
شام میں جاری جنگ صرف مختلف قسم کے ریاستی اور غیرریاستی گروہوں کے درمیان لڑائی کا مسئلہ نہیں۔ بلکہ یہ حریفانہ سیاسی حکمتِ عملیوں کا مسئلہ بھی ہے۔ ماسکو اور واشنگٹن کی خارجہ پالیسیاں گزشتہ کچھ عرصے سے تصادم کی طرف بڑھ رہی تھیں، اور بالآخر شام میں ان کا ٹکراؤ ہو گیا۔ ان دونوں کا تصادم خطے کے لیے اور خطے کے تمام متعلقہ فریقوں کے لیے تباہ کُن ثابت ہو رہا ہے۔
ستمبر کے اواخر میں شام میں اچانک مہم کے ذریعے کریملن بشار الاسد کو برقرار رکھنے میں بھی کامیاب ہوا اور مشرقِ وسطیٰ میں مغربی کھیل کو بگاڑنے میں بھی۔ چاہے یہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہوا ہو یا قدرتی طور پر، لیکن کریملن شام میں اب تک جو نتائج حاصل کرنے میں کامیاب رہا ہے، وہ یوکرین سے ملتے جلتے ہیں۔ اس ہفتے کے اختتام پر بروکنگز ادارے کے سربراہ اسٹروب تالبوٹ نے شام کی صورتِ حال کو ’’پیوٹن کی ایک افتتاحی چال‘‘ قرار دیا، جس کے ذریعے وہ ایک ’’ظاہری جنگ بندی، ایک فی الواقع تقسیم اور ایک روسی حلقۂ اثر کی تعمیر‘‘ میں کامیاب ہوگئے ہیں۔
پیوٹن شام میں فتحیاب ہوگئے ہیں۔ یہ اعلان ’’نیویارک ٹائمز‘‘ کے کالم نگار راجر کوہن نے گزشتہ ہفتہ شائع ہونے والے اپنے تبصرے میں کیا۔ کوہن نے لکھا ’’یہ صدر ولادی میر پیوٹن اور روس ہیں جو شام کی پالیسی تشکیل دے رہے ہیں اور اس معاملے میں صدر اوباما کے لیے کوئی قدم اٹھانے یا بات منوانے کی گنجائش نہیں چھوڑ رہے‘‘۔ ’’وال اسٹریٹ جرنل‘‘ میں ’’شام میں پیوٹن کی فتح‘‘ کے عنوان سے چھپنے والا اداریہ کہتا ہے کہ ’’شام روس کا دلدل ثابت نہیں ہوا جیسا کہ گزشتہ ستمبر میں ماسکو کی شام میں مداخلت کے بعد اوباما صاحب نے کہا تھا‘‘۔ ’’پیوٹن صاحب نے ایک محدود مگر زوردار فوجی مداخلت کے بعد مشرقی بحرِ روم میں اپنی تزویراتی حیثیت مستحکم کرلی ہے۔ اگلے ماہ کے مذاکرات اب اس تنازع کو اسی حالت میں منجمد کر دیں گے۔ یہ وہی چال ہے جو روس نے ۲۰۰۸ء میں جارجیا پر حملہ کرنے کے بعد کامیابی سے چلی تھی، اور یہی چال گزشتہ سال مشرقی یوکرین پر ہونے والے ’’منسک معاہدے‘‘ میں بھی کارگر ثابت ہوئی‘‘۔
محسوس ہوتا ہے کہ یورپی حکومتیں بھی امریکا کے پاس عزم کے فقدان کو تسلیم کر چکی ہیں۔ میونخ سلامتی کانفرنس کے وقفوں کے دوران تاریخ دان والٹر رسل میڈ نے ’’بلومبرگ ویو‘‘ کو ایک انٹرویو میں کہا کہ ’’ہم (یورپی) ان کی (امریکی) منصوبہ بندی سے خارج ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ یورپی نقطۂ نظر سے، چاہے ہم اسے پسند کریں یا نہ کریں، پیوٹن ایک ایسے شخص بن چکے ہیں جن سے ہمیں نمٹنا ہے‘‘۔ ظاہر ہے کہ امریکا میں زور پکڑتی سیاسی مہمات بھی موجودہ انتظامیہ کی پالیسیوں کے بارے میں بحث کو تلخ بنا دیتی ہیں۔ لیکن پھر بھی جو تبصرے اوپر درج کیے گئے ہیں، یکسر غلط نہیں ہیں۔ زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ دوسری جانب روسی تبصرہ نگار بھی امریکی ناکامی کو اپنی کامیابی سمجھتے ہوئے کوئی زیادہ خوش نظر نہیں آتے۔
امریکی تبصرہ نگار شاید سمجھتے ہیں کہ ان کے ملک کی خارجہ پالیسی کی اچھائی کے بارے میں بڑھ چڑھ کر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ لیکن ظاہری طور پر فتح یاب روس کے پاس بھی اپنے دفاع میں کہنے کو کچھ زیادہ نہیں۔ روسی حکام میں سے کوئی بھی فخریہ نہیں کہے گا کہ ماسکو کی خارجہ پالیسی دوسرے ممالک کی زمین ہتھیانے، مشتبہ جنگ بندیاں کرانے، منجمد تنازعات اور اقتصادی بلیک ہولز تخلیق کرنے پر مشتمل ہے۔ روس کی طرف سے غیرقانونی علاقے تعمیر کرنے کی فہرست لمبی ہے لیکن روس نہ تو علانیہ طور پر اسے اپنی پالیسی قرار دے سکتا ہے اور نہ کبھی دے گا۔
روسی حکام اور کریملن سے قریب تبصرہ نگار خود کو غالب یا فاتح سمجھنے کے بجائے دباؤ اور غلط تاثر کا شکار سمجھتے ہیں۔ وزیراعظم دمیتیری مدویدیف نے میونخ سلامتی کانفرنس میں اپنے تاثرات میں کہا کہ ’’تقریباً ہر روز ہم پر یہ الزام لگتا ہے کہ ہم نے پورے نیٹو، یورپ، امریکا یا دوسرے ممالک کے خلاف خوفناک دھمکیاں دی ہیں۔ دنیا ایک نئی سرد جنگ میں داخل ہوگئی ہے۔‘‘ جسے مغرب میں بہت سے لوگ روس کی جارحانہ مگر کامیاب خارجہ پالیسی کے طور پر دیکھتے ہیں، اسے ماسکو مغرب کی طرف سے روس میں حکومت کی تبدیلی کی کوششوں اور مغربی سازشوں کے خلاف اپنی دفاعی لکیر کے طور پر دیکھتا ہے۔
جسے مغرب کے لوگ ’بلیک ہولز‘ تعمیر کرنے کی ایک سوچی سمجھی حکمتِ عملی کے طور پر دیکھتے ہیں، ہو سکتا ہے کہ اپنے سیاسی نظام کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کی وہ کریملن کی بے تاب کوششیں ہوں۔ ہفتہ کو صدر اوباما نے صدر پیوٹن کو کال کی اور ماسکو کو سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ شام میں ’’اعتدال پسند مخالف فوجوں‘‘ پر اپنے فضائی حملے روک دے۔ وائٹ ہاؤس کے مطابق یہ قدم جنگ بندی کے مذاکرات کے لیے سودمند ہوگا۔ لیکن ماسکو کے خیال میں یہ قدم فائدہ مند نہیں ہو گا۔ یہ طاقت کا استعمال ہی ہے جو مذاکرات کے عمل کو کریملن کے حق میں موڑے گا۔ روس طاقت کے استعمال پر اس لیے ڈٹا ہوا ہے تاکہ زمین پر موجود حقائق کو تبدیل کرکے اپنی مذاکراتی حیثیت کو مضبوط کرسکے۔
