نیو یارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر جس مقام پر تعمیر کیا گیا تھا اس کے نزدیک مسجد تعمیر کرنے کے منصوبے کی مخالفت امریکا بھر میں تجزیاتی فیشن کا درجہ اختیار کرگیا ہے۔ جو لوگ اظہار رائے کی آزادی کو بہت اہمیت دیتے ہیں اور ہر وقت اس کی وکالت میں رطب اللسان رہتے ہیں وہ بھی گراؤنڈ زیرو مسجد کے خلاف میدان میں نکل آئے ہیں۔ مرکزی میڈیا میں اس قدر پروپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی۔ ساتھ ہی ساتھ یہ ڈھول بھی پیٹا جارہا ہے کہ القاعدہ ایک بار پھر منظم ہوچکی ہے اور نائن الیون جیسا ایک اور واقعہ کسی بھی وقت رونما ہوسکتا ہے۔
جارج واکر بش، ڈک چینی اور ان کے رفقا نے نو سال سے امریکیوں کو اپنے پروپیگنڈا کے جال میں جکڑ رکھا ہے۔ نائن الیون کے موقع پر امریکیوں کو بتایا گیا تھا کہ اسلامی عسکریت پسند کھل کر مغرب کے
خلاف میدان میں نکل آئے ہیں۔ اور انہیں روکنے کے لیے دہشت گردی کے خلاف جنگ ناگزیر ہے۔ اس جنگ کو ناگزیر قرار دیکر پہلے عراق اور اس کے بعد افغانستان پر لشکر کشی کی گئی۔ یورپ کو ساتھ ملانے کے ساتھ ساتھ امریکا نے اسلامی ممالک کو بھی اتحادی بنایا جس کے نتیجے میں اسلامی دنیا میں بھی اختلافات پیدا ہوئے۔ جارج واکر بش اور ڈک چینی نے نئے رجعت پسندوں کے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے ایسا پروپیگنڈا کیا کہ امریکی عوام کے ذہن پر بس ایک ہی پردہ پڑگیا کہ اسلامی عسکریت پسندوں سے بڑا خطرہ کوئی نہیں۔ معیاری اور منظم پروپیگنڈا مشینری نے انہیں عسکری سطح پر بنیادی حقائق تک پہنچنے سے بھی روک دیا۔ متوازی پریس اب بھی بہت کچھ لکھ رہا ہے مگر لوگ اس پر توجہ نہیں دیتے۔ ان کی نظر مرکزی دھارے کے میڈیا تک رہتی ہے۔ بڑے اخبارات و جرائد اور ٹی وی چینلز جو کچھ کہتے ہیں اسی پر امریکی عوام مکمل یقین کرلیتے ہیں۔
گراؤنڈ زیرو کی مسجد کے معاملے پر مین اسٹریم میڈیا میں بہت کچھ بیان کیا جارہا ہے اور صدر بارک اوباما سمیت تمام سیاسی کھلاڑی میدان میں کودے ہوئے ہیں۔ کارپوریٹ نیوز ہیڈ لائنز میں اس معاملے کو غیر ضروری طور پر اچھالا جارہا ہے۔ دائیں بازو کے عناصر گراؤنڈ زیرو کی مسجد کے معاملے پر بہت برافروختہ ہیں۔ مذہب، رواداری اور جمہوریت پر ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ اس نکتے کو سبھی نے بھلا دیا ہے یا پھر نظر انداز کردیا ہے کہ گیارہ ستمبر ۲۰۰۱ء کو نیو یارک میں جو کچھ ہوا وہ آنکھوں کا دھوکا تھا۔ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کو تباہ کرکے ایک ایسی جنگ کی راہ ہموار کی گئی جس کا بظاہر کوئی مقصد نہیں۔ یہ سراسر فالس فلیگ آپریشن تھا۔ اس واقعے کی آڑ میں امریکا کو پولیس اسٹیٹ میں تبدیل کیا گیا۔ لوگوں کو مستقل خوف میں مبتلا رکھنے کی روایت کو پروان چڑھایا گیا۔ سیکورٹی خدشات کے نام پر سرکاری وسائل کو بے دریغ استعمال کرنے کا فیشن عام ہوا۔ جرائم پسند ذہنیت کو کھل کر پروان چڑھنے کا موقع دیا گیا۔ دہشت گردی کو روکنے کے نام پر سرکاری وسائل کی بندر بانٹ شروع ہوئی۔ بش اینڈ کمپنی نے سبھی کچھ اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ امریکی سیاسی اشرافیہ کی پالیسی یہ طے پائی کہ لوگوں کو ہر وقت بیرونی خطرے کے خوف میں مبتلا رکھو۔ جب مستقل خوف ہوگا تو رفتہ رفتہ وہ انسداد دہشت گردی کے نام پر تمام اقدامات کو قبول کرتے چلے جائیں گے۔
جارج واکر بش کی طرح بارک اوباما بھی امریکیوں کو مسلم عسکریت پسندوں کی جانب سے حملوں سے ڈرا رہے ہیں۔ مسلمانوں سے شدید نفرت کی راہ اب بھی ہموار کی جارہی ہے۔ اس کے نتیجے میں دوسرے غیر ملکی بھی اب امریکیوں کی نظر میں مشکوک ٹھہرنے لگے ہیں۔ اس حقیقت کو سب نے نظر انداز کردیا ہے کہ نائن الیون کے مرتکب افراد اب بھی غیر معمولی طاقت کے حامل ہیں۔ قومی دولت ان کے ہاتھوں میں ہے اور معاشرے کو ہر اعتبار سے تبدیل کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ لوگوں کو باور کرایا جارہا ہے کہ کسی بھی وقت کہیں سے بھی حملہ ہوسکتا ہے۔
