
سرکاری سطح پر دیکھیے تو یہ محض کاروبار ہے۔ کسی بھی مافیا مووی میں آپ کو ایسے کسی بھی معاملے میں عمومی رویہ کاندھے اچکانے والا ملے گا۔ قاہرہ میں گیس فراہم کرنے والی ایک کمپنی نے عدم ادائیگی پر اسرائیل کی ایک کمپنی کو قدرتی گیس فراہم کرنے سے انکار کرتے ہوئے معاہدہ ختم کردیا۔ کاروبار میں تو ایسا ہوتا ہی رہتا ہے۔ مگر گیس فراہمی کے ایک معاہدے کی تنسیخ کو مصر اور اسرائیل کے درمیان سیکورٹی ایشو کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ دونوں ممالک کی سرحد پر کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ ایسے میں ایک گیس معاہدہ کا منسوخ کردیا جانا بہتوں کے نزدیک تشویش میں مبتلا کردینے والی بات ہے۔ اسرائیل کے لیے مصر بہت اہم ہے۔ یہ عرب دنیا کا سب سے بڑا ملک ہی نہیں بلکہ واحد ملک ہے جس نے اسرائیل کے خلاف جنگ چھیڑی اور جس کی مدد کے بغیر کوئی بھی اسرائیل پر لشکر کشی کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ ۳۳ سال قبل دونوں ممالک نے امریکا میں کیمپ ڈیوڈ کے مقام پر سیکورٹی اور تعاون کے معاہدے پر دستخط کیے۔ یہ معاہدہ اب تک اسرائیل کے لیے تحفظ کی حقیقی ضمانت ثابت ہوا ہے۔ مصر میں گزشتہ برس کے عوامی انقلاب اور حسنی مبارک کے اقتدار کے خاتمے کے ساتھ ہی اسرائیل سے سیکورٹی کا معاہدہ بھی قدرے غیر موثر دکھائی دینے لگا۔ مگر گیس کا معاہدہ اب زیادہ نمایاں ہوکر سامنے آیا ہے۔
ایک اسرائیلی افسر کے نزدیک گیس کے معاہدے کی تنسیخ علامتی حیثیت رکھتی ہے۔ کہنے کو یہ ایک معاہدے کی تنسیخ ہے مگر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مصری اب اسرائیلیوں کے ساتھ تجارت کرنا نہیں چاہتے۔ وہ دوستی اور اشتراکِ عمل سے دور جارہے ہیں۔ اسرائیلیوں کے لیے سب سے زیادہ مایوس کن بات یہ ہے کہ گیس کے معاہدے کو تنسیخ سے بچانے کے لیے مصری فوج نے مداخلت نہیں کی۔ حسنی مبارک کے بعد مصر کا نظم و نسق سنبھالنے والے جرنیل اسرائیل سے تعلقات کو بچانے کے لیے ہر مرحلے پر آگے آئے اور کسی بھی ایسی ویسی بات کو ہونے سے روکا مگر اب وہ بھی پیچھے ہٹ گئے ہیں اور اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ مصر میں اسرائیل مخالف لہر نقطۂ عروج پر ہے اور صدارتی انتخابات میں چند ہفتے باقی ہیں۔ ایسے میں دور ہٹ کر تماشا دیکھنے کو ترجیح دی جارہی ہے۔
کاروبار کے نقطۂ نظر سے دیکھیے تو ہر فریق کے پاس دلائل ہیں۔ ایجپشین نیچرل گیس ہولڈنگ کمپنی کے چیئرمین محمد شعیب نے روزنامہ المصرالیوم کو بتایا کہ معاہدہ دراصل شرائط کی خلاف ورزی پر ختم کیا گیا ہے۔ تمام ادائیگیاں وقت پر نہیں کی جارہی تھیں۔ اسرائیل میں ایسٹرن میڈیٹیرینین گیس کمپنی کہتی ہے کہ ایک سال کے دوران پائپ لائن سے جب گیس گزاری ہی نہیں گئی تو ادائیگی کس بات کی کریں؟ حسنی مبارک کے اقتدار سے الگ ہونے کے بعد شر پسندوں نے صحرائے سینائی سے گزرنے والی گیس پائپ لائن کو ۱۴ مرتبہ دھماکے کے ذریعے نقصان سے دوچار کیا۔ جہاں جہاں سے پائپ لائن گزرتی ہے، سیکورٹی کا مسئلہ سنگین ہوگیا ہے۔ ایک اسرائیلی شراکت دار تو مصری کمپنی پر مقدمہ دائر کرنے کی تیاری بھی کر رہا ہے۔
یہ گیس پائپ لائن محض گیس کی ترسیل کا ذریعہ نہیں۔ اسرائیل اور مصر کے تعلقات کی مستحکم نوعیت ثابت کرنے کے لیے پائپ لائن کا وجود لازم ہے۔ صحرا کے سینے پر پھیلی ہوئی یہ پائپ لائن دونوں ممالک کے درمیان بہتر تعلقات کی نمایاں علامت ہے۔ ویسے تو مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں اسرائیلی سفارت خانہ بھی ہے مگر اسے بہرحال ہر وقت خطرہ لاحق رہتا ہے۔ اسرائیلی سفارت خانہ ایک بلند عمارت میں ہے مگر چھ ماہ قبل مشتعل مصریوں کے ایک گروہ نے سفارت خانے پر دھاوا بول دیا تھا۔ تب سے اب تک اسرائیل اپنے سفیر اور سفارتی عملے کے لیے متبادل اور محفوظ عمارت حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اسرائیلی سفارت کار اب اپنا بیشتر وقت اسرائیل میں گزارتے ہیں۔
