتھ ہی انہوں نے مزید کئی ہزار فوجیوں کو کابل بھیجنے کے احکامات جاری کردیے جو ۲۰۰۱ء میں جنگ کے آغاز کے بعد سب سے بڑا اضافہ تھا۔ پینٹا گون اور جوائنٹ چیف آف اسٹاف، دونوں کے مشورے کے بعد انہوں نے اس وقت افغانستان میں امریکا اور ناٹو کے کمانڈر جنرل ڈیوڈلیکر نان کو بر طرف کر کے ان کی جگہ پر جنرل اسٹینلے میک کرسٹل کو متعین کیا حالانکہ اس سے قبل اوباما ان کو جانتے بھی نہیں تھے اور ان سے ایک ہی مختصر ملاقات رہی تھی۔ یہ بات پہلی مرتبہ وقوع پذیر ہوئی تھی کہ ۵۰سال سے زائد عرصہ کے دورانیہ میں دورانِ جنگ پر ڈیوٹی میں کسی اعلیٰ ترین جنرل کو برطرف کیا گیا ہو۔ اس سے قبل کو ریائی جنگ میں ہیری ٹرومین نے جنرل ڈگلس میک آرتھر کو بر طرف کیا تھا۔ اگرچہ میک کرسٹل اور اس کے نئے انچیف نے اوباما کوووٹ دیے تھے اس کے باوجود وہ آغاز ہی سے رابطہ قائم کرنے میں ناکام رہے اور پہلی بار جنرل کا آمنا سامنا اوباما کے منصب صدارت سنبھالنے کے ایک ہفتہ بعد اس وقت ہوا جب پینٹا گون کے اس کمرے میں جو پینٹا گون میں ٹینک کے نام سے معروف ہے ایک فرجن کے لگ بھگ سینئر فوجی حکام اوباما سے ملاقات کے لیے وہاں موجود تھے۔ اس اجلاس میں ہونے والی کارروائی سے باخبر ذرائع کے مطابق میک کرسٹل کے خیال میں اعلیٰ ترین فوجی حکام سے بھرے ہوئے اس کمرے میں اسے اوباما بے چین اور خوفزدہ نظر آئے تھے۔ بہرحال اس کے بھی چار ماہ کے بعد اوول آفس میں ان کی تنہائی میں پہلی باضابطہ ملاقات ہوئی جس کے بعد میک کرسٹل کو افغانستان جنگ کا سربراہ بنا دیا گیا۔ اس وقت تک اوباما کو ٹھیک طور پر جنرل میک کرسٹل کے بارے میں زیادہ معلومات نہ تھیں کہ وہ کیا چیز ہیں۔ جنرل میک کرسٹل اپنے طور پر اس جنگ کی کمان کرتا رہا جس کے حوالے سے وہ شدت کے ساتھ اظہارِ نفرت کرتا رہتا تھا۔ بہرحال وہ اس جنگ میں بہت زیادہ مصروف دکھائی نہیں دیتا تھا جس کی وجہ سے باس اس سے بے حد مایوس ہوگئے تھے۔ آغاز ہی سے میک کرسٹل نے افغانستان پر اپنی چھاپ لگانے کا تہیہ کرلیا تھا اور اسے جوابی بغاوت کے طور پر معروف ایک متنازع فوجی حکمت عملی کی تجربہ گاہ کے طور پر استعمال کرنا شروع کردیا تھا۔ counter in surgency ناکام ملکوں میں خود کو محفوظ و مامون رکھ کر جنگ لڑنے کا تقاضا کرتی ہے اور اس مقصد کے لیے ایسے مقامات پر تشدد اور بدنظمی پر اکسانے کے لیے فوج کام کرتی ہے۔ COIN کے تحت بڑے پیمانے پر زمینی دستے دشمن کو تباہ کرنے کے لیے نہیں بھیجے جاتے بلکہ شہری آبادیوں میں گھل مل کر رہنے اور بتدریج ایک دوسری قومی حکومت بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن اس کے انتہائی حامی حضرات بھی یہ تصدیق کرتے ہیں کہ اس حکمت عملی پر عملدرآمد کے لیے کئی برس نہیں بلکہ کئی عشرے درکار ہوتے ہیں تب جا کر کامیابی ملتی ہے۔ اس تھیوری کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ فوجی کا ایک نیا ہی اسلوب تیار کیا جائے اور ایسے لوگوں کا مزاج ہی مخصوص قسم کا ہویہ صورتحال سفارتی اور سیاسی جنگ سے بھی بڑی حلقہ بندی کا تقاضا کرتی اور اس کے لیے فنڈز بھی زیادہ درکار ہوتے ہیں۔ ۲۰۰۶ء میں عراق میں اپنی تیز کارروائیوں کے دوران جنرل ڈیوڈ پیٹرائس نے اس نظریہ کی آزمائش کی تھی اور اسے تھنک ٹینکس، صحافیوں، فوجی افسروں اور سوملین حکام نے سراہا تھا اور اس کا عرفیہ مختصر نام coindisiusta رکھا گیا تھا اور اسے افغانستان کے لیے موزوں قرار دیا گیا تھا، اب اس کے لیے ضرورت یہ تھی کہ کوئی ایسا جنرل تلاش کیا جائے جو ماتحتوں میں جوش و جذبہ اور اطاعت گزاری پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو ااور جس میں ذاتی کشش اور وجاہت ہو اور وہ اس ملک میں اسے نافذ کرنے کی سیاسی بصیرت بھی رکھتا ہو۔ چونکہ میک کرسٹل نے افغانستان میں جنگ کی کامیابی کا تاثر دیا اس لیے اوباما کا جھکائو اس کی طرف ہو گیا۔ اس نے اوباما کو اس بات کا قائل کیا کہ جس طرح اس نے عراق میں دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے اسی طرح وہ افغانستان میں بھی کامیابی حاصل کرلے گا۔ گزشتہ جون میں افغانستان آنے کے بعد جنرل نے اپنی ذاتی پالیسی تشکیل دی اور وزیر دفاع رابرٹ گیٹس کو اس پر عملدرآمد کا حکم دیا اب یہ بدنام زمانہ رپورٹ پریس میں آچکی ہے اس میں کہا گیا تھا کہ اگر ہم مزید ۴۰ ہزار فوج نہیں بھیجتے اور افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد پوری فوجی کا نصف نہیں ہو جاتی اس وقت تک مشن کی ناکامی کا خطرہ رہے گا۔ وہائٹ ہاؤس اس بات سے مشتعل تھا اور ان کا خیال تھا کہ میک کرسٹل اوباما کو دھونس اور ڈرا دھمکا کر اپنی بات منوانا چاہتا ہے۔ یوں اوباما اور پینٹا گون کے درمیان ایک تناؤ کی کیفیت پیدا ہوگئی جس کے بعد پینٹا گون نے طے کرلیا کہ وہ صدر کے گدھے کو لات مار کر نکال دے۔ گزشتہ موسم خزاں میں اپنے اعلیٰ ترین جنرل کے مطالبہ اوباما نے افغانستان کے حوالے سے حکمت عملی کو از سرنو متعین و مرتب کرنے کے لیے تین ماہ تک اس کا جائزہ لیا۔ میک کرسٹل کو گلہ تھا کہ اس کے لیے یہ عرصہ بڑا تکلیف دہ گزرا۔ جنرل کو شکایت تھی کہ اس صورتحال کے نتیجہ میں نائب صدر بائیڈن اور بہت سے واشنگٹن کے حلقوں کے مطابق افغانستان میں ایک طویل کاؤنٹر انسر جنسی کی مہم جوئی کو نقصان پہنچاہے اور امریکا عالمی سطح پر دہشت گردوں کے نیٹ ورکس کو کمزور کیے بغیر خود ہی ایک فوجی دلدل میں دھنس گیا ہے جبکہ ریٹائرڈ کرنل اور جوابی بغاوت اور دہشت گردی کے حوالے سے معروف نقاد ڈگلس میک گریگور نے جنرل میک کرسٹل کے ساتھ ویسٹ پوائنٹ کے اجلاس میں بھی شرکت کی تھی۔ اس کا کہنا یہ تھا کہ عالم اسلام کے کلچر کو نئی شکل دینا ایک انتہائی درجہ کا بیہودہ خیال ہے اور اس پر کھروں ڈالر خرچ کرنا پڑیں گے۔ ان تمام باتوں کے باوجود میک کرسٹل کو وہ سب کچھ دیا گیا جس کا انہوں نے مطالبہ کیا تھا۔ یکم دسمبر کو ویسٹ منسٹر میں صدر اوباما نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کی جنگ ایک برُا آئیڈیا تھا یہ اتنا مہنگا سودا تھا کہ اس کی وجہ سے ہم اقتصادی بحران سے دوچار ہوچکے ہیں اور دس طویل سال شاید امریکی قوت کو بحال کرنے کے لیے درکار ہوں گے۔ جبکہ القاعدہ نے اپنے تمام آپریشن افغانستان سے منتقل کرلیے ہیں تب اوباما نے فتح اور کامیابی کے کوئی الفاظ استعمال کیے بغیر اعلان کیا کہ وہ افغانستان میں ۳۰ ہزار مزید فوجیوں کو بھیجیں گے، جیسا کہ میک کرسٹل نے درخواست کی ہے۔ آج بھی افغانستان میں کسی بھی نوعیت کی کامیابی کے امکانات سرے سے موجود ہی نہیں ہیں، جون میں امریکی فوجیوں کے مارے جانے کی تعداد ایک ہزار سے بھی متجاوز ہوگئی ہے اور زخمیوں کی تعداد بھی دگنی ہوچکی ہے اور دنیا کے پانچویں غریب ترین ملک میں کھربوں ڈالر کے اخراجات کیے جارہے ہیں جس کے نتیجے میں امریکی شہریوں کے دل جیتنے میں اومابا انتظامیہ ناکام ہو چکی ہے اور امریکی عوام امریکی فوج کے رویہ سے کھلم کھلا بیزاری کا اظہار کرنے لگے ہیں۔ جون میں تو افغانستان نے امریکا کی جانب سے افغان جنگ کاسر براہ بنانے کے باوجود اس کے دل میں یہ خواہش بد ستور قائم رہی کہ اسے دہشت گردوں کا شکار کرنا ہے۔ طالبان پر دباؤ ڈالنے کے لیے اس نے افغانستان میں اسپیشل فورسز بریگیڈز کی تعداد چار سے بڑھا کر ۱۹ کر دی۔ ہیڈ کوارٹر میں نیول سیل کے ایک گروپ سے میک کرسٹل کا بات چیت کرتے ہوئے کہنا تھا کہ’’تمہیں آج کے بعد ہرروز چار سے پانچ اہداف کو نشانہ بنانا ہوگا‘‘ رواں سال کے ابتدائی چار میں اتحادی افواج نے ۹۰ بے گناہ شہری قتل کیے۔ جس کی شرح ۲۰۰۹ء میں ہلاک کیے گئے افراد سے ۷۶ فیصد زیادہ ہے۔ جواب میں عوامی مزاحمت بھی بڑھ رہی ہے۔ ماہ فروری میں اتحادی افواج کی جانب سے چھاپوں میں دو حاملہ خواتین ماری گئیں اور قتدھار میں امریکی فوج کی جانب سے بس پر فائرنگ سے پانچ افغان شہریوں کی ہلاکت پر احتجاجی مظاہرے پھوٹ پڑے۔ میک کرسٹل نے حال ہی میں اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ہاتھوں ہلاک ہونے والے شہریوں کی تعداد حیرت انگیز ہے۔ اس نے قافلوں کو لاپروائی سے گاڑی چلانے، ہوائی طاقت کا شہری آبادی پر استعمال اور رات کے وقت چھاپوں اور حملے کے حوالے سے سخت ہدایات جاری کیں۔ پھر وہ اکثر افغان صدر حامد کرزئی سے بے گناہ شہریوں کی ہلاکت پر معافی مانگتا تھا اور ذمہ دار افسران کو ڈانٹتا تھا۔
