امریکی نظامِ تعلیم پر کاری ضرب

امریکا کی ورجینیا یونیورسٹی میں دل دہلا دینے والے واقعہ نے ساری دنیا میں غم و اندوہ کی لہر دوڑا دی، ایک مایوس طالب علم نے ۳۲ ساتھی طلبہ اور پروفیسر کو ہلاک کر کے تاریخ کی بد ترین مثال قائم کی اور ساتھ ہی طلبہ برادری میں غیر یقینی کیفیت پیدا کر دی۔ اس کے علاوہ امریکی نظام میں پائی جانے والی کئی خامیاں بھی سامنے آگئی ہیں۔ سپر پاور ملک میں ایک ایسا واقعہ جس کا تصور بھی محال ہے، یقینا سبھی کے لیے تشویشناک امر ہے۔ اسے ایک اتفاقی سانحہ قرار نہیں دیا جا سکتا بلکہ تمام پہلوئوں سے ان امور کا جائزہ لینا ضروری ہے جو طلبہ اورپروفیسر کی ہلاکت کا موجب بنے۔ اس واقعہ کے پسِ پردہ محرکات کی بھی تحقیقات ہونی چاہیے۔ ان سب کے علاوہ سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ امریکا میں اس طرح کے واقعات عام ہونے کے اسباب بھی معلوم کیے جانے چاہییں، کیونکہ یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی ایسے کئی واقعات پیش آئے ہیں اور اب بش انتظامیہ کو نظم ونسق کے حوالے سے حقیقت پسندی سے جائزہ لیتے ہوئے اس کے تدارک کے لیے ٹھوس اقداما ت کرنے ہوں گے۔ اس واقعہ نے امریکی نظام تعلیم اور اس کے بلند بانگ دعوئوں کی قلعی کھول دی۔ کیونکہ یہاں کے نظامِ تعلیم میں اخلاقیات کو بالکل اہمیت نہیں دی جاتی، اشتراکیت اور مادّیت پسندی یہاں کے معاشرہ پر اس قدر غالب ہے کہ اخلاقی قدریں بالکل مفقود ہو کر رہ گئی ہیں۔ امریکی معاشرتی نظام کو صرف دولت کی بنیاد پر فروغ دیا گیا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس وقت امریکا اخلاقی طور پر تیزی سے روبہ زوال ہے۔ یہاں طالب علم اسکول و کالج کو صرف اس لیے آتے ہیں کہ انھیں حصول تعلیم کے بعد روزگار ملے۔ وہ اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کرنے یا پھر اخلاقیات کا درس حاصل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ اس معاملہ میں مشرقی تہذیب امریکا کے لیے ایک مثال ہے اور اس آئینہ میں اسے اپنی تصویر واضح طور پر دکھائی دے گی۔ لیکن امریکا اس خام خیالی میں مبتلا ہے کہ اس کا تعلیمی نظام ہی درست ہے چنانچہ وہ دیگر ممالک پر بھی اپنا تسلط قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس نظام میں پائی جانے والی خامیوں کو دور کیا جاتا۔ اس کے برعکس دنیا بھر میں سرمایہ دارانہ پالیسی کو فروغ دیتے ہوئے

ایک ایسا ماحول تیار کیا جا رہا ہے جہاں اخلاقیات کی کوئی اہمیت نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر شخص اپنے مفادات کو عزیز رکھتا ہے اور اسے خود اپنے قریبی عزیز واقارب یہاں تک کہ معمر والدین تک کی کوئی فکر نہیںہوتی۔ ہندوستان میں جہاں اب بھی مشرقی تہذیب کا غلبہ ہے اس کے اثرات پورے طور پر مرتب نہیں ہوئے لیکن اس حقیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ ہمارا ملک بھی تیزی سے اخلاقی قدریں کھو رہا ہے۔ نئے معاشی نظام کے اثرات تعلیمی شعبہ پر بھی مرتب ہو رہے ہیں اور تعلیم صرف ایک تجارت بن کر رہ گئی ہے۔ اگر کوئی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی خواہش رکھتا ہے تو اسے پہلے خوب اپنی تعلیم پر سرمایہ کاری کرنی ہوگی اور جواب میں اسے ایک بہتر عہد ہ یا پرکشش تنخواہ ملک سکتی ہے۔ چنانچہ طبی شعبہ اس کی ایک بہترین مثال ہے، جہاں اب انسانی خدمت کے جذبہ کے تحت نہیں بلکہ کسی مریض کا علاج تجارتی بنیادوں پر کیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود ہندوستانی روایات میں اخلاقیات کو نمایاں اہمیت حاصل ہے، چھوٹے بڑوں کا ادب، ہمدردی، حسنِ سلوک کے ذریعہ ہی ایک انسان کی پہچان ہوتی ہے اور یہی وہ خوبیاں ہیں جو ایک انسان کو ممتاز بناتی ہیں۔اگر کوئی ان اخلاقی خوبیوں سے عاری ہے تو اس کا وجود ہی دنیا کے لیے بوجھ بن جائے گا۔ امریکا کی یونیورسٹی میں جو کچھ ہوا یہ ثبوت ہے کہ ایک طالب علم نے محض اپنی مایوسی پر دوسروں کی جان لے لی۔ یہ واقعہ اس لیے بھی باعثِ تشویش ہے کہ ہندوستانی پروفیسر اور ایک طالب علم کی بھی فائرنگ میںجان چلی گئی۔ فائرنگ کرنے والے کا تعلق جنوبی کوریا سے ہے۔ اس یونیورسٹی میں مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے طلبہ موجود ہیں اور اس واقعہ نے طلبہ برداری میں تشویش پیدا کر دی ہے امریکا میں جہاں ہر سال تقریباً تیس ہزارافراد اس طرح کی فائرنگ کے واقعات میں ہلاک ہوتے ہیں اور یہ دنیا میں واحد ملک ہے جہاں ہر گھر میں ہتھیار پائے جاتے ہیں۔ اس واقعہ کے بعد کم از کم امریکا کو تعلیمی پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ جب تک طلبہ کواخلاقیات کی تعلیم نہ دی جائے تب تک صحت مند معاشرہ قائم نہیں ہو سکتا۔ امریکی معاشرہ اندر سے کھوکھلا ہو چکا ہے اسے اخلاقیات کے معاملہ میں مشرقی تہذیب کو اپنانا ہو گا۔ ساتھ ہی اخلاقیات کو زندگی کا جزو لاینفک بنا نا ضروری ہے اس ضمن میں ماہرینِ تعلیم اور دانشوروں کو آگے آنا ہوگا کیونکہ کسی بھی تعلیمی نظام میں خامیوں کو دور نہ کیا جائے تو اس کے اثرات سارے معاشرے پر مرتب ہوتے ہیں۔ اب جب کہ دنیا گلوبل ولیج میں تبدیل ہو چکی ہے۔ یہ اثرات کسی ایک ملک پر نہیں بلکہ ساری دنیا میں محسوس کیے جارہے ہیں۔ا س لیے اب یہ کسی ایک ملک کا نہیں بلکہ سب کا مشترکہ مسئلہ ہے اور اس ضمن میں فی الفور اقدامات نا گزیر ہیں تبھی ترقی کے فوائد سے عوام حقیقی معنوں میں مستفید ہو سکیں گے۔

(بشکریہ: روزنامہ ’’سیاست‘‘ حیدرآباد دکن)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*