
آج میں ایک ایسی نوبل انعام یافتہ شخصیت کو متعارف کرانا چاہتا ہوں جو اس انعام کی حامل بیشتر شخصیات کی طرح متعصب اور بزدل ہے۔ یہ شخصیت بھی صرف اپنے مفادات کو سامنے رکھتی ہے اور کسی دوسرے کے نظریات کی اُسے ذرا بھی پروا نہیں۔ میں میانمار (برما) کی رہنما آنگ سانگ سوچی کی بات کر رہا ہوں۔
امن کے نوبل انعام نے آنگ سانگ سوچی کو اپنے ملک میں غیر معمولی حیثیت سے نوازا ہے مگر انتہائی دکھ کے ساتھ یہ لکھنا پڑ رہا ہے کہ انہوں نے اپنی پوزیشن کو ملک میں بہتر سیاسی حالات اور میانمار کے تمام باشندوں کے لیے مساوی زندگی یقینی بنانے کی خاطر استعمال نہیں کیا ہے۔ آنگ سانگ سوچی نے اپنی غیر معمولی حیثیت کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے ہی ملک کے لوگوں کی زندگی کا معیار بلند کرنے کی طرف خاطر خواہ توجہ نہیں دی۔ اب تک انہوں نے صرف تقریریں کی ہیں، بیانات دیے ہیں۔ اس سے ہٹ کر اور بڑھ کر انہوں نے ایسا کچھ نہیں کیا ہے جس کی بنیاد پر یہ اندازہ لگایا جاسکے کہ ان کی شخصیت نے کچھ کر دکھایا ہے۔ ساری دنیا یہ بات دیکھ کر انتہائی حیران ہے کہ دنیا بھر میں انسانی حقوق کے حوالے سے کھل کر بات کرنے والی آنگ سانگ سوچی نے اپنے ہی ملک میں روہنگیا نسل کے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے بارے میں کچھ بھی کہنے سے شرمناک حد تک گریز کیا ہے۔ روہنگیا مسلمانوں کی بات آجائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے آنگ سانگ سوچی کے منہ میں زبان ہے ہی نہیں۔ روہنگیا نسل کے مسلمانوں کو میانمار کی ریاست اپنا شہری تسلیم نہیں کرتی اور ملک کے سیاہ و سفید کے مالک مطلق العنان حکمران ان مسلمانوں کو بنیادی حقوق دینے کے لیے تیار نہیں۔ روہنگیا مسلمانوں کو ہر طرح سے ناانصافی کا سامنا ہے۔ ریاستی مشینری انہیں کچلنے کے درپے ہے۔ وہ ملک میں رہتے ہوئے بھی یوں رہتے ہیں جیسے پردیس میں زندگی بسر کر رہے ہوں۔ انہیں قتل و غارت کا سامنا ہے۔ نسلی تطہیر کا عمل جاری ہے۔ ریاستی مشینری انہیں ان کے اپنے گھروں سے نکال کر کیمپوں میں رہنے پر مجبور کر رہی ہے۔ بدھ بھکشو بھی ان کے خلاف ہیں اور آئے دن ان پر حملے کرتے رہتے ہیں۔ ایسے واقعات بھی ریکارڈ پر ہیں کہ روہنگیا مسلمانوں کو چوہوں کی طرح سمندر برد کردیا گیا۔
برمی حکومت روہنگیا مسلمانوں پر غیر معمولی اور انسانیت سوز مظالم ڈھا رہی ہے۔ ظلم سہنے والے اگر مسلمان نہ ہوتے تو دنیا بھر میں کہرام مچ چکا ہوتا اور اب تک برمی حکومت کو انتہائی سخت بین الاقوامی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہوتا۔ برمی حکومت جانتی ہے کہ مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر دنیا بھر میں کہیں آواز نہیں اٹھے گی، اس لیے وہ کھل کر ظلم ڈھا رہی ہے۔
