
اگر انسان خاندانی اور ماحولیاتی اثرات سے الگ اور آزاد ہو کر اپنی عقلِ سلیم کی مدد سے اپنے مقصدِ وجود پر سنجیدگی سے غور و فکر کرے تو اس کی عقل کا جواب یہ ہو گا کہ اس کی زندگی محض کھانے پینے کے لیے نہیں ہے۔ بلکہ اس کو اﷲ کی عبادت کا فرض انجام دینے کے لیے وجود بخشا گیا ہے۔ قرآن میں بڑی وضاحت سے فرمایا گیا کہ:
ترجمہ: ’’میں نے جن و انس کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے‘‘۔ (الذاریات:۵۶)
احادیثِ قدسیہ میں وارد ہوا ہے:
ترجمہ: ’’اے میرے بندو! میں نے تم کو اس لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وحشت میں تم سے مانوسی حاصل کروں اور قلت میں تمہارے ذریعے کثرت حاصل کروں نہ ہی کسی نفع کے حصول کے لیے اور نہ ہی دفعِ ضرر کے لیے۔ میں نے تمہیں صرف اس لیے پیدا کیا کہ تم میری خوب عبادت کرو‘ کثرت سے میرا ذکر کرو اور صبح و شام میری پاکی بیان کرو‘‘۔ (العبادۃ للقرضاوی/۱۹)
اسی طرح بعض آسمانی کتابوں میں یہ بھی آیا ہے کہ:
’’اے فرزندِ آدم! میں نے تم کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے‘ لہٰذا تم لہو و لعب چھوڑ دو‘ میں نے تمہارے رزق کی ذمہ داری لے رکھی ہے۔ تم میری عبادت کرو‘ مجھے پا لو گے۔ اگر تم مجھے پا گئے تو سب کچھ پا گئے‘ ورنہ تم سب کچھ کھو دو گے۔ میری محبت تمہارے دل میں ہر چیز سے زیادہ ہونی چاہیے‘‘۔ (تفسیر ابنِ کثیر:۶/۴۲۶)
خداوندِ قدوس نے انسانوں کی تخلیق سے بہت پہلے عالمِ ارواح میں تمام انسانوں سے جو عہدِ الست لیا وہ یہی تھا کہ صرف ایک اﷲ کی عبادت کی جائے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا جائے‘ قرآن میں اﷲ انسانوں کو مخاطب کر کے فرماتا ہے:
ترجمہ: اے آدم کی اولاد! کیا میں نے تم کو ہدایت نہ کی تھی کہ شیطان کی بندگی نہ کرو‘ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے اور میری ہی بندگی کرو‘ یہ سیدھا راستہ ہے‘‘۔ (یٰسین:۶۰۔۶۱)
پھر ہر پیغمبر کی زبان سے اس کی قوم کو پہلا پیغام خداے واحد کی عبادت کا دیا گیا‘ حضرت عیسیٰؑ کو عیسائیوں نے غایتِ عظیم میں الوہیت کے مقام تک پہنچا دیا تھا‘ اس کی تردید میں فرمایا گیا:
ترجمہ: ’’حضرت عیسیٰؑ نے کبھی اس بات کو عار نہیں سمجھا کہ وہ اﷲ کے بندے ہوں اور نہ مقرب ترین فرشتے اس کو اپنے لیے عار سمجھتے ہیں۔ اگر کوئی اﷲ کی بندگی کو اپنے لیے عار سمجھتا ہے اور تکبر کرتا ہے تو ایک وقت آئے گا جب اﷲ سب کو گھیر کر اپنے سامنے حاضر کرے گا‘‘۔ (النساء:۱۷۲)
اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ عبادت کی اتنی اہمیت ہے کہ اسے انسانی وجود کا مقصدِ حقیقی بتایا گیا ہے اور تخلیقِ آدم سے بہت پہلے تمام انسانوں سے اس کا عہد لیا گیا۔ پھر ہر نبی کے ذریعہ پہلا پیغام عبادتِ خداوندی کا پہنچایا گیا اور پوری زندگی اﷲ کی عبادت میں اشتغال و انہماک کی مکمل تاکید کی گئی۔
عبادت کی حقیقت:
عبادت کے لفظی معنی بندگی اور غلامی کے ہیں‘ مگر شریعت میں۔۔۔
’’عبادت سے مراد خاص وہ اعمال ہوتے ہیں جن کو بندہ اﷲ کے حضور میں اس کی رضا اور رحمت کا طالب بن کر اپنی بندگی اور سرافگندگی ظاہر کرنے کے لیے اور اپنے عمل سے اس کی معبودیت اور عظمت و کبریائی کی شہادت ادا کرنے کے لیے کرتا ہے‘ جیسے اسلام میں نماز‘ روزہ‘ حج‘ زکوٰۃ‘ صدقات‘ ذکر‘ دعا‘ تلاوت اور قربانی وغیرہ۔ یہ سارے عبادتی اعمال بندہ صرف اس لیے کرتا ہے کہ اس کا معبود اس سے راضی ہو‘ اس پر رحمت فرمائے اور ان کے ذریعے اس کی روح کو پاکیزگی اور خدا کا تقرب حاصل ہو‘‘۔ (’’قرآن آپ سے کیا کہتا ہے‘‘ از منظور نعمانی:۱۶۳)
امام ابنِ تیمیہ لکھتے ہیں:
’’عبادت کی حقیقت میں دو بنیادی چیزیں آتی ہیں: (۱)اﷲ کے سامنے کامل سرافگندگی (۲)اﷲ کی مکمل محبت۔ اگر سرافگندگی محبت کے بغیر ہو بلکہ عداوت کے ساتھ ہو تو وہ عبادت نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح اگر محبت سرافگندگی محبت کے بغیر ہو بلکہ عداوت کے ساتھ ہو تو وہ عبادت نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح اگر محبت سرافگندگی و اطاعت کے بغیر ہو تو بھی وہ عبادت نہیں‘ عبادت کے لیے محبت اور سرافگندگی و اطاعت کا مکمل اجتماع لازم ہے۔ پھر سرافگندگی کا حاصل پوری شریعت کی پابندی ہے۔ ظاہری و باطنی تمام اعمال و اقوال میں اﷲ کی پسندیدہ چیزوں کا اہتمام اور ناپسندیدہ امور سے اجتناب عبادت ہے‘‘۔ (العبودیۃ:۱۰)
امام قرطبی کے بقول: ’’اﷲ کو ایک سمجھنا اور اس کی شریعت کا مکمل التزام اور پابندی عبادت ہے‘‘۔ (الجامع الاحکام القرآن: ۱/۱۵۷)
علامہ آلوسی لکھتے ہیں کہ: ’’نفسِ امارہ کا خدائی احکام کے تابع کرنا عبادت ہے‘‘۔ (روح المعانی: ۱/۸۹)
امام ابن القیم کے بقول: ’’عبادت اﷲ کے شکر‘ اﷲ سے محبت‘ اﷲ سے خوف اور اس کی تابعداری کا نام ہے‘‘۔ (بدائع التفسیر:۱/۱۱۶)
حضرت عبداﷲ بن عباسؓ سے عبادت کی حقیقت توحید اور خوف و رجاء منقول ہے۔ (ملاحظہ ہو تفسیر طبری: ۱/۹۹‘ و تفسر ابن ابی حاتم:۱/۹۹)
امام ابن الجوزی فرماتے ہیں کہ: ’’عبادت توحید‘ اطاعت اور دعا تینوں کو جامع ہے‘‘۔ (زاد المسیر:۱/۱۴)
بعض حضرات توحید‘ شکر اور اطاعت تینوں کے مجموعے پر عبادت کا اطلاق کرتے ہیں۔ (ملاحظہ ہو صفوۃ التفاسیر للصابونی:۱/۴۱)