ایک امریکی اہلکار کا کہنا ہے کہ افغانستان میک کرسٹل کے سامنے دنیا کا سب سے خطرناک خطہ بن کر سامنے آیا۔ فوجیوں کا کہنا تھا کہ میک کرسٹل کے احکامات کی وجہ سے ان کی زندگیاں خطرے میں پڑتی ہیں۔ ایک امریکی سپاہی کا کہنا ہے کہ ہر فوجی سے یہی الفاظ سنتے کو ملیں گے۔ امریکی فوجیوں کے دلوں میں موجود غصہ ایک سوال و جواب کے سیشن میں سامنے آیا۔ سپاہیوں نے شکایت کی کہ انہیں خطرناک ہتھیار نہیں دیے جارہے ہیں اور ثبوت نہ ملنے پر گرفتار شدت پسندوں کو چھوڑا جارہا ہے جس سے وہ عراق کی طرح دوبارہ منظّم ہو کر ہمارے خلاف لڑتے ہیں۔ ایک سپاہی نے کہا کہ ہم طالبان کے دلوں میں خوف نہیں ڈال رہے ہیں۔ میک کرسٹل کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں لوگوں کے دلوں اور ذہنوں کو جیتنا کافی مشکل کام ہے، روسیوں کی مشال دیتے ہوئے اس نے کہا کہ روسی افواج نے دس لاکھ افغانی مار ڈالے مگر پھر بھی خالی ہاتھ واپس لوٹے، ایک سپاہی نے میک کرسٹل سے کہا ’’سر ہم یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ ہم باہر جاکر ہر ایک شخص کو قتل کردیں گے۔ مگر آپ کہہ رہے ہیں کہ ہم نے شورش کا خاتمہ کردیا ہے لیکن اس علاقے میں یہ بات غلط ہے، جتنا ہم پسپا ہورہے ہیں اتنا ہی ہمارے مخالفین مضبوط اور ہم کمزور ہوتے جارہے ہیں، ایک فوجی نے یہ بھی شکایت کی کہ جس عسکریت پسند کے پاس ہتھیار نہ ہوں وہ فوری طور پر عام شہری بن جاتا ہے۔ میک کرسٹل نے جواب میں کہا کہ میں آپ سے متفق ہوں۔ شاید اس علاقے میں ہم نے پیشرفت نہ کی ہو۔ آپ لوگ آگ برسانا چاہتے ہو اور آبادی کو یہاں سے بھگا کر کئی اور آباد علاقے خالی کرنا چاہتے ہو‘‘۔ سیشن ختم ہونے کے بعد میک کرسٹل کو اندازا ہوگیا کہ وہ سپاہیوں کے غصے کو کم کرنے میں کامیاب نہیں ہوا۔ اس نے لوگوں کو راضی کرنے کے لیے ایک آخری کوشش کی اور سی پی ایل نگریم کی ہلاکت کو تسلیم کیا۔ میک کرسٹل نے کہا کہ ایسا کوئی بھی طریقہ نہیں ہے کہ ہم اس جنگ کو آسان بنا سکیں جبکہ میری ان باتوں کا مقصد آپ لوگوں کو دکھ پہنچانا نہیں ہے اور نہ ہی آپ اس بارے میں کچھ سوچیں۔ یہ سیشن کسی بھی حل اور تالیوں کے بغیر ختم ہوا۔ میک کرسٹل نے دہشت گردی کہ خلاف جنگ کے نام پر شاید صدر اوباما کو فروخت کردیا ہو مگر اس کے زیادہ تر لوگ اسے خرید نہیں رہے ہیں۔ افغانستان میں تاریخ میک کرسٹل کا ساتھ نہیں دے رہی ہے۔ یہاں صرف ایک ہی بیرونی حملہ آور چنگیز خان کو کسی حد تک کامیابی حاصل ہوئی جسے اس وقت انسانی حقوق، معاشی ترقی اور میڈیا کی جانب سے روکنے کی کوشش نہیں کی گئی تھی۔ شورش کے خلاف جنگ (کاؤنٹر انسر جنسی) کا نظریہ حال ہی میں دنیا میں ہونے والی مغربی ممالک کی فوجی شکستوں (مثلاً۱۹۶۲ء میں فرانس کی جانب سے الجیریا میں لڑی گئی جنگ میں فرانس ہار گیا تھا اور ۱۹۷۵ء میں امریکا کی جانب سے ویتنام میں لڑی گئی جنگ جس میں امریکا ہار گیا تھا) سے بھی متاثر ہو کر تشکیل دیا گیا ہے۔ کاؤنٹر انسرجنسی کی حمایت کرنے والے حلقے یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ اس طرح کی مہمات زیادہ تر پیچیدہ، مہنگی اور آسانی سے شکست میں تبدیلی ہوجاتی ہیں۔ قندھار کے اردگرد۰۰۰،۱۵ فوجیوں کو اسکول، سڑکوں، مساجد اور پینے کے پانی کے پلانٹس کی تعمیر پر لگانے کا مطلب اسی طرح کی ایک کوشش ہے کہ جس طرح میکسیکو میں چرچ تعمیر کر کے منشیات کی جنگ کا خاتمہ کیا گیاتھا۔ افغانستان کے امور پر گہری تحقیق کرنے والے سی آئی اے کے ایک سابق اہلکار کا کہنا ہے کہ سیاسی طور پر افغانستان ہمارے مفاد میں نہیں ہے اور وہاں کچھ بھی ہمارے لیے نہیں ہے۔
مئی کے وسط میں قتدھار کا دورہ کرنے کے دو ہفتے بعد میک کرسٹل نے افغان صدر حامد کرزئی کے اعلیٰ سطحی امریکی دورے کے حوالے سے واہائٹ ہاؤس کا دوبارہ کیا۔ وہ اس کے لیے فاتح جیسا لمحہ تھا جب اس نے دیکھا کہ وہ کابل اور واشنگٹن دونوں جگہ اپنی کمانڈ کے حوالے سے مضبوط ہے۔ صحافیوں اور اعزازی مہمانوں سے بھرے ہوئے مشرقی کمرے میں صدر اوباما، حامد کرزئی کی تعریفیں کرتا رہا۔ دونوں رہنما اپنے تعلقات اور بے گناہ افغان شہریوں کی ہلاکتوں پر افسوس کے حوالے سے اظہار خیال کرتے رہے۔ انہوں نے اپنی تقاریر میں ایک گھنٹے کے دوران لفظ ’’ترقی‘‘ کا استعمال ۱۶ مرتبہ کیا مگر فتح کا کوئی ذکر تک نہیں کیا۔ سیشن میں اوباما کی جانب سے آئندہ آنے والے مہینوں میں میک کرسٹل کی حکمت عملی پر بھرپور طریقے سے مختلف شعبوں خصوصاً تعلیم، صحت اور معاشی ترقی کے حوالے سے کافی بہتری آئی ہے اور اس نے کابل میں لینڈنگ کرتے وقت اوپر سے پورے کابل کی رشنیاں دیکھیں جو چند برس پہلے نظر نہیں آیا کرتی تھیں۔ اوباما کے یہ مشاہدات حقائق پر مبنی نہیں ہیں۔ عراق میں بدترین برسوں کے دوران جب بش انتظامیہ کو حقیقت میں کوئی بہتری نظر نہیں آئی تھی سرکاری حکام بھی اس وقت اسی طرح کی بہتری کے گن گاتے رہتے تھے۔ ایک امریکی اہلکار نے کہا کہ اوباما کی طرح بش انتظامیہ بھی عراق میں تعلیم اور صحت کے شعبے میں اسی طرح کی بہتری اور ترقی کے ثبوط پیش کیا کرتی تھی۔ رینڈ کارپوریشن سے وابستہ دفاعی تجزیہ نگار سلیسٹی وارڈ کا کہنا ہے کہ یہ لوگ زبردستی افغانستان میں ترقی اور بہتری کے مفروضے تھوپنے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ ان کے پاس جیت کی کوئی تعریف ہی موجود نہیں ہے۔ زمین پر موجود حقائق مختلف ہیں جو مستقبل قریب میں ہمارے لیے اچھے نہیں ہوں گے۔ جیسا کہ تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ زمینی حقائق فوجیوں کو مزید رہنے کے لیے کم سے کم رکاوٹ مہیا کرتے ہیں حتیٰ کہ میک کرسٹل کے نزدیکی حلقے بھی یہ جانتے ہیں کہ گھر میں بڑھتے ہوئے جنگ مخالف جزبات کی عکاس کس طرح حالات خراب کرتی ہے۔ میک کرسٹل کے ایک سینئر مشیر کا کہنا ہے کہ اگر امریکا دوبارہ سے جنگ پر توجہ دینا شروع کرے اسے پھر سے مقبولیت مل جائے گی۔ اسی لیے اوباما کی جانب سے کیے گئے وعدوں کے مطابق اگلے سال فوجیوں کو واپس نکالنے کا عمل شروع کرنے کے بجائے فوجی کاؤنٹر انسر جنسی مہم پر توجہ دے رہی ہے۔ وہائٹ ہاؤس میں کرزئی سے ملاقات اور ترقی اور بہتری کے معاملات پر گفت و شنید کے بعد واپس پہنچنے پر میک کرسٹل کی شورش کو روکنے کی پالیسیوں کی سخت دھچکا لگا۔ گزشتہ سال سے ہی پینٹا گون قندھار میں اس موسم میں ایک بڑی فوجی کارروائی کی تیاریاں کر رہا ہے۔ قندھار ملک کا دوسرا بڑا شہر اور طالبان کا مزکز سمجھا جاتا ہے مگر رواں دس جون کو امریکی فوج کی جانب سے تسلیم کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ گراؤنڈ ورک کرنے کے سبب موسم خزاں تک قندھار میں فوجی آپریشن ملتوی کردیا گیا ہے۔ اب نئے منصوبے کے تحت افغان پولیس اورفوج قندھار اور گردو نواح کے علاقے کاکنٹرول سنبھالنے کے کیے قندھار میں داخل ہوں گی جب کہ امریکا ۹۰ ملین ڈالروں کی امدا د کے ذریعے مقا می آبادی کے دلوں اور ذہنوں کو جیتنے کی کوشش کرے گا۔ کاؤنٹر انسرجسنی کے حامی نئے منصوبہ کو بیان کرنے میں نہ مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں جبکہ ابھی تک اس منصوبے کو بیان نہ کرنے سے یہی اندازا ہوتا ہے کہ اس حوالے سے بھی کافی مسائل پائے جاتے ہیں۔ نوسال کی جنگ کے بعد طالبان اب بھی اتنے طاقتور ہیں کہ وہ امریکی افواج پر کھلے عام حملہ کرتے ہیں۔ افغان عوام افغانستان میں امریکی فوجیوں کی موجودگی کے خلاف ہیں۔ ہمارا اتحادی حامد کرزئی بھی قندھار آپریشن کو ملتوی کرنے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کر رہا ہے جبکہ میک کرسٹل کی جانب سے دی جانے والی امداد سے مسئلہ مزید گمبھیر ہورہا ہے۔ شمالی افغانستان میں بیرونی امداد کے حوالے سے تحقیق کرنے والی لفٹ یونیورسٹی کی مہر انڈر یو ویلڈر کا کہنا ہے کہ کسی بھی مسئلے کو رقم سے حل کرنے سے مسئلہ مزید خراب ہوجاتا ہے۔ امدادی رقوم میں کرپشن اور حکومتوں کی حیثیت کو ختم کرنے کے عمل اور غم وغصہ مزید بڑھ رہاہے۔یہی وجہ ہے کہ صدر اوباما افغانستان کے حوالے سے بات چیت کرتے ہوئے قصداً لفظ’’جیت‘‘ کے استعمال سے گریز کرتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ افغانستان میں جیتنا ممکن نہیں ہے نہ ہی اسٹینل میک کرسٹل کے لیے یہ ممکن تھا۔
○○○
Leave a Reply