ہمارا وطن محفوظ ہے لیکن ہم محفوظ نہیں‘ ۱۱/۹ کمیشن

درج ذیل حقائق نامہ وائٹ ہائوس نے ۳۰ جولائی کو جاری کیا اس میں بش انتظامیہ کے کلیدی اقدامات اجاگر کیے گئے ہیں اور کہا گیا ہے کہ انتظامیہ کے اقدامات‘ امریکا کے خلاف دہشت گردوں کے حملوں کے بارے میں قائم کیے جانے والے دونوں پارٹیوں کے ارکان پر مشتمل قومی کمیشن کی سفارشات کے مطابق ہیں۔

(آغاز حقائق نامہ)

صدر بش ۱۱/۹ کمیشن کی رپورٹ کا خیرمقدم کرتے ہیں اور کمیشن کی اس رائے سے اتفاق کرتے ہیں کہ ہمارا وطن اب محفوظ تر ہے‘ لیکن ابھی ہم محفوظ نہیں ہیں۔ انہوں نے حکم دیا ہے کہ کمیشن کی سفارشات کا حکومت کی اعلیٰ ترین سطحوں پر جلد جائزہ لیا جائے اور سفارشات کی بنیاد پر مزید اقدام کے لیے منصوبہ تیار کیا جائے۔

کمیشن نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ملک کو درپیش کئی پیچیدہ اور اہم مسائل کا احتیاط سے بغور جائزہ لیا ہے اور ہمارے لیے یہ بات باعثِ اطمینان ہے کہ کمیشن کی حتمی رپورٹ میں بیان کردہ نتائج‘ بیشتر اہم پالیسی مسائل پر انتظامیہ کے موقف کے مطابق ہیں۔

جیسا کہ کمیشن نے سفارش کی ہے:

٭ انتظامیہ پہلے ہی ایک ایسی عالمی حکمت عملی پر عمل کر رہی ہے کہ دہشت گرد گروپوں کو دنیا میں کہیں بھی محفوظ پناہ گاہ میسر نہ ہو۔ ہم ان کوششوں کو مسلسل آگے بڑھا رہے ہیں اور انتظامیہ‘ کمیشن کی سفارشات پر سنجیدگی سے توجہ دے رہی ہے۔

٭ انتظامیہ ’’آزادی کی ترقی پسندانہ حکمت عملی‘‘ اور وسیع تر مشرق وسطیٰ میں مطلوبہ اصلاحات کو فروغ دے کر دہشت گردی کی نظریاتی کشش کا خاتمہ کر رہی ہے۔ انتظامیہ ان کوششوں کو مزید مستحکم اور موثر بنانے اور ان کا دائرہ بڑھانے کے متعلق کمیشن کی سفارشات کا خیر مقدم کرتی ہے۔

٭ انتظامیہ‘ ہماری سرحدوں‘ ہماری بندرگاہوں‘ ہماری اہم تنصیبات اور ہمارے وطن کے دوسرے حصوں کی حفاظت کے لیے پہلے ہی جدید ترین ٹیکنالوجی وضع کر رہی ہے اور بروے کار لارہی ہے۔

٭ انتظامیہ‘ انٹیلی جینس‘ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور داخلی سلامتی کے محکمے کے درمیان تعاون اور اطلاعات و معلومات کے تبادلے کے ذرائع بہتر بنا کر انٹیلی جینس کے شعبے میں اہم پیش رفت کر چکی ہے‘ اس مقصد کے لیے درج ذیل اقدامات کیے گئے ہیں:
۱۔ یو ایس پیٹریاٹ ایکٹ کی منظوری۔
۲۔ FBI کی ہیئت میں تبدیلی کا عمل۔
۳۔ CIA میں اطلاعات و معلومات کے حصول کے ذرائع میں توسیع کی گئی ہے اور ادارے کی تجزیہ کرنے کی صلاحیتیں بہتر بنائی گئی ہیں اور

٭ داخلی سلامتی کے محکمے (DHS)‘ دہشت گردوں کی خطرے سے نمٹنے کے مرکز (TTIC) اور دہشت گردوں کے بارے میں چھان بین کے مرکز (TSC) کا قیام۔

