
امریکا میں محنت کش طبقہ کن مشکلات سے دوچار ہے، اس کا اندازہ کم ہی لوگوں کو ہے یا پھر صرف اُن لوگوں کو ہے جو اس طبقے سے واقف ہیں یا اس کا حصہ ہیں۔ محنت کشوں کے حقوق کے حوالے سے دائیں بازو کی جانب سے حکومت پر شدید تنقید کا سلسلہ جاری ہے۔ لبرل عناصر کا دعویٰ ہے کہ محنت کش دراصل اپنے ہی مفاد کے خلاف کا م کر رہے ہیں۔ وہ حکومت کی جانب سے سماجی تحفظ کے مختلف منصوبوں کا حوالہ دیتے ہیں۔ ترقی پسند عناصر کا کہنا ہے کہ ریاست سے ناراض مزدور دراصل نسل پرست اور بنیاد پرست ہیں اور شخصی آزادی کے ختم ہوجانے کے بے بنیاد خوف کے زندان میں قید ہیں۔
محنت کشوں کو امریکی حکومت نے شدید عذاب سے دوچار کر رکھا ہے۔ ان کی زندگی میں محنت زیادہ اور اس کا صلہ کم ہے۔ امریکا میں لوگ حکومت سے ناراض ہیں تو اس کی ٹھوس و جوہ ہیں۔ آئیے، ان و جوہ پر ایک نظر ڈالیں۔
٭ اجرت یا طے شدہ تنخواہ پر کام کرنے والے بیشتر افراد مالدار طبقے کے مقابلے میں کہیں زیادہ شرح سے ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ یہی سب ہے کہ ٹیکسوں سے بچنے کے لیے لاکھوں، بلکہ کروڑوں افراد انڈر گراؤنڈ معیشت میں کام کرتے ہیں۔ اس صورت میں وہ مسلسل خوف کی حالت میں رہتے ہیں کیونکہ حکومت ٹیکس چوری کے الزام کے تحت انہیں گرفتار بھی کرسکتی ہے۔
٭ حکومت کارپوریشنز کو ٹیکسوں میں کئی سال تک چھوٹ کے پیکیجز دیتی ہے اور دوسری طرف اجرت یا مقررہ تنخواہ کی بنیاد پر کام کرنے والوں سے زیادہ وصولی جاری رہتی ہے۔ اس کے نتیجے میں صرف خرابی پیدا ہوتی ہے۔ ٹیکسوں سے متعلق حکومت کی غیر منصفانہ اور ظالمانہ پالیسیوں کے باعث اس سے نفرت کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔
٭ ایک طرف تو زیادہ ٹیکس لیے جارہے ہیں اور دوسری طرف بنیادی سہولتوں کی قیمت بڑھائی جارہی ہے۔ تعلیم اور صحت پر اخراجات بڑھا کر عوام کی ان سہولتوں تک رسائی ناممکن بنائی جارہی ہے۔ عام امریکی یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ اس منصوبہ کے تحت تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولتوں سے بھی دور کیا جارہاہے۔
٭ لوگ اس بات سے بھی پریشان اور مشتعل ہیں کہ ان کی محنت کی کمائی کو دور افتادہ ممالک میں جنگ پر خرچ کیا جارہا ہے۔ غریبوں کو روزگار کے مواقع درکار ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کی محنت کی کمائی سے صنعتی بنیاد وسیع کی جائے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو روزگار کے بہتر مواقع فراہم کیے جاسکیں۔ بہت سے لوگ ضرورت سے کہیں کم کمارہے ہیں جس کے باعث مکانات کی اقساط ادا کرنا بھی ممکن نہیں ہو پارہا۔ حکومت ایسے لوگوں کو بے گھر ہونے سے بچانے کی کوشش کرنے کے بجائے ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی آمدنی کو لاحاصل جنگی مہمات پر ضائع کر رہی ہے۔
٭ حکومت بہودِ عامہ کے نام پر عوام سے غیر معمولی حد تک وصولی کر رہی ہے جبکہ کارپوریٹ سیکٹر کو زبردست رعایت دی جارہی ہے۔ ایک طرف غریبوں کو ذرا سی بھی اضافی سہولت دینے سے گریز کیا جارہا ہے اور دوسری طرف محکمۂ دفاع پر اربوں ڈالر اضافی لٹائے جارہے ہیں۔ بجٹ میں اخراجات بھی غیر متوازن ہیں اور صرف مالدار طبقے کو سہولت بہم پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
