
اکتیس مارچ نائیجیریا کی جمہوریت کے لیے ایک زبردست دن تھا۔ یہ ۵۳ رکنی دولتِ مشترکہ کے لیے بھی ایک اچھا دن تھا۔ اُس دن نائیجیریا میں رائے دہندگان نے جمہوری طریقے سے اپنے ووٹ کی طاقت کے ذریعے اپنے صدر کو تبدیل کر دیا اور گُڈلک جوناتھن کی برسرِ اقدار حکومت نے ایسا ہونے دیا۔
جمہوریت اور ترقی دولتِ مشترکہ کے کام کے دو ستون ہیں۔ ان میں سے جو بھی مضبوط ہوگا، بحیثیت مجموعی دولتِ مشترکہ کی مضبوطی کا باعث بنے گا۔ اس طرح اپنے رُکن ممالک اور دنیا کی نظر میں دولتِ مشترکہ کو زیادہ اخلاقی قوت حاصل ہوگی۔
نائیجیریا میں جو کچھ بھی ہو، وہ دولتِ مشترکہ میں اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ یہ افریقا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے جس میں تقریباً ۱۷؍ کروڑ لوگ بستے ہیں۔ ۵۱۰ کھرب ڈالر کے جی ڈی پی کے ساتھ یہ افریقا کی سب سے بڑی معیشت ہے۔ جبکہ دنیا کی بڑی معیشتوں میں اس کا نمبر چھبیسواں ہے۔
یہ بات اب سب کو معلوم ہے کہ سابق فوجی حکمران محمدُو بُہاری نائیجیریا میں صدارتی انتخاب جیتنے والے حزبِ اختلاف کے پہلے رہنما بن چکے ہیں۔ یہ بات قابلِ قدر ہے کہ ووٹوں کی حتمی گنتی سے بھی پہلے، جوناتھن نے بُہاری کو ٹیلی فون پر مبارکباد دی اور اپنی شکست تسلیم کرلی۔ اس انداز میں ٹیلی فون کرکے اپنی ہار قبول کر لینے کی روایت زیادہ تر ممالک میں معمولی بات ہے، لیکن نائیجیریا میں یہ اتنی منفرد مثال ہے کہ نائیجیریا کی کئی قابلِ احترام شخصیات نے گُڈلک جوناتھن کے اس عمل کو سراہا۔ ان شخصیات میں سابق سربراہِ ریاست عبدالسلامی ابوبکر اور دولتِ مشترکہ کے سابق سیکرٹری جنرل امیکا اینیائوکو بھی شامل ہیں۔ عبدالسلامی ابوبکر نے اس بات کی نشاندہی کی کہ ملک کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ ہارنے والے امیدوار نے اپنے مقابل امیدوار کو فون کر کے صدارتی انتخابات میں اپنی شکست تسلیم کی ہو۔
اس انداز میں اپنی شکست تسلیم کرکے جوناتھن نے نائیجیریا کو بڑے پیمانے پر تشدد اور بدامنی کا شکار ہونے سے بچا لیا ہے۔ کئی مبصرین کو خدشہ لاحق تھا کہ انتخابات کے نتیجے میں یہ سب کچھ ہو سکتا ہے۔ اگر بدامنی پیدا ہوتی تو اس سے نائیجیریا کی معیشت کو مزید دھچکا لگتا۔ تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے نائیجیریا کی معیشت پہلے ہی لڑکھڑا رہی ہے کیونکہ تیل ہی اس کی معیشت کے لیے آمدنی کا اصل ذریعہ ہے۔ ملکی افواج جو لڑائی بوکو حرام کے خلاف لڑ رہی ہیں، بدامنی کے نتیجے میں وہ مزید پیچیدہ ہو جاتی۔ بوکو حرام ایک شورش پسند اور متشدد گروہ ہے جو اَب مشرقِ وسطیٰ میں موجود داعش کے ساتھ علانیہ الحاق کر چکی ہے۔ بوکو حرام نائیجیریا میں ہزاروں لوگوں کو قتل کر چکی ہے، لاکھوں لوگ اس کی وجہ سے اندرونی اور بیرونی طور پر بے گھر ہوچکے ہیں، سیکڑوں طالبات اغوا کی گئی ہیں۔ ایک وقت تو ایسا آیا جب بوکو حرام کے قبضے میں نائیجیریا کا بیلجیم کے رقبے جتنا علاقہ آگیا تھا۔