کمیشن نے انٹیلی جینس کے شعبے کی اصلاح کے لیے جو سفارشات تجویز کی ہیں یہ اہم اقدامات اُن سے ہم آہنگ ہیں۔ مزید اقدامات کی ضرورت ہے اور مزید اقدامات کیے جائیں گے مگر مستقبل میں اقدامات کے لیے ٹھوس بنیاد رکھ دی گئی ہے۔ ہم اس وقت اصلاح کے لیے جو کوششیں کر رہے ہیں اُن سے انٹیلی جینس کا ایسا ڈھانچہ وجود میں آئے گا جس سے آنے والے عشروں میں امریکا کا تحفظ ہو گا‘ اس کا درست ہونا ضروری ہے‘ یہی وجہ ہے کہ انتظامیہ‘ کمیشن کی ہر سفارش کا سرگرمی اور سنجیدگی سے جائزہ لے رہی ہے۔

درج ذیل مثالیں بش انتظامیہ کے اُن اقدامات کی ہیں جن سے ۱۱/۹ کمیشن کی سفارشات کی تعمیل ہوتی ہے۔

سفارشات:

باب۱۲۔ ’’کیا کیا جائے؟ ایک عالمی حکمتِ عملی‘‘۔

امریکی حکومت کو دہشت گردوں کی حقیقی یا امکانی پناہ گاہوں کی نشاندہی کرنی چاہیے اور اس کام کو اوّلیت دینی چاہیے۔ حکومت کو ان میں سے ہر ایک کے لیے حقیقت پسندانہ حکمتِ عملی اپنانی چاہیے تاکہ ممکنہ دہشت گرد غیرمحفوظ اور کمزور ہوں اور وہ کہیں بھی ٹِک نہ سکیں اور اس مقصد کے لیے تمام ملکی طاقت اور وسائل استعمال کیے جائیں۔ ہمیں اُن دوسرے ممالک سے جو اس سلسلے میں مدد کر سکتے ہوں‘ رابطہ کر کے اُن کا نقطۂ نظر سننا اور ان کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے۔ (باب۱۲‘ صفحہ۳۶۷)

اقدامات جو کیے جاچکے ہیں:

القاعدہ کی تمام پناہ گاہوں کا خاتمہ کرنا‘ ۱۱/۹ سے پہلے ہی ہماری حکمتِ عملی کا حصہ تھا۔ ۱۱/۹ کے بعد امریکا نے نمبر ایک پناہ گاہ یعنی افغانستان میں طالبان کی حکومت کا اور عراق میں صدام حسین کی حکومت کا بھی خاتمہ کیا‘ عراق عرصہ دراز سے دہشت گردی کی پشت پناہی کر رہا تھا۔ ہم دنیا بھر میں اس قسم کی دوسری پناہ گاہوں کی نشاندہی کر کے اُن کا خاتمہ کرنے کے لیے ملکی طاقت کے تمام عوامل بروے کار لاتے رہیں گے اور دوسری حکومتوں کے ساتھ مل کر اس امر کو یقینی بنائیں گے کہ دہشت گردوں کو پناہ گاہیں میسر نہ رہیں۔ ہم دہشت گرد نیٹ ورکس کی قیادت کا خاتمہ اور اُن کی منصوبہ بندی اور سرمائے کی فراہمی کے ذرائع کو ختم کر رہے ہیں اور اُنہیں جاے پناہ اور حکومتوں کی حمایت سے محروم کر کے اُن پر زمین تنگ کر رہے ہیں تاکہ وہ اپنی سرگرمیاں جاری نہ رکھ سکیں۔ دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کی نشاندہی کر کے انہیں تباہ کرنے کی کوشش جاری ہے اور اس کوشش کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہماری حکمتِ عملی میں مرکزی حیثیت حاصل رہے گی۔

سفارشات:

’’اگر (پاکستان کے صدر) پرویز مشرف‘ پاکستان اور اپنی بقا کی جنگ میں روشن خیال اعتدال پسندی کے عزم پر ڈٹے رہتے ہیں تو پھر امریکا کو مشکل فیصلوں کے لیے تیار رہنا چاہیے اور اسے پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے طویل المیعاد تعلق استوار کرنا ہو گا۔ امریکا کو اپنی موجودہ امداد جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ‘ انتہا پسندی کے خلاف جنگ میں حکومتِ پاکستان کی مزید مدد کرنا ہو گی۔ یہ مدد ایک جامع کوشش کی صورت میں ہونی چاہیے جس کا دائرہ فوجی امداد سے لے کر بہتر تعلیم کے لیے وسائل کی فراہمی پر محیط ہونا چاہیے اور یہ تعاون اس وقت تک جاری رہنا چاہیے جب تک پاکستانی قیادت مشکل فیصلوں کے لیے تیار رہتی ہے‘‘۔ (باب۱۲‘ صفحہ۳۶۹)

