
ایران کے واقعات نے اسرائیل کی توجہ اس کی طرف ازسرِنو مبذول کرا دی ہے اور وہ تہران کی صورتحال اور اس کے نتائج کے بارے میں بڑی سنجیدگی کے ساتھ غور و فکر کرنے لگا ہے۔ وہ جائزہ لے رہا ہے کہ اس کا اثر اسرائیل کے مستقبل اور اس کے صہیونی منصوبے پر کیا پڑ سکتا ہے۔
اس وقت اسرائیل سے لے کر امریکا تک اس نئی صورتحال کے بارے میں جس طرح کے خیالات ظاہر کیے جا رہے ہیں اس پر گہرائی سے نظر ڈالنے اور اس کا سنجیدگی سے مطالعہ کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ صہیونی طاقتوں نے اسے ایک چیلنج تصور کرتے ہوئے اس سے نمٹنے کا عزم کیا ہے۔ ابھی حال ہی میں ایک کتاب منظر عام پر آئی ہے، جس کا موضوع ہے ’’اسرائیل کے وجود کے لیے چیلنج بننے والے سات خطرات‘‘ اسے مائیکل اورین نے تیار کیا ہے جو جارج ٹائون یونیورسٹی میں علمِ سیاسیات کے پروفیسر ہیں یہ یونیورسٹی امریکا کے اکیڈمک اداروں میں سرفہرست ہے اور اس کی خاص توجہ عرب کلچر اور مشرقِ وسطیٰ امور پر تحقیق کرنے پر ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسرائیل کے لیے چیلنج بننے والے یہ سات خطرات کیا ہیں جو اس کے وجود کو متزلزل کر سکتے ہیں۔ جارج اورین نے ان خطروں کا خلاصہ اس طرح پیش کیا ہے۔
(۱) پہلا خطرہ عربوں کی آبادی (پاپولیشن) کا ہے۔ فطری طور پر فلسطینی عربوں کی آبادی میں اسرائیلی یہودیوں کی بہ نسبت زیادہ اضافہ ہو رہا ہے۔ خود اسرائیل کے اندر عرب فلسطینی باشندوں کا تناسب اسرائیل کی مجموعی آبادی کا ۲۰ فیصد ہے اور اس کی ایک چوتھائی آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے جن کی عمریں ۱۹ سال سے کم ہیں۔ اس کے علاوہ مغربی کنارہ کے اندر عربوں کی تعداد ۲۰ لاکھ ہے۔ اس طرح عربوں کی آبادی اور ان کا بڑھتا ہوا تناسب اسرائیل کے وجود کے لیے خطرہ ہے۔ اس تناظر میں عرب اسرائیل جھگڑے کا دو مملکتی حل نہ صرف متوازن حل ہے بلکہ صحیح اور امر واقعہ کے عین مطابق حل ہے اور اس کا تقاضا ہے کا اسے بین الاقوامی برادری کی تائید حاصل ہو، امریکی ماہرِ سیاسیات مائیکل اورین کا کہنا ہے کہ دو مملکتی حل سے ہٹ کر دوسرا حل یہی ہو سکتا ہے کہ اسرائیل کو دو نسلی یعنی یہودی و عرب مسلم ملک قرار دیا جائے اور دو نسلی ملک اسے قرار دینے کا مطلب ہے صہیونی منصوبے کا خاتمہ۔ کیونکہ ان دونوں نسلوں کا ملک قرار دینے کی صورت میں فریقین کے درمیان اختلافات گہرے ہوں گے اور خونریزیوں کا بازار گرم ہو گا۔ ایک بڑی تعداد نقل مکانی پر مجبور ہو گی اور یہودیوں کا جمِ غفیر بیرون ملک منتقل ہونے یا جہاں سے وہ آئے ہیں واپس جانے پر مجبور ہو جائیں گے۔