میں اس بات کو تسلیم کرنے میں کوئی باک یا ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا کہ جہادیوں نے اور بالخصوص داعش نے انسانیت سوز مظالم ڈھانے کی نئی مثالیں قائم کی ہیں۔ انہوں نے ہر مذہب سے تعلق رکھنے والوں کو قتل کیا ہے۔ کیا ان کے مظالم نے روہنگیا نسل کے مسلمانوں کی مشکلات میں اضافہ نہیں کیا؟ اور کیا ان کے ڈھائے مظالم سے روہنگیا مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کی راہ ہموار نہیں ہوئی؟ میرے نزدیک ان دونوں سوالوں کا جواب اثبات میں ہے۔
خاصے معقول دکھائی دینے والے بدھ بھکشو آشن وراتھو اور اس کی ۹۵۹ تحریک رات دن پروپیگنڈا کر رہی ہے کہ میانمار کی سرزمین سے مسلمانوں کو بالکل ختم کردیا جائے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے وہ عورتوں اور بچوں کے قتل کو بھی جائز قرار دے رہا ہے۔ داعش کی طرح اس بدھ بھکشو کو بھی انسانیت سوز مظالم ڈھانے میں ذرا بھی باک محسوس نہیں ہو رہی۔ وہ کسی بھی حرکت پر شرمندہ نہیں اور انتہائی ڈھٹائی سے کہہ رہا ہے کہ میانمار کی سرزمین سے مسلمانوں کو مکمل طور پر ختم کردینا ہی اس کا مقصد ہے۔
یہ سب کچھ انتہائی شرمناک ہے مگر عالمی برادری منہ میں گھنگھنیاں دیے بیٹھی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے کسی کو کچھ دکھائی ہی نہیں دے رہا۔ کوئین میری یونیورسٹی (لندن) میں انٹرنیشنل اسٹیٹ کرائم انیشئیٹیو کی ڈائریکٹر پینی گرین کا کہنا ہے کہ میانمار میں مسلمانوں کے خلاف جذبات بھڑکانے اور ان کی نسلی تطہیر کے ماحول کو مزید پروان چڑھانے میں آشن وراتھو نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ اس نے اپنی تقریروں میں مسلمانوں کے خلاف کھل کر بات کی ہے۔ وہ کسی بھی مسلمان کو میانمار کی سرزمین پر دیکھنے کا روادار نہیں۔
دوسرے بہت سے بدھ بھکشوئوں کی طرح آشن وراتھو کے چہرے پر بھی بَلا کی سنجیدگی اور سکون ہے۔ وہ منڈالے کی ایک خانقاہ میں عبادت کرتا ہے۔ بدھ ازم انسان دوستی اور ہمدردی کا درس دیتا ہے۔ اس کے بنیادی عقائد میں امن پسندی نمایاں ہے۔ تو پھر ایسا کیوں ہے کہ ایک سرکردہ بدھ بھکشو کھل کر مسلم دشمنی کا ثبوت دے رہا ہے اور چاہتا ہے کہ میانمار کی سرزمین سے مسلمانوں کا صفایا ہوجائے۔ سفاکی کی انتہا یہ ہے کہ وہ روہنگیا مسلمانوں کی عورتوں اور بچوں کو محض قتل کرنے پر نہیں اُکسا رہا بلکہ اس نے یہ بھی کہا ہے کہ ضرورت پڑنے پر انہیں کھالیا جائے! وراتھو اور اس کے ساتھیوں نے حکومت پر دباؤ ڈال کر ایک ایسا قانون منظور کرانے کی کوشش کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ تمام اقلیتیں خود کو ایک بچے تک محدود کریں اور شرح پیدائش میں نمایاں کمی لائیں۔ وراتھو اور اس کے ساتھی یہ بھی کہتے ہیں کہ جن اقلیتی گھرانوں میں ایک سے زائد بچے ہیں، وہ ایک ایک بچہ ترک کردیں!
