
راجا بازار سے متصل راولپنڈی کی ’’چائنا مارکیٹ‘‘ میں رات گئے تک خریداروں کا رش رہتا ہے۔ بھانت بھانت کی اشیا سے دکانیں ایسی لدی ہیں کہ تھکے ماندے خریداروں کے لیے چلنے کی بھی جگہ نہیں۔ اعلیٰ برانڈ کے دستی بیگ کی خریدار ایک خاتون یہ جَتا کر دکاندار سے بھاؤ تاؤ کررہی ہے کہ برانڈ اصلی نہیں ہے تو قیمت بھی کم ہونی چاہیے، جبکہ دکاندار کا کہنا ہے کہ یہ ’’پہلی نقل‘‘ (First Copy) ہے جس کی قیمت پہلے ہی بہت کم رکھی گئی ہے۔ لیکن خاتون کو کافی رعایت مل ہی جاتی ہے۔ اعلیٰ اقسام کی پُرتعیش اشیا کو اپنی قوتِ خرید کے مطابق پاکر پاکستانی درمیانے طبقے کے خریدار چینی مارکیٹ کے بہت شکر گزار ہیں۔ ایک دکاندار کے بقول اب ہمارا متوسط طبقہ بھی ’’اسٹائل‘‘ کے ساتھ زندگی گزار سکتا ہے۔ پہلے جن اشیا کو لوگ ٹی وی اور فلموں ہی میں دیکھا کرتے تھے، انہیں اب خریدا جاسکتا ہے۔ تاہم ظاہر ہے کہ یہ ان اشیا کی نقول ہیں، اصل نہیں۔
دکانداروں کو یہ بات قطعاً پریشان نہیں کرتی کہ وہ نقلی مصنوعات بیچ رہے ہیں۔ بلکہ وہ اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ انہوں نے نئے دنیاوی رجحانات کو متوسط طبقے کی دسترس میں پہنچا دیا ہے۔ البتہ وہ یہ ضرور مانتے ہیں کہ اس کا خراج کسی اور کو ادا ہونا چاہیے۔ وہ کھلے دل سے تسلیم کرتے ہیں کہ اگر چین نے پاکستانی منڈیوں میں قدم نہ رکھا ہوتا تو گزشتہ دہائی میں ملکی دکانداروں کی یوں چاندی نہ ہوتی اور نہ ہی روزگار کے اتنے مواقع پیدا ہوتے۔ چین نے پاکستان میں جو نیا تجارتی رجحان متعارف کرایا، اس سے نہ صرف نچلے اور درمیانے طبقے کے خریداروں کا فائدہ ہوا بلکہ چھوٹے دکاندار بھی اس حد تک پھلے پھولے، جس کا وہ پہلے صرف خواب ہی دیکھ سکتے تھے۔ بیرون ملک سفر پہلے محض بڑے تاجروں کا ہی استحقاق تھا جو زیادہ تر مغربی ممالک جاتے تھے، مگر اب چھوٹے دکاندار بھی خود بیرون ملک جاکر مصنوعات خرید سکتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ویزا آسانی سے ملتا ہے۔ سفر، رہائش اور طعام بھی مغربی ممالک کا طرح مہنگا نہیں اور سامان تھوک کے بھاؤ خریدا جائے تو وطن واپس آکر بیچنا نہایت سستا پڑتا ہے۔
پاکستانی تاجر زیادہ تر شنگھائی سے ۳۰۰ کلومیٹر جنوب میں واقع صوبے جیانگ (Zhejiang) کے ایوو (Yiwu) شہر کا رخ کرتے ہیں، جو اقوام متحدہ کے بقول دنیا میں ’’چھوٹی مصنوعات کی سب سے بڑی تھوک منڈی‘‘ ہے۔ لاہور کی لبرٹی مارکیٹ میں موبائل فون کے پرزے فروخت کرنے والے ایک تاجر کے بقول بِکری اور سرمائے کی آمد و رفت مناسب رہے تو آپ ہر ہفتے چین جاسکتے ہیں۔ یہ سب کیسے ممکن ہوا؟ پاکستانی تاجر بآسانی چین جاکر مصنوعات کیسے لارہے ہیں؟ پورے پاکستان میں ’’میڈ اِن چائنا‘‘ مصنوعات سستے داموں اتنی وافر تعداد میں کیسے دستیاب ہیں؟ ان سوالات کا جواب ۲۰۰۷ء میں ہونے والے پاک، چین آزادانہ تجارت کے معاہدے (FTA) میں پنہاں ہے۔
پشاور کے کارخانو بازار کو سویرے دیکھیں تو وہاں کھڑی گاڑیوں کی تعداد خریداروں سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ ذرا دوپہر ڈھلے تو خریداروں کا رش اژدحام میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ خیبر ایجنسی سے کچھ فاصلے پر پشاور کے مضافات میں واقع یہ بازار لگ بھگ ایک کلومیٹر طویل ہوگا، مگر یہاں ہونے والے سستے سودوں کی مثال پاکستان بھر میں اور کہیں نہیں ملتی۔ سودے بازی کے پرانے رواج کے مطابق یہاں ہر کوئی قسم کھا کر سودا کرتا ہے۔ جتنا زیادہ بازار میں آپ گھومیں گے، اتنا ہی سستا سودا ہونے کا امکان ہے۔ یہی چیز چمکتی دمکتی دکانوں کے بجائے یہاں ہونے والے بھاری بھرکم لین دین کی وجہ بنتی ہے۔ جرمن اشیا سے لے کر روسی مصنوعات تک، یہاں ہر وہ چیز سستے داموں دستیاب ہے جو پاکستان میں قانونی راستے سے نہیں لائی جاتی۔ اب یہاں نیا ریلا چینی مصنوعات کا آیا ہے۔ ٹیلی ویژن، کھلونے، آرائش کا سامان، کمبل، کپڑے، موسیقی کے آلات، گھڑیاں، جوتے، برتن، ٹائلز اور نہ جانے کیا کیا۔
’’پائیداری‘‘ وہ لفظ ہے جو یہاں سب سے زیادہ سننے میں آتا ہے۔ یہ سوال بھی ہوتا ہے کہ چین ہمیں وہ مصنوعات کیوں نہیں بھیجتا جو وہ امریکا بھیجتا ہے۔ مغربی مصنوعات کی پائیداری کو یاد کرنے والے پاکستانیوں کا شِکوہ یہی ہے کہ چینی اشیا زیادہ نہیں چلتیں۔ دوسرا فرق یہ ہے کہ مغربی مصنوعات اسمگل کرکے لائی جاتی تھیں، جبکہ چینی اشیا قانونی طریقے سے یہاں پہنچتی ہیں۔ ۱۹۴۹ء سے باہمی تجارت کرنے والے پاکستان اور چین نے پہلا دو طرفہ معاہدہ ۱۹۶۳ء میں کیا، پھر بھی ۲۰۰۳ء تک دونوں کی تجارت محض ایک ارب ڈالر ہی رہی۔ اس کے برعکس ۱۹۹۰ء میں تجارتی روابط قائم کرنے والے بھارت اور چین کی تجارت ۷۵؍ ارب ڈالر سے تجاوز کرچکی ہے۔ ۲۰۰۰ء تک تو تجارت کا حجم اس سے بھی کم تھا۔ آئی ایم ایف کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ۱۹۶۰ء میں پاک، چین تجارت کا حجم ایک کروڑ ۸۰ لاکھ ڈالر تھا جو ۱۹۷۷ء تک ۱۰؍کروڑ ڈالر سے کچھ اوپر ہوا اور ۱۹۸۰ء میں کہیں جاکر ۴۰ کروڑ ۱۰ لاکھ ڈالر ہوسکا۔