اقدامات جو کیے جاچکے ہیں:

امریکا نے ۱۱/۹ کے حملوں کے بعد پاکستان سے اپنے تعلقات ڈرامائی انداز میں نئے سرے سے تشکیل دیے ہیں۔ جیسا کہ کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ بش انتظامیہ ۱۱/۹ سے پہلے ہی سفارتی ذرائع سے پاکستان کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہی تھی کہ پاکستان‘ طالبان کی حمایت کی پالیسی تبدیل کر کے القاعدہ کے خطرے کا خاتمہ کرنے میں مدد کرے۔ صدر بش نے فروری ۲۰۰۱ء میں ذاتی طور پر صدر مشرف کو خط لکھا جس میں واضح کیا گیا تھا کہ اسامہ بن لادن اور القاعدہ‘ امریکا اور اس کے مفادات کے لیے براہِ راست خطرہ ہیں‘ جس سے نمٹنا ضروری ہے۔ انہوں نے صدر مشرف پر زور دیا کہ وہ اس اہم معاملے میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں۔ اگست ۲۰۰۱ء میں صدر بش نے دوبارہ صدر مشرف سے کہا کہ پاکستان‘ القاعدہ کے خلاف سرگرمِ عمل ہو۔ اب امریکا اور پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قریبی تعاون کر رہے ہیں اور پاکستانی فوج‘ ملک کی مغربی سرحد کے ساتھ دہشت گردوں کو گرفتار کر رہی ہے۔ صدر مشرف ہمارے ملک کے دوست ہیں اور ۱۱/۹ کے حملوں پر عملدرآمد کی منصوبہ بندی کرنے والا خالد شیخ محمد سمیت القاعدہ اور طالبان کے ۵۰۰ کارندوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ ہم نے پاکستان کی سکیورٹی‘ اقتصادی اور سماجی پروگراموں میں مدد کے لیے پانچ سال پر محیط تین ارب ڈالر کا فوجی اور امدادی پیکیج تجویز کیا ہے۔

پاکستانیوں کے حالاتِ زندگی بہتر بنانے میں مدد کے سلسلے میں ۲۰۰۲ء سے ۲۰۰۶ء تک امریکی امداد ۳۰ کروڑ ڈالر تک پہنچ جائے گی۔ پاکستانی اور امریکی بعض شعبوں میں مل کر کام کر رہے ہیں جن میں ابتدائی اور ثانوی تعلیم بہتر بنانا‘ خاص طور سے عورتوں اور بچوں کو صحت کی جدید سہولتیں مہیا کرنا اور پاکستان میں چھوٹے اور درمیانہ درجے کے کاروباری اداروں کو بین الاقوامی منڈی میں مقابلے اور مسابقت کے قابل بنانا شامل ہے۔ صرف موجودہ سال میں ۱۳۰ اسکولوں کی تزئین و آرائش کی جارہی ہے‘ مائوں اور شیر خوار بچوں کی شرحِ اموات کم کرنے کا ایک پروگرام شروع کیا جارہا ہے اور اعلیٰ تعلیمی ریکارڈ کے حامل ایسے طلبہ کو وظائف دیے جارہے ہیں جو اپنے وسائل سے پاکستانی یونیورسٹیوں میں تعلیم کے اخراجات برداشت کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے۔

سفارشات:

’’صدر اور کانگریس‘ افغانستان میں اُن کی اب تک کی گئی کوششوں کے لیے تعریف کے مستحق ہیں۔ اب امریکا اور عالمی برادری کو ایک محفوظ اور مستحکم افغانستان کے لیے طویل المیعاد عزم کرنا چاہیے تاکہ حکومت کو افغان عوام کے حالاتِ زندگی بہتر بنانے کے لیے مناسب موقع مل سکے۔ افغانستان کو دوبارہ بین الاقوامی جرائم اور دہشت گردی کی محفوظ پناہ گاہ نہیں بننا چاہیے۔ امریکا اور عالمی برادری کو اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے ایک حکمتِ عملی اور ملک کے ملک سے تعلق کے ذریعے پورے ملک پر افغان حکومت کے اختیار اور اتھارٹی کی توسیع میں مدد دینی چاہیے‘‘۔ (باب۱۲‘ صفحہ نمبر۳۷۰)

اقدامات جو کیے جاچکے ہیں:

امریکا اور اُس کے اتحادیوں نے طالبان کو شکست دی‘ القاعدہ کو بھاگنے پر مجبور کر دیا اور افغانستان میں القاعدہ کے دہشت گردی کی تربیت کے بین الاقوامی مرکز کا خاتمہ کیا۔ اس انتظامیہ نے افغانستان کی ترقی کے لیے دو ارب ڈالر مہیا کرنے کا اہتمام کیا۔ اب افغانستان میں ایک نئی مستحکم کرنسی اور ایک نیا آئین ہے اور افغان عوام ملک کے پہلے جمہوری انتخابات میں اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرنے والے ہیں۔ امریکا نے افغان حکومت کو یقین دلایا ہے کہ امریکا ایک مضبوط اور پُرعزم پارٹنر ہے۔ اقوامِ متحدہ اور عالمی برادری نے بھی عہد کیا ہے کہ افغانستان کو بدامنی اور بدنظمی کا شکار نہیں ہونے دیا جائے گا۔ سلامتی اور استحکام کو یقینی بنانے کے لیے امریکا اور عالمی برادری‘ سکیورٹی فورسز کو تربیت مہیا کر رہے ہیں تاکہ افغان حکومت کے اختیار اور اتھارٹی کا دائرہ صوبوں تک بڑھ جائے۔ فی الوقت افغان قومی فوج کے ارکان کی تعداد ۱۳۰۰۰ سے زیادہ ہے‘ جسے عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے جبکہ محکمہ پولیس کے اہلکاروں کی تعداد ۲۱۰۰۰ سے زیادہ ہے۔ علاوہ ازیں برطانیہ اور امریکا منشیات کے بڑھتے ہوئے خطرے کے سدِّباب کے لیے طویل المیعاد اور فوری نوعیت کے موثر اقدامات کر رہے ہیں۔ تعمیرِ نو کے پروگراموں میں کابل تا قندھار شاہراہ مکمل ہو چکی ہے‘ کابل تا ہرات شاہراہ اور ذیلی سڑکوں پر کام جاری ہے‘ شفاخانے اور اسکول تعمیر ہو رہے ہیں‘ اساتذہ کی تربیت جاری ہے اور کاروباری مراکز قائم ہو رہے ہیں ان تمام سرگرمیوں کے نتیجے میں افغانستان مستحکم اور محفوظ ہو گا۔

سفارشات:

’’امریکا اور سعودی عرب کے تعلقات میں درپیش مسائل سے کھلے بندوں نمٹنا چاہیے۔ امریکا اور سعودی عرب کو طے کرنا چاہیے کہ کیا وہ ایسے تعلقات استوار کر سکتے ہیں‘ جن کی بنیاد محض تیل نہ ہو اور جن کا طرفین کے سیاسی لیڈر کھلے عام دفاع کرنے کو تیار ہوں جو سیاسی اور اقتصادی اصلاحات کے مشترکہ عزم پر مبنی ہوں اور سعودی عرب بیرونی دنیا کے مشترکہ موقف کا ساتھ دے۔ اس میں زیادہ رواداری‘ ثقافتوں کا احترام اور نفرت کو ہوا دینے والے انتہا پسندوں سے جنگ کا عزم شامل ہو۔ (باب۱۲‘ صفحہ نمبر۳۷۴)

اقدامات جو کیے جاچکے ہیں:

تین سال پہلے دہشت گرد سعودی عرب میں خوب جمے ہوئے تھے۔ اس ملک میں عطیات جمع کرنے والے اور دوسرے سہولت کار‘ القاعدہ کو مالی امداد اور انتظام و انصرام کی صورت میں تعاون مہیا کرتے تھے جس کی کوئی جانچ پڑتال اور مخالفت نہیں کی جاتی تھی۔ اب ریاض اور دیگر مقامات پر حملوں کے بعد سعودی حکومت جان گئی ہے کہ القاعدہ اس کی دشمن ہے۔ سعودی عرب‘ دہشت گردوں کے مالی مددگاروں اور سہولت کاروں کو روکنے کے لیے سخت اقدامات کر رہا ہے اور سعودی عرب میں القاعدہ تنظیم کے پہلی صف کے کئی لیڈروں کو گرفتار یا ہلاک کیا جاچکا ہے۔ چونکہ اب سعودی عرب نے خطرے کا احساس کر لیا ہے اور وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شامل ہو گیا ہے۔ اس لیے امریکی عوام محفوظ تر ہیں۔ اگرچہ ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے تاہم سعودی عرب نے دہشت گردی کے خطرے کے انسداد کے سلسلے میں اہم پیش رفت کی ہے جس کا پھل آنے والے برسوں میں حاصل ہوتا رہے گا۔