٭ محنت کش طبقے میں یہ احساس بھی بڑھ رہا ہے کہ حکومت ان کے بچوں کو سرکاری ملازمت کے بہتر مواقع فراہم کرنے کے بجائے فوج میں بھرتی کر کے جنگ کی بھٹی میں جھونک دیتی ہے جبکہ امیروں کے بچے سول کیریئرز کی طرف چلے جاتے ہیں۔
٭ حکومت پر پرُتعین علاقوں کی سڑکوں، پارکس اور دیگر انفرا اسٹراکچر پر کھل کر خرچ کرنے کا الزام ہے جبکہ غریب بستیوں کو یکسر نظر انداز کیا جاتاہے۔ حکومت زہریلا مواد اور خطرناک حالات پیدا کرنے والے کارخانوں کو غریب بستیوں کے نزدیک قائم کرتی ہے۔ اس امتیازی سلوک پر بھی غریبوں میں حکومت کے خلاف شدید نفرت پنپ رہی ہے۔
٭ حکومت کم از کم اجرت کو بھی زندہ رہنے کی بنیادی لاگت سے بھی کم رکھنے کی کوشش کرتی ہے جبکہ بڑے کاروباری اداروں کے منافع کو بے لگام چھوڑ دیا گیا ہے۔
٭ مالدار طبقے کے رہائشی علاقوں میں قوانین پر سختی سے عمل کیا جا تا ہے جبکہ غریب بستیوں میں قانون پر عمل کی نگرانی خاصی کمزور ہے۔ اس کے نتیجے میں ان علاقوں میں قتل اور لوٹ مار کی وارداتیں عام ہیں اور لوگ مستقل خوف کے سائے میں زندگی بسر کرتے ہیں۔
٭ حکومت مزدوروں کے حقوق اور ان کے لیے کام کے بہتر حالات کو یقینی بنانے والی انجمنوں کے خلاف سرگرم رہتی ہے اور کارپوریٹ اداروں کی جانب سے ملازمین کو ہراساں کرنے کے اقدامات اور ان کی برطرفی پر خاموشی اختیار کیے رہتی ہے۔ مزدور اگر اپنے مفاد کے لیے ایک ہونے لگتے ہیں تو حکومت فوراً حرکت میں آجاتی ہے مگر دوسری طرف بڑے کاروباری اداروں کو انضمام کی اجازت دی جاتی ہے تا کہ اجارہ داری قائم ہو اور غریبوں کا زیادہ سے زیادی استحصال ممکن ہو۔
٭ حکومت کی معاشی پالیسیو ں پر عملدرآمد یقینی بنانے والے ادارے بینکوں اور مالیاتی اداروں کے ملازمین کی خدمات حاصل کرتے ہیں جو اپنے سابق مالکان کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچانے کے لیے سرگرم رہتے ہیں۔ معاشی منصوبہ بندی اور اس پر عمل کے پورے نظام میں محنت کشوں کو کسی بھی سطح پر نمائندگی حاصل نہیں۔
٭ حکومت سماجی بہبود کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کی سرگرمیوں کو محددود رکھنے کے لیے ان کی آزادی پر بھی قدغن لگاتی ہے۔ اس سلسلے میں پیٹریاٹ ایکٹ کا سہارا لیا جاتا ہے۔ سماجی کارکنوں کو خوفزدہ کرنے سے گریز نہیں کیا جاتا۔ پولیس اگر تشدد بھی کرے تو اس کا محاسبہ نہیں کیا جاتا۔
٭ حکومت دفاع ساز و سامان تیار کرنے والے اداروں اور یہودیوں کے بڑے کاروباری اداروں کو منافع کمانے کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کرتی ہے تاہم عوام کو تعلیم و تربیت کی بہتر سہولتیں فراہم کرنے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی جاتی۔ ان کے لیے ملازمت کے بہتر مواقع تلاش کرنے میں بھی حکومت کردار ادا نہیں کرتی۔
٭ کئی عشروں سے رو بہ عمل امتیازی پالیسیوں نے امریکا میں دس فیصد مالدار اور پچاس فیصد انتہائی غریب طبقے کے درمیان خلیج پیدا کر دی ہے۔ امریکا کا شمار سب سے بڑے طبقاتی فرق کے حامل صنعتی معاشروں میں ہوتا ہے۔
٭ امریکا میں معیار زندگی گرتا چلا گیا ہے اور اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ امتیازی پالیسیوں کے باعث غریب اور محنت کش طبقے کو مقررہ اوقات سے زیادہ کام کرنا پڑتا ہے۔ پنشن کے حصول کے قابل ہونے کے لیے بھی انہیں زیادہ مدت کام کرنا پڑتا ہے اور یہ کہ انہیں کام کا صاف ستھرا اور خطرات سے پاک ماحول بھی فراہم نہیں کیا جاتا۔
٭ منتخب عوامی نمائندے عموماً انتخابی وعدے بھول جاتے ہیں، غریبوں کے لیے کچھ نہیں کرتے اور مالدار طبقے کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔
٭ حکومتی عہدوں پر فائز منتخب نمائندے ووٹرز کے مفاد کی بات کرنے کے بجائے ان کے لیے کام کرتے ہیں جو انہیں مالی مدد فراہم کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔
٭ بیشتر اعلیٰ سرکاری افسران بھی مالدار طبقے کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں اور ان کے معاملات پر فوری توجہ دیتے ہیں، عوام کے مفاد کے لیے شروع کیے جانے والے منصوبوں کی تکمیل پر اُن کی توجہ کم ہوتی ہے۔ انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ عام آدمی کس طور تعلیم حاصل کرے گا، صحت کا معیار کس طور برقرار رکھے گا اور آمدنی میں اضافے کے لیے کس طور جتن کرے گا۔
٭ حکومت اور بڑے کاروباری اداروں کا ملاپ ان اداروں کے لیے بہت سی پابندیوں کے خاتمے پر منتج ہوتا ہے جس کے نتیجے میں ماحول کو غیر معمولی نقصان پہنچتا ہے، بہت سے چھوٹے کاروباری اداروں کی موت واقع ہوجاتی ہے اور اس کے نتیجے میں بیروزگاری بڑھتی ہے۔ غریب طبقے کے لوگوں کے لیے تفریح کے مواقع کم ہوتے جارہے ہیں۔ ماحول کی خرابی عوام کو پرفضا مقامات سے بھی محروم کر رہی ہے۔
٭ حکومت امیر طبقے کی جانب سے ادا کیے جانے والے ٹیکسوں میں اضافے کے بجائے رٹائر منٹ کی عمر میں اضافہ کر رہی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ خراب حالات میں کام کرنے والوں کو رٹائرمنٹ کے بعد کچھ ہی وقت اچھی صحت کے ساتھ گزار نے کاموقع مل سکے گا۔
٭ امریکی نظام انصاف میں غریبوں کو انصاف کی توقع بھی کم ہی رہتی ہے۔ عدالتیں امیر طبقے کی نمائندگی کرنے والے نامی گرامی وکلا کے حق میں فیصلے دیتی ہیں اور عوام کے مفاد کا دفاع کرنے والے ناتجربہ کار سرکاری وکلا کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔
٭ ٹیکس افسران غریبوں اور محنت کشوں سے ٹیکس و صولی پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ بڑے کاروباری اداروں اور مالدار لوگوں نے تربیت یافتہ اکاؤنٹینٹس کی خدمات حاصل کر رکھی ہیں جو ٹیکس کے نظام میں پائی جانے والی خامیوں کی مدد سے اپنے موکل کا عمدگی سے دفاع کرتے ہیں۔
حاصل بحث یہ ہے کہ امریکی نظام مجموعی طور پر ہر معاملے میں مالدار طبقے کا خیال رکھتا ہے اور محنت کشوں سے زیادہ سے زیادہ وصولی کی جاتی ہے تا کہ وہ صرف گزارے کی سطح پر زندگی بسر کریں۔ بڑے کاروباری اداروںکو، قانونی سقم کی مدد سے، اس بات کی کھلی چھوٹ دی گئی ہے کہ وہ غریبوں کا جس قدر چاہیں استحصال کریں اور اپنے مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ دیں۔ محنت کش طبقے کی آزادی پر قدغن بڑھائی جارہی ہے جس سے ان کی کارکردگی ہی نہیں، زندگی بھی متاثر ہورہی ہے۔
(بحوالہ: ’’دی گلوبلسٹ ڈاٹ کام‘‘۔ ۱۹؍جون ۲۰۱۰ء)
Leave a Reply