شیخ جمال الدین القاسمی کے بقول ’’عبادت اﷲ کی کامل محبت‘ عجز و فروتنی‘ تعظیم‘ توکل اور دعا کے مجموعے کا نام ہے‘‘۔ (تفسیر القاسمی:۲/۱۰)
بعض حضرات کہتے ہیں کہ ’’عبادت اس تذلل کا نام ہے جو دل میں اﷲ کی عظمت کے احساس سے اور اﷲ کی قدرت کے تصور سے پیدا ہوتا ہے‘‘۔ (تفسیر المراغی:۱/۳۲)
علامہ سید سلیمان ندوی کے بقول: ’’اصطلاح شریعت میں عبادت خداے عزوجل کے سامنے اپنی بندگی اور عبودیت کے نذرانہ پیش کرنا اور اس کے احکام کو بجا لانا ہے‘‘۔ (سیرت النبی:۵/۲۸)
ان تمام اقوال کا لبِ لباب یہ ہے کہ اﷲ کی وفاداری‘ اس کی اطاعت‘ اس کی تعظیم و محبت اور تابعداری کے مجموعے کا نام عبادت ہے اور اس کا حکم ہر انسان کو بہت تاکید سے دیا گیا ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں: ’’عبادت کے اصلی معنی عربی لغت میں انتہائی خضوع اور انتہائی عاجزی و فروتنی کے اظہار کے ہیں۔ لیکن قرآن میں یہ لفظ اس خضوع و خشوع کی تعبیر کے لیے خاص ہو گیا ہے جو بندہ اپنے خالق و مالک کے لیے ظاہر کرتا ہے‘ پھر اطاعت کا مفہوم بھی اس لفظ کے لوازم میں داخل ہو گیا ہے کیونکہ یہ بات بالبداہت غلط معلوم ہوتی ہے کہ انسان جس ذات کو اپنے انتہائی خضوع و خشوع کا واحد مستحق سمجھے زندگی کے معاملات میں اس کی اطاعت کو لازم نہ جانے‘‘۔ (تدبر قرآن:۱/۵۷)
عبادات کا وسیع دائرہ:
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ نے واضح کیا ہے کہ عبادات کا دائرہ بے حد وسیع ہے اور عبادات میںاﷲ کے نزدیک پسندیدہ تمام ظاہری و باطنی عیاں و نہاں اقوال و اعمال کو شامل ہے۔ نماز‘ زکوٰۃ‘ روزہ‘ حج‘ صداقت و دیانت‘ اطاعتِ والدین‘ صلہ رحمی‘ وفائے عہد‘ امر بالمعروف‘ نہی عن المنکر‘ جہاد‘ حسنِ سلوک‘ دعا‘ ذکر و تلاوت‘ حبِ خدا و رسول‘ خوفِ الٰہی‘ انابت و رجوع الی اﷲ‘ اخلاص و توکل‘ صبر و شکر‘ رضا بالقضاء‘ رجاء و خوف سب عبادات کے ذیل میں آتے ہیں۔ فرائض و ارکان شعائر کے علاوہ نوافل و تطوعات‘ اسی طرح معاملاتی زندگی اور شعبے سے متعلق امور‘ اخلاقیات سے منسلک چیزیں‘ اصلاحِ خلق سے مربوط اشیاء حتیٰ کہ دنیوی معاشی زندگی کے لیے اختیار کیے جانے والے جائز اسباب و وسائل جن کی اجازت قرآن و سنت میں ہے‘ سب عبادت میں داخل ہیں۔ حاصل یہ کہ پورا دین عبادات میں داخل ہے (ملاحظہ ہو العبودیۃ ۴۳۔۴۴‘۷۳۔۷۴) باختصار معلوم ہوا کہ عبادت جس کے لیے انسان کو پیدا کیا گیا ہے اور جس کو اس کا مقصدِ زندگی بنایا گیا ہے‘ اس کا دائرہ بے حد وسیع ہے اور وہ زندگی کے تمام شعبوں کو حاوی اور محیط ہے۔