۱۹۶۰ء میں برطانیہ سے حاصل کی جانے والی آزادی کے بعد سے نائیجیریا مسلسل فوجی بغاوتوں اور فوجی حکومتوں کے تسلط کا شکار رہا ہے۔ سویلین حکمرانی کے ادوار ۱۹۶۰ء سے ۱۹۶۶ء، ۱۹۷۹ء سے ۱۹۸۳ء اور ۱۹۹۹ء سے ۲۰۱۵ء تک رہے ہیں۔ یہ عرصہ، آزادی کے بعد کے دور کا نصف سے بھی کم بنتا ہے۔ جنرل بُہاری نے خود بھی ۱۹۸۳ء میں ایک فوجی بغاوت کی قیادت کی تھی۔ انہوں نے ۳۱ دسمبر ۱۹۸۳ء سے ۲۷ اگست ۱۹۸۵ء تک فوجی کونسل کے سربراہ کی حیثیت سے حکومت کی۔ اُس کے بعد فوج میں موجود دیگر عناصر نے انہیں بھی معزول کر دیا۔ اس دفعہ کے انتخابات میں سویلین حکومتوں اور لوگوں کی رائے کے احترام کا جو مظاہرہ ہوا ہے، وہ نائیجیریا کی غیر مستقل مزاج تاریخ میں ایک منفرد موقع ہے۔ منظم طریقے سے حکومت کی حالیہ تبدیلی کا خیر مقدم کرنے کی یہ بھی بہت بڑی وجہ ہے۔
رواں سال کے اوائل میں لندن میں بات کرتے ہوئے جنرل بہاری نے ۱۹۸۳ء میں اپنے اقتدار پر قبضے کا تذکرہ کیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ اب ایک بدلے ہوئے جمہوریت پسند ہیں۔ وہ جمہوریت کے اصولوں پر قائم رہنے اور انہیں بر قرار رکھنے کے لیے پُرعزم ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جمہوریت کی عالمگیر فتح سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ تبدیلی لانے کا ایک دوسرا اور قابلِ ترجیح راستہ موجود ہے۔ یہ وہ اہم سبق ہے جو میں نے اُس وقت سے یاد رکھا ہوا ہے اور یہ سبق ابھی برِاعظم افریقا میں بھلایا نہیں گیا ہے۔
انہوں نے عمومی طور پر جمہوریت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ انتخابات کے بغیر آپ ایک نمائندہ جمہوریت قائم نہیں کر سکتے، لیکن انتخابات کے معیار پر نظر رکھنا بھی ضروری ہے۔ یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ محض انتخابات کا انعقاد ہی جمہوریت کا قیام نہیں ہوتا۔ اس بات پر دنیا بھر میں اتفاق ہے کہ جمہوریت کوئی واقعہ نہیں بلکہ یہ ایک سفر ہے۔ اس سفر کی منزل جمہوری استحکام ہے۔ یعنی ایک ایسی ریاست کا قیام جہاں جمہوریت کی جڑیں گہری ہو چکی ہوں اور وہ ایک معمول کی شے بن چکی ہو اور تمام کردار اسے تسلیم کرتے ہوں۔
جمہوریت کی قدر اور اس کو برقرار رکھنے کی اہمیت پر جنرل بُہاری کا کہنا تھا کہ یہ بات بہت زیادہ اہم ہے کہ لوگوں سے کیا گیا جمہوریت کا وعدہ، انہیں آزادانہ اپنے رہنما منتخب کر لینے کی آزادی دینے تک محدود نہ ہو۔ بلکہ جمہوریت لوگوں سے کیے گئے انتخاب، آزادی، جان و مال کی سلامتی، شفافیت اور جوابدہی، قانون کی بالادستی، اچھی حکمرانی اور مشترکہ خوشحالی کے وعدوں کو بھی پورا کرے۔ یہ بہت اہم ہے کہ جمہوریت کے تصور میں پوشیدہ، مجموعی طور پر لوگوں کو بہتر زندگی مہیا کرنے کا وعدہ محض ایک وعدہ ثابت نہ ہو۔