تجزیہ کار اس سست روی کی وجہ پاکستان کے بجائے چینی معیشت کو قرار دیتے ہیں۔ مرکز برائے تزویراتی مطالعات اسلام آباد (Institute of Strategic Studies Islamabad – ISSI) کے سینئر تحقیق کار احمد راشد ملک کے بقول ’’چین ایک اشتراکی ملک تھا جس کی معیشت حکومت کے ہاتھ میں تھی، یہاں تک کہ ۱۹۷۸ء میں ڈینگ زیاؤپنگ نے حکومت سنبھال کر معیشت کو عالمی اقتصادیات سے ہم آہنگ کرنے کا کام شروع کیا۔‘‘ وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ چین نے برآمدات پر نفع ۱۹۸۰ء کی دہائی سے کمانا شروع کیا جب امریکی، یورپی اور جنوب مشرقی ایشیائی کمپنیوں نے انتہائی کم پیداواری لاگت کی وجہ سے وہاں کا رخ کیا۔ مغرب کے مقابلے میں چین کی پاکستان کے ساتھ تجارت پھر بھی بہت کم رہی جو کہ ۲۰۰۰ء تک محض ۸۰ کروڑ ۸۰ لاکھ ڈالر تھی، حالانکہ دونوں ملکوں کے سفارتی اور عسکری تعلقات شاندار تھے۔
چینی تاجروں کے ساتھ قریبی روابط رکھنے والے لاہور کے تاجر شہزاد اعظم خان اشتراکی چین کے بجائے کھلی منڈیوں کے حامل مغربی ممالک کی طرف پاکستان کے جھکاؤ کو اس کی وجہ قرار دیتے ہیں۔ ان کے بقول ’’بے نظیر بھٹو جیسے پاکستانی رہنما ’مشرق کی طرف دیکھنے کی بات تو کرتے رہے، مگر چین کے ساتھ اقتصادی روابط بڑھانے کی کوشش کسی نے نہیں کی۔‘‘ لہٰذا چین کے ساتھ معاشی تعلقات مستحکم کرنے کی خواہش دلوں اور کاغذوں میں ہی رہی اور پاکستانی تاجر امریکا اور یورپ کے ساتھ لین دین کرتے رہے۔ چینیوں کی توجہ بھی مستحکم معیشت رکھنے والے ملکوں کے امیر باشندوں کی طرف تھی، لہٰذا وہ بھی پاکستان کی طرف نہ آئے۔ شہزاد خان کہتے ہیں کہ ’’سست رو پاکستانی معیشت ایسا کچھ بھی پیدا نہیں کررہی تھی جو چینی صنعت کاروں یا خریداروں کی توجہ کا مرکز بنتا، نہ ہی یہاں کی منڈی اتنی بڑی تھی جو بڑے پیمانے پر پیداوار دینے والے چینی تاجروں کے لیے پُرکشش ہوتی۔‘‘
اس کے باوجود گزشتہ پندرہ برس میں چینی مصنوعات کی پاکستانی بازاروں میں ریل پیل ہوجانا باعثِ حیرت ہے۔ توازن چین کے حق میں ہی سہی، لیکن پچھلے سال دونوں ملکوں کی تجارت ۱۶؍ارب ڈالر تک جاپہنچی جوکہ ۲۰۰۷ء میں ہونے والے ایف ٹی اے سے پہلے ہی تقریباً ۷؍ارب ڈالر اور ۲۰۱۳ء میں ۱۴؍ارب ڈالر ہوگئی تھی، جس کے بعد چین پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار بن گیا۔ دونوں حکومتوں کے خیال میں ۲۰۲۰ء تک یہ حجم ۲۰؍ارب ڈالر ہوجائے گا، لیکن راشد ملک جیسے تجزیہ کار اس سے بھی زیادہ برق رفتار ترقی کی امید کررہے ہیں۔
۱۹۸۰ء اور ۱۹۹۰ء کی دہائی میں بھی ایسا نہیں تھا کہ چینی مصنوعات کی پاکستان تک رسائی نہ ہو۔ ۱۹۸۰ء کی دہائی میں پاکستان سے جڑے مسلم اکثریتی چینی صوبے سنک یانگ کے مسلمان حج کے لیے پاکستان کے راستے نکلتے تو مصنوعات ساتھ لاتے تھے۔ پھر افغان تجارتی راہداری کے نام پر دبئی اور خنجراب پاس کے راستے چینی اشیا آنے لگیں اور یہ سلسلہ ۲۰۰۰ء تک جاری رہا، یہاں تک کہ پاکستانی تاجروں کے احتجاج پر حکومت اس طرف متوجہ ہوئی۔ لاہور کے تاجر انجم نثار کے مطابق ان کے کاروبار کو چینی مصنوعات کی اسمگلنگ سے سخت خطرہ لاحق ہوگیا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ چینی اشیا قانونی طریقے سے پاکستان آنے لگیں۔ انجم نثار کہتے ہیں کہ ’’۲۰۰۰ء کے بعد پھر دو طرفہ تجارت میں تیزی سے اضافہ ہوا‘‘۔ پھر کچھ برس بعد ہونے والے ایف ٹی اے نے سونے پہ سہاگہ کردیا۔
ایوان ہائے صنعت و تجارت لاہور کے صدر اعجاز ممتاز بتاتے ہیں کہ ’’پنجاب کے تاجروں کے لیے پشاور جاکر اسمگل شدہ اشیا لینے سے کہیں زیادہ آسان یہ رہا کہ وہ چین جاکر خریداری کریں۔ لہٰذا اب افغان تجارتی راہداری کے ذریعے چینی مصنوعات کی پاکستان آمد ختم ہوچکی ہے۔‘‘ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کراچی کی بندرگاہ چینی اشیا کی درآمد کا راستہ بن گئی اور پشاور کا کارخانو بازار اپنی افادیت کھو بیٹھا۔ ایف ٹی اے کے بعد پاک، چین سرحد پر بہت سے درآمدی ٹیکس ختم ہوئے اور غیر محصولاتی رکاوٹیں بھی دور ہوئیں۔ نتیجتاً پاکستانی بازاروں میں ہر طرف سستی چینی اشیا دکھائی دینے لگیں اور ان مصنوعات کے لیے مختص شاپنگ مال تک قائم ہوگئے، جس کی ایک مثال راولپنڈی کی ’’چائنا مارکیٹ‘‘ بھی ہے۔ یہ بازار چینی اشیا کے خریداروں سے بھرا رہتا ہے اور یہیں کے ایک دکاندار کے بقول ’’اب لاہور اور فیصل آباد کے لوگوں کو اپنے گھر سجانے اور بیٹیوں کا جہیز جمع کرنے کی خاطر چینی مصنوعات خریدنے کے لیے پشاور نہیں جانا پڑتا‘‘۔