دوسروں کی نفع رسانی کے لیے شرعی حدود میں رہ کر اخلاص سے جو کام بھی کیا جاتا ہے‘ وہ عبادت قرار پاتا ہے‘ کسی غم زدہ کے ساتھ ایسا سلوک کہ اس کے آنسو بند ہو جائیں‘ ایسا عمل جس سے کسی پریشان حال کی پریشان حالی دور ہو جائے‘ کسی زخمی کی تسلی ہو جائے‘ کسی افلاس زدہ کا افلاس دور ہو جائے‘ کسی مظلوم و پناہ جو کی دادرسی ہو جائے‘ کسی قرض سے لدے ہوئے بے چارے کا قرض ادا یا ہلکا ہو جائے‘ کسی گم گشتۂ راہ کو منزل مل جائے‘ کسی جاہل کو تعلیم مل جائے‘ کسی غریب کو سہارا مل جائے‘ کسی سے شر دفع ہو جائے‘ راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹ جائے‘ یہ سب عبادت میں داخل ہیں جن پر اﷲ نے جنت کا وعدہ کیا ہے‘ احادیث میں اصلاحِ ذات البین (باہمی تعلقات کی درستی) کو (نفلی) نماز و روزہ و صدقہ سے افضل قرار دیا گیا ہے اور اعلیٰ درجے کی عبادت بتایا گیا ہے‘ مریض کی عیادت‘ بھوکے کو کھلانے اور پیاسے کو پلانے کا عمل بہت افضل عبادت بتایا گیا ہے‘ راستے سے خاردار ضرر رساں و تکلیف دہ چیزیں ہٹانا بہت بڑی نیکی قرار دیا گیا ہے۔
حضرت ابو ذر غفاری سے مروی ہے کہ میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا: بندے کو جہنم سے نجات دینے والی چیز کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: اﷲ واحد پر ایمان۔ میں نے عرض کیا: اے اﷲ کے رسولؐ: کیا ایمان کے ساتھ اور کوئی عمل بھی نجات دہندہ ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں تم اپنے مملوکہ مال میں سے ضرورت مندوں کو دو۔ میں نے کہا اگر ایسا نہ کر سکے تو؟ فرمایا کہ کسی کام سے ناواقف شخص کی مدد کرے اور اسے کام سکھا دے تاکہ وہ کما سکے‘ میں نے کہا اگر وہ نہ سکھا سکے تو؟ فرمایا کہ مظلوم کی مدد کرے‘ میں نے کہا کہ اگر مدد کی طاقت نہ ہو تو؟ فرمایا: کیا تم ایسے آدمی کے لیے کوئی خیر کی راہ باقی نہیں رکھنا چاہتے‘ اسے چاہیے کہ اپنی ذات سے کسی کو تکلیف نہ ہونے دے۔ میں نے کہا‘ اے اﷲ کے رسولؐ! اگر وہ ایسا کرے تو جنت میں جائے گا؟ آپؐ نے فرمایا کہ جو مسلمان ان کاموں میں سے کوئی کام بھی کرے گا‘ قیامت کے روز اس کا یہ عملِ نیک اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے جنت میں داخل کرا کے ہی رہے گا‘‘۔ (بیہقی)
ایک حدیث میں ہے کہ انسان کے ہر جوڑ پر روزانہ ایک صدقہ لازم ہے اور صدقے کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ انصاف کرنا‘ صلح کرانا‘ دوسرے کی مدد کرنا‘ کسی کمزور کو سہارا دے کر سواری پر بٹھا دینا‘ خوش کلامی‘ نماز کے لیے قدم بڑھانا‘ راستے سے موذی چیزیں ہٹانا‘ امر بالمعروف و نہی عن المنکر سب صدقات میں شامل ہیں اور صدقات کا شمار مالی عبادات میں ہوتا ہے۔ متعدد احادیث میں خندہ پیشانی سے مسکراتے ہوئے ملنے کو بھی صدقہ اور عبادت بتایا گیا ہے‘ جانوروں کے ساتھ حسنِ معاملہ‘ نرمی اور مہربانی کو بھی عبادت قرار دیا گیا ہے اور اس سے آگے معاشی و اقتصادی محنت کو بھی عبادت قرار دیا گیا ہے بشرطیکہ (۱)وہ محنت شرعی حدود میں ہو (۲)نیت خالص ہو (۳)کسی پر ظلم اور خیانت اور غرر (دھوکہ) اور ضرر (نقصان) اس میں نہ پایا جائے اور (۴)وہ دنیوی محنت‘ دینی فرائض و واجبات سے غافل نہ بنائے۔ ان شرائط کے ساتھ جو دنیوی اور معاشی محنت کی جائے‘ وہ عبادات کے زمرے میں آتی ہے۔
احادیث میں یہ بھی آیا ہے کہ اپنی بیوی سے خاص تعلق قائم کرنا بھی نیکی ہے‘ صحابہ نے اس پر سوال کیا کہ یہ کیسے؟ آپؐ نے فرمایا کہ یہ بتائو اگر کوئی شخص حرام طریقے سے شہوت پوری کرے تو اس کو گناہ ملتا ہے یا نہیں؟ صحابہ نے کہا کہ گناہ ملتا ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ اسی طرح اگر کوئی حلال طریقے سے اپنی بیوی سے خاص تعلق قائم کرتا ہے تو اس کو ثواب ملتا ہے‘‘۔ (مسلم) علماء نے لکھا ہے کہ یہ اﷲ کی رحیمی ہے کہ قضائے شہوت پر بھی ثواب عطا کرتا ہے بشرطیکہ نیت بیوی کے حق کی ادائیگی اور عفت و عصمت کے تحفظ کی ہو۔
اسلام نے اپنے نظامِ عبادت کا دائرہ اس قدر وسیع فرما کر ایک مسلمان کو ہر لمحۂ زندگی اور ہر شعبۂ حیات میں اﷲ کے رنگ میں رنگ دینا اور شریعت کے قالب میں پوری طرح ڈھالنا چاہا ہے۔ مولانا سید ابوالحسن علی ندوی فرماتے ہیں: ’’نبوتِ محمدی کا پانچواں اور ناقابلِ فراموش احسان اور ایک گراں قدر تحفہ دین و دنیا کی وحدت کا تصور اور یہ انقلاب انگیز تلقین ہے کہ انسان کے اعمال و اخلاق اور ان سے پیدا ہونے والے نتائج کا اصل انحصار‘ انسان کی ذہنی کیفیت‘ عمل کے محرکات اور اس کے مقصد پر ہے۔ اس کے نزدیک نہ کوئی چیز ’’دنیا‘‘ ہے اور نہ کوئی چیز ’’دین‘‘۔ اس کے نزدیک خدا کی رضا کی طلب‘ اخلاص اور اس کے حکم کی تعمیل کے جذبہ و ارادہ سے بڑے سے بڑا دنیاوی عمل‘ یہاں تک کہ جنگ‘ حکومت‘ دنیاوی نعمتوں سے تمتع‘ نفس کے تقاضوں کی تکمیل‘ حصولِ معاش کی جدوجہد‘ جائز تفریح طبع کا سامان‘ ازدواجی و عائلی زندگی‘ سب اعلیٰ درجہ کی عبادت‘ تقرب الی اﷲ کا ذریعہ‘ اعلیٰ سے اعلیٰ مراتبِ ولایت تک پہنچنے کا وسیلہ اور خالص دین بن جاتی ہے۔ اس کے برخلاف بڑی سے بڑی عبادت اور دینی کام جو رضاے الٰہی کے مقصد اور اطاعت کے جذبہ سے خالی ہو (حتیٰ کہ فرض عبادتیں‘ ہجرت و جہاد‘ قربانی و سرفروشی اور ذکر و تسبیح) خالص دنیا اور ایسا عمل شمار ہو گا جس پر کوئی ثواب اور اجر نہیں ہے۔ (نبیٔ رحمت‘ حصہ دوم‘ ص:۲۲۸)