سفارشات:

’’امریکی حکومت کو اپنا پیغام واضح کرنا چاہیے اور بتانا چاہیے کہ وہ کیا چاہتی ہے؟ ہمیں دنیا میں ایسی اخلاقی اور صحیح قیادت کی مثال پیش کرنی چاہیے جو لوگوں کے ساتھ انسانیت اور رحمدلانہ سلوک پر عمل پیرا ہو‘ قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتی ہو اور جو اپنے پڑوسیوں کی خیر خواہ اور فیاض ہو۔ امریکا اور ہمارے مسلمان دوستوں کے درمیان شرفِ انسانی اور مواقع کے احترام پر اتفاقِ رائے ہو سکتا ہے۔ امریکا اور اس کے دوستوں کو ایک اہم فوقیت حاصل ہے کہ ہم ان کو ایسا تصور دے سکتے ہیں جس سے ان کے بچوں کا مستقبل سنور سکتا ہے۔ اگر ہم عرب ممالک اور عالمِ اسلام کے صاحبِ فکر لیڈروں کے نظریات پر توجہ دیں تو اعتدال پر مبنی اتفاقِ رائے حاصل ہو سکتا ہے‘‘۔ (باب۱۲‘ صفحہ نمبر۳۷۶)

اقدامات جو کیے جاچکے ہیں:

امریکا نے گرفتار دہشت گردوں کی حراست اور ان سے سلوک کے سلسلے میں اپنے اتحادیوں کے قریبی تعاون سے کام کیا ہے اور اس بات کا جائزہ لے رہا ہے آیا مشترکہ اتحادی نقطۂ نظر قابلِ عمل اور ہماری قومی سلامتی سے ہم آہنگ ہے۔

سفارشات:

’’ہماری رپورٹ سے واضح ہے کہ القاعدہ تنظیم کم سے کم دس سال سے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار حاصل کرنے یا تیار کرنے کی کوششوں میں مصروف تھی۔ بلاشبہ امریکا بڑا ہدف ہو گا۔ ان ہتھیاروں کا پھیلائو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ پھیلائو روکنے کی کوششوں میں استحکام‘ پھیلائو روکنے کے حفاظتی اقدام میں توسیع اور یہ خطرہ کم کرنے کے لیے تعاون کے پروگرام کی صورت میں زیادہ سے زیادہ کوششیں کی جائیں‘‘۔ (باب۱۲‘ صفحہ نمبر۳۸۱)

اقدامات جو کیے جاچکے ہیں:

بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں سے نمٹنے کی حکمتِ عملی کی ۲۰۰۲ء میں اشاعت کے بعد بش انتظامیہ نے اس خطرے پر قابو پانے کے بارے میں ہمارے ملک کے طریقۂ کار میں بنیادی تبدیلی کی۔ مثال کے طور پر ہم نے:

٭ لیبیا میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے پروگرام اور اسکڈسی‘ میزائل ختم کرا دیے ہیں۔

٭ عراق میں کیمیائی‘ جراثیمی اور ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کے متعلق صدام حسین کی عشروں پر محیط جستجو کا خاتمہ کیا۔

٭ پاکستان میں اے کیو خان کا ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلائو کا نیٹ ورک بند کرایا۔

٭ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر۵۴۰ اتفاقِ رائے سے منظور کرائی جس میں ملکوں سے ایسا قانون وضع کرنے کے لیے کہا گیا جس کے تحت ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلائو کو جرم قرار دیا جائے۔

٭ ’’۲۱ویں صدی کے لیے حیاتیاتی دفاع‘‘ کا انتظام کیا جو تمام جراثیمی خطرات سے نمٹنے کی قومی حکمتِ عملی ہے۔

٭ Nunn-Lugare اور ایٹمی پھیلائو روکنے کے دوسرے امدادی پروگراموں کے لیے ریکارڈ وسائل مہیا کیے اور G-8 عالمی پارٹنر شپ تشکیل دی جو اس مقصد کے لیے دس برسوں میں ۲۰ ارب ڈالر مہیا کرے گی۔