کچھ سال قبل لاہور اور شیخوپورہ کے درمیان واقع ٹائلز بنانے والی ایمکو انڈسٹریز نے اپنا کام بند کرکے ۵۰۰ ملازمین کو فارغ کردیا۔ فیکٹری کے عہدیدار عبدالوحید اس کی وجہ بازار میں چینی ٹائلوں کی بھرمار کو قرار دیتے ہیں جن کی قیمت مقامی ٹائلوں کی پیداواری لاگت سے بھی کم ہے۔ عبدالوحید کے بقول ’’چینی پیداوار کنندگان نے تقریباً ۷۰ فیصد مارکیٹ پر قبضہ کرلیا ہے اور ہمارے لیے زیادہ پیداواری لاگت کے باعث ان سے مقابلہ کرنا ممکن نہیں رہا۔‘‘ کراچی کے ایک صنعت کار کے مطابق چینی تاجر اور پاکستانی درآمد کنندگان قیمتیں کم رکھنے کے لیے غیرقانونی ذرائع استعمال کررہے ہیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ چین میں اجرت اور نقل و حمل کا خرچہ بڑھتا جارہا ہے، مگر پاکستان میں چینی ٹائلوں کی قیمت گرتی جارہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ’’چینی ٹائلوں کی درآمدی قیمت ۲۰۱۱ء میں ۵۷ء۴ ڈالر فی اسکوائر میٹر تھی جو ۲۰۱۳ء میں ۵۱ء۲ ڈالر رہ گئی۔‘‘ یہ معجزہ کیسے ہوا، یہ بات پاکستانی تجارتی حکام کے لیے بھی معمہ بنی ہوئی ہے۔ تاہم صنعت کاروں کا دعویٰ ہے کہ اس سے ٹائلوں کی ۴۰؍ارب روپے کی پاکستانی صنعت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔
ایف ٹی اے کے وقت پاکستانی صنعت کاروں میں سے کسی نے شاید ایسا نہیں سوچا تھا۔ اسلام آباد میں بیٹھے افسران کا خیال تھا کہ اس سے پاکستانی پیداوار کنندگان کو اپنے پڑوس میں ہی ایک ارب سے زائد خریدار میسر آجائیں گے اور فی الواقع ایسا ہوا بھی۔ کیونکہ پاکستانی برآمدات جو ۲۰۰۸ء میں ایک ارب ڈالر تھیں وہ اگلے پانچ سال میں تین ارب ڈالر سے زائد ہوگئیں۔ لیکن اس کے باوجود چینی منڈی میں پاکستانیوں کا حصہ بہت تھوڑا ہے۔ اس کے برعکس ایف ٹی اے کے بعد چینی مصنوعات اور صنعتی خام مال کی بھرمار نے پاکستانی پیداوار کنندگان کا ناطقہ بند کردیا۔ لاہور چیمبر کے صدر بتاتے ہیں کہ مغربی منڈیوں کے لیے چین ہمیشہ ضرورت سے زیادہ پیداوار کرتا ہے، تمام سودے ہوجانے کے بعد جو اشیا بچ جاتی ہیں، انہیں تقریباً ٹھکانے لگانے کے انداز میں پاکستانی منڈیوں میں پھینک دیا جاتا ہے۔ اس سے ہماری صنعتیں بند ہورہی ہیں اور سچ پوچھیں تو ہمارا کام ایک طرح سے تمام ہوچکا ہے۔
پاکستانی صنعت اور برآمد کنندگان پر اس ایف ٹی اے کے اثرات کا جائزہ لینے والے ایک سابق سفارت کار کی تحقیق بتاتی ہے کہ اس سے چینی درآمدات پر حکومت کو ملنی والی آمدنی کم ہوگئی، جبکہ برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ ہی نہیں ہوسکا۔ پاکستان اس معاہدے سے فائدہ ہی نہیں اٹھا سکا جس کی بنیادی وجہ بھاری پیداواری لاگت، توانائی کا بحران اور مشرقی ایشیائی تاجروں کو چین میں ملنے والی رعایتیں ہیں۔ نتیجتاً پاکستان ایف ٹی اے سے محض پانچ فیصد ہی فوائد حاصل کرسکا، جبکہ چین نے ۶۰ فیصد فائدہ اٹھایا ہے۔ معاہدے کے بعد متوقع براہ راست چینی سرمایہ کاری بھی کم از کم اب تک تو نظر نہیں آئی۔ ۲۰۰۷ء کے بعد سے پاکستان میں زونگ کے نام سے کام کرنے والی چائنا موبائل کمپنی کے سوا، کسی چینی کمپنی نے قابل ذکر سرمایہ کاری نہیں کی۔ معاہدے کے بعد پانچ سال تک پاکستانی کپڑے اور مچھلیوں کی برآمدات پر محصولاتی چھوٹ دینے کا وعدہ بھی بیجنگ وفا نہیں کرسکا۔
اس پر مستزاد وہ پاکستانی تاجر ہیں جو کاغذوں میں اپنی درآمدات انتہائی کم ظاہر کرکے رعایتی ٹیکس بھی بچالیتے ہیں۔ پاکستان بزنس کونسل کے مطابق سال ۲۰۱۳ء میں ایسے تاجروں نے اپنی درآمدات ۴۲ء۳؍ارب ڈالر تک کم ظاہر کیں جو کہ چینی دعوے کے مطابق ۰۲ء۱۱؍ارب اور پاکستانی حکام کے مطابق ۶ء۷؍ارب ڈالر تھیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان اعداد و شمار کا یہ تضاد الیکٹرونکس اور الیکٹرک کی اشیا، مشینری، لوہا، فولاد، کیمیکل، پلاسٹک، فائبر، کیمیائی کھاد اور ربر کی تجارت میں سامنے آیا۔ اس گورکھ دھندے نے پاکستان میں ٹائر بنانے والوں کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ ۵۰ سالہ قدیم جنرل ٹائر کمپنی کے ایک عہدیدار کا دعویٰ ہے کہ اگر حکومت اس غلط بیانی کا سدباب کردے تو ان کی کمپنی کی مالیت بہت کم عرصے میں موجودہ مالیت سے تین گنا یعنی ۲۵؍ارب روپے ہوسکتی ہے۔ اعداد و شمار بھی ان کے مؤقف کو درست ثابت کرتے ہیں، کیونکہ پاکستان درآمد کیے جانے والے تقریباً ۵۵ فیصد ٹائر چین سے آرہے ہیں، جن کی مالیت ۴۰ فیصد تک کم ظاہر کی جارہی ہے۔
اس صورت حال سے نالاں تاجروں نے ایک نئی حکمت عملی ایجاد کی ہے کہ اگر آپ چینیوں کا مقابلہ نہیں کر پارہے تو ان کے ساتھ شامل ہوجائیں۔ ایسے تاجر اب چین جاکر پیداوار کررہے ہیں، جہاں اس کی لاگت بہت کم ہے۔ جوتے بنانے والی سروس انڈسٹریز کے چیف ایگزیکٹیو افسر عمر سعید نے بتایا کہ انہوں نے ۲۰۰۳ء میں چین کا رخ کیا، کیونکہ وہاں یہ کام بہت بڑے پیمانے پر ہوتا ہے اور لاگت ۲۰ فیصد تک کم ہے اور صرف سروس ہی نہیں، بلکہ جوتے بنانے والی پاکستان کی تمام قابل ذکر صنعتیں چین منتقل ہوگئی ہیں، کیونکہ عمر سعید کے بقول وہاں نہ صرف پیداواری لاگت کم ہے، بلکہ جو اشیا یہاں جگہ جگہ سے لینی پڑتی ہیں، وہ چین میں ایک ہی جگہ دستیاب ہیں۔ اس حکمت عملی نے انفرادی طور پر تاجروں کو تو نفع پہنچایا، مگر پاکستانی معیشت کے لیے بدترین ثابت ہوئی۔ عمر سعید کا اندازہ ہے کہ صرف جوتا سازی کی صنعت میں ہی کم از کم ۲۰،۰۰۰ ملازمتیں چین منتقل ہوگئیں۔