دین اور دنیا کی حیثیت اسلام میں دو حریف کی نہیں بلکہ دو دوست کی ہے اور اسلام میں عبادت کا مفہوم ان تمام نیک اعمال اور اچھے کاموں تک وسیع ہے‘ جن کے کرنے کا مقصد خدا کے سامنے اپنی بندگی کا اظہار اس کی اطاعت اور اس کی خوشنودی کی طلب ہو‘ اس وسعت کے اندر انسان کی پوری زندگی کے کام داخل ہیں جن کے بحسن و خوبی انجام دینے کے لیے اس کی تخلیق ہوئی ہے۔ یہ روحانیت کا وہ راز ہے جو صرف محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ سے دنیا کو معلوم ہوا۔ (سیرت النبی‘ پنجم / ۳۳)
مشہور نو مسلم مفکر محمد اسد نے بجا طور پر لکھا ہے کہ:
’’اسلام میں عبادت کا تصور دوسرے مذاہب سے بہت مختلف ہے‘ اسلام میں عبادت کا دائرہ چند اعمال تک محدود تک نہیں ہے‘ بلکہ وہ انسان کی مکمل عملی زندگی پر جامع اور محیط ہے‘ اسلام بغیر کسی لاگ لپیٹ کے یہ حقیقت عیاں کرتا ہے کہ اﷲ کی دائمی عبادت اور ہر مرحلۂ زندگی میں اس کے نظام کی پابندی ہی حاصلِ زندگی اور مقصدِ حیات ہے‘‘۔ (الاسلام علی مفترق الطرف:۲۱۔۲۲‘ باختصار)
عبادات کے دائرہ کی ہر شعبۂ زندگی تک وسعت پر یہ سوال ہو سکتا ہے کہ پھر اسلامی فقہ میں عبادات اور معاملات کی الگ الگ قسمیں کیوں کی گئی ہیں؟ اگر عبادات کا دائرہ اتنا وسیع ہے تو معاملات بھی اسی ذیل میں آتے ہیں‘ ان کو الگ قسم بنانے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ اس سوال کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ فقہاء نے احکامِ شرعیہ عملیہ کی ’’عبادات اور معاملات‘‘ دو قسمیں کی ہیں اور ایسا کرنے کا مقصد معاملات کو عبادات کے وسیع دائرہ سے نکالنا نہیں بلکہ احکام کی دو قسموں کو اصطلاحی اور فنی طور پر الگ الگ بیان کرنا ہے۔ (ملاحظہ ہو العبادۃ للقرضاوی / ۶۷)
احکام کی پہلی قسم میں وہ چیزیں ہیں جن کا طریقہ اور کیفیت اﷲ نے متعین کر دیا ہے اور انسان کی ذمہ داری اس کی پابندی ہے‘ اپنی طرف سے کوئی کمی بیشی انسان اس میں نہیں کر سکتا اور ان کا تعلق خاص اﷲ سے ہے اور دوسری قسم میں وہ چیزیں ہیں جن کا کوئی لگا بندھا طریقہ متعین نہیں ہے بلکہ انسان ان میں اپنی عقلِ سلیم کی مدد سے راستے نکال سکتا ہے۔ بس اسلام یہ شرط لگاتا ہے کہ جو راہ بھی اپنائی جائے‘ اس میں حدودِ شریعت کی پاسداری ہونی چاہیے اور دوسروں پر ظلم و دھوکا و نقصان نہ ہونا چاہیے۔ ان کا تعلق بندوں سے ہوتا ہے۔ پہلی قسم عبادات سے متعلق ہے اور دوسری معاملات سے اور دونوں قسموں میں بھی فرق ہے جس کی وضاحت کے لیے ان کو الگ الگ بیان کیا جاتا ہے‘ ورنہ دونوں قسموں میں شرعی حکم کی پابندی عبادت میں داخل ہے۔
فقہاء نے فنی اور اصطلاحی طور پر یہ تقسیم کی ہے‘ اس سے ان کا مقصد یہ ہرگز نہیں تھا کہ لوگ صرف عبادات کی پابندی کو دین سمجھنے لگیں اور معاملات میں شریعت کی پابندی کا اہتمام نہ کریں۔ بدقسمتی سے یہ تصور بعض حلقوں میں بہت عام ہو گیا ہے کہ دین عبادات کا نام ہے اور معاملات کی پابندی دین اور عبادت میں داخل اور لازمی نہیں ہے۔
حقیقتِ واقعہ یہ ہے کہ عبادت ہر گوشۂ زندگی پر محیط ہے‘ قلب و دماغ‘ زبان‘ سماعت و بصارت‘ جان و مال‘ جسم و سراپا اور تمام حواس اﷲ کی عبادت کے لیے ہیں۔
دلائل انفس و آفاق میں غور و فکر‘ آسمان و زمین میں پھیلے ہوئے خدا کے عجائب قدرت اور غرائب حکمت میں تفکر‘ آیاتِ قرآنی میں تدبر‘ تاریخ سے عبرت و موعظت دماغ کی عبادت ہے۔ اﷲ و رسول سے محبت‘ اﷲ سے خوف‘ امیدِ ثواب‘ رضا بالقضا‘ صبر و شکر‘ حیا و توکل‘ اخلاص و بے لوثی وغیرہ قلب کی عبادتیں ہیں۔ ذکر و تلاوت‘ تسبیح و تکبیر‘ دعا وغیرہ زبان کی عبادتیں ہیں۔ روزہ نماز کا شمار بدنی و جسمانی عبادتوں میں ہوتا ہے۔ پھر نماز میں زبان کی عبادت بھی داخل ہے۔ زکوٰۃ و صدقات کا تعلق مالی عبادات سے ہے‘ ہر عبادت کے لیے نیت ضروری ہے جو قلب کی عبادت ہے۔
اسلامی عبادات کی جامعیت اور وسعت کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ ان میں مکان کی کوئی قید نہیں ہے‘ ہر مذہب نے اپنی عبادت کو مکان کی قید میں مقید کیا ہے۔ بت خانوں‘ آتش خانوں‘ گرجوں‘ صومعوں تک ہی دائرۂ عبادت محدود کر دیا گیا ہے۔ مگر ’’محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے طریقے میں نہ کسی در و دیوار کی ضرورت‘ نہ محراب و منبر کی حاجت‘ وہ دیر و حرم‘ معبد و صعومہ اور مسجد و کنیسہ سب سے بے نیاز ہے‘ زمین کا ہر گوشہ بلکہ پنہاے کائنات کا ہر حصہ اس کا عبادت خانہ ہے۔ تم سوار ہو کہ پیادہ‘ گلکشتِ چمن میں ہو کہ ہنگامۂ کار زار میں‘ خشکی میں ہو کہ تری میں‘ ہوا میں ہو کہ زمین پر‘ جہاز میں ہو کہ ریل پر‘ ہر جگہ خدا کی عبادت کر سکتے ہو اور اس کے سامنے سجدۂ نیاز بجا لاسکتے ہو‘‘۔ (سیرت النبی پنجم / ۲۱۔۲۲)
عموماً مشہور ہے کہ شریعت میں صرف چار عبادتیں ہیں (۱) نماز (۲)زکوٰۃ (۳) روزہ (۴) حج۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ چاروں فرائض انسان کے تمام اعمالِ صالحہ اور اچھے کاموں کے روشن عناوین ہیں۔ خالقِ کائنات اﷲ سے متعلق تمام اچھے اعمال کا عنوان نماز ہے‘ انسانوں کے نفع کے لیے کیے جانے والے تمام اعمالِ صالحہ کا عنوان زکوٰۃ ہے۔ ایثار و قربانی کی تمام جزئیات کا روشن عنوان روزہ ہے۔ اخوت و محبت‘ اتحاد و اجتماعیت‘ محنت و جدوجہد کی تمام جزئیات کا نمایاں عنوان حج ہے۔ (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو‘ سیرت النبی پنجم / ۳۵۔۳۶)
عبادت کے نمایاں فوائد:
عبادت سے اسلام کا اصل مقصود دل کی پاکیزگی‘ روح کی صفائی اور عمل کا اخلاص ہے۔ قرآن میں تمام انسانوں کو خالقِ کائنات کی عبادت کا عمومی حکم دیا گیا ہے اور اس کے بعد یہ فرمایا گیا ہے کہ اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ تم میں تقویٰ پیدا ہو جائے گا۔ تقویٰ دل کی اس حالت و کیفیت کا نام ہے جس سے اعمالِ صالحہ کی تحریک اور اعمالِ سیئہ سے نفرت پیدا ہوتی ہے۔ خدا کی عبادت کا سب سے نمایاں فائدہ یہ ہے کہ انسان تقویٰ اور پرہیزگاری کی دولت سے مالا مال ہو جاتا ہے۔
عبادت کا دوسرا فائدہ دل کی بے نیازی اور استغناء ہے اور تیسرا فائدہ فقر و افلاس سے حفاظت اور نجات ہے۔ ایک حدیث قدسی میں واضح کیا گیا ہے:
’’اے فرزندِ آدم! میری عبادت کے لیے فارغ و یکسو ہو جائو‘ میں تمہارے دل کو غنا اور بے نیازی سے بھر دوں گا اور تمہارا فقر دور کر دوں گا۔ ورنہ نہ تمہارا فقر دور ہو گا اور نہ تمہارے دل میں یکسوئی رہے گی بلکہ تمہارا دل ہموم و غموم کی آماجگاہ بن جائے گا‘‘۔
مولانا محمد منظور نعمانی نے لکھا ہے:
’’انسان کے اچھے اعمال میں صرف عبادات ہی کی یہ خصوصیت ہے کہ ان کا تعلق براہِ راست صرف اﷲ سے ہوتا ہے‘ یعنی عبادات صرف اسی کی رضا و رحمت حاصل کرنے اور اس کے سامنے اپنی بندگی کا اظہار کرنے اور رشتۂ عبودیت کو استوار کرنے ہی کے لیے کی جاتی ہیں اور مٹی سے بننے والے اور گندے پانی کے ناپاک قطرہ سے پیدا ہونے والے انسان کو اسی کے ذریعہ اﷲ کا وہ تقرب‘ وہ رابطہ اور وہ حضوری حاصل ہوتی ہے جو دراصل ساکنینِ ملأ اعلیٰ کا حصہ ہے‘‘۔ (قرآن آپ سے کیا کہتا ہے:۱۶۳)
حاصل بحث:
ان تمام تفصیلات کا حاصل یہ ہے کہ عبادت ہر انسان کے ذمہ اﷲ کا واجبی حق ہے اور اس کی اہمیت کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ وہ مقصدِ حیاتِ انسانی ہے اور اس کی جامعیت کا عالم یہ ہے کہ وہ ہر لمحۂ حیات کو محیط اور ہر شعبۂ زندگی تک وسیع ہے اور اس کے فوائد و برکات یہ ہیں کہ اس سے انسانی زندگی میں عجیب و غریب ایمانی اور روحانی انقلاب آجاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ’’اسلام اس لیے آیا ہے کہ اپنے پیروئوں کے پائوں کے نیچے دونوں جہانوں کی بادشاہتیں رکھ دے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب عبادات کے مفہوم کو اسی وسعت کے ساتھ سمجھا جائے جو اسلام کا منشا ہے اور اسی وسعت کے ساتھ اس کو ادا کیا جائے جو اسلام کا مطالبہ ہے‘‘۔ (سیرت النبی:۵/۳۴)
(بشکریہ: ماہنامہ ’’زندگی نو‘‘ نئی دہلی۔ شمارہ: جون ۲۰۰۶ء)
Leave a Reply