٭ حیاتیاتی ڈھال منصوبے (Project Bio Shield) کے قانون کی منظوری دی جس میں امریکیوں کو کیمیائی‘ جراثیمی‘ ریڈیائی یا ایٹمی (CBRN) حملوں سے تحفظ کے لیے بہتر طبی سہولتوں کے لیے نئے ذرائع مہیا کیے گئے ہیں اور

٭ پھیلائو روکنے کے حفاظتی اقدام (PSI) کا اہتمام کیا جو ملکوں کی وسیع تر پارٹنر شپ ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں اور متعلقہ ساز و سامان کی سمندر‘ فضا اور زمینی راستے سے ترسیل رکنے اور ان ہتھیاروں کے پھیلائو میں ملوث نیٹ ورکس کو ختم کرنے کے لیے مربوط اقدامات کیے جائیں۔

سفارشات:

’’انسدادِ دہشت گردی کی امریکی کوششوں میں دہشت گردوں کو سرمائے کی فراہمی کے ذرائع کی نشاندہی کے لیے بھرپور اقدامات کو اوّلیت حاصل رہنی چاہیے۔ حکومت کو احساس ہے کہ دہشت گردوں کے سرمائے کے متعلق اطلاعات سے اُن کے نیٹ ورکس کو سمجھنے‘ ان کا سراغ لگانے اور ان کے آپریشنز کو ناکام بنانے میں مدد ملتی ہے۔ انٹیلی جینس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے القاعدہ کے سہولت کاروں اور افراد کو نسبتاً کم تعداد میں ہدف بنایا ہے‘ القاعدہ تنظیم فنڈز جمع کرنے اور مہیا کرنے کے سلسلے میں اُن کی صلاحیت پر انحصار کرتی ہے۔ یہ کوششیں کارگر ثابت ہوئی ہیں۔ کئی اہم سہولت کاروں کی ہلاکت یا گرفتاری کی وجہ سے القاعدہ کو سرمائے کی فراہمی گھٹ گئی ہے اور فنڈز جمع اور مہیا کرنے کے اخراجات اور مشکلات بڑھ گئی ہیں۔ گرفتاریوں کی وجہ سی بے تحاشہ معلومات حاصل ہوئی ہیں جنہیں القاعدہ کے آپریشنز کو ناکام بنانے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے‘‘۔ (باب۱۲‘ صفحہ نمبر۳۸۲)

اقدامات کیے جاچکے ہیں:

٭ دہشت گردوں کو سرمائے کی فراہمی کی جنگ میں ہم نے انہیں اس سہولت سے محروم کر دیا ہے اور بعض صورتوں میں دہشت گردوں کے آپریشنز کا مالی ڈھانچہ تباہ کر دیا ہے۔ بین الاقوامی برادری کے تعاون سے ہم نے دہشت گردوں کے ۱۴ کروڑ ڈالر کے اثاثے منجمد کیے ہیں۔ ۳۸۳ افراد اور تنظیموں کو دہشت گردوں کا مددگار قرار دیا گیا ہے‘ دہشت گردوں کے اہم سہولت کاروں کو گرفتار کر لیا گیا ہے یا منتشر کر دیا گیا ہے اور عطیات دینے والوں کو القاعدہ اور دوسرے ہم خیال دہشت گرد گروپوں کی مدد کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ امریکا آج محفوظ تر ہے کیونکہ ہم نے القاعدہ اور دوسرے دہشت گرد گروپوں کے لیے دنیا بھر میں فنڈز جمع کرنے اور اُن کی ترسیل کے عمل کو بہت مہنگا اور مشکل تر بنا دیا ہے۔

دہشت گردوں کو سرمائے کی فراہمی روکنے کے لیے ہماری جنگ کے سلسلے میں ہماری کوششوں کو مستحکم و موثر بنانے کے لیے انتظامیہ نے کانگریس کے تعاون سے وزارتِ خزانہ کا ایک نیا دفتر قائم کیا ہے۔ دہشت گردی اور مالی انٹیلی جینس کا دفتر (TFI)‘ وزارتِ خزانہ کے انٹیلی جینس‘ ریگولیٹری‘ نفاذِ قانون‘ پابندیوں اور پالیسی کے پہلوئوں کو بروے کار لاکر بھرپور اقدامات کرے گا۔ TFI کا انتظام ایک انڈر سیکرٹری اور دو اسسٹنٹ سیکرٹری چلائیں گے۔

(بحوالہ: پندرہ روزہ ’’خبر و نظر‘‘ امریکی شعبۂ تعلقاتِ عامہ)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*