تاجروں کو یہ بھی شکوہ ہے کہ اسلام آباد سے چینی سرمایہ کاروں کو مخصوص منصوبوں کے لیے رعایتیں مل جاتی ہیں جس سے مقامی صنعت تباہ ہورہی ہے۔ فاسٹ کیبلز کے ڈائریکٹر کمال امجد میاں مثال دیتے ہیں کہ بہاولپور میں ۱۰۰۰؍میگاواٹ کے شمسی توانائی منصوبے کے لیے سیکڑوں کلومیٹر تار درکار تھا جس سے مقامی صنعت کو دائمی فائدہ ہوتا، کیونکہ چینی سرمایہ کار بھاری ٹیکس ادا کرکے چین سے تار منگوانے کے بجائے مقامی طور پر ہی تار خریدتے، لیکن حکومت نے صرف اس منصوبے کے لیے ٹیکس ختم کردیا اور بہانہ یہ بنایا کہ مقامی صنعتیں طلب پوری کرنے میں دیر لگاتی ہیں۔
لاہور میں سید نبیل ہاشمی کی باغات میں کام آنے والی پلاسٹک سے بنی اشیا کی فیکٹری ہے جو چند سال پہلے تک تباہی کے خطرے سے دوچار تھی۔ انہوں نے پلاسٹک کی صنعت پر قبضہ کرتے چین کا مقابلہ کرنے کی ٹھانی اور پیداواری لاگت کم کرکے مقامی منڈی سے چینی مصنوعات کا صفایا کردیا۔ کچھ دیگر تاجروں نے ایک نیا راستہ اپنایا۔ انہوں نے مقابلے کے بجائے چینیوں کو ترغیب دی کہ وہ پیداوار پاکستان میں ہی کریں۔ ہائر پاکستان کے ڈائریکٹر شاہ فیصل آفریدی رائیونڈ کے قریب ۳۰۰؍ایکڑ پر قائم ’’ہائر رُوبا معاشی زون‘‘ کے نگران بھی ہیں، جس کا افتتاح چینی صدر ہو جنتاؤ نے نومبر ۲۰۰۶ء میں کیا۔ چین کے ہائر گروپ اور پاکستانی گروپ روبا کے اشتراک سے قائم یہ علاقہ چین سے باہر بیجنگ کے منظور شدہ آٹھ اقتصادی خطوں میں سے ایک ہے، جہاں پیداوار کرنے کے لیے چینی کمپنیوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔
۲۰؍اپریل ۲۰۱۵ء کو جب چینی صدر شی جن پنگ پاکستان آئے تو فیصل آفریدی کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا، کیونکہ چین نے پاکستان میں مواصلات اور توانائی کے شعبے میں ۴۶؍ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا، جس میں اگلے ۱۵؍برس کے دوران کاشغر کو گوادر سے ملانے والی پاک چین اقتصادی راہداری (CPEC) بھی شامل ہے۔ اس اعلان کے بعد شاہ فیصل نے بہت سے چینی اعلیٰ حکام اور کمپنی سربراہوں سے ملاقاتیں کیں جو پاکستان میں صنعتیں لگانے میں دلچسپی رکھتے تھے، اور اب وہ لاہور، اسلام آباد موٹر وے کے ساتھ ۲۰۰۰ سے ۵۰۰۰؍ایکڑ زمین خرید کر اپنے صنعتی زون کو وسعت دینے کی فکر میں ہیں تاکہ وہاں مزید ۱۰۰؍چینی کمپنیاں پیداوار کرسکیں۔ شاہ فیصل ۲۰۰۰ء کی دہائی کے آغاز سے چینیوں کے ساتھ شراکت داری کررہے ہیں اور انہیں امید ہے کہ جیسے جیسے راہداری منصوبہ آگے بڑھے گا، چینی سرمایہ کاری بھی بڑھتی چلی جائے گی۔ ہائر جیسی چینی کمپنیوں کے ساتھ شراکت نے انہیں اعتماد بخشا ہے اور وہ اگلے سال تک کار اور موبائل سیٹ بنانے والی چینی کمپنیوں کو مدعو کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
حکومت کی جانب سے چینیوں کے مقابلے میں نظرانداز کیے جانے کا شکوہ کرنے والے پاکستانی تاجروں کے برعکس شاہ فیصل سمجھتے ہیں کہ چینی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کا یہ بہترین وقت ہے۔ ان کے نزدیک سست معاشی ترقی، بڑھتی ہوئی پیداواری لاگت اور مزدوروں کی کمی چینیوں کو دیگر ممالک کا رخ کرنے پر مجبور کررہی ہے اور پاکستان اس لحاظ سے ان کی اولین منزل ہوسکتا ہے۔ ان کا اصرار ہے کہ راہداری منصوبے کے بعد بہت سی چینی کمپنیاں پاکستان آنے پر غور کررہی ہیں اور یہ وقت انہیں زیادہ رعایتیں دینے کا ہے، نہ کہ ان میں کمی کرنے کا۔ ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ چینیوں کے دل میں جو جگہ پاکستان کے لیے ہے، وہ کسی اور کے لیے نہیں۔ اس ضمن میں وہ ہائر گروپ کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ مغربی کمپنیوں کے برعکس چینی ہمیں ٹیکنالوجی منتقل کرنے میں ذرا نہیں ہچکچاتے۔ مگر دیکھا جائے تو ٹیکنالوجی کی یہ منتقلی مفت کا تحفہ نہیں ہے بلکہ اس کے بدلے ہائر گروپ نے پاکستانی بازاروں میں قدم جماتے ہوئے خود کو یہاں کا تیسرا بڑا الیکٹرانک برانڈ بنالیا ہے۔
بیجنگ کے معروف بازار میں ایک پاکستانی اپنے تین ہم وطنوں کے ساتھ داخل ہوا تو دکاندار خاتون کا استقبال والہانہ تھا۔ اس نے پاکستانیوں سے اپنی دلی محبت کا اظہار کرتے ہوئے انہیں زبردست رعایت دینے کا اعلان کیا اور پاکستانی اپنے تھیلے مصنوعات سے بھرتے چلے گئے۔ کچھ دیر بعد انہیں احساس ہوا کہ اتنی رعایت تو سبھی خریداروں کو حاصل ہے، تو چینی لڑکی نے یاد دلایا کہ اس کا وعدہ چیزیں سستی دینے کا تھا، مفت نہیں۔ اب جو پاکستانیوں نے حساب لگایا تو عقدہ کھلا کہ اتنی چیزیں تو وہ لاہور میں اس سے کہیں کم قیمت پر خرید سکتے تھے۔ یہ کہانی بھی محبت کی دیگر داستانوں سے مختلف نہیں۔ یہاں زیادہ تر پاکستانی تصوراتی امیدیں لگائے ہوئے ہیں تو بیشتر چینیوں کی نظریں سیاسی و معاشی فوائد پر ہیں۔ ’’ہمالیہ سے اونچی، سمندروں سے گہری اور شہد سے زیادہ میٹھی‘‘ اس ’’ہر موسم کی دوستی‘‘ کو بیان کرنے والے ایسے الفاظ سنجیدہ تجزیے کے لیے گنجائش کم ہی چھوڑتے ہیں۔