کریملن کے پاس خارجہ پالیسی کے ہتھیار کافی محدود ہیں۔ ماسکو نے نیم دلی کے ساتھ نرم طاقت استعمال کرنے کی چند کوششیں کی ہیں، لیکن اس بارے میں اس نے کبھی اسٹریٹجک یا معتبر رویہ نہیں اپنایا۔ کریمیا کے اتصال اور دوسرے کئی یک طرفہ اقدامات کے بعد ماسکو اور مغرب کے درمیان اعتماد کی سطح اتنی ہی کم ہے جتنی ’پہلی‘ سرد جنگ کے عروج میں کبھی ہوسکتی تھی۔
باہمی اعتماد اور اعتبار کی عدم موجودگی میں، کریملن کی ترجیح ہے کہ روس کے گِرد تنازعات گرم رہیں۔ اس گَرمی کو اپنی مرضی سے بڑھانے اور کم کرنے کی صلاحیت روس کے پاس موجود چند معتبر خارجہ پالیسی ہتھیاروں میں سے ہے۔ لیکن مسلسل اس خام ہتھیار پر بھروسا کرنے کی قیمت روسی معاشرے کو اپنے پڑوسیوں سے دوری کی شکل میں دینا پڑ رہی ہے۔ ان ملکوں میں جارجیا، یوکرین، قزاقستان، یہاں تک کہ بیلا روس بھی شامل ہے۔ اسی پالیسی کی بدولت اب روس سُنّی طاقتوں میں سے بعض، خاص طور پر سعودی عرب اور ترکی کو اپنا قوی دشمن بنا چکا ہے۔ روس کو یہ بات ذہن میں رکھنے کی اشد ضرورت ہے کہ شام کی صورتِ حال یوکرین سے بہت مختلف ہے۔ ترکی شام میں اتنا ہی ملوث ہے جتنا روس یوکرین میں۔
ماسکو اور واشنگٹن کی خارجہ پالیسیاں دو بالکل مختلف سیاسی بیانیوں کا اظہار ہیں۔ پیوٹن کی خارجہ پالیسی ذلت اور مغربی حصار کے سالوں کے احساس کا نتیجہ ہے۔ ایک ملکی اصلاح جس کے بارے میں ماسکو بہت مستعد رہا ہے، فوجی اصلاح ہے۔ وہ جزوی طور پر کامیاب رہا ہے اور اب کریملن دنیا کو یہ باور کرانے کے لیے بے تاب ہے کہ ’’روس واپس آچکا ہے۔‘‘ اس کے سوا ہر چیز ثانوی ہے اور روسی معاشرہ بھی اس سے متفق ہے۔
امریکا کی صورتِ حال اس کے قطعی برعکس ہے۔ اوباما کی خارجہ پالیسی اس تاثر کے زیرِ اثر تشکیل پائی تھی کہ کئی سالوں سے بیرونی مقاصد پر وسائل کا بے جا استعمال ہو رہا ہے۔ افغانستان میں ناختم ہونے والی جنگ سے لے کر عراق میں ’’تین کھرب ڈالر والی جنگ‘‘ تک وسائل برباد ہو رہے ہیں۔ وائٹ ہاؤس کی موجودہ ’’فضول اِقدام نہ کرنے‘‘ اور ’’عقب سے راہنمائی کرنے‘‘ کی حکمتِ عملیوں کے پیچھے یہی مقصد کار فرما تھا کہ آہستہ آہستہ تنازعات سے نکلا جائے اور ملکی مسائل پر توجہ مرکوز کی جائے۔
روس اور امریکا سیاسی، بلکہ معاشی طور پر بھی متضاد سمتوں میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ دونوں فریق ایک دوسرے کے برعکس اور مخالف مقاصد کے لیے کام کر رہے ہیں۔
(ترجمہ: طاہرہ فردوس)
“A clash of foreign policies”. (“wisocenter.com”. Feb. 16, 2016 )
Leave a Reply