آشن وراتھو اور اس کی سی ذہنیت رکھنے والے دوسرے بہت سے لوگ اس بات کے حق میں نہیں کہ میانمار کا کوئی شخص روہنگیا مسلمانوں میں شادی کرے۔ روہنگیا مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف شدید نفرت ابھارنے والے بہت سے گانے میانمار میں بہت مقبول ہیں۔ سوال صرف روہنگیا مسلمانوں تک محدود نہیں۔ آشن وراتھو اور اس کے ساتھی اپنی سرزمین پر کسی بھی اقلیت کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ آٹھ لاکھ روہنگیا مسلمانوں کو جڑ سے ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ایک بار اس مقصد میں کامیابی حاصل کرلی گئی تو دوسرے بہت سے چھوٹے اقلیتی گروہوں کی باری آئے گی۔ جس طور مسلمانوں کے حق میں کوئی آواز نہیں اٹھ رہی، اسی طور دوسری روہنگیائی اقلیتوں کے حق میں کوئی آواز نہیں اٹھ پائے گی۔
کئی برس سے ہزاروں روہنگیا مسلمان میانمار سے فرار ہوکر علاقائی ممالک میں پناہ لینے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ بنگلا دیش کی حکومت انہیں قبول نہیں کرتی۔ تھائی لینڈ نے سرحد بند کر رکھی ہے۔ روہنگیا کے مسلمان چھوٹی اور کمزور کشتیوں میں سوار ہوکر کسی بھی طرف چل پڑتے ہیں۔ مقصود صرف یہ ہے کہ قتل عام سے بچا جائے۔ مگر سمندر میں ان کی مشکلات بڑھ جاتی ہیں۔ انسانی اسمگلرز انہیں انتہائی خطرناک حالات سے دوچار رکھتے ہیں۔ اب دنیا بھر میں روہنگیا مسلمانوں کے حوالے سے کچھ احساس جاگا ہے۔ انڈونیشیا اور دیگر ممالک نے اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کو کیمپوں میں رکھا جائے تاکہ کم از کم ان کی جان تو بچائی جاسکے۔ مسلمان ممالک میں روہنگیا مسلمانوں کی بھرپور مدد کرنے اور انہیں بسانے کے حوالے سے کچھ کرنے کی کوشش دکھائی دے رہی ہے۔ پاکستان کے علاوہ سعودی عرب اور ترکی نے بھی روہنگیا مسلمانوں کی مدد کے لیے آگے آنے کا عندیہ دیا ہے۔ یہ اشارہ بھی دیا جارہا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کو مسلمان ممالک میں بسایا جاسکتا ہے۔
یہ سب تو ٹھیک ہے مگر بنیادی مسئلے کی طرف اب بھی توجہ نہیں دی جارہی۔ آشن وراتھو اور اس کے قبیل کے دوسرے بہت سے متعصب افراد داعش اور دیگر مسلم گروہوں کی سرگرمیوں کو بنیاد بناکر نفرت پھیلا رہے ہیں۔ وہ اپنے ہم وطنوں کو اسلامو فوبیا سے بھی ڈرا رہے ہیں۔ آنگ سانگ سوچی نے بھی اس حوالے سے زبان کھولنے میں دیر نہیں لگائی۔ وہ کہتی ہیں، ’’میرے خیال میں دنیا بھر میں یہ تاثر پوری شدت کے ساتھ پایا جاتا ہے کہ مسلمانوں کی عالمی طاقت بہت زیادہ ہے اور یہ تاثر میانمار میں بھی موجود ہے۔‘‘
آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آنگ سانگ سوچی نے کتنی عمدگی سے داعش اور دیگر جہادیوں کی سرگرمیوں کو روہنگیا مسلمانوں سے جوڑ دیا ہے۔ بے شرمی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے!
جو کچھ دوسری جنگ عظیم کے دوران نازیوں نے یہودیوں کے ساتھ کیا تھا، کچھ کچھ ویسی ہی فضا پیدا کرنے میں ایک طرف تو میانمار کا حکمراں طبقہ پیش پیش ہے۔ انہیں مذہبی عناصر کی حمایت حاصل ہے اور اب آنگ سانگ سوچی بھی ان کی ہاں میں ہاں ملا رہی ہیں۔
لندن میں مقیم برمی جمہوریت نواز سیاسی کارکن موانگ زارنی کہتے ہیں کہ جس طور جرمنی میں نازی ازم کو ہوا دی گئی تھی اور یہ بات بہت زیادہ پھیلائی گئی تھی کہ یہودی جرمن معیشت کا خون چوسنے والے کیڑے ہیں، بالکل اسی طور برمی مسلمانوں کے بارے میں بھی یہ تاثر عام کیا جارہا ہے کہ وہ برمی معیشت پر بوجھ ہیں اور ان کا وجود میانمار کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔
میانمار میں مسلمانوں کے خلاف اسی طرز کی نفرت پھیلائی جارہی ہے جس طرز کی نفرت بیسویں صدی کے اوائل میں جرمنی سمیت پورے یورپ میں یہودیوں کے خلاف پھیلائی گئی تھی۔ انتہا پسند بدھ بھکشوئوں نے برمی مسلمانوں کو ’’کلرز‘‘ یعنی ’’قاتل‘‘ کی توہین آمیز عرفیت دی ہے اور سول سوسائٹی نے اس عرفیت کو قبول بھی کرلیا ہے۔ امریکی ارب پتی جارج سوروس نے ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ’’۱۹۴۴ء میں جب میں بڈاپسٹ میں ایک یہودی کی حیثیت سے مقیم تھا تو میں بھی وہاں روہنگیا تھا!‘‘
’’دوسری جنگ عظیم کے دوران لاکھوں یہودیوں کو خصوصی بستیوں میں رکھا گیا تھا۔ ان بستیوں کو گھیٹوز کہا جاتا تھا۔ اس وقت میانمار کے مسلمانوں کا بھی کچھ کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ صحت سمیت تمام بنیادی سہولتیں پانے والوں کو اب کوئی بھی بنیادی سہولت میسر نہیں۔ آنگ منگلر ہزاروں خاندانوں کے لیے پناہ گاہ کی شکل اختیار کرگیا ہے۔ برمی مسلمانوں کے سر پر چھت نہیں۔ انہیں بنیادی سہولتیں بھی میسر نہیں۔ ان میں بے روزگاری عام ہے۔ تعلیم کا بھی فقدان ہے۔ صورت حال دن بہ دن بگڑتی جارہی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ فریقین خوفزدہ ہیں یعنی خوف دونوں طرف کام کر رہا ہے۔ اس خوف کو دور کرنا ہوگا۔ بدھ انتہا پسند بھی جو کچھ کر رہے ہیں، وہ محض خوف کی پیداوار ہے۔‘‘
دیکھا آپ نے؟ انسانی حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والی ایک عالمی شہرت یافتہ شخصیت نے کتنی خوب صورتی سے بدھ بھکشوئوں کے انتہا پسند رویے کو خوف کی پیداوار قرار دے کر انہیں کھل کھیلنے کا موقع دے دیا۔
تبت کے روحانی پیشوا دلائی لامہ نے اس سلسلے میں کچھ کردار ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ محض بیانات دینے سے کچھ بھی نہ ہوگا۔ عملی سطح پر بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ دلائی لامہ بھارت میں جلا وطنی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ انہوں نے آسٹریلیا کے ایک اخبار کو انٹرویو میں کہا کہ انہوں نے آنگ سانگ سوچی سے بات کی تھی۔ سوچی نے کہا کہ یہ معاملہ ایسا آسان نہیں ہے جیسا دکھائی دے رہا ہے۔ دلائی لامہ کہتے ہیں کہ یہ معاملہ انتہائی افسوسناک ہے۔ جو کچھ ہو رہا ہے، وہ کسی بھی حال میں نہیں ہونا چاہیے تھا۔
زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ اب مسلمان جنگجوئوں میں یہ تصور گردش کر رہا ہے کہ میانمار کی حدود میں جہاد شروع کردیا جائے، خواہ وہاں کے مسلمان ایسا نہ چاہتے ہوں۔ اگر ایسی کوئی صورت حال پیدا ہوئی تو بھارت اور بنگلا دیش دونوں کے لیے لاتعلق رہنا انتہائی دشوار ہوگا۔ یوں پورا خطہ شدید کشیدگی اور بالآخر جنگ کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔ ایسی کوئی بھی صورت حال بدھ انتہا پسندوں یا مسلمان جنگجوئوں کے لیے تو موزوں ہوسکتی ہے، انسانیت کے لیے ہرگز نہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ آنگ سانگ سوچی جیسی شخصیات اپنے اندر ہمت پیدا کریں اور صورت حال کا سامنا کرتے ہوئے یہ اعلان کریں کہ قتل و غارت بہت ہوچکی۔ اب اس صورت حال کا کوئی موزوں اور پرامن حل تلاش کیا جانا چاہیے۔ نفرتوں کو ختم کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ بڑھانے کی۔ ایسے حالات میں جن شخصیات کو سامنے آنا چاہیے انہیں سامنے آنا ہی ہوگا۔ اگر انہوں نے اپنی ذمہ داریاں پوری نہ کیں تو صورت حال مزید بگڑے گی اور قتل و غارت کا ایسا سلسلہ بھی شروع ہوسکتا ہے جس سے بچنا خطے کے لیے ممکن نہ ہو۔
“A bigot, a coward, and a Nobel Laureate”. (“bdnews24.com”. June 21, 2015)
Leave a Reply