امریکا میں جرمن مارشل فنڈ کے ایشیا پروگرام سے منسلک اینڈریو اِسمال نے The China-Pakistan Axis: Asia’s new geopolitics نامی معتبر کتاب لکھی ہے، اور وہ اس مبالغہ آمیز زبان پر حیران نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ویسا اتحاد نہیں ہے جس میں دو ملکوں کے مابین دفاعی معاہدے ہوتے ہیں، یہ ’’اعتبار پر مبنی‘‘ ایک رشتہ ہے جو کئی دہائیوں کا آزمایا ہوا ہے۔ کچھ اہم معنوں میں یہ کسی رسمی اتحاد سے بھی بڑھ کر ہے۔ ان کے نزدیک یہ بات بھی غلط ہے کہ یہ یک طرفہ رشتہ ہے جس میں پاکستان ہمیشہ طلب گار رہتا ہے، اگر ایسا ہوتا تو یہ تعلق داری قائم ہی نہ رہتی۔ ہاں پاکستان نے زیادہ فائدہ اٹھایا کیونکہ چین معاشی، عسکری، سفارتی اور تکنیکی اعتبار سے کہیں آگے تھا، مگر چین کی طرف سے یہ محض خیرسگالی کا مظاہرہ نہ تھا بلکہ ان فوائد کے عوض اس نے خطے اور اس سے باہر بھی اپنے تزویراتی مفادات کو فروغ دیا۔
اقتصادی راہداری کو اینڈریو اسی لیے اتنا اہم قرار دیتے ہیں کیونکہ اس سے دونوں ممالک کو واضح فائدہ ہوگا۔ اس منصوبے کے اقتصادی فوائد پاکستان کی طرف جاتے نظر آرہے تھے، مگر اب چین کے سیاسی، تجارتی اور تزویراتی مفادات بھی بہت نمایاں ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ بیجنگ میں اس بات کا ادراک ہونا ہے کہ ’’چین کے مشرقی ایشیا کی علاقائی طاقت سے عالمی طاقت بننے کے سفر میں پاکستان اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔‘‘ اینڈریو کے نزدیک چین اگر پاکستان کے ساتھ اس حد تک اقتصادی و تجارتی تعاون کرنا چاہ رہا ہے تو اس کی وجوہات بھی سمجھ میں آنے والی ہیں۔ بحران کے وقت میں پاکستان جیسے قابلِ بھروسا ساتھی اس کے پاس کم ہیں۔ برما اور سری لنکا سے جتنی امیدیں لگائی گئیں، وہ ان پر پورے نہیں اتر سکے۔ گوادر تک اقتصادی راہداری کا پہنچنا اور بحری سہولیات کا میسر آنا چین کے معاشی اور تزویراتی عزائم کے لیے ناگزیر ہے۔
۲۰۰۹ء میں شنگھائی میں پاکستانی قونصل جنرل رہنے والے سابق بینکر ڈاکٹر ظفرالدین محمود دونوں ملکوں میں وقت گزارتے ہیں اور پاکستانی اور چینی کمپنیوں کو مشاورت بھی فراہم کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اقتصادی راہداری چین کے لیے تجارتی اور تزویراتی، دونوں زاویوں سے اس حد تک ضروری ہے کہ بیجنگ اس کی تکمیل کے لیے پاکستان کو نرم قرضے دینے پر بھی آمادہ ہے۔ راہداری کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ چینی سرمایہ کاری کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اس کے ثمرات پاکستان کے سماجی شعبے تک بھی پہنچیں گے، جن میں گوادر میں اسپتال اور تعطیلاتی تربیتی مراکز کا قیام بھی شامل ہے۔
چینی سخاوت سے فائدہ اٹھانے کے لیے پاکستان پہلے ہی بہت کچھ کرچکا ہے۔ یہ ۱۹۵۰ء میں چین کو تسلیم کرکے اگلے ہی برس سفارتی تعلقات قائم کرنے والا پہلا مسلم اور تیسرا غیر اشتراکی ملک تھا اور اس کے بعد سے آج تک بین الاقوامی فورمز پر مسلسل چین کی حمایت کررہاہے۔ یہی نہیں، پاکستان نے ۱۹۷۲ء میں امریکی صدر رچرڈ نکسن کا دورئہ بیجنگ ممکن بناکر دونوں ملکوں کو قریب لانے میں بھی اہم کردارا دا کیا۔ پاکستانی دفتر خارجہ کے ایک رکن نے گم نام رہنے کی شرط پر بتایا کہ ’’تائیوان کے معاملے پر اقتصادی ناکہ بندی ہو یا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل نشست کا حصول، ہم ہر کڑے وقت میں بیجنگ کے ساتھ کھڑے رہے۔ صدر شی جن پنگ نے حالیہ دورئہ اسلام آباد کے دوران پارلیمان سے خطاب میں ان سب باتوں کا اعتراف بھی کیا‘‘۔
چین میں پاکستان کے سابق سفیر اور ISSI کے سربراہ مسعود خان بھی سرکاری نقطۂ نظر کے حامی ہیں۔ ان کے بقول چین نے تزویراتی، معاشی اور سفارتی سطحوں پر پاکستان کی بھرپور مدد کی، مگر یہ کوئی احسان نہیں تھا۔ وہ دلیل دیتے ہیں کہ پاکستان کو عسکری اور تکنیکی امداد دینا چینی قیادت کی طرف سے اس سفارتی حمایت کا شکریہ ہے جو ’’ہر کڑے مرحلے‘‘ پر اسلام آباد نے بیجنگ کو فراہم کی۔
۲۰۰۹ء میں پاکستان، چائنا انسٹی ٹیوٹ (پی سی آئی) قائم کرنے والے پاکستانی سیاست دان مشاہد حسین سیّد اس بیانیے میں تاریخی اور جغرافیائی پہلو بھی شامل کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ معاملہ ۱۹۵۰ء میں نہیں بلکہ ۲۵۰۰ سال قبل شروع ہوا، جب ٹیکسلا میں بدھوں کی درس گاہ سے نکلنے والے چینی دانشور اور بھکشو بدھا کی تصویر کشی اور مجسمہ سازی کے نت نئے طریقے سیکھ کر جاتے تھے۔ اسی زمانے میں چین سے چائے اور ریشم اس خطے میں آنا شروع ہوئی اور یوں چین اور مغرب کے درمیان ایک پل قائم ہوگیا۔
لیکن اینڈریو اس طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کہ پاک، چین تعلق داری کو مستحکم بنانے میں بھارت کا عنصر بھی کارفرما رہا۔ دونوں ممالک ۱۹۶۲ء کی چین، بھارت جنگ کے بعد قریب آئے اور پاکستان نے چین کو بھارت کی طاقت کا توڑ سمجھنا شروع کردیا۔ اسلام آباد نے فوراً بیجنگ کے ساتھ سرحدی تنازع حل کیا اور معاشی تعاون کے دوطرفہ معاہدے پر دستخط ہوگئے۔ مشاہد حسین کے مطابق ’’جب واشنگٹن نے چین کے خلاف بھارت کو عسکری مدد فراہم کی تو پاکستانی قیادت کو دھچکا لگا اور ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو نے چین کی طرف بڑھنے کا فیصلہ کیا۔ ۱۹۶۵ء کی جنگ کے بعد ایک اور مرحلہ آیا، جب امریکیوں نے تو پاکستان پر فوجی پابندیاں عائد کیں، لیکن بیجنگ نے اسلام آباد کو مکمل سفارتی و عسکری مدد فراہم کی۔ اس سے بالکل واضح ہوگیا کہ ہمارا سچا دوست کون تھا‘‘۔