بُہاری کے پاس اب موقع ہے کہ وہ اپنے وعدوں کو پورا کرکے جمہوریت کی وسیع تر اہمیت کو واضح کریں۔ جمہوریت کے وہ ثمرات، جن کی نشاندہی انہوں نے خود کی ہے، نائیجیریا کے لوگوں تک پہنچائیں۔
یہ یقین رکھنا بے جا نہ ہوگا کہ عہدۂ صدارت پر فائز ہونے کے بعد، بُہاری جمہوری راہ پر گامزن رہنے کی اپنی مقدور بھر کوشش ضرور کریں گے۔ اُن کی آبائی ریاست کڈونا میں ان کا طرزِ زندگی کافی سادہ ہے۔ دیگر سیاسی رہنماؤں اور ان کے درمیان یہ ایک بہت بڑا فرق ہے۔ لندن میں بات کرتے ہوئے انہوں نے اپنے فوجی دورِ حکمرانی میں آمریت کی ذمہ داری قبول کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں ماضی کو تبدیل نہیں کر سکتا۔ لیکن میں حال اور مستقبل بدل سکتا ہوں۔ آپ کے سامنے ایک سابق فوجی حکمران اور تبدیل شدہ جمہوریت پسند ہے جو جمہوری اقدار کے زیرِ سایہ کام کرنے کو تیار ہے۔
ان تمام دعوئوں کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے بُہاری کے سامنے ایک بڑا اور کٹھن ہدف ہے۔ ملک کے زرِمبادلہ کے ذخائر انتہائی کمی کا شکار ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو تیل کی گرتی ہوئی قیمت ہے لیکن برے پالیسی فیصلوں کا بھی اس میں ہاتھ ہے۔ اتنی بڑی معیشت ہونے اور کئی دہائیوں سے تیل کا اہم برآمدی ملک ہونے کے باوجود، نائیجیریا کا انفرااسٹرکچر بہت کمزور ہے اور آبادی کے بڑے حصے کو پانی اور بجلی مہیا کرنے میں ناکام ہے۔ بوکو حرام کی جانب سے لاحق سیکورٹی خطرات بھی ایک بڑا چیلنج ہیں۔
ان تمام مسائل سے نپٹنے کے لیے جنرل بُہاری کو یہ فائدہ حاصل ہے کہ وہ اب ایک عوامی ووٹوں سے منتخب شدہ رہنما ہیں۔ انہیں نہ صرف اپنے مسلمان حمایتیوں بلکہ عیسائی برادری کی تائید بھی حاصل ہے۔ چونکہ وہ ووٹ کی طاقت سے اقتدار میں آئے ہیں، اس لیے انہیں نائیجیریا کے باشندوں کی اکثریت اور بین الاقوامی برادری کی پشت پناہی حاصل ہے۔ اگر وہ اپنے جمہوریت کے وعدے پر جمے رہتے ہیں تو وہ اپنے اس خواب کی تکمیل کر سکتے ہیں جس کا ذکر انہوں نے لندن میں کیا تھا۔ یعنی ایک ایسے نائیجیریا کا قیام جسے اقوامِ عالم میں دوبارہ قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے اور جس پر تمام نائیجیریائی باشندوں کو فخر ہو۔
ایک جمہوری انتخاب پہلا قدم تھا۔ اس انتخاب کا بہت کچھ سہرا چوکس انتخابی مبصر گروپوں کے سر بھی جاتا ہے۔ یہ واقعہ نائیجیریا کی قسمت بدلنے میں کارگر ثابت ہو سکتا ہے۔
(مترجم: طاہرہ فردوس)
“A changing tide in Nigeria’s fortunes?”. (“jamaicaobserver.com”. April 5, 2015)
Leave a Reply