امریکا میں مین اسٹریم میڈیا کی بھرپور کوشش یہ ہے کہ سچ کسی بھی صورت میں سامنے نہ آ پائے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ نو سال سے جاری ہے۔ اب تک یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ اس جنگ کا بنیادی مقصد کیا تھا یا کیا ہے۔ مائک ریوپرٹ کی کتاب‘‘کراسنگ دی روبیٹون’’میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح جارج واکر بش اور ڈک چینی نے نائن الیون برپا کیا۔ مائیکل چسوڈو وسکی نے اپنی کتاب ’’نائن الیون‘‘ میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کو عمدگی سے ایکسپوز کیا۔ ان ماہرین نے یہ بھی بتایا کہ القاعدہ اور دیگر جہادی گروپ در اصل امریکا کے ملٹری انٹیلی جنس ایسیٹس ہیں۔ سی آئی اے اور اس کی ایما پر آئی ایس آئی نے ان گروپوں کو پروان چڑھایا ہے اور فنڈنگ سمیت تمام سہولتیں فراہم کی ہیں۔ نائن الیون کے بارے میں حقائق بیان کرنے پر شہرت پانے والے ڈیوڈ اے گریفن اب بھی شور مچا رہے ہیں کہ نائن الیون کا واقعہ محض سازش پر مبنی تھا اور جان بوجھ کر لوگوں کو بربادی کی طرف دھکیلا گیا۔ نائن الیون کے بارے میں ہزاروں رپورٹس اور کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں مگر اس کے باوجود لوگ سچائی کو گلے لگانے یا حلق سے اتارنے کے لیے تیار نہیں۔
امریکا میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے اب یہ بات پھیلائی جارہی ہے کہ عدنان شکری جمعہ القاعدہ کے نئے چیف کی حیثیت سے ابھر رہا ہے۔ ماہ رواں کے اوائل میں میامی کے ایف بی آئی ایجنٹ برائے انسداد دہشت گردی گریگ لی بینک نے بتایا کہ عدنان شکری جمعہ کو القاعدہ کی قیادت کے لیے تیار کیا جارہا ہے۔ وہ امریکی معاشرے سے بخوبی واقف ہے اور مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف فضا تیار کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔
۲۰۰۴ء میں چائم کفربرگ نے عندیہ دیا تھا کہ اگلے نائن الیون کی تیاری کی جارہی ہے۔ اس حوالے سے پروپیگنڈا بھی ساتھ ساتھ کیا جارہا ہے تاکہ جب کوئی بڑی واردات کی جائے تو کسی کو ذرا بھی حیرت نہ ہو اور مسلمانوں کو مورد الزام ٹھہرانا آسان ہو۔ شکری جمعہ، عبدالرؤف دے اور عافیہ صدیقی کو باہم جوڑا جارہا ہے۔ میڈیا میں عدنان شکری جمعہ کے حوالے سے باتیں بہت احتیاط سے پھیلائی جارہی ہیں۔ یہ سب کچھ ایک اعتبار سے سرکاری سطح پر جنگ کے پروپیگنڈے سے مشابہ ہے۔ لوگوں کو مستقل خوفزدہ رکھنے کی بھرپور تیاریاں جاری ہیں۔ جب بھی کوئی بڑا سانحہ رونما ہوگا تو کہہ دیا جائے گا کہ ہم تو پہلے ہی خبردار کرتے رہے تھے۔
عراق میں امریکا جنگ کی بساط لپیٹ چکا ہے۔ مگر اس کے باوجود پچاس ہزار فوجی تعمیر نو اور سیکورٹی کے امور میں معاونت اور مشاورت کے لیے غیر معینہ مدت تک تعینات رہیں گے۔ افغانستان کے حوالے سے بھی یہی حکمت عملی وضع کی گئی ہے۔ امریکی صدر بارک اوباما نے اعلان کیا ہے کہ جولائی ۲۰۱۱ء سے امریکی فوج افغانستان سے انخلا شروع کردے گی تاہم یہ واضح نہیں کہ امریکی فوجی افغانستان سے انخلا کب تک مکمل کریں گے۔
اس میں اب کوئی شک نہیں رہا کہ جن لوگوں کو اسلامی عسکریت پسند اور بنیاد پرست قرار دے کر امریکی فوج کارروائی کر رہی ہے وہ امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے پروردہ لوگ ہیں۔ انہیں انٹیلی جنس ایسیٹ قرار دیا جاتا ہے۔ جب تک ان سے کام نکلتا رہا، کام لیا جاتا رہا۔ اور اب امریکا انہیں ختم کرنے کے نام پر جنگ کا دائرہ وسیع کر رہا ہے۔ سی آئی اے کے تحت القاعدہ آپریٹوز کو چیچنیا میں بھی تربیت دی جاتی رہی ہے۔ مسلمانوں سے نفرت بڑھانے سے زیادہ اب القاعدہ کا نیا چیف لانے پر توجہ دی جارہی ہے۔ عدنان شکری جمعہ کو خالد شیخ محمد کا جانشین بھی قرار دیا جاتا رہا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکی انٹیلی جنس اب بھی لوگوں کو کس حد تک گمراہ کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ ایک بلا جواز خوف لوگوں کے ذہنوں پر مسلط رکھا جارہا ہے۔
(بشکریہ: ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘۔ ۲۴؍ اگست ۲۰۱۰ء)
Leave a Reply