۱۹۶۲ء کے بعد پاکستانی عوام پر چین کا اثر و رسوخ اتنا بڑھا کہ جب ۱۹۶۴ء میں وزیراعظم چو این لائی پاکستان آئے تو لوگوں نے ان کی گاڑی کو کندھوں پر اٹھالیا۔ پاکستانی سیاست پر بھی چین کا خاطر خواہ اثر ہوا۔ لاہور میں مقیم بائیں بازو کے دانشور عزیز الدین احمد کہتے ہیں کہ ’’۱۹۵۰ء اور ۱۹۶۰ء کی دہائی میں اشتراکی تحریروں پر پابندی تھی، مگر چین، بھارت جنگ کے بعد چینی اشتراکی ادب، کتابیں اور رسالے ہر طرف نظر آنے لگے اور پاکستان میں بائیں بازو کی سیاست کو گویا ایک جواز مل گیا‘‘۔ سوویت یونین کی طرف دیکھنے والی بائیں بازو کی سیاسی جماعتیں بھی تقسیم ہوگئیں اور نیشنل عوامی پارٹی اور نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں بھی سوویت نواز اور چین نواز گروپ بن گئے۔ عزیز الدین احمد کے بقول ’’یہ تقسیم ۱۹۷۰ء میں ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ہونے والے مزدور کنونشن میں واضح تھی، جب ہجوم نے چین نواز مولانا عبدالحمید بھاشانی کو سوویت نواز فیض احمد فیض سے کہیں زیادہ سراہا، حالانکہ دونوں ایک ہی اسٹیج پر بیٹھے ہوئے تھے‘‘۔
پاکستانی سیاست میں چینی اثر و رسوخ ۱۹۷۰ء میں اپنے عروج پر آگیا، جب ذوالفقار علی بھٹو کی جانب سے زیب تن کیے جانے والے ماؤ کیپ اور ماؤ کوٹ فیشن بن گئے۔ کم سے کم ایک موقع پر تو پوری بھٹو کابینہ ایک تصویر میں ماؤ کوٹ پہنی نظر آئی۔ ۱۹۷۰ء کی دہائی میں ہی چین نے اپنی مختلف جامعات میں اردو کی تدریس کا انتظام کیا اور لکھاریوں، طلبہ، صحافیوں اور سیاسی کارکنوں کے وفود آنے جانے لگے۔ اس دہائی میں ہوش سنبھالنے والی پود کو چینی ماہنامہ ’’چین باتصویر‘‘ ضرور یاد ہوگا جو متوسط طبقے کے ہر گھر میں دکھائی دیتا تھا۔ ۱۹۷۱ء میں ۱۷؍برس کی عمر میں پہلی دفعہ چین جانے والے مشاہد حسین سید کے بقول ’’بھٹو نے چینی ثقافت کو پاکستانی سیاست میں شامل کردیا تھا اور وہ اپنے عوامی خطبات میں ماؤ پر تفصیل سے بات کیا کرتے تھے۔‘‘
۱۹۷۷ء میں ضیاء الحق نے بھٹو کا تختہ الٹا تو یہ عنصر کم ہونے لگا۔ تاہم عزیز الدین احمد کے نزدیک چینی اثرات پائیدار تھے ہی نہیں، کیونکہ دونوں ملکوں نے عوامی رابطوں اور ثقافتی تعلقات کو مضبوط بناکر مشترکہ ثقافتی اقدار تشکیل ہی نہیں دیں۔ تقریباً لادین چین اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مابین بدھ مت کا بھولا بسرا تعلق بھی بظاہر کسی کام کا نہیں تھا، لسانی رکاوٹیں اس پر مستزاد تھیں، جبکہ دونوں ملکوں کے درمیان ہجرت کا بھی کوئی تاریخی پس منظر نہیں تھا۔ روایتی طور پر ہم لوگ افریقا، یورپ، امریکا اور مشرق وسطیٰ جانا پسند کرتے ہیں، مگر چین جانا نہیں۔ پھر اگر پاکستان میں چینی ثقافت کبھی کبھار کی ریڈیو نشریات، زبان سیکھنے کی محدود تربیت، مساج پارلرز اور چینی کھانوں کے نام پر دیسی کھانے کھلانے والے ریستورانوں تک سمٹ جائے تو تعجب کی کوئی بات نہیں۔
مسعود خان سمجھتے ہیں کہ دونوں ملک ان رکاوٹوں کو دور کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ زبان کا مسئلہ حل ہورہا ہے، پاکستانی طلبا چین جارہے ہیں اور صحافیوں، دانشوروں اور فنکاروں کے تبادلۂ وفود میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ پی سی آئی کے اعداد و شمار کی رُو سے امریکا کے مقابلے میں چین میں زیادہ پاکستانی زیر تعلیم ہیں جن میں طب، انجینئرنگ اور دیگر مضامین پڑھنے والے کم و بیش ۱۰؍ہزار طلبہ شامل ہیں۔ پی سی آئی کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر مصطفی حیدر سید بتاتے ہیں کہ ملازمت، تعلیم اور سیاحت کے لیے اب پہلے سے زیادہ چینی پاکستان کا رخ کررہے ہیں اور صرف اسلام آباد کی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں ہی ۲۰۰ سے ۳۰۰ چینی طلبہ پڑھ رہے ہیں۔ پھر بھی مسعود خان اعتراف کرتے ہیں کہ دونوں ملکوں کو اس ضمن میں مزید کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ سفارتی، سیاسی، معاشی اور عسکری تعلقات کا عکس عوامی روابط پر بھی نمایاں ہوسکے۔ ’’نی ہاؤ۔ سلام‘‘ نامی دو زبانی الیکٹرانک رسالے کے بیجنگ میں مقیم مدیر محمد عارف اس سست روی کا ذمہ دار پاکستانی حکام کو ٹھہراتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کی ساری توجہ سیاسی و فوجی تعلقات پر ہے، اور حالیہ برسوں میں ثقافتی روابط بڑھانے کی ساری کوششیں صرف چین کی طرف سے کی گئیں۔