مصر میں قدرتی گیس تقسیم کرنے والی کمپنی جینکو گروپ کے صدر تیمر ابوبکر کہتے ہیں کہ مصر میں اسرائیل مخالف جذبات کی لہر خاصی تیز ہے۔ ایسے میں معاہدہ ختم کرنے کا محض بہانہ ڈھونڈا گیا ہے۔ مصری اسرائیل کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ ان کی نظر میں کیمپ ڈیوڈ معاہدہ معاملات کو معمول پر لانے کی ایک قدرے سرد سی سفارتی دستاویز کے سوا کچھ نہیں۔ اس معاہدے کے پچیس سال بعد گیس پروجیکٹ کو لوگ حسنی مبارک کے کرپٹ دور کا شاخسانہ اور سرد پڑتے ہوئے سفارتی اور دیگر تعلقات کو نیا جوش و جذبہ دینے کی ایک سبیل کے سوا کچھ نہیں سمجھتے۔ حسنی مبارک کے عزیز دوست اور ایسٹ میڈیٹیرینین گیس کمپنی کے ایک بڑے شیئر ہولڈر حسین سالم کو گزشتہ برس اس معاہدے میں مرکزی کردار ادا کرنے پر ان کی غیر موجودگی میں سزا سنائی گئی۔ اسپین نے حسین سالم کو جون میں گرفتار کیا اور اب اسے مصر کے حوالے کرنے پر رضامندی ظاہر کرچکا ہے۔
گیس معاہدے کے مندرجات نے مصری عوام کو شدید تکلیف سے دوچار کیا۔ حکومت نے مارکیٹ ریٹ سے بھی کم نرخ پر گیس اسرائیل کو فراہم کرنے کا معاہدہ کیا یعنی مصری عوام کے منہ کا نوالہ چھین کر چند پیٹ بھرے لوگوں کے منہ میں ڈال دیا گیا۔ اس معاہدے سے چند بڑی کاروباری شخصیات کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کی گئی۔ تیمر ابو بکر کا کہنا ہے کہ جس انداز سے گیس اسرائیل کو بیچی گئی وہ درست نہ تھا اور اس پر عوام کو ناراضی کا اظہار تو کرنا ہی تھا۔ محسوس کیا جارہا ہے کہ اسرائیل کو گیس فروخت کرنے کے لیے کسی بِچولیے کی ضرورت نہ تھی۔ مصری حکومت براہ راست بھی ڈیل کرسکتی تھی اور اسے نرخ بھی بہتر ملتے۔
گیس معاہدہ منسوخ ہونے کی خبر سے اسرائیل میں ہلچل مچ گئی۔ عبرانی زبان کے روزناموں نے اس تبدیلی کے خطرناک نتائج سے آگاہ کرنے میں بھی دیر نہیں لگائی۔ روزنامہ ’’اسرائیل ہایوم‘‘ میں ہیزی اسٹرنلٹ نے لکھا کہ ’’گیس معاہدہ منسوخ کیا جانا اس جانب اشارہ ہے کہ اب ہمیں اپنے وسائل کی حدود میں رہتے ہوئے زندگی بسر کرنا چاہیے۔ گیس معاہدے کی تنسیخ ایسی لہر ہے جس میں سرد خانے کی نذر کیا جانے والا امن معاہدہ بھی بہہ گیا‘‘۔
مصر میں اسرائیل کے حوالے سے جو تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں ان کے ثبوت تلاش کرنے کے لیے زیادہ محنت کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔ مصر کے مفتیٔ اعظم علی جمعہ (Ali Gomaa) نے گزشتہ ماہ مسجد اقصٰی کا دورہ کیا۔ انہوں نے ۱۹۶۷ء میں اسرائیل کے قبضے میں چلے جانے والے علاقوں کا دورہ نہ کرنے کی اپیل بھی مسترد کردی تھی۔ یہ اپیل مصری عوام نے کی تھی۔ ایک اسرائیلی افسر کا کہنا ہے کہ جب مصر کے عوام اسرائیل کے زیر تصرف مقدس مقامات کی سیر کو بھی درست نہیں سمجھتے تو سوچیے کہ اسرائیل سے کاروبار کرنا کس طور گوارا کریں گے؟ مصر کے مسلمانوں نے قبطی عیسائیوں سے بھی اپیل کی کہ وہ ایسٹر کے موقع پر بیت اللحم جانے سے گریز کریں۔ اسرائیلی اب خود کو بحیرۂ احمر کے ان تفریحی مقامات پر بھی محفوظ نہیں سمجھتے جو اُن کے لیے خاصے پُرسُکون رہے ہیں۔
اسرائیل میں کچھ لوگوں نے امریکا سے کہا ہے کہ وہ کیمپ ڈیوڈ معاہدہ (۱۹۷۹ء) بچانے کے لیے مداخلت کرے۔ مصر میں اسرائیل کے خلاف نفرت بڑھتی جارہی ہے مگر اس کے باوجود دوستی کا معاہدہ برقرار ہے۔ مصر میں صدارتی انتخاب پر بہت کچھ منحصر ہے۔ چند امیدواروں کو نا اہل قرار دیے جانے سے مصر کی سیاست میں خاصی ہلچل پیدا ہوگئی ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مصر کی فوج نے گیس معاہدے کو تنسیخ سے بچانے کے لیے کوئی کردار ادا کرنے سے شاید اس لیے گریز کیا کہ وہ کوئی بھی ایسا ویسا قدم اٹھاکر مزید متنازع نہیں بننا چاہتی۔
(“A Cancelled Gas Deal… Between Egypt and Israel”… “Time”. April 23rd, 2012)
Leave a Reply