(۲) دوسرا خطرہ قانونی حیثیت کے فقدان کا ہے۔ عرب سیاسی ادبیات کا یقین ہے کہ اسرائیل قبضہ کے ذریعہ اور باہر سے آکر سکونت اختیار کرکے تھوپا گیا وجود اور ڈھانچہ غیر قانونی ہے، اس یقین کو صہیونیوں کی ان کارروائیوں سے تقویت پہنچتی ہے جو دو نسلی تعصب کی بنیاد پر عرب باشندوں کے خلاف کرتا ہے اور منظم طریقہ پر مسلسل دہشت گردی انجام دے رہا ہے، جس کا مشاہدہ بین الاقوامی برادری کرتی رہی ہے اور غزہ ہولوکاسٹ پر تو برملا بین الاقوامی برادری نے اس کا اظہار بھی کیا۔ یہ صورتحال ہنوز باقی ہے کیونکہ ۱۹۶۷ء سے غزہ اور مغربی کنارہ پر اس کا قبضہ برقرار اور دہشت گردی و نسل کشی جاری ہے اس بدنما تصویر کو دھونے کے لیے صہیونی وجود اگرچہ پروپیگنڈے کے ذریعہ مسلسل کوشش کر رہا ہے مگر بشمول برطانیہ بہت سے مغربی ملکوں اور وہاں کی یونیورسٹیوں کے پروفیسرز یہ مطالبہ اور اپیلیں کر رہے ہیں کہ اسرائیل سے قطع تعلق کر لیا جائے اور اس کے ساتھ لین دین بند کرتے ہوئے تعلقات اس وقت تک منقطع رکھے جائیں جب تک کہ وہ اپنی پالیسی میں تبدیلی لاتے ہوئے انسانی حقوق کی پامالی بند نہ کر دے۔ بلکہ کچھ اکیڈمک شخصیات ایسی بھی ہیں جو اسرائیل پر پابندی لگانے کا پرزور مطالبہ کر رہی ہیں اور کہہ رہی ہیں کہ نسل پرستی کی بنیاد پر جس طرح جنوبی افریقہ میں سفید فام پر پابندی لگائی گئی تھی اسی طرح اسرائیلی نسل پرستوں پر بھی پابندی لگائی جانی چاہیے کیونکہ اسرائیل کی صورتحال جنوبی افریقہ کی نسل پرستی سے بھی بدتر ہے۔
(۳) تیسرا خطرہ قیادت کا فقدان ہے۔ یعنی اس وقت جو قیادتیں اسرائیل میں اقتدار پر ہیں ان کے اندر یہ قدرت و صلاحیت نہیں کہ وہ کوئی دوٹوک فیصلہ کر سکیں۔ یا فیصلوں کو پورے عزم کے ساتھ نافذ کر سکیں، وہ نہ ان عرب باشندوں کو رام کر سکتے ہیں جن کی آبادی وسیع رقبہ پر پھیلی ہوئی ہے اور وہ قانونی اعتبار سے صہیونی قبضے کو مسترد کرتے اور اسرائیلی وجود کو تسلیم نہیں کرتے ہیں۔ یہ قائدین نہ اپنے فیصلے ان انتہا پسند و دہشت گرد یہودیوں پر مسلط کر سکتے ہیں جن کی وابستگی مختلف مذہبی جماعتوں اور انتہا پسند گروپوں سے ہے، اسی طرح ان کے اندر ان دھڑوں کو مطمئن کرنے کی بھی صلاحیت نہیں جو یہاں لاکر بسائے گئے ہیں، ان کا اثر و رسوخ انتظامی ڈھانچوں میں بڑھ گیا اور وہ مغربی کنارہ اور بیت المقدس میں اپنی من مانی کرتے اور اس کی قیمت پر اپنے مطالبات منواتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دو مملکتی حل کو روبہ عمل لانا بہت مشکل ہے اور وہ کسی بھی ایسے سمجھوتے کا گلا گھونٹنے کی پوری قدرت رکھتے ہیں۔
(۴) چوتھا خطرہ اندرون ملک بدعنوانیوں کا عام ہو جانا ہے۔ پروفیسر اورین کا کہنا ہے کہ گزشتہ کئی سالوں کے دوران ملک کے بڑے بڑے رہنمائوں پر بدعنوانیوں اور رشوتوں کے سنگین الزامات عائد کیے گئے اور انہیں اس میں ملوث پایا گیا، بلکہ اخلاقی گراوٹوں اور بدکاریوں تک کا الزام ثابت ہوا۔ امریکی سیاسی ماہر کا خیال ہے کہ اسرائیل کی سیاسی صورتحال ابتری و بدحالی کی شکار ہے۔ اسرائیلی نوجوان یہاں کی سیاست سے بیزار و شکستہ دل ہیں، اسرائیلی رائے عامہ کی جو رپورٹیں پیش کی جاتی ہیں اس کے برخلاف اسرائیلی پارلیمنٹ کا وزن دن بدن گھٹتا اور اس کا احترام لوگوں کے دلوں سے مفقود ہوتا جا رہا ہے۔ بدعنوانیاں رہنمائوں اور سرکاری ذمہ داروں تک ہی محدود نہیں بلکہ یہ وباء پورے اسرائیلی معاشرے میں پھیلی ہوئی ہے۔ معاملہ یہاں تک بڑھ گیا ہے کہ بدعنوانی کی اس وباء نے فوجی اداروں کو بھی نہیں چھوڑا اور وہاں بھی اس کا دور دورہ ہے۔ پروفیسر مائیکل اورین کا کہنا ہے کہ اسرائیل دنیا میں منشیات کے کاروبار، خفیہ تجارت، ہتھیاروں کی اسمگلنگ اور کالے دھندے میں سرفہرست ہی نہیں بلکہ نمبر ایک پر ہے۔ جو نہ صرف اس کی صورت مسخ کر رہا ہے بلکہ اس کے وجود کے خاتمے کی وارننگ دے رہا ہے۔
(۵) پانچواں خطرہ ایٹمی صلاحیتوں کا ہے۔ اسرائیل سے ہمدردی رکھنے والے امریکی مذاکرات کاروں کا خیال ہے کہ ایران کی ایٹمی صلاحیتوں میں اضافہ کا خطرہ براہِ راست اسرائیل پر پڑ رہا ہے اور اس سے اس کے وجود کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ اسرائیلی حلقے اور اس کے سیاسی ارکان روزِ اول سے مختلف وسائل کا استعمال کرتے ہوئے اسرائیلی رائے عامہ کے اندر خوف و ہراس کی کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں تاکہ ان میں عربوں اور مسلمانوں سے نفرت پروان چڑھے اور ان کے ذہن و دماغ پر ان کی دشمنی چھا جائے۔ پھر انہیں صہیونی تحریک اور اس کے ایجنڈوں کے مطابق کام کرنے کے لیے تیار کرنا آسان ہو۔
اسی مقصد کے تحت کبھی حزب اللہ کے نام کا شور مچایا جاتا تو کبھی حماس، فتح یا فلسطینی دہشت گردوں کا، یا اسلامی یا ریڈیکل تحریکوں و تنظیموں کا، مگر امریکی تجزیہ نگاروں کی رائے کے مطابق سب سے بڑا اور سب سے گہرا خطرہ ایران کا تصور کیا جاتا ہے۔ جس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ خود ایرانی قیادتیں اسے دھمکیاں دیتی رہتی ہے، اور دوسری وجہ یہ ہے کہ اس سے اسرائیل کی قیادت کو تائید حاصل ہوتی ہے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ ایران کے ایٹمی چیلنج کا اسرائیل پر منفی اثر پڑ رہا ہے، اس کی اقتصادیات سکڑ رہی ہے اور لوگوں میں خوف و ہراس کی کیفیت پیدا ہو رہی ہے۔ اس صورتحال کی عکاسی کرتے ہوئے اسرائیلی ورکر پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک وزیر افرائیم سینہ کا کہنا تھا ’’اس طرح کے حالات کی برقراری کی صورت میں نقل مکانی کی قدرت رکھنے والے تمام اسرائیلی باشندے نقل مکانی کر سکتے ہیں‘‘۔
(۶) بیت المقدس شہر کی صورتحال کا خطرہ، فلسطینی سرزمین پر کالونی بسانے کا منصوبہ بنانے اور اسے نافذ کرنے والے ذمہ داران اور رہنمائوں کا اصرار ہے کہ ’’یروشلم‘‘ (بیت المقدس) اسرائیل کے لیے شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے۔ منصوبہ سازوں کا کہنا تھا کہ اسرائیل کے وجود کی وجہ ہی بیت المقدس ہے۔ بیت المقدس کے بغیر اسرائیل کے کوئی معنی ہی نہیں۔ اس کے بغیر اس کا وجود بحرابیض کے ساحل پر واقع چھوٹی سی آبادی ہو گی جسے جینے کا حق نہیں ہو گا، چہ جائیکہ وہ اپنا دفاع کر سکے۔ اس لیے اسرائیل کے آزاد و خود مختار اور اپنا دفاع کرنے والا ملک ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے پاس یروشلم ہو، مگر پروفیسر مائیکل اورین نے جو تحقیقاتی رپورٹ پیش کی ہے اور اسے اسرائیل نواز امریکن کومنٹری میگزین نے مئی ۲۰۰۹ء کے اپنے شمارہ میں شائع کیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ القدس شہر اب تک صہیونی غلبہ والا شہر نہیں ہو سکا ہے، یہاں کی آبادی ۸ لاکھ ہے جن میں دو لاکھ ۷۲ ہزار عرب ہیں جن کی اکثریت مسلمان اور کچھ عیسائی ہے۔ اور یہ سب کے سب اس شہر کے تاریخی ثقافتی اور عقائد کی کسی بھی تبدیلی کے سختی سے مخالف ہیں۔ یہاں دو لاکھ آرتھوڈکس یہودی بھی ہیں جنہیں صہیونیت سے کوئی ہمدردی نہیں اور نہ وہ صہیونی منصوبے کی تائید کرنے والے اور نہ اسرائیل کی حمایت کرنے والے ہیں۔ مذکورہ امریکی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق غیر مذہبی سیکولر یہودیوں کی بڑی تعداد جو ہزاروں میں ہے القدس سے باہر منتقل ہو چکی ہے۔ خاص طور پر نوجوانوں اور پیشرو لوگوں کی بھیڑ شہر چھوڑ کر دوسری جگہ جا رہی ہے۔ رپورٹ میں خلاصہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس رجحان کے بڑھنے سے بن گورین کا خواب چکنا چور ہو سکتا ہے کہ القدس کے بغیر اسرائیل روح کے بغیر جسم جیسا ہو جائے گا۔ اس وقت بیشتر یہودی باشندوں کا خیال ہے کہ صہیونیت کا منصوبہ اب ایسا نہیں کہ اس کے لیے مزید قربانیاں دی جائیں۔
واضح رہے کہ القدس تمام آسمانی مذاہب کے لیے مقدس و محترم ہے جس کی گواہ یہاں کی تاریخ ہے۔ یہودیوں کو تو اس سے کم ہی تعلق رہا، البتہ مسلمان اور عیسائی ہمیشہ سے اس کی تقدیس کرتے آئے ہیں اور یہاں کا کلچر اور تاریخی ورثہ اس کی شہادت دے رہا ہے اور دنیا اپنی نگاہوں سے اس کا مشاہدہ کر رہی ہے۔
(۷) ساتواں خطرہ دہشت گردی کا ہے۔ شائع شدہ امریکی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی وجود کے لیے سب سے بڑا اور مہلک ترین خطرہ اور اس کی سلامتی کے لیے چیلنج دہشت گردی کا ہے۔ فطری طور پر دہشت گردی سے اس کی مراد ’’مزاحمت‘‘ ہے۔ اس حوالے سے تحقیقاتی رپورٹ کے اندر بعض تجاویز پیش کی گئی ہیں اور اسرائیل کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ فلسطینی مزاحمت کاروں کے حملوں کو کس طرح روک سکتے ہیں، مگر اس رپورٹ میں اس حقیقی دہشت گردی کا کوئی تذکرہ نہیں کیا گیا ہے جسے منظم طریقہ پر صہیونی دفاعی فوج یا دہشت گرد و انتہا پسند صہیونی باشندے عربوں کے خلاف انجام دیتے ہیں، تو کیا عربوں نے بھی کوئی ایسی رپورٹ تیار کی ہے جس میں ان کے وجود کے لیے خطرات کی نشاندہی کی گئی ہو؟
(بحوالہ: روزنامہ ’’منصف‘‘ حیدرآباد دکن)
Leave a Reply