مشاہد حسین سید کا دعویٰ ہے کہ سیاسی و جماعتی اختلافات بالائے طاق رکھ کر جن تین چیزوں پر سارے پاکستانی متفق ہوسکتے ہیں، وہ جوہری پروگرام، مسئلۂ کشمیر اور چین سے دوستی ہیں۔ اور یہ تینوں باہم مربوط بھی ہیں۔ پاکستان نے بھارت کی وجہ سے فوجی قوت میں اضافے اور جوہری بم بنانے کا ارادہ کیا، جس کے ساتھ تنازع کی بنیادی وجہ کشمیر ہے اور چین نے پاکستان کو جوہری و روایتی ہتھیار ایسے وقت میں فراہم کیے، جب کوئی دوسرا ملک ایسا کرنے پر آمادہ نہیں تھا۔ مشاہد حسین بتاتے ہیں کہ ۱۹۶۶ء سے ۱۹۸۰ء تک چین نے پاکستان کو عسکری ساز و سامان بلامعاوضہ دیا۔ ٹیکسلا میں قائم ہیوی انڈسٹریز کمپلیکس ۱۹۸۰ء کی دہائی تک چین کے فراہم کردہ الخالد ٹینک کی مرمت کے لیے استعمال ہوتا رہا، جسے بعد میں جدید اسلحہ ساز فیکٹری بنایا گیا۔ کامرہ میں پاکستان ایروناٹیکل کمپلیکس بھی پاک، چین دوستی کی درخشاں مثال ہے، جہاں جے ایف۔۱۷؍تھنڈر جیسا جنگی جہاز تیار کیا گیا۔ گزشتہ عرصے میں یہ فوجی تعاون بڑھتا ہی رہا ہے۔ اسٹاکہوم تحقیقی مرکز برائے بین الاقوامی امن (SIPRI) کے مطابق پاکستان کو اسلحہ فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک چین ہے، جس کا تقریباً ۴۷ فیصد اسلحہ پاکستان خریدتا ہے۔
عسکری و غیر عسکری مقاصد کے لیے جوہری تعاون بھی زوروں پر رہا۔ اینڈریو بتاتے ہیں کہ ’’۱۹۸۰ء کی دہائی کے اوائل میں ایٹم بم کے لیے اور اس دہائی کے اواخر اور ۱۹۹۰ء کی دہائی کے شروع میں میزائل ٹیکنالوجی کے لیے تعاون کیا گیا۔ غیر عسکری سطح پر بھی چین وہ واحد ملک ہے جو نیوکلیر سپلائرز گروپ کی پابندیوں کے باوجود پاکستان میں جوہری توانائی کے مزید پلانٹس لگانے پر راضی ہے۔‘‘ بیجنگ میانوالی کے قریب چشمہ کے مقام پر ایک پلانٹ لگاچکا ہے، جبکہ چشمہ اور کراچی میں مزید پلانٹس لگانے پر غور جاری ہے۔ تزویراتی تعلقات میں بیجنگ کو پاکستانی سیاسی و عسکری قیادت پر ایسی برتری حاصل ہے جو سوائے سعودی عرب کے گزشتہ تین دہائیوں کے دوران کسی کے حصے میں نہیں آئی۔ لاہور میں مقیم ایک تجزیہ کار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس بات سے اتفاق کیا کہ ’’مغربی اتحادیوں کے برعکس چینی دوست خاموشی سے کام کرتے ہیں اور اسلام آباد انہیں مایوس نہیں کرتا۔‘‘ کچھ پاکستانی تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ اس چینی اثر و رسوخ کو امریکا نے بھی دہلی اور کابل کے ساتھ اسلام آباد کی کشیدگی دور کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ ایک تجزیہ کار کے بقول چین خطے میں استحکام اور دہشت گردوں کی سرکوبی کے لیے پاکستان اور افغانستان کی بھرپور مدد کرتا رہتا ہے۔
کچھ مبصرین کے نزدیک جنرل پرویز مشرف نے ۲۰۰۷ء میں چین کے ایما پر ہی اسلام آباد میں لال مسجد آپریشن شروع کیا، کیونکہ وہاں کی طالبات نے ایک بیوٹی پارلر پر چھاپہ مار کر چینی خواتین کو یرغمال بنالیا تھا۔ مشاہد حسین کہتے ہیں کہ پاکستان چین کی بات سنتا ضرور ہے، مگر ہر بات مان لینے کا تاثر درست نہیں۔ ان کے بقول ’’چین نے نازک مواقع پر اسلام آباد کو مخلصانہ اور دوستانہ مشورے دیے، مثلاً ۱۹۷۱ء میں فوج کشی کے ذریعے اپنے ہی لوگوں کو دور نہ کرنے کا مشورہ اور ۱۹۹۹ء میں کارگل سے واپسی کا مشورہ۔ چین یہ بھی چاہتا ہے کہ پاکستان اصولی مؤقف ترک کیے بغیر بھارت کے ساتھ کشیدگی کم کرکے معاشی ترقی پر توجہ مرکوز کرے۔‘‘ دیگر عالمی طاقتوں کی طرح چین پاکستان پر اپنی بات تھوپتا تو نہیں ہے مگر کچھ معاملات پر تیزی کے ساتھ پیش رفت کا خواہاں ہے۔ وہ پاکستان میں پنپنے والے غیر ریاستی عناصر سے بھی غافل نہیں رہ سکتا اور اسی لیے پاکستانی معیشت کے استحکام کا خواہاں ہے۔
گزشتہ ایک دہائی کے دوران پاکستان میں کام کرنے والے چینی باشندوں پر خیبرپختونخوا، قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں حملے ہوچکے ہیں۔ چینی انجینئرز کو اغوا کیا گیا اور مزدور قتل بھی کیے جاچکے ہیں۔ جون ۲۰۱۳ء میں پاکستان کے لیے سخت ہزیمت کا باعث بننے والے ایک حملے میں نیم فوجی اہلکاروں کی وردی میں ملبوس دہشت گردوں نے نانگا پربت کے دامن میں تین چینیوں سمیت متعدد غیر ملکی سیاحوں کو قتل کردیا تھا۔ اینڈریو کہتے ہیں کہ پاکستان، افغانستان اور وسط ایشیائی ریاستوں کو چین اقتصادی طور پر مستحکم کرنا چاہتا ہے، تاکہ سنک یانگ میں امن رہے۔ سلامتی اور استحکام کے تناظر میں پاکستان چین کے لیے ایک بڑا دردِ سر ہے اور اسی لیے وہ پاکستانی معیشت کو سہارا دینا چاہتا ہے۔ یہ واضح تو نہیں ہے کہ ایسا کرنے سے وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوجائے گا، تاہم اتنا ضرور ظاہر ہے کہ راہداری جیسے منصوبے محض تجارتی مقاصد یا پڑوسیوں کو زیردست رکھنے کے لیے نہیں بنائے گئے۔
لیکن اگر اینڈریو کی یہ بات درست ہے کہ چین پاکستانیوں پر اپنا اثر و رسوخ استعمال نہیں کرتا تو پھر مصیبت کی ہر گھڑی میں پاکستانی سیاسی و فوجی حکام چین کی طرف کیوں دوڑے جاتے ہیں؟ ۲۰۰۸ء سے ۲۰۱۳ء کے درمیان صدر آصف علی زرداری ہر سال کم از کم ایک دفعہ اور کچھ برسوں میں ایک سے زائد مرتبہ چین گئے، گزشتہ دو سال میں وزیراعظم نواز شریف اور ان کے بھائی وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کئی بار چین جاچکے ہیں۔ اسی طرح آرمی چیف اور دیگر اعلیٰ فوجی حکام بھی دورے کرتے رہتے ہیں۔ کشمیر، سرحد پار دہشت گردی یا جوہری معاملات پر جب بھی پاکستان کو بھارت یا امریکا کے دباؤ کا سامنا ہوتا ہے تو سیاسی و عسکری حکام بیجنگ کی طرف دوڑتے ہیں تاکہ کوئی ایسا بیان جاری کرواسکیں جو کسی نہ کسی طرح پاکستان کے حق میں چلا جائے۔ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ اسلام آباد کے پالیسی ساز مکمل طور پر چین کے دستِ نگر بن کر رہ گئے ہیں؟ اگر اس طرح کے دوروں کے بعد میڈیا میں ہونے والے تبصروں پر نظر ڈالی جائے تو اس کا جواب ہاں میں بھی آسکتا ہے۔
اس بحث کے زیادہ تر شرکا نے چین کو پاکستان کے ہر مسئلے کا حل سمجھ رکھا ہے، چاہے وہ بھارت اور افغانستان کے ساتھ کشیدگی ہو، امریکی دباؤ ہو، معاشی و صنعتی ترقی ہو یا توانائی میں خود کفالت ہو۔ اس مفروضے کو بنیاد بنا کر کہ چین ہمیشہ اور ہر حال میں پاکستان کی مدد کرتا رہے گا، چین نواز اور مغرب مخالف کالم نگاروں، تجزیہ کاروں اور رائے سازوں نے پاک، چین دوستی کے ایسے گُن گائے، جن کے بعد ہر خاص و عام کے لیے یہ سمجھنا بہت آسان ہوگیا کہ پاکستان کو جو بھی مسئلہ لاحق ہے یا مستقبل میں لاحق ہوگا، اسے چین حل کردے گا۔ حقیقت البتہ کسی حد تک مختلف ہے۔ بیجنگ نے ہمیشہ اسلام آباد کی حمایت کچھ ضابطوں کے تحت کی ہے اور یہ خیال رکھا ہے کہ مغرب کے ساتھ اس کے تعلقات بگڑنے نہ پائیں۔ اینڈریو کہتے ہیں کہ امریکا سے بہتر تعلقات اور نتیجتاً ملنے والی معاشی و عسکری مراعات حاصل کرنے کے ضمن میں چین نے ہمیشہ پاکستان کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ واشنگٹن کو بھی پاک، چین دوستی پر کوئی اعتراض نہیں بلکہ راہداری جیسے منصوبے اس کے لیے اس لحاظ سے قابل اطمینان ہیں کہ افغانستان سے اس کے انخلا کے بعد پاکستان ایک بہتر حیثیت میں ہوگا۔
سنک یانگ چین کا ایک خودمختار علاقہ ہے جو کُل ملکی رقبے کا کم و بیش ۵ء۱۶ فیصد ہے۔ اس کے جنوب میں پاکستان، مغرب میں افغانستان، اور شمال مغرب میں وسط ایشیائی ریاستیں ہیں۔ چین میں تیل اور گیس کی پیداوار کا ۴۰ فیصد فراہم کرنے والا یہ خطہ بندرگاہوں، شنگھائی، شین زین اور گوانگ زُو جیسے بڑے شہروں سے ۴۰۰۰ کلومیٹر مغرب میں ہونے کے باعث مشرقی چین کے مقابلے میں پسماندہ ہے۔ اس کی ایک اور انفرادیت اس کا واحد مسلم اکثریتی چینی صوبہ ہونا ہے جہاں کے ایغور (Uighur) مسلمان ترکی الاصل ہونے کے باعث ہان (Han) چینیوں سے نسلاً مختلف ہیں۔ اس خطے کی پسماندگی دور کرنے کے لیے بیجنگ نے دو راستے اپنائے، ایک تو یہ کہ مواصلات کا نظام بہتر بناکر اسے باقی چین سے متصل کردیا جائے اور دوسرا یہ کہ دیگر خطوں میں آباد چینیوں کو یہاں آکر کاروبار شروع کرنے پر آمادہ کیا جائے۔ اس سے ایغور مسلمانوں میں یہ احساس ابھرا کہ چین ان کی مذہبی ثقافت کو مٹاکر سنک یانگ میں انہیں اقلیت بنادینا چاہتا ہے۔ انہی جذبات کے تحت افغانستان سے ۱۹۸۹ء میں سوویت انخلا کے بعد یہاں محدود مگر متشدد مشرقی ترکستان اسلامی تحریک (East Turkestan Islamic Movement – ETIM) شروع کی گئی، جس کے ارکان کو چین سنک یانگ سمیت پورے ملک میں ہونے والی پرتشدد کارروائیوں کا ذمہ دار سمجھتا ہے۔ اس ضمن میں سب بڑا حملہ سنک یانگ کے دارالحکومت ارومچی (Urumqi) میں ۲۰۰۹ء میں کیا گیا جس میں ۲۰۰؍افراد ہلاک اور ۱۷۰۰؍زخمی ہوئے۔
چین کو اس تحریک کے تانے بانے بھی پاکستانی قبائلی علاقہ جات سے ملتے نظر آتے ہیں اور وہ اس سلسلے میں کارروائی کے لیے اسلام آباد پر دباؤ بھی ڈالتا رہتا ہے۔ اس تحریک کے بہت سے کارکنان قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں یا پاکستانی فورسز کی کارروائیوں میں مارے گئے یا پھر پاکستان نے بغیر کسی پس و پیش کے انہیں پکڑ کر بیجنگ کے حوالے کردیا۔ میڈیا میں یہ افواہیں گردش کررہی ہیں کہ اقتصادی راہداری کے بدلے چین نے یہ شرط رکھی ہے کہ پاکستان اس تحریک کے خلاف سخت کارروائی کرے۔ مشاہد حسین سید البتہ اس بات سے اختلاف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پاکستان اس معاملے میں پہلے ہی چین کی غیرمشروط مدد کررہا ہے، پھر بیجنگ کو اتنا سرمایہ لگانے کی کیا ضرورت ہے۔ انسداد دہشت گردی پر جاری پاک، چین تعاون کو ایک دہائی سے زیادہ عرصہ ہوچکا ہے، ۲۰۰۰ء سے دونوں ملکوں کی افواج مشترکہ مشقیں کررہی ہیں اور آئی ایس آئی متعلقہ چینی حکام سے معلومات کا تبادلہ بھی کرتی رہتی ہے۔ مشاہد حسین کے نزدیک پاکستان میں چین کی موجودگی کا مقصد دفاعی یا خارجہ پالیسی پر اثرانداز ہونا یا بیجنگ مخالف عناصر کے خلاف کارروائی کے عوض رشوت فراہم کرنا نہیں ہے۔ یہ پاکستان کے مستقبل پر اعتماد کا اظہار ہے، جس کا مطلب ہے کہ چین پاکستان کو ناکام نہیں ہونے دے گا۔ یعنی ہم ایک اچھے ساتھی کے ساتھ گزارا کررہے ہیں۔
(تلخیص و ترجمہ: حارث رقیب عظیمی)
“Mother China: A ‘Chinese revolution’ sweeps across Pakistan”. (“Herald”. August 2015